تعلیمی اداروں میں ہوس کے پجاری
اسلامیات کا پروفیسر گزشتہ دہائی سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کررہا تھا اور سو سے بھی زیادہ لڑکیوں کا ریپ کرچکا ہے
پچھلے دنوں گومل یونیورسٹی سٹی کیمپس، ڈیرہ اسماعیل خان میں صلاح الدین نامی اسلامیات کا پروفیسر جو کہ سٹی کیمپس کا کوآرڈینیٹر، انگلش ڈپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر، اورآرٹس ڈپارٹمنٹ کا ڈین بھی تھا (بیک وقت تین عہدوں پر براجمان) کے خلاف سنگین جنسی ہراسانی کا کیس سامنے آیا۔ جو کہ نجی ٹی وی چینل کے اینکر کی وجہ سے ممکن ہوا۔ یہ کام بھی میڈیا کررہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا گورنمنٹ نام کی چیز اس ملک میں کہاں ہے؟
پروفیسر سے فی الفور یونیورسٹی انتظامیہ نے استعفی لے لیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے نے اسے گرفتار کرلیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ یہ پروفیسر گزشتہ دہائی سے طالبات کو نہ صرف جنسی طور پر ہراساں کررہا تھا، بلکہ سو سے بھی زیادہ لڑکیوں کا ریپ بھی کرچکا ہے، جو کہ اس نے ایف آئی اے کے سامنے قبول کیا۔ اس کے شر سے خواتین اساتذہ بھی محفوظ نہیں تھیں۔ لڑکیوں کو امتحان میں کم نمبرز یا فیل کرنے کی دھمکی دے کر اکیلے میں ملنے کےلیے بلاتا، اور پھر ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا۔ لڑکیاں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہوجاتیں، اور جو ہمت کرکے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس کے خلاف شکایت کرتیں۔ وہ انکوائری کمیٹی بناتے اور پھر بغیر کسی نتیجے کے باعزت بری ہوجاتا۔ ایک کیس میں لڑکی نے جب اس ظلم کا ذکر اپنے شوہر سے کیا تو اس نے اپنی بیوی کو ہی جان سے مار ڈالا۔
تھوڑی دیر کےلیے سوچیے کہ ہماری بہنیں، بیٹیاں یونیورسٹی جیسی جگہ پر بھی محفوظ نہیں، ان جیسے سفاک بھیڑیے تاک میں ہیں۔ پڑھ لکھ کر اتنی بڑی پوسٹ کی آڑ میں اپنی شیطانی ہوس کو پورا کرنے والے ایسے لوگوں کی یقیناً کمی نہیں ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی واقعات رپورٹ ہوئے، مگر کوئی نتیجہ سننے میں نہیں آیا۔ ایسے واقعات کو خود یونیورسٹی انتظامیہ دبا دیتی ہے۔ کیونکہ اس تالاب میں ایک گندی مچھلی نہیں ہے، بلکہ تالاب یھرا ہوا ہے۔ اس لیے یہ آپس میں ایک دوسرے کا ساتھ دے کر معاملے کو صلاح صفائی کے نام پر رفع دفع کر دیتے ہیں۔
کیا پاکستان کے تعلیمی اداروں کا کوئی قانون نہیں ہے؟ ایک آدمی تین بڑے عہدوں پر بیک وقت فائز، آخر کیوں؟ اتنی مہربانی کیوں تھی اس پر؟ کہاں ہے ایچ ای سی؟ ایچ ای سی کی ناک کے نیچے یہ سب ہورہا ہے، اور غریب پڑھے لکھے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے کہ نوکریاں نہیں ہیں۔
کہنے کو تو ہر یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کےلیے سینٹر موجود ہوتا ہے، جو اس طرح کی شکایات کی تحقیق کرتا ہے۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ یہ ادارہ آزادانہ طور پر کام نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی کمیٹی میں بھی یونیورسٹی کے ہی پروفیسر شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے طالبات کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اس کیس میں ہوا۔ طالبات کی مسلسل شکایات کے باوجود اس کے خلاف کارروائی تک نہیں کی گئی۔ یوں وہ ایک لمبے عرصے تک یہ جرم بغیر کسی ڈر کے کرتا رہا۔ یہ ایچ ای سی کی ذمے داری ہے کہ وہ جنسی ہراسانی سینٹر کا قیام ہر یونیورسٹی میں یقینی بنائے، جس میں یونیورسٹی کا کوئی شخص شامل نہ ہو۔ اور یہ ادارہ اپنی تحقیق پروفیشنل طریقے سے راز میں رکھتے ہوئے صرف وائس چانسلر کو رپورٹ کرے۔ اور قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر کارروائی ہونی چاہیے۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ ہمارے ہاں ایک بار جس کی نوکری سرکاری ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے کہ اب کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہماری گورنمنٹ یونیورسٹیز میں کوئی ایسا نظام ہی نہیں جو ان بھرتی کیے گئے اساتذہ کی کارکردگی کو چیک کرے۔ ایک بار استاد کی نوکری پکی ہوئی تو اب طالب علم جانیں یا خدا جانے۔ یونیورسٹی پوچھتی تک نہیں۔ میں نے بھی یہی بھگتا ہے ماسٹرز سے لے کر پی ایچ ڈی تک۔ ان قریب دس سال میں تین سے چار اساتذہ ہی ایسے ملے جو واقعی میں ہیرا تھے، جن کی وجہ سے مجھے خود آگے پڑھنے اور ٹیچر بننے کا شوق پیدا ہوا۔ پی ایچ ڈی کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک بہت اچھے استاد بھی ہیں۔ آپ ایک اچھے ریسرچر اور سائنس دان تو ہوسکتے ہیں مگر بہت اچھا پڑھا بھی سکتے ہیں یہ قطعی ضروری نہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے لیے باقاعدہ نظام موجود ہے۔ امریکا میں (کیونکہ وہاں کا نظام میں نے بہت قریب سے دیکھا) ہر سیمسٹر میں ایک استاد جتنے بھی کورسز پڑھاتا ہے، ہر کورس کے اختتام پر کلاس کے بچوں سے بغیر اپنا نام لکھے استاد کے حوالے سے کچھ سوال ایک فارم کی شکل میں کیے جاتے ہیں۔ اور ہر طالب علم بغیر کسی خوف کے ان سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ اس سوالنامے پر اس ٹیچر کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ اگر یہ خراب آتا ہے تو اس ٹیچر کو بلا خوف نکال دیا جاتا ہے۔ میں نے وہاں ٹیچرز کو اس مرحلے پر خوف میں دیکھا۔ اور یہ ایک بار نہیں ہر کورس میں کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ٹیچر پوری ذمے داری سے اپنا کام کرتا ہے۔ اسے پتہ ہے کچھ غلط ہوا تو نوکری گئی۔ لیکن ہمارے ہاں اساتذہ کو کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔
میرا تمام لڑکیوں کو بھی مشورہ ہے کہ کسی بھی حال میں کسی مرد ٹیچر کے آفس میں اکیلی نہ جائیں۔ اگر جانا ہی ہے تو گروپ میں جائیں۔ ایسی کون سی آفت ہے کہ اکیلے میں جاتی ہیں۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ پڑھائی کے لیے محنت ضروری ہے۔ اگر آپ محنت سے اسلامیات جیسا آسان مضمون پاس نہ کرسکیں، تو سوال آپ پر بھی ہے کہ پھر آپ یونیورسٹی میں کیا کرنے جاتی ہیں؟ اگر آپ کسی بھی مضمون میں فیل ہو بھی جائیں تو اس کےلیے آپ پیپر کو دوبارہ چیک کرنے کےلیے درخواست دے سکتی ہیں۔ کسی بھی ٹیچر کے آفس میں اکیلے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر کلاس میں کسی لڑکی کے ساتھ ہراسانی کا کسی قسم کا واقعہ ہوجائے تو پوری کلاس کو اس معاملے میں اس لڑکی کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ یہ کل آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے کی آواز بنیں، تبھی ایسی کالی بھیڑوں کا ہمارے اداروں سے صفایا ہوسکے گا۔
