امن جنگ سے بہتر ہے

آزاد لوگ جنگ شروع نہیں کرتے لیکن جب جنگ شروع ہو جائے تو وہ شکست کی حالت میں بھی لڑتے رہتے ہیں

آزاد لوگ جنگ شروع نہیں کرتے لیکن جب جنگ شروع ہو جائے تو وہ شکست کی حالت میں بھی لڑتے رہتے ہیں۔ ہجوم لڑائیاں جیتتا ہے جب کہ آزاد لوگ ہمیشہ جنگ جیتتے ہیں۔ کسی مفکر کے یہ جملے افغان قوم پر صادق آتے ہیں جس نے تین دہائیوں سے زائد تک اپنے سے بڑے طاقت ور دو ملکوں سے ٹکر لی، افغانیوں نے ہر قسم کا نقصان اٹھایا پورا ملک تباہ ہو گیا دنیا میں ترقی کی دوڑ میں صدیوں پیچھے چلا گیا لیکن اس نے اپنی آزادی پر سودے بازی نہیں ہونے دی۔

یہ حقیقت ہے کہ وہاں بھی ہر اذہان کے افراد موجود ہیں جن میں میر جعفر و میر صادق جیسے لوگ بھی ہیں جن کی وجہ سے اس جنگ نے طول پکڑا۔ سیاسی غلبے کی جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے بالٓاخر ایک بڑی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پڑے، طالبان اور افغان حکومت بشمول امریکا کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا جس میں طالبان کو خاصی مراعات دی گئی ہیں، یہ خبر دنیا کے پرامن لوگوں کے لیے بہت بڑی نیوز ہے جو تین دہائیوں سے افغانستان میں خوشحالی و سکون کے خواہاں ہیں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لڑائی اتنی طول پکڑ جائے گی کہ دو نسلیں اس سے متاثر ہوں گی، لا حاصل جنگ میں زیاں ہی زیاں دونوں فریقوں کے حصے میں آیا۔

1979 کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، کابل میں سردار داود کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ روس کی حامی جماعت پرچم پارٹی کا انقلاب کامیاب ہوا، یکے بعد دیگرے دو حکومتیں آئیں پرچم اور خلق پارٹی میں ٹھنی رہی، حفیظ الامین کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اس نے بزور شمیشر مخالفین کو ختم کیا تھا لیکن خود پارٹی کے امانت دار امین کے دشمن ہوئے، امین کی بے دخلی کے بعد ببرک کارمل نے قیادت سنبھالی۔ روس نے حمایت میں اسی ہزار فوجی اور بہترین جدید ہتھیار فراہم کیے۔ افغانیوں نے روس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا باہر کی فوج اپنے وطن میں اتر آنا ان کی حمیت کے لیے ایک چیلنج بن گیا روس نے ایک بڑے فیصلہ کن قوت کے ساتھ میں قدم رکھا تھا ۔

لیونڈبر ثنیف کو خوش فہمی تھی کہ باہر کی ہتھیار بند فوج افغانستان میں اپنی من پسند کٹھ پتلی حکومت قائم کر لے گی لیکن وہ بھول گئے تھے کہ افغان آزاد پسندی میں یکسر مختلف نظریہ رکھتا ہے۔ افغانستان میں سا ری قوت جھونک دینے باوجود افغانستان کو فتح نہ کر سکے لاکھوں افغان شہید ہوئے آخر کار روسی پسپا ہو کر نکلے تو 1998کو طالبان اقتدار پر قابض ہوئے 2001 کو پھر ایک سپر پاور کو اقتدار کا شوق چرایا روس کے انجام سے عبرت نہ لیتے ہوئے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا لاکھوں مجاہدین نے ملک کا دفاع کیا قید بھی ہوئے ملک کھنڈر میں تبدیل ہوگیا افغانستان تباہ ہوا تورا بورا کی بربادی دنیا کے لیے مثال بن گئی۔


امریکا کو بھی اپنے فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ ملکی اکانومی میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا سیکڑوں امریکی فوجی افغان جنگ میں ہلاک اور ذہنی دباؤ میں آکر خودکشی کر چکے جب افغانستان پر پہلی بار غیر ملکی فوج نے حملہ کیا اس وقت افغانستان کی آبادی 1کروڑ 30 لاکھ تھی روسی جنگ کے بعد5 لاکھ سے 20 لاکھ افغانی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور30 لاکھ تک زخمی اور معذور ہوئے50 لاکھ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے وطن کو خیرآباد کہا تھا سرحدوں پر رفیوجی کیمپ لگے جنھیں مشرق نے روٹی اور مغرب نے ہتھیار سپلائی کیے۔

