لاپتہ افراد کیس جنہوں نے ہمارے گلے کاٹے انہیں کیسے چھوڑ دیں اٹارنی جنرل
رہا کیا گیا تو مزید اہلکاروں کو شہید کرینگے، لاپتہ افراد کا مسئلہ الجھا ہوا ہے، بلوچستان لاپتہ افراد کے کیس میں موقف
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا ہے کہ جنھوں نے ہمارے گلے کاٹے انھیں کیسے چھوڑ دیں، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان کے لاپتا افراد کے معاملے میں ایف سی کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتا افراد ہمارے رشتہ دار نہیں مگر آئین ہر شہری کو مساوی حقوق دیتا ہے۔
لاپتا افراد کے اہل خانہ پیدل سفر کرتے ہوئے کوئٹہ سے کراچی پہنچے ہیں مگر کوئی حکومتی اہلکار ان کی داد رسی کیلئے نہیں گیا، کسی نے ان سے کھانااور پانی کا بھی نہیں پوچھا۔بلوچستان کے لاپتا افراد کے اہل خانہ حکومتی اداروں اور ایف سی کی جانب انگلیاں اٹھارہے ہیں۔یہ ریمارکس انہوں نے بدھ کو کراچی رجسٹری میں بلوچستان کے امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئین ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اگر کوئی فرد جرم میں ملوث ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے عدالت میں پیش کریں۔عدالت نے آبزرویشن دی کہ عدالت کو 35لاپتا افراد کی بازیابی کیلیے وزیردفاع کو طلب کرنا پڑا کیوں کہ مبینہ طور پر ان لاپتاافراد فوجی حراستی مراکز کے حوالے کیا گیا تھا۔
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ متعلقہ اداروں کا موقف ہے کہ کئی افراد قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے گلے کاٹنے میں ملوث ہیں انھیں رہا کیا گیا تو مزید جوان شہید ہوجائیں گے،انھوں نے کہا کہ لاپتا افراد کامعاملہ کثیرالجہتی اور الجھا ہوا ہے جس کے حل کیلئے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے، منیر اے ملک نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو آگاہ کردیا ہے کہ لاپتا افرادکا معاملہ انتہائی اہم ہے اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے لاپتا افراد کا معاملہ دیگر صوبوں سے مختلف ہے،یہاں سیاسی معاملات بھی شامل ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بے چارگی کا اظہار کیا ہے ۔ایڈیشنل آئی جی بلوچستان نے عدالت کوبتایا کہ ڈاکٹر مناف اور ڈاکٹر ارباب کاسی سے متعلق بعض شواہد ملے ہیں امید ہے انھیں جلد بازیاب کرالیا جائیگا۔عدالت نے پروگریس رپورٹ پیش کرنیکی ہدایت کرتے ہوئے سماعت28نومبر تک ملتوی کردی۔
لاپتا افراد کے اہل خانہ پیدل سفر کرتے ہوئے کوئٹہ سے کراچی پہنچے ہیں مگر کوئی حکومتی اہلکار ان کی داد رسی کیلئے نہیں گیا، کسی نے ان سے کھانااور پانی کا بھی نہیں پوچھا۔بلوچستان کے لاپتا افراد کے اہل خانہ حکومتی اداروں اور ایف سی کی جانب انگلیاں اٹھارہے ہیں۔یہ ریمارکس انہوں نے بدھ کو کراچی رجسٹری میں بلوچستان کے امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئین ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اگر کوئی فرد جرم میں ملوث ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے عدالت میں پیش کریں۔عدالت نے آبزرویشن دی کہ عدالت کو 35لاپتا افراد کی بازیابی کیلیے وزیردفاع کو طلب کرنا پڑا کیوں کہ مبینہ طور پر ان لاپتاافراد فوجی حراستی مراکز کے حوالے کیا گیا تھا۔
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ متعلقہ اداروں کا موقف ہے کہ کئی افراد قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے گلے کاٹنے میں ملوث ہیں انھیں رہا کیا گیا تو مزید جوان شہید ہوجائیں گے،انھوں نے کہا کہ لاپتا افراد کامعاملہ کثیرالجہتی اور الجھا ہوا ہے جس کے حل کیلئے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے، منیر اے ملک نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو آگاہ کردیا ہے کہ لاپتا افرادکا معاملہ انتہائی اہم ہے اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے لاپتا افراد کا معاملہ دیگر صوبوں سے مختلف ہے،یہاں سیاسی معاملات بھی شامل ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بے چارگی کا اظہار کیا ہے ۔ایڈیشنل آئی جی بلوچستان نے عدالت کوبتایا کہ ڈاکٹر مناف اور ڈاکٹر ارباب کاسی سے متعلق بعض شواہد ملے ہیں امید ہے انھیں جلد بازیاب کرالیا جائیگا۔عدالت نے پروگریس رپورٹ پیش کرنیکی ہدایت کرتے ہوئے سماعت28نومبر تک ملتوی کردی۔