آخر میں وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ تعلیم جس کے نعرے پر ووٹ لیے، خدارا اس تعلیمی نظام میں اصلاحات کریں۔ ہمارا تعلیمی نظام بہت فرسودہ ہوچکا ہے، اس میں قانونی اصلاحات کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ پروفیسرز مافیا اس سسٹم کو ہائی جیک کیے ہوئے ہے، جو کہ طالب علموں کے مستقبل سے کھیل کر صرف پیسے بنانے میں لگی ہے۔ فواد چوہدری ادھر ادھر کی فضول ٹویٹس کے بجائے اپنی وزارت پر دھیان دیں، اور کچھ احسان کر دیں اس قوم پر، جس کی امید اب تک نہ ہونے کے ہی برابر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پروفیسر سے فی الفور یونیورسٹی انتظامیہ نے استعفی لے لیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے نے اسے گرفتار کرلیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ یہ پروفیسر گزشتہ دہائی سے طالبات کو نہ صرف جنسی طور پر ہراساں کررہا تھا، بلکہ سو سے بھی زیادہ لڑکیوں کا ریپ بھی کرچکا ہے، جو کہ اس نے ایف آئی اے کے سامنے قبول کیا۔ اس کے شر سے خواتین اساتذہ بھی محفوظ نہیں تھیں۔ لڑکیوں کو امتحان میں کم نمبرز یا فیل کرنے کی دھمکی دے کر اکیلے میں ملنے کےلیے بلاتا، اور پھر ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا۔ لڑکیاں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہوجاتیں، اور جو ہمت کرکے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس کے خلاف شکایت کرتیں۔ وہ انکوائری کمیٹی بناتے اور پھر بغیر کسی نتیجے کے باعزت بری ہوجاتا۔ ایک کیس میں لڑکی نے جب اس ظلم کا ذکر اپنے شوہر سے کیا تو اس نے اپنی بیوی کو ہی جان سے مار ڈالا۔
تھوڑی دیر کےلیے سوچیے کہ ہماری بہنیں، بیٹیاں یونیورسٹی جیسی جگہ پر بھی محفوظ نہیں، ان جیسے سفاک بھیڑیے تاک میں ہیں۔ پڑھ لکھ کر اتنی بڑی پوسٹ کی آڑ میں اپنی شیطانی ہوس کو پورا کرنے والے ایسے لوگوں کی یقیناً کمی نہیں ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی واقعات رپورٹ ہوئے، مگر کوئی نتیجہ سننے میں نہیں آیا۔ ایسے واقعات کو خود یونیورسٹی انتظامیہ دبا دیتی ہے۔ کیونکہ اس تالاب میں ایک گندی مچھلی نہیں ہے، بلکہ تالاب یھرا ہوا ہے۔ اس لیے یہ آپس میں ایک دوسرے کا ساتھ دے کر معاملے کو صلاح صفائی کے نام پر رفع دفع کر دیتے ہیں۔
کیا پاکستان کے تعلیمی اداروں کا کوئی قانون نہیں ہے؟ ایک آدمی تین بڑے عہدوں پر بیک وقت فائز، آخر کیوں؟ اتنی مہربانی کیوں تھی اس پر؟ کہاں ہے ایچ ای سی؟ ایچ ای سی کی ناک کے نیچے یہ سب ہورہا ہے، اور غریب پڑھے لکھے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے کہ نوکریاں نہیں ہیں۔
کہنے کو تو ہر یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کےلیے سینٹر موجود ہوتا ہے، جو اس طرح کی شکایات کی تحقیق کرتا ہے۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ یہ ادارہ آزادانہ طور پر کام نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی کمیٹی میں بھی یونیورسٹی کے ہی پروفیسر شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے طالبات کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اس کیس میں ہوا۔ طالبات کی مسلسل شکایات کے باوجود اس کے خلاف کارروائی تک نہیں کی گئی۔ یوں وہ ایک لمبے عرصے تک یہ جرم بغیر کسی ڈر کے کرتا رہا۔ یہ ایچ ای سی کی ذمے داری ہے کہ وہ جنسی ہراسانی سینٹر کا قیام ہر یونیورسٹی میں یقینی بنائے، جس میں یونیورسٹی کا کوئی شخص شامل نہ ہو۔ اور یہ ادارہ اپنی تحقیق پروفیشنل طریقے سے راز میں رکھتے ہوئے صرف وائس چانسلر کو رپورٹ کرے۔ اور قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر کارروائی ہونی چاہیے۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ ہمارے ہاں ایک بار جس کی نوکری سرکاری ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے کہ اب کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہماری گورنمنٹ یونیورسٹیز میں کوئی ایسا نظام ہی نہیں جو ان بھرتی کیے گئے اساتذہ کی کارکردگی کو چیک کرے۔ ایک بار استاد کی نوکری پکی ہوئی تو اب طالب علم جانیں یا خدا جانے۔ یونیورسٹی پوچھتی تک نہیں۔ میں نے بھی یہی بھگتا ہے ماسٹرز سے لے کر پی ایچ ڈی تک۔ ان قریب دس سال میں تین سے چار اساتذہ ہی ایسے ملے جو واقعی میں ہیرا تھے، جن کی وجہ سے مجھے خود آگے پڑھنے اور ٹیچر بننے کا شوق پیدا ہوا۔ پی ایچ ڈی کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک بہت اچھے استاد بھی ہیں۔ آپ ایک اچھے ریسرچر اور سائنس دان تو ہوسکتے ہیں مگر بہت اچھا پڑھا بھی سکتے ہیں یہ قطعی ضروری نہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے لیے باقاعدہ نظام موجود ہے۔ امریکا میں (کیونکہ وہاں کا نظام میں نے بہت قریب سے دیکھا) ہر سیمسٹر میں ایک استاد جتنے بھی کورسز پڑھاتا ہے، ہر کورس کے اختتام پر کلاس کے بچوں سے بغیر اپنا نام لکھے استاد کے حوالے سے کچھ سوال ایک فارم کی شکل میں کیے جاتے ہیں۔ اور ہر طالب علم بغیر کسی خوف کے ان سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ اس سوالنامے پر اس ٹیچر کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ اگر یہ خراب آتا ہے تو اس ٹیچر کو بلا خوف نکال دیا جاتا ہے۔ میں نے وہاں ٹیچرز کو اس مرحلے پر خوف میں دیکھا۔ اور یہ ایک بار نہیں ہر کورس میں کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ٹیچر پوری ذمے داری سے اپنا کام کرتا ہے۔ اسے پتہ ہے کچھ غلط ہوا تو نوکری گئی۔ لیکن ہمارے ہاں اساتذہ کو کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔
میرا تمام لڑکیوں کو بھی مشورہ ہے کہ کسی بھی حال میں کسی مرد ٹیچر کے آفس میں اکیلی نہ جائیں۔ اگر جانا ہی ہے تو گروپ میں جائیں۔ ایسی کون سی آفت ہے کہ اکیلے میں جاتی ہیں۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ پڑھائی کے لیے محنت ضروری ہے۔ اگر آپ محنت سے اسلامیات جیسا آسان مضمون پاس نہ کرسکیں، تو سوال آپ پر بھی ہے کہ پھر آپ یونیورسٹی میں کیا کرنے جاتی ہیں؟ اگر آپ کسی بھی مضمون میں فیل ہو بھی جائیں تو اس کےلیے آپ پیپر کو دوبارہ چیک کرنے کےلیے درخواست دے سکتی ہیں۔ کسی بھی ٹیچر کے آفس میں اکیلے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر کلاس میں کسی لڑکی کے ساتھ ہراسانی کا کسی قسم کا واقعہ ہوجائے تو پوری کلاس کو اس معاملے میں اس لڑکی کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ یہ کل آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے کی آواز بنیں، تبھی ایسی کالی بھیڑوں کا ہمارے اداروں سے صفایا ہوسکے گا۔
آخر میں وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ تعلیم جس کے نعرے پر ووٹ لیے، خدارا اس تعلیمی نظام میں اصلاحات کریں۔ ہمارا تعلیمی نظام بہت فرسودہ ہوچکا ہے، اس میں قانونی اصلاحات کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ پروفیسرز مافیا اس سسٹم کو ہائی جیک کیے ہوئے ہے، جو کہ طالب علموں کے مستقبل سے کھیل کر صرف پیسے بنانے میں لگی ہے۔ فواد چوہدری ادھر ادھر کی فضول ٹویٹس کے بجائے اپنی وزارت پر دھیان دیں، اور کچھ احسان کر دیں اس قوم پر، جس کی امید اب تک نہ ہونے کے ہی برابر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