انارکلی
انار کلی کے نام اور اس کی لائف ہسٹری کے ساتھ کئی حکایتیں منسوب ہیں
ہمارے زمانہ طالبعلمی میں اگر کوئی فیملی جس میں ہمارے ہم عمر شامل ہوتے لاہور کی سیر سے واپس آتی تو چڑیا گھر، عجائب گھر، شالامار باغ گھومنے کا ذکر کرنے کے علاوہ انار کلی بازار کا ذکر کرنا نہ بھولتی۔ ان دنوں واقعی سارے لاہور میں انارکلی کی شان اور رونق بے مثال بیان کی جاتی تھی اور بعض لوگ تو سارا دن وہیں گھوم پھر کر گزار دیتے تھے۔ ہمارے بچپن میں لاہور کا انارکلی بازار شہر کی وجہء شہرت تھا۔ دنیا کے ہر شہر کی کوئی عمارت ، یادگار یا کسی اہم واقعے سے منسوب تاریخی کہانی اس شہر کا حوالہ بن کر Visitors کو بتائی جاتی تو وہی مشہور ہو کر تاریخ کے اوراق میں اتر جاتی ہے۔
امریکا سے آئے طارق نے جب انارکلی بازار میں گھومتے ہوئے مجھ سے فرمائش کی کہ انار کلی یعنی Pomegranate blossom کے بارے میں کچھ بتائیں تو میں اسے سول سیکریٹریٹ کی اس عمارت میں لے گیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں انار کلی کا مقبرہ ہے جس وسیع عمارت میں اس کا سنگ مرمر کا مدفن ہے، اس میں عہد مغلیہ کی پینٹنگز کے علاوہ ریکارڈ روم ہے اگر واقعی سنگ مر مر کے مدفن کے نیچے منوں مٹی تلے دفن انارکلی جیسی شخصیت کا جسد خاکی ہے تو اس جگہ کو سیاحوں کے لیے تاریخی ورثے کی اہمیت اور حیثیت دی جانی چاہیے تھی لیکن اس ایک کے پس پردہ کئی قصے کہانیاں ہیں۔
انار کلی کے نام اور اس کی لائف ہسٹری کے ساتھ کئی حکایتیں منسوب ہیں۔ جب وہ پیدا ہوئی تو اس کا نام شریف النساء بتایا جاتا ہے۔ یہ کہانی بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ دربار ِ اکبری کی نہایت خوبصورت اور ماہر رقاصہ تھی جس پر شہزادہ سلیم دل و جان سے عاشق ہو گیا تھا لیکن شہنشاہ اکبر کو یہ بات اس قدر ناپسند گزری کہ اس نے شہزادے کو سزا دینے اور انار کلی کو زندہ درگور کرنے کا ارادہ کر لیا۔ انار کلی کا افسانوی ذکر تحریری انداز میں پہلی بار ایک انگریز ولیم فنچ نے جو ٹورسٹ اور کاروباری شخص تھا مغلیہ عہد میں اگست 1608 میں کیا۔
اسی طرح عبدل حلیم شرر نے تو انار کلی پر پوری کتاب تحریر کی جو آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے لیکن شرر نے اس ناول کی بابت یہ بھی لکھا کہ اس کے ناول کی حیثیت محض افسانوی ہے لیکن یہ لٹریری کاوش کئی آرٹ اور فلموں کی زینت بنی جب کہ مشہور فلم مغل ِ اعظم نے تو اس فلمی کہانی کو اتنی شہرت دی کہ یہ سالہا سال تک دنیا کے سینما گھروں میں کھڑکی توڑ رش لیتی رہی۔ اکبر اعظم کا بیٹا شہزادہ سلیم تو انار کلی کے عشق میں اس قدر غرق بتایا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اس کہانی کو دفن کرنے کے لیے انار کلی کو دو دیواروں کے درمیان چن کر زندہ درگور کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اکبر کے اس فیصلے پر انار کلی یا شریف النساء کو دیواروں کے بیچ چنوا یا تو گیا لیکن اس کی ماں جلو بائی کی منت سماجت پر شہنشاہ اکبر نے اسے جان سے مار دینے پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ لیکن یہ بھی بتایا جاتاہے کہ انار کلی دیواروں میں سے فرار ہو کر پہلے دہلی پھر لاہور پہنچ گئی تھی۔
