کراچی میں سانحہ پانچ منزلہ عمارت زمین بوس
قانون شکن عناصر جن کو سرکاری محکموں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے وہ ناجائز تعمیرات کرکے نہ صرف خود ارب پتی بن چکے ہیں
شہرقائد سمیت ملک بھر میں غیرقانونی تعمیرات کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دولت کی ہوس نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، کسی قانون اور ضابطے پر ہم عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ روز کراچی کے گنجان آباد علاقے رضویہ سوسائٹی گلبہار میں پانچ منزلہ عمارت دیگر دو عمارتوں کو اپنی لپٹ میں لیتے ہوئے زمین بوس ہوگئی، جس کے ملبے تلے دب کر خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ اٹھاہ افراد زخمی ہوئے۔ عمارت گرنے کا یہ واقعہ نہ تو پہلا تھا اور نہ آخری۔ ایسے سانحات کا تسلسل ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
کراچی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نامی ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کو روکے لیکن مقام حیرت ہے کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ غیر ذمے داری اور غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس ادارے کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں نہیں آتی ہے۔
چند دن تک میڈیا پر عمارت گرنے کے اندوہناک واقعے کا تذکرہ رہتا ہے، بلڈر قصور وار، مکین قصور وار ، مرنے والے قصور وار، لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران بے قصور اور معصوم قرار پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی افسران اور اہلکاروں سے ملی بھگت کے بغیر غیرقانونی تعمیرات کرنا ناممکن ہے۔اس سانحے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہری اداروں کے پاس ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے میشنری موجود نہیں۔ ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کے لیے آخرکار پاکستان آرمی کو طلب کرنا پڑا، جنھوں نے جدید میشنری کی مدد سے ملبے تلے دبے کئی زخمیوں کو زندہ سلامت نکال لیا۔
کراچی کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔ بلند وبالا عمارتیں جن کی تعمیر میں انتہائی ناقص ترین تعمیراتی میٹریل استعمال ہوا ہے وہ گزشتہ دس ، پندرہ برسوں میں شہر کی ہر ہر گلی میں تعمیر ہوچکی ہیں۔ شہر میں ہزاروں ایسی عمارتیں موجود ہیں جوکسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہیں۔
اس سانحے کو لے لیجیے،گنجائش سے زائد عمارت پر غیر قانونی تعمیرات کے نتیجے میں بلڈنگ تو زمین بوس ہوئی لیکن اس نے دیگر عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور اس میں بھی رہنے والے اپنی جانوں سے گئے ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ ہر سانحے کے بعد روایتی طور پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے سخت نوٹس اور واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا جاتا ہے،حقیقت میں دیکھا جائے تو اب تک شہر میں کتنی ہی عمارتیں ناقص میٹریل اور ایس بی ایس سی کی ملی بھگت سے قائم ہونے کے بعد گر چکی ہیں اور ان واقعات کی انکوائری رپورٹس کبھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
البتہ قانون شکن عناصر جن کو سرکاری محکموں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے وہ ناجائز تعمیرات کرکے نہ صرف خود ارب پتی بن چکے ہیں بلکہ انھوں نے سرکاری افسران کو بھی ارب پتی بنا دیا ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس سانحے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کی مالی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے اورشفاف تحقیقات کے ذریعے واقعے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔
کراچی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نامی ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کو روکے لیکن مقام حیرت ہے کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ غیر ذمے داری اور غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس ادارے کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں نہیں آتی ہے۔
چند دن تک میڈیا پر عمارت گرنے کے اندوہناک واقعے کا تذکرہ رہتا ہے، بلڈر قصور وار، مکین قصور وار ، مرنے والے قصور وار، لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران بے قصور اور معصوم قرار پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی افسران اور اہلکاروں سے ملی بھگت کے بغیر غیرقانونی تعمیرات کرنا ناممکن ہے۔اس سانحے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہری اداروں کے پاس ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے میشنری موجود نہیں۔ ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کے لیے آخرکار پاکستان آرمی کو طلب کرنا پڑا، جنھوں نے جدید میشنری کی مدد سے ملبے تلے دبے کئی زخمیوں کو زندہ سلامت نکال لیا۔
کراچی کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔ بلند وبالا عمارتیں جن کی تعمیر میں انتہائی ناقص ترین تعمیراتی میٹریل استعمال ہوا ہے وہ گزشتہ دس ، پندرہ برسوں میں شہر کی ہر ہر گلی میں تعمیر ہوچکی ہیں۔ شہر میں ہزاروں ایسی عمارتیں موجود ہیں جوکسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہیں۔
اس سانحے کو لے لیجیے،گنجائش سے زائد عمارت پر غیر قانونی تعمیرات کے نتیجے میں بلڈنگ تو زمین بوس ہوئی لیکن اس نے دیگر عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور اس میں بھی رہنے والے اپنی جانوں سے گئے ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ ہر سانحے کے بعد روایتی طور پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے سخت نوٹس اور واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا جاتا ہے،حقیقت میں دیکھا جائے تو اب تک شہر میں کتنی ہی عمارتیں ناقص میٹریل اور ایس بی ایس سی کی ملی بھگت سے قائم ہونے کے بعد گر چکی ہیں اور ان واقعات کی انکوائری رپورٹس کبھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
البتہ قانون شکن عناصر جن کو سرکاری محکموں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے وہ ناجائز تعمیرات کرکے نہ صرف خود ارب پتی بن چکے ہیں بلکہ انھوں نے سرکاری افسران کو بھی ارب پتی بنا دیا ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس سانحے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کی مالی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے اورشفاف تحقیقات کے ذریعے واقعے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