وہ جو مثال ہوگئیں

مشکلات سے لڑ کر تاریخ میں نام بنانے والی کچھ خواتین کا تذکرہ

مشکلات سے لڑ کر تاریخ میں نام بنانے والی کچھ خواتین کا تذکرہ

یوں تو زمانۂ قدیم کی عورت بھی ریاست اور سماج میں کسی نہ کسی حیثیت میں نہایت بااثر، طاقت ور، فیصلہ ساز اور بااختیاررہی ہے، لیکن قدیم تہذیبوں سے متعلق اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذریعے شاہانِ وقت، حاکم اور بالادست طبقے نے اپنے مفادات اور مخصوص مقاصد کی تکمیل کی اور ان خواتین نے وہی کچھ کیا جس کا حکم انھیں مرد نے دیا تھا۔

قدیم دور میں سماجی خدمت اور فلاح و بہود کے تصور کے برعکس انفرادی یا گروہی، قبائلی اور اشراف خود کو زور آور، طاقت ور اور خوش حال بنانے کے لیے ہر کوشش کرتے۔ اس میں عورتیں بھی ان کا ساتھ دیتیں اور ضرورت پڑنے پر مردوں کے دیے ہوئے اختیارات اور وسائل کے زور پر آگے رہتیں۔ زمانہ کروٹ لیتا اور وقت گزرتا رہا جس نے انسان کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا اور اس نے معاشرت سیکھی۔

تعلیم اور شعور کا مرحلہ طے کیا تو مردوں اور عورتوں نے دورِجاہلیت کے چلن اور انسان کے درندہ صفت، جابر اور سنگ دل ہونے سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا، مگر خود کو بدلنے میں پھر بھی بہت دیر کی۔ صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے کئی نسلیں انسانیت کا قتل اور حقوق کی پامالی دیکھتے ہوئے مٹی میں مل گئیں اور انسان انیسویں صدی میں داخل ہو گیا۔

تعلیم، آگاہی شعور نے تہذیب و تمدن کے نئے ضابطے اور قاعدے، معاہدے اور اصول طے کیے۔ ایجادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور دنیا نے ترقی کا سفر شروع کیا تو معلوم ہوا کہ مرد ہی نہیں عورت کا بھی معاشرے کی تشکیل اور اجتماعی ترقی و خوش حالی میں اہم کردار ہے، جسے نظرانداز کرکے یا اسے کچل کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج سیاست سے لے کر سماج تک، سائنس سے لے کر ادب تک ہر میدان میں، ہر محاذ پر عورت، مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔

تاہم ابھی نصف صدی پہلے تک بھی آج کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کی عورت کو کئی بندشوں، جبر اور استحصال کی مختلف شکلوں، قانونی رکاوٹوں اور سماج کی فرسودہ ذہنیت، فضول رسم و رواج کی وجہ سے اذیت اور تکلیف کا سامنا تھا۔ اسے ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا گیا، صدیوں پہلے تو وہ بنیادی اور عام تعلیم ہی سے محروم تھی، مگر بعد کے زمانوں میں اگر یہ اجازت ملی بھی تو محدود، امریکا اور اس جیسے دیگر معاشروں میں کوئی عورت میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے سکتی تھی، بیمار ہونے پر اسپتال نہیں لے جایا جاتا، سرکاری ملازمت ممنوع تھی تو کہیں مردوں کے مقابلے میں اسے کم اجرت دی جاتی اور وہ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتی تھی۔

گھروں میں تشدد کا نشانہ بننے پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی کہ وہ کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی تھی اور طرح طرح کی بیڑیاں اس کے پیروں میں تھیں۔ تاہم خواتین طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد خواتین نے پنے حقوق حاصل کیے اور آج مختلف شعبوں میں نام اور مقام بنا رہی ہیں۔

یہاں ہم ان چند قابل اور باصلاحیت خواتین کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں آپ نے بہت کم پڑھا اور سنا ہو گا۔ سماج کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات اور کارنامے انجام دینے والی ان خواتین نے مشکلات کا سامنا کیا، رکاوٹوں کو عبور کیا اور قبول و رد کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے کام میں جٹی رہیں اور آج ان کا نام اور کام دنیا کے لیے مثال ہے۔

ہم مارگریٹ ہلڈا تھیچر سے آغاز کرتے ہیں، جو اس ریاست کی آئرن لیڈی ہیں، جس نے ہندوستان پر راج کیا۔ برطانیہ کی یہ سیاست داں عزم وہمت کا پیکر اور بہت مضبوط ارادوں کی مالک مانی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں برطانوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بننے والی مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ وہ اس عہدے کی اہل ہیں کیوں کہ وہ اپنے سامنے آنے والی بڑی سے بڑی مشکل کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں۔