سیکڑوں خاندان گھروں کو چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزیں ہوئے20 لاکھ اپنے ہی وطن میں بے گھر و آسرا ہو اب کوئی بھی افغانستان میں جنگ نہیں چاہتا افغان ماؤں نے اپنے لخت جگر اس خونی جنگ میں ہا دیے نئی نسلیں بہت محرومی سہ چکی، اس جنگ میں ہماری سرزمین استعمال ہوئی نشے اور کلاشنکوف کا کلچر سمیت شدت پسندی پروان چڑھی ملک کئی سال پیچھے چلا گیا مادی ترقی کسی طرح اگر دوبارہ حاصل کربھی لی جائیں مگر ذہنی ترقی کی رفتار کیسے طے کی جائے گی لڑائی بہت ہو چکی اب مذاکرات سے سیاسی حل نکالا جائے جدید سائنس کی ترقی انسانی فلاح کی خاطر تھی نہ کہ اسلحہ بنائیں جدید ہتھیاروں سے شہر بستیاں ویران کر دیں۔

برٹرینڈرسل کہتے ہیں کہ ''اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی جنگیں نسبتاً خوش گوار تھیں اور آرام دہ بھی ان جنگوں میں زیا دہ تر جنگجو آمنے سامنے ہوا کرتے تھے اور انھی کو جنگ کی زیادہ تر مصیبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں اب زمانہ اور ہے چنانچہ اب جنگ کی صورتوں میں شہریوں کو زیادہ مصائب جھیلنے پڑتے ہیں میں ایک بوڑھا آدمی ہو ں مجھے وہ وقت یاد ہے جب جنگ کے دوران عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچانا مردانہ شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا مگر یہ پرانی بات ہے۔

ان کے زمانے بیت گئے یہ امر بالکل عیاں ہے کہ جب تک پوری دنیا میں ایک حد تک معاشی مساوات پیدا نہیں ہوتی تب تک قوموں کے درمیان حسد اور نفرت پیدا کرنے والے اسباب موجود رہیں گے،، اقتدار اور قبضے کی جنگ میں انسان کس قدر خود غرض ہو جاتا ہے کہ وہ بے گناہ انسانی جانوں کو ختم کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ آج کل تیسری عالمی جنگ کی گونج ہر جانب سنائی دیتی ہے لیکن یہ جنگ تو کب کی چھڑ چکی ہے کیا امن کے علم برداروں کو شام ،فلسطین ،کشمیر ،یمن، عراق اور افغانستان کی تباہی و بربادی دکھائی نہیں دیتی یا پھر مسلمانوں کا خون ارزاں ہے ان کے بیٹوں کی حرمت کوئی معنی نہیں رکھتی ان کے بچوں کو خوراک کپڑے گھر تحفظ کی ضرورت نہیں نہ بے بس بوڑھے نظر آتے ہیں نہ اپنی عزت و جان کی حفاظت کرتی عورتیں دکھائی دیتی ہیں نہ معصوم بچے نظر آتے ہیں۔

جنھوں نے حیرت بھری نظروں سے اس دنیا کو جینا ہے اپنا کردار ادا کرنا ہے جنگ صرف تباہی نہیں مچاتی کئی نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑتا ہے جنگ ،نقل مکانی، بیماری سے نڈھال اور بھوک حتیٰ کہ زندگی کا حق بھی چھین لیتی ہے جنگ کی ہولناکی دیکھ کر تاریخ کا عظیم سپہ سالار اپنے گھوڑے اترتا ہے تلوار پھینک کر جنگ سے تائب ہوتا ہے وہ آدھی دنیا فتح کر چکا تھا اس وقت یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ امن جنگ سے بہتر ہے۔ جنگ خود ایک مسئلہ ہے یہ کہاں مسئلوں کا حل دے گی جنگ کے جنون میں مبتلا لوگوں کو فیس بک پر موجود شادی کی انگھوٹھیوں سے بھرا وہ صندوق دیکھنا چاہیے جن کو پہننے کی آس میں دوسری عالمی جنگ کے فوجی اپنی حسرت لیے مٹی ہو گئے۔
Load Next Story