’’اقبال کو کبھی صحیح طرح سے نہیں پیش کیا گیا‘‘

ایک شام میاں اقبال صلاح الدین اور خودی کے نام

ایک شام میاں اقبال صلاح الدین اور خودی کے نام

گذشتہ دنوں ایک مشہور ادبی گروپ ''پبورپ''
Pakistan Bloggers, Writers, Readers and Poets

(PBWRP)نے خودی کے نام سے لاہور کے دبستانِ اقبال میں ایک سیشن کا انعقاد کیا جس میں لکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس سیشن کے اسپیکر خود میاں اقبال صلاح الدین صاحب تھے جنہیں ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سیشن کے بعد گروپ لیڈر محترمہ نازیہ کامران کاشف کے ساتھ ان سے ایک تفصیلی نشست کا موقع ملا جس میں انہوں نے اقبال کے کلام، آج کے نوجوانوں کی حالتِ زار، خودی کا پیغام اور دیگر نکات پر سیرِحاصل گفتگو کی۔

اس نشست کا حال پیشِ خدمت ہے لیکن اس سے پہلے میں ان کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔

میاں اقبال صلاح الدین شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نواسے، سابق جسٹس، ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے بھانجے اور ٹیلیویژن کی مشہور ہستی میاں یوسف صلاح الدین کے بھائی ہیں۔ یوسف صلاح الدین کو تو آپ میں سے بہت لوگ جانتے ہوں گے لیکن اقبال صلاح الدین کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے، اس لیے اس مضمون میں آپ ان کے بارے میں کافی کچھ جان سکتے ہیں۔

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ نہ صرف ننھیال بلکہ ددھیال کی طرف سے بھی میاں صاحب ایک مشہور و معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے دادا میاں امیر الدین نہ صرف لاہور شہر کے سب سے پہلے مسلمان میئر تھے بلکہ مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری خزانہ بھی تھے۔ میئر بننے پر انہیں قائداعظم نے خود فون کر کے مبارک باد دی تھی اور اس بات کو مسلمانوں کے لیے نیک شگون قرار دیا تھا۔ 23 مارچ کے سالانہ جلسے میں وہ اسٹیج سیکرٹری تھے۔

میاں اقبال صلاح الدین 5 اپریل 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن کا زمانہ ایچیسن کالج میں تعلیم حاصل کرتے گزرا جس کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا اور اب ایک ٹیکسٹائل مل کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ''قرآن سوسائٹی پنجاب'' کے چیئرمین اور ''دبستانِ اقبال'' کے صدر کی ذمے داریاں بھی نبھارہے ہیں۔

دبستانِ اقبال کی بنیاد 2012 میں اقبال کے فلسفہ خودی میں ایک نئی روح پھونکنے اور اسے نوجوانوں کے دلوں تک پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھی۔ لاہور کے گلبرگ میں واقع اس ادارے کے دروازے تمام علم کے پیاسوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ یہ ادارہ نہ صرف نستعلیق لکھائی، پینٹنگ اور خطاطی پر باقاعدہ کلاسز لیتا ہے بلکہ علامہ اقبال کے فلسفے کو کیسے عملی طور پر رائج کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جائے اس بارے میں بھی ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ جنوری 2017 میں واہگہ بارڈر کے پاس ''تحریک آزادی میوزیم'' کا افتتاح کیا گیا تھا، یہ میوزیم بھی دبستان کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے۔

اِس جگہ کے اندر ایک سحر ہے، ایک طلسم ہے جو ہر باذوق انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ علامہ اقبال کی قد آور پینٹنگز، استعمال کی اشیاء اور دیگر تصاویر سے مزین دبستان، کل چار کمروں پر مشتمل ہے اور ہر کمرے کی اپنی خاصیت ہے۔ یہاں جابجا اقبال کی لکھائی میں ان کے خطوط اور نظمیں نظر آتی ہیں ایک جگہ تو اقبال کے دستخط کو بھی فریم کر کہ لگایا گیا ہے۔ گویا اقبال سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ جگہ کسی جنت سے کم نہیں۔