وہ 1979 تک برطانیہ میں اس عہدے پر فائز رہیں۔ مارگریٹ تھیچر کا سن پیدائش 1925ہے جنھوں نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ انھوں نے کیمسٹری میں ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد 1947 سے لے کر1951 تک ایک ادارے میں ریسرچر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1951 میں ان کی شادی ہو گئی تھی لیکن مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ ترک نہ کیا۔ مگر اب انھوں نے سائنس کا میدان چھوڑ دیا تھا اور جب 1953 میں وکالت کا امتحان دینے والی مارگریٹ کو اس میں کام یابی ملی تو وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے سیاست کی طرف بڑھنے کا موقع ملا اور عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے وہ کنزرویٹوپارٹی سے وابستہ ہو گئیں ۔ 1959 میں اس جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔

وہ سیاسی میدان میں آگے بڑھتی رہیں اور وزیراعظم کے عہدے کے لیے ان کا نام لیا گیا جس کے بعد کچھ ایسے فیصلے بھی کیے کہ انھیں سیاسی اور عوامی سطح پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مگر برطانیہ کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم نے اپنے فیصلے واپس نہ لیے۔ انھوں نے اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع کیا اور کئی نشیب وفراز کا سامان کیا۔ انہی کے دور میں برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان جنگ ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ مارگریٹ کی کام یاب خارجہ پالیسی ان کی فتح کا سبب بنی۔ وہ مسلسل تین انتخابات میں کام یاب ہوئیں اور خود کو بیسویں صدی کی طاقت ور اور کام یاب سیاست داں ثابت کیا۔

اب بات کرتے ہیں اداکاری کے میدان کی اور ہمارا انتخاب ہے کیتھرین ہیپ برن جو ایک عظیم اداکارہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق امریکا سے تھا۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں ان کا چرچا صرف باصلاحیت اور متاثر کن اداکارہ کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ان کا حُسن بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔ ان کی اداکاری نے سنیما کے شائقین اور ناقدین کو بھی یکساں متاثر کیا۔ چار اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ہیپ برن متعدد بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئیں۔


کیتھرین ہیپ برن کا تعلق ایک امیر کبیر گھرانے سے تھا۔ 12 مئی 1907 کو پیدا ہونے والی کیتھرین کے والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور عورتوں کے حقوق کی تحریک کی بانی رکن تھیں۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے گریجویشن کے بعد اسٹیج کی دنیا سے اپنے شوبز کیریئر کا آغاز کیا۔



نیویارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے کئی ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور مقبولیت حاصل کی۔

1932 میں انھوں نے پہلی فلم میں کام کیا۔ ابتدائی زمانے میں ہیپ برن کو حقوقِ نسواں کی حامی عورت کے کردار نبھانے کو ملے اور وہ اس میں کام یاب رہیں۔ وہ پراثر اور سحرانگیز شخصیت کی مالک تھیں اور نہایت خودمختار خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ ہیپ برن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933 میں ملا۔ انھوں نے یہ ایوارڈ فلم مارننگ گلوری کے ایک کردار پر حاصل کیا۔ فلاڈلفیا اسٹوری وہ فلم تھی جسے نہایت شہرت اور مقبولیت ملی اور یہ ان کی ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں سے ایک ہے۔ 2003 میں 96 برس کی عمر میں کیتھرین کی زندگی تمام ہو گئی۔

اب چلتے ہیں کھیل کی دنیا میں اور بات کرتے ہیں فلورنس گرفتھ جوئنر کی جو دنیا بھر میں اپنے نک نیم فلو جو سے بھی جانی جاتی ہیں۔ کھیل کی دنیا کی یہ مشہور ایتھلیٹ امریکا میں 1959 میں پیدا ہوئی۔ ان کا تعلق لاس اینجلس سے تھا جہاں یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف کھیلوں کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کیا اور چودہ سال کی عمر میں نیشنل یوتھ گیم میں کام یابی حاصل کی۔ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ایک سلور میڈل جیتنے کے بعد فلورنس نے مقابلوں میں حصہ لینا بند کر دیا اور 1987 میں مشہور ایتھلیٹ ایل جوئنر سے شادی کرلی۔ تاہم اسی سال روم میں منعقدہ ورلڈ چیمپئن شپ میں دوبارہ نظر آئیں اور مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انھوں نے 1988 کے سیول اولمپکس میں حصہ لیا اور تین گولڈ میڈلوں کے ساتھ ایک سلور میڈل اپنے نام کیا۔