لاہور کا پرانی انارکلی بازار پہلے وجود میں آیا جب کہ بارونق اور نئے بازار کا قیام بعد کا ہے۔ انارکلی بازار کی سائیڈ والی گلی میں قطب الدین ایبک کا مزار بھی موجود ہے جب کہ اس کے قریب معروف شاعر احسان دانش کی بک شاپ تھی۔ میں ایک بار قطب الدین ایبک کا مزار دیکھنے انار کلی بازار کی پچھلی گلی میں گیا تو مقامی دکاندار نے بتایا کہ مزار نہایت خستہ حالت میں تھا جسے توجہ دلانے پر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر Renovate کیا گیا تھا۔ اپنے شاعری کے ذوق کے پیش ِ نظر میں احسان دانش کی غریبانہ بک شاپ پر گیا تو دیکھا وہ اپنے پالتو کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے۔ انھیں کبوتر پالنے کا بے حد شوق تھا۔ احسان دانش کا بچپن اور جوانی انتہائی غربت کا دور تھا۔ انھوں نے عام مزدور کے طور پر رزق کمایا لیکن اعلیٰ درجے کی شاعری میں بھی نام کمایا۔ احسان سانش کے چند شعر یاد آ رہے ہیں: ۔
یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کھُلے کھُلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
.........
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
.........
دانش مَیں خوف ِ مرگ سے یکسر ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت رسول کی
اب شعیب بن عزیز کے چند شعر انار کلی بازار سے باہر نکل کر سنئے:
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں
اب اداس پھر تے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جتنا میں حریفانِ محبت میں ہوں رُسوا
اتنا تو مجھے عشق کا دعویٰ بھی نہیں ہے
انارکلی کے حوالے سے اکبر اعظم کے تاریخ دان ابوالفضل نے بھی شہزادہ سلیم کی عشقیہ کہانی کو مزاحیہ رنگ دیا ہے۔ لیکن معروف اسکالر محمد باقر نے اپنی تصنیف Lahore Past & Present میں لکھا ہے کہ انار کلی درحقیقت وہ باغ تھا جس میں مزار واقع تھا جب کہ بعد میں اس مزار ہی کو انارکلی کا نام دے دیا گیا۔ اس باغ کا ذکر داراشکوہ جہانگیر کے پوتے نے اپنی تصنیف سکینۃ الاولیاء میں یوں کیا ہے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت میاں میر ؔبیٹھا کرتے تھے۔ انار کلی کے بارے میں کیا سچ ہے اور کیا افسانہ اسے ہر کسی کے تصورات ہی میں گم رہنے دیا جائے تو بہتر ہے ۔
امریکا سے آئے طارق نے جب انارکلی بازار میں گھومتے ہوئے مجھ سے فرمائش کی کہ انار کلی یعنی Pomegranate blossom کے بارے میں کچھ بتائیں تو میں اسے سول سیکریٹریٹ کی اس عمارت میں لے گیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں انار کلی کا مقبرہ ہے جس وسیع عمارت میں اس کا سنگ مرمر کا مدفن ہے، اس میں عہد مغلیہ کی پینٹنگز کے علاوہ ریکارڈ روم ہے اگر واقعی سنگ مر مر کے مدفن کے نیچے منوں مٹی تلے دفن انارکلی جیسی شخصیت کا جسد خاکی ہے تو اس جگہ کو سیاحوں کے لیے تاریخی ورثے کی اہمیت اور حیثیت دی جانی چاہیے تھی لیکن اس ایک کے پس پردہ کئی قصے کہانیاں ہیں۔
انار کلی کے نام اور اس کی لائف ہسٹری کے ساتھ کئی حکایتیں منسوب ہیں۔ جب وہ پیدا ہوئی تو اس کا نام شریف النساء بتایا جاتا ہے۔ یہ کہانی بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ دربار ِ اکبری کی نہایت خوبصورت اور ماہر رقاصہ تھی جس پر شہزادہ سلیم دل و جان سے عاشق ہو گیا تھا لیکن شہنشاہ اکبر کو یہ بات اس قدر ناپسند گزری کہ اس نے شہزادے کو سزا دینے اور انار کلی کو زندہ درگور کرنے کا ارادہ کر لیا۔ انار کلی کا افسانوی ذکر تحریری انداز میں پہلی بار ایک انگریز ولیم فنچ نے جو ٹورسٹ اور کاروباری شخص تھا مغلیہ عہد میں اگست 1608 میں کیا۔