میاں اقبال صلاح الدین خود بہت نفیس اور بردبار انسان ہیں، ٹھہر ٹھہر کہ بولنا اور آنکھوں کی چمک جن کا خاصہ ہے۔

اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچپن سے ہی میں نے اپنے گھر میں تحریکِ پاکستان اور تقسیمِ پاکستان کی کہانیاں سنی ہیں۔

میرے دادا میرے والد اور ماموں میرے سب سے بڑے آئڈیل تھے۔ میں نے اپنے دادا سے بھی کافی باتیں اور واقعات سنے کہ ماضی میں کب، کیسے، کیا ہوا؟ وہ ابھی میرے چالیس برس کے ہونے کے بعد فوت ہوئے ہیں۔

بچپن ہی سے میری دوستی اور رحجان میرے ماموں جاوید اقبال مرحوم کے ساتھ رہا ہے۔ میں ان کی باتیں بہت توجہ اور شوق سے سنتا تھا۔ بلکہ اقبالیات میں میری تربیت میرے ماموں نے ہی کی ہے۔ جو کام آپ یہاں دبستان میں دیکھ رہے ہیں یہ انہی کا بویا ہوا بیج تھا۔ وہ میرے استاد تھے، گائیڈ تھے، دوست تھے۔ میں نے ان کی کمپنی ہمیشہ بہت انجوائے کی ہے۔ وہ مایوس ہونے والوں میں سے نہیں تھے حتیٰ کہ اپنی وفات سے پہلے وہ پیشاب کی نالی لگی ہونے کے باوجود بھی یہاں آ جاتے تھے۔ میں نے جو بھی اور جتنا بھی علامہ کو پڑھا انہی کی بدولت پڑھا۔ میں ان کے بہت قریب تھا۔ خاندان سے باہر میرا کوئی خاص آئڈیل نہیں تھا۔

اردو ادب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میں نے کسی کو بھی نہیں پڑھا۔ کوئی افسانہ یا ناول وغیرہ میں نہیں پڑھتا صرف اقبال، رومی اور فرید الدین عطار کو پڑھا ہے۔ میں نے آپ کی عمر میں انگلش ایڈونچر ناول بہت پڑھے تھے پھر ہسٹری کا چسکا لگ گیا جس میں اسلامی تاریخ بھی پڑھی اور آج تک پڑھ رہا ہوں۔ بغیر مقصد کی شاعری مجھے پسند نہیں۔ تصوف بھی کافی دل چسپی سے پڑھا۔ علامہ کا نواسہ ہونے کے باوجود میں نے کبھی شاعری کا نہیں سوچا کیوںکہ میرے نزدیک شاعری ایک رحجان ہوتا ہے جو انسان کو خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ یہ اندر سے نکل کر آتی ہے۔ میں نے تو کوئی کتاب لکھنے کا بھی نہیں سوچا ابھی۔

فارسی سیکھنے کے بارے میں انہوں نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا کہ نصرت فتح علی خان ہماری حویلی میں بہت آیا کرتے تھے۔ میں، میرے بڑے بھائی اور عمران خان بھی وہاں ہوتے تھے۔ نصرت وہاں اکثر فارسی کے شعر سنایا کرتے تھے اور مجھے بڑی شرم آتی تھی کہ اقبال کا کلام ہے اور ان کے نواسے کو ہی سمجھ نہیں آ رہا، پھر میں نے تقریباً 32 سال کی عمر میں فارسی سیکھی کیوںکہ مجھے اس چیز کا احساس تھا کہ اقبال کے کلام کو ان کے پوتوں اور نواسوں میں کوئی تو پڑھے۔ ایک ذمے داری تھی مجھ پر کہ ان کے کلام کو سیکھ کے آگے پہنچاؤں اور ویسے بھی یہ بہت خوب صورت زبان ہے۔