کھیل کی دنیا میں نام اور مقام بنانے کے بعد اچانک ہی ماڈلنگ کا جنون سوار ہوا اور پھر کاروبار اور اس کے بعد وہ تصنیف وتالیف میں مشغول ہو گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ایک زرخیز ذہن کی مالک اور ہمہ وقت متحرک رہنے والی شخصیت تھیں۔ انھیں ہر روپ میں ہر شعبے میں کام یابی ملی اور لوگوں نے بے حد عزت اور احترام دیا۔ فلورنس گرفتھ جوئنر نے 1998 میں زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

نسلی تعصب اور رنگ کی بنیاد پر امتیاز جھیلنے والی سیاہ فام امریکیوں میں ایک نام ٹونی موریسن کا بھی ہے جو ماہرِتعلیم اور ادیبہ کے طور پر دنیا بھر میں اپنی موت کے بعد بھی عزت اور احترام پاتی ہیں۔ انھیں 1993 میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ وہ1931 میں امریکا کی ریاست اوہائیو میں پیدا ہوئیں۔ غربت اور تنگی کے باعث ابتدائی زمانہ بدحالی اور مشکلات جھیلتے گزرا، مگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی جس نے 1955 میں ایم اے کی سند دلوائی۔ یوں تدریس کے شعبے کی طرف آئیں۔ انھوں نے جلد ہی شادی کر لی، مگر ازدواجی زندگی تلخیوں کا شکار ہو کر بکھر گئی جس کے بعد تدریس کا شعبہ چھوڑا اور ایک مشہور اشاعتی ادارے میں ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ انھوں نے کافی پہلے ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، مگر زندگی کے تجربات اور مشاہدے نے کہانی کی طرف دھکیلا تو 1970 میں پہلا ناول بلیوسٹ آئی شائع ہوا جسے امریکا کے ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ اس کام یابی نے بہت حوصلہ دیا اور تین برس بعد دوسرا ناول اور پھر چار سال بعد تیسرا ناول منظر عام پر آیا۔ وہ قارئین اور ناقدین سبھی کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

اب ہم فلورنس نائٹ اینگل کا تذکرہ کریں گے جو 1820 میں پیدا ہوئی۔ اس بچی نے ایک نہایت خوش حال زمیں دار کے گھر آنکھ کھولی جب کہ والدہ بھی سیاست سے منسلک تھیں۔ کہتے ہیں فلورنس کے نانا انسان دوست اور فلاحی خدمات کے لیے مشہور تھے۔ فلورنس اور اس کی بہن کی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق گھر پر ہوئی۔ والد بھی رحم دل اور خداترس انسان تھے اور یہی وجہ تھی کہ فلورنس کے اندر بھی دوسروں سے ہم دردی اور مدد کا جذبہ شروع ہی سے تھا۔ بعد میں اسی جذبے نے ایک ایسے شعبے کا چناؤ کرنے کی طرف مائل کیا جسے دنیا بھر میں نہایت عزت اور احترام حاصل ہے۔

فلورنس نے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہوئیں اور اسے عبادت سمجھتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوگئیں۔ کئی ماہ وہ ایک اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرتی رہیں جس پر خاندان کے دیگر لوگوں نے ان کے والد اور والدہ سے شدید اختلاف کیا ۔ اس زمانے میں عورتوں کا کام کرنا اور گھروں سے باہر رہنا ہی نہیں بلکہ نرسنگ کا شعبہ بھی مغرب اور یورپ کے ملکوں میں نہایت برا سمجھا جاتا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ نرس کو حقیر اور معمولی عورت کہا جاتا تھا اور کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلیم یافتہ عورت کا نرسنگ کی طرف آنے کا تو تصور ہی نہ تھا۔ فلورنس نائٹ اینگل نے نرسنگ کے شعبے کا انتخاب کیا تو ہر طرف اس کی مخالفت ہوئی اور اسے نہایت احمقانہ اور عجیب و غریب فیصلہ سمجھا گیا۔

اس نوجوان لڑکی نے ہر رکاوٹ اور مشکل کا سامنا کرتے ہوئے مخالفت کو مسترد کر دیا اور نرسنگ کے پیشے کو عزت اور اعتبار بخشا۔

فلورنس نے صرف نرس کے طور پر کام نہیں کیا بلکہ ایک قابل اور پڑھی لکھی عورت ہونے کے ناتے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کر کے صحت عامہ کے مسائل کو اجاگر کیا۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے باقاعدہ اداروں اور تنظیموں کی بنیاد رکھتے ہوئے نرسنگ کی تعلیم و تربیت کے لیے کوششیں کیں۔ جنگِ کریمیا کے دوران زخمیوں اور مریضوں کی خدمت اور دیکھ بھال کے حوالے سے دنیا بھر میں آج بھی فلورنس کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ فلورنس نائٹ اینگل نے 1910میں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی، مگر انسانوں کو محبت، ہم دردی، مدد اور تعاون کا جو درس دیا، وہ رہتی دنیا تک اس کی یاد دلاتا رہے گا۔
Load Next Story