اسی طرح عبدل حلیم شرر نے تو انار کلی پر پوری کتاب تحریر کی جو آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے لیکن شرر نے اس ناول کی بابت یہ بھی لکھا کہ اس کے ناول کی حیثیت محض افسانوی ہے لیکن یہ لٹریری کاوش کئی آرٹ اور فلموں کی زینت بنی جب کہ مشہور فلم مغل ِ اعظم نے تو اس فلمی کہانی کو اتنی شہرت دی کہ یہ سالہا سال تک دنیا کے سینما گھروں میں کھڑکی توڑ رش لیتی رہی۔ اکبر اعظم کا بیٹا شہزادہ سلیم تو انار کلی کے عشق میں اس قدر غرق بتایا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اس کہانی کو دفن کرنے کے لیے انار کلی کو دو دیواروں کے درمیان چن کر زندہ درگور کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اکبر کے اس فیصلے پر انار کلی یا شریف النساء کو دیواروں کے بیچ چنوا یا تو گیا لیکن اس کی ماں جلو بائی کی منت سماجت پر شہنشاہ اکبر نے اسے جان سے مار دینے پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ لیکن یہ بھی بتایا جاتاہے کہ انار کلی دیواروں میں سے فرار ہو کر پہلے دہلی پھر لاہور پہنچ گئی تھی۔
لاہور کا پرانی انارکلی بازار پہلے وجود میں آیا جب کہ بارونق اور نئے بازار کا قیام بعد کا ہے۔ انارکلی بازار کی سائیڈ والی گلی میں قطب الدین ایبک کا مزار بھی موجود ہے جب کہ اس کے قریب معروف شاعر احسان دانش کی بک شاپ تھی۔ میں ایک بار قطب الدین ایبک کا مزار دیکھنے انار کلی بازار کی پچھلی گلی میں گیا تو مقامی دکاندار نے بتایا کہ مزار نہایت خستہ حالت میں تھا جسے توجہ دلانے پر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر Renovate کیا گیا تھا۔ اپنے شاعری کے ذوق کے پیش ِ نظر میں احسان دانش کی غریبانہ بک شاپ پر گیا تو دیکھا وہ اپنے پالتو کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے۔ انھیں کبوتر پالنے کا بے حد شوق تھا۔ احسان دانش کا بچپن اور جوانی انتہائی غربت کا دور تھا۔ انھوں نے عام مزدور کے طور پر رزق کمایا لیکن اعلیٰ درجے کی شاعری میں بھی نام کمایا۔ احسان سانش کے چند شعر یاد آ رہے ہیں: ۔
یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کھُلے کھُلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
.........
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
.........
دانش مَیں خوف ِ مرگ سے یکسر ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت رسول کی
اب شعیب بن عزیز کے چند شعر انار کلی بازار سے باہر نکل کر سنئے:
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں
اب اداس پھر تے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جتنا میں حریفانِ محبت میں ہوں رُسوا
اتنا تو مجھے عشق کا دعویٰ بھی نہیں ہے
انارکلی کے حوالے سے اکبر اعظم کے تاریخ دان ابوالفضل نے بھی شہزادہ سلیم کی عشقیہ کہانی کو مزاحیہ رنگ دیا ہے۔ لیکن معروف اسکالر محمد باقر نے اپنی تصنیف Lahore Past & Present میں لکھا ہے کہ انار کلی درحقیقت وہ باغ تھا جس میں مزار واقع تھا جب کہ بعد میں اس مزار ہی کو انارکلی کا نام دے دیا گیا۔ اس باغ کا ذکر داراشکوہ جہانگیر کے پوتے نے اپنی تصنیف سکینۃ الاولیاء میں یوں کیا ہے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت میاں میر ؔبیٹھا کرتے تھے۔ انار کلی کے بارے میں کیا سچ ہے اور کیا افسانہ اسے ہر کسی کے تصورات ہی میں گم رہنے دیا جائے تو بہتر ہے ۔