پھر بات چل نکلی اقبال کے نظریے اور کلام کی جس پر میاں صاحب یوں گویا ہوئے کے اقبال کا جو نظریہ ہے اسلام کے بارے میں، وہ بہت مختلف ہے۔ اقبال کو کبھی صحیح طرح سے نہیں پیش کیا گیا۔ ہمارے نصاب میں انہیں اس طرح نہیں پیش کیا گیا جس طرح ان کا حق تھا۔ اقبال اسلام کو ایک انسان دوست اور انسانیت پرست شخص کے طور پہ دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کی تعریف یہ تھی کہ یہ ایک مذہب نہیں دین ہے۔ کیونکہ مذہب آپ کا ایک ذاتی نقطہ نظر ہوتا ہے۔ دینِ اسلام آپ کا وہ عالم گیری نظریہ یا آفاقی اصول ہے جو تمام انسانیت پر مذہب، ذات رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ یہ دین کی اساس ہے۔

اقبال کو پڑھانے والے اور پڑھنے والے دونوں کے لیے دلیر ہونا ضروری ہے۔ ایک اوپن مائنڈ چاہیے، کیوںکہ علامہ کوئی بات بغیر کسی دلیل کے نہیں کرتے کیوںکہ اگر وہ کسی بات پر یا چیز پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیشہ اس کا متبادل بھی آپ کو بتاتے ہیں۔


یہ کبھی نہیں ہوا کہ اقبال نے بلاوجہ کسی کو تضحیک کی خاطر تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ وہ ہمیشہ متبادل راستہ بتاتے ہیں۔

رہی بات اقبال کے کلام کی تو اس کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کہا کرتے تھے کہ اقبال کی شاعری آپ کو موجودہ دور کے مطابق لگتی ہے وہ اس لیے کہ وہ آئڈیلزم جس کے لیے وہ آپ کو تیار کرنا چاہ رہے تھے آپ ابھی تک نہیں حاصل کر سکے۔ اگر آپ نے اسے حاصل کر لیا ہوتا تو یہ شاعری بے معنی ہو جاتی۔ اس لیے علامہ کی زیادہ تر شاعری آپ کو آج کے حالات کے عین مطابق لگتی ہے۔

ذاتی طور پر جاوید نامہ اور اسرار خودی اقبال کی وہ کتابیں ہیں جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں کیوںکہ یہ آپ کے ذہن، آپ کے تخیل کو کھولتی ہیں۔ اور یہ ہیں بھی آپ کی ذاتی ارتقاء اور ڈیویلپمنٹ کے بارے میں۔ پسندیدہ موسیقی و فلم کے بارے میں بتایا کے میں پرانے فلمی گانے بہت انجوائے کرتا ہوں اور کبھی کبھی غزلیں بھی سن لیتا ہوں۔ یوسف صلاح الدین کی حویلی پر جو پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں وہاں بھی اکثر شرکت کرتا ہوں۔

جوانی میں پنجابی کی فلمیں بہت دیکھی ہیں جب سدھیر اور سلطان راہی تواتر سے آیا کرتے تھے۔ پسندیدہ کوئی نہیں تھا جو مِلا دیکھ لیتا تھا۔ ہاں سائنس فکشن فلمیں مجھے بہت پسند تھیں۔ ایک وقت تھا میں خوف ناک فلمیں بھی بہت دیکھتا تھا۔

اقبال کی ذاتی اشیاء کے بارے میں استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اقبال کی گھڑی اور کف لنکس ہیں۔ ایک کتاب جو انہوں نے چوہدری رحمت علی کو مارک کر کے دی تھی وہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ افغانستان کے شہنشاہ نادر خان نے انہیں ایک قالین دیا تھا وہ بھی یہاں دبستان میں لگا ہوا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ساتھ شہنشاہ کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔ ان کے استعمال کے کچھ برتن بھی ہیں پیتل کے جو میری ممانی ناصرہ جاوید اقبال نے مجھے دیے تھے۔ یہ علامہ کے آخری وقت میں بھی ان کے زیرِاستعمال تھے۔

دبستان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کے پیچھے سیدھی بات یہ تھی کہ میں نے علامہ کو بہت پڑھا تھا اور بڑوں سے بھی کافی باتیں سیکھی تھیں۔ ایک دن میں نے ماموں کو کہا کہ جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ تو بے فائدہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کسی اور سمت میں جا رہا ہے اور علامہ کہیں اور۔ انہوں نے اقبال سے متعلق مجھے ایک ادارہ بنانے کا مشورہ دیا۔ تب یہ جگہ بھی میں نے خرید رکھی تھی سو میں نے اپنے استاد احمد جاوید کے مشورے سے 2012 میں ''دبستان اقبال'' کے نام سے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہ پہلے کسی اور کے زیرانتظام تھا لیکن اب اسے میں خود سنبھال رہا ہوں۔ اسے سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔

یہاں میرے آج کل یہی مشاغل ہیں کہ نوجوانوں کو پکڑ کے انہیں شاہین کی طرح جکڑ کے ان کے دماغوں کو اقبال کے کلام سے روشن کر کے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کئی بچوں کو تو فلسفہ کا بھی نہیں پتا ہوتا لیکن جب ان کے سامنے اقبال کی کوئی ایسی بات کی جائے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آتی ہے، یہ دیکھ کہ مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔

پھر بات چل نکلی آج کل کے نوجوانوں کی تو بولے، میں آپ نوجوانوں کو یہ کہوں گا کہ آپ زندگی کو ضرور انجوائے کریں لیکن اپنی سمت کو سیدھا رکھیں۔ آج کے نوجوانوں میں آج بھی وہی خرابیاں ہیں جو علامہ نے پوائنٹ آؤٹ کی تھیں۔ آپ میں ریسرچ کرنے کا کوئی شوق ہی نہیں ہے۔ اول تو آپ لوگوں میں ''طلب'' ہی نہیں۔ آرزو یا تمنا ہی نہیں ہے تو کوشش کہاں سے آئے گی؟؟

آپ کو کہاں سے پُش ملے گا۔ آپ کو ہر چیز سے مکمل طور پر واقفیت ہونی چاہیے۔ ہر بات کا پتا ہونا چاہیے۔ جب سرسید احمد خان کا دور تھا تو خطے کے آٹھ کروڑ مسلمانوں میں صرف 59 گریجویٹ تھے۔ اور اب تو آپ کروڑوں میں ہیں لیکن کوئی خاص ترقی یا ایجادات نہیں کیں۔ کسی بھی فیلڈ میں ہم نے کوئی اہم کارنامہ نہیں سرانجام دیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔

نوجوانوں کے لیے میرا پیغام خودی ہے۔ میں انہیں چند باتیں کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ؛

1- خودی کو سمجھنا مشکل نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ یہ محنت و ریاضت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ میرے خیال میں یہاں پاکستان میں خودی کو بہت ذلیل کیا گیا ہے لیکن ہمارے آج کل کے نوجوان اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔

خودی میں مادی اور روحانی دونوں خوبیاں شامل ہیں۔ یہ دونوں میں گُندھی ہوئی ہے۔

2- چار ایسی قدریں جو آپ کی خودی کو مضبوط کرتی ہیں وہ عشق، فقر، بلند پرواز اور خلوت پسندی ہیں۔

3-فکر و عمل ایک دوسرے کے لے لازم و ملزم ہیں۔ فکر کو عمل میں نہ لا سکے تو وہ محض ایک خیال بن جاتا ہے۔

4-انسان کی شخصیت ایک متنوع حالت کا نام ہے۔ انسان کا اولین فرض ہے کہ تناؤ کی اس کیفیت کو برقرار رکھے اور ریلیکس نہ ہو۔ ایسی صورت میں ہی وہ متحرک رہتا ہے۔

5-علامہ اقبال رح نے جن جن چیزوں کی نشان دہی کی ہے انہی چیزوں کی ہم مسلمانوں میں کمی ہے۔ اس کا احاطہ آپ خود کریں۔

6-زندگی کے سخت حالات کا سامنا کیے بغیر آپ کبھی بھی اپنے وجود ، اپنی بقا کو تسلیم نہیں کروا سکتے۔

یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نوجوانوں کے لیے نہایت اہم اور آج کے وقت و حالات کی ضرورت ہیں۔ میاں اقبال صلاح الدین کے اندر ایک مشفق استاد، ایک علم دوست انسان اور ایک انسانیت پرست پاکستانی چھپا ہوا ہے۔ آپ دبستان اقبال کے پلیٹ فارم سے ملک و ملت اور اقبال کے شاہینوں کے لیے قابل قدر اور شان دار کام کر رہے ہیں جس کو سراہنے سے میرا قلم قاصر ہے۔
Load Next Story