کلیاتِ شاعر صدیقی
اپنے مضمون میں انھوں نے اپنے ان دیرینہ دوستوں کا بھی ذکر کیا ہے جو برے وقت میں ان کے کام آئے
شاعر صدیقی کی اصناف سخن پر مبنی '' کلیاتِ شاعر صدیقی'' کے عنوان سے حال ہی میں شایع ہوئی ہے، یہ شعری مجموعہ ان کی محنت شاقہ اور شاعری سے عشق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ شاعر صدیقی کئی اہم شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ رنگِ ادب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ادارے سے زیادہ تر کتابیں جن میں شاعر صدیقی نمبر بھی شامل ہے اشاعت کے مراحل سے گزری ہیں۔
حمدیہ و نعتیہ اشعار سے کتاب کی ابتدا ہوئی ہے۔ شاعر صدیقی کی تخلیق کردہ کئی نعتیں زبان زدعام ہوکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں چپے چپے پر ان کے عقیدت بھرے جذبات و الفاظ کی دھوم مچ گئی۔ احمد رشدی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور آج بھی دلوں کو گرمانے اور ایمان کو حرارت بخشنے والے اشعار کو جوکہ نعت کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں کوئی بھی ایسا شخص جو اللہ اور اس کے حبیب پاکؐ سے محبت و عقیدت رکھتا ہے وہ شاعر صدیقی کی شاعری خصوصاً اس نعت گوئی کو بھلا نہیں سکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے چند اشعار:
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
مدینے سے گزر جب ہو صبا، صلی علی پڑھ کر
ادب سے روضۂ اقدس کو چومنا بڑھ کر
پھر ان سے دیدہ و دل کا پیام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
شاعر صدیقی جب عمرہ کرکے وطن تشریف لائے تو بے اختیار دلی کیفیت کو شاعری کے قلب میں ڈھال دیا۔
نظر میں شہرِ مدینہ بسا کے لایا ہوں
آج نور کے سانچے میں ڈھل کے آیا ہوں
شاعر صدیقی ہجرت کے دہرے کرب سے گزرے ہیں اس اذیت کا اظہار انھوں نے اس طرح کیا ہے۔
گھر کی تقسیم جب ہوئی شاعر
اپنے حصے میں بے گھری آئی
ان کی شاعری میں تلخ تجربات اور زمانے کی ستم گری کا نوحہ گونجتا نظر آتا ہے وہ بار بار کٹھنائیوں اور آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ غم، مصائب و تکالیف کا احساس ان کی غزلیات اور نظموں میں دَر آیا ہے۔
اپنے مشاہدے کی بنا پر صحنِ گلستان کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں۔
بہار آئی مگر کچھ اس طرح صحنِ گلستاں میں
خزاں کی آندھیاں چلنے لگیں فصلِ بہاراں میں
اگر احساس ہوتا ہے کبھی اپنی تباہی کا
تو چند آنسو چھلک کر جذب ہو جاتے ہیں داماں میں
شاعر و نقاد اکرم کنجاہی شاعر صدیقی کے بارے میں لکھتے ہیں ''شاعر صدیقی غزل کے اچھے شاعر ہیں اس لیے ان کی غزل میں حزینہ عناصر درد و غم اور رنج و الم بھی کم نہیں ہیں۔ دردِ دل، دردِ جگر، دردِ الم، دردِ فراق پیار کی سوغات ہیں، انھوں نے ہر درد کا بھرم رکھا ہوا ہے اور دیدہ گریہ سے درخواست گزار ہیں کہ بھرم رکھنا۔
اکرم کنجاہی نے 42 صفحات پر مقدمہ درج کیا ہے اور شاعری کی اصناف اور ان کے حالات زندگی خصوصاً ہجرت اور ان کے دوست احباب کے بارے میں معلومات فراہم کی ہے۔قلم کار حساس ہوتا ہے ہر واقعہ اور ہر غم کی کیفیت کو شدت سے محسوس کرتا ہے، زمانے کی ستم انگیزیاں، بدلتے حالات، شامِ غم اور لہو کی برسات اسے اتنا غمزدہ کردیتی ہے کہ اس کا قلم سیاہی کی جگہ خون اگلنے لگتا ہے اور سچائی کا سورج سوا نیزے پر اتر آتا ہے یہی تخلیقیت تاریخ کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے، زمانے سانس لیتے ہیں، سانحات و حادثات الفاظ کی شکل میں زندہ ہو جاتے ہیں بے شک ایک سچا لکھاری اپنے وقت کی تاریخ مرتب کرتا ہے۔
ہمارے بزرگ شاعر جناب شاعر صدیقی نے بھی خزاں کے بہت سے رنگ دیکھے ہیں، پت جھڑ کا موسم، ہو کا عالم، چلچلاتی دھوپ کے ریگزار، اپنوں کو تڑپتا اور سسکتا ہوا دیکھا۔ جس طرح ان کی غزلیں آپ بیتی اور جگ بیتی کی داستان سنا رہی ہیں اسی طرح ان کی نظمیہ شاعری بھی بیتے اور موجودہ دنوں کا مرثیہ لکھ رہی ہے۔ ایک اہم تحریر ''یادوں کے جھروکوں سے'' شاعر صدیقی کی ہے۔ آخری صفحات دکھوں کی سیاہ رات اور خونی یادوں کے دیے جلا رہی ہے کہ معتبر و ممتاز قلم کار نے بقول غالب ''درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا'' اپنی دکھ بھری بپتا اشکبار آنکھوں اور زخمی دل کے ساتھ سنائی ہے کہ کس طرح انھیں دو ہجرتوں کی مسافتوں کو طے کرنا پڑا، ان راستوں پر خون کے دریا بھی تھے اور معصوم و بے گناہ لوگوں کی چیخیں بھی۔ یہی وہ احساس تھا جب انھوں نے ''سولہ دسمبر'' جیسی نظم اس وقت لکھی جب سقوط مشرقی پاکستان کی پہلی برسی تھی۔ وہ اس دکھ بھری داستان کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں کہ اس کہانی میں وہ بھی شریک تھے۔ ان کے یہ شعر اس بات کا ثبوت بن کر سامنے آئے ہیں۔
پرچھائیاں بن بن کر ابھرتے ہیں مناظر
وہ خونی مناظر کہ نظر کانپ اٹھی ہے
وہ خون وہ خنجر' وہ تڑپتی ہوئی لاشیں
پھر آج ہر اک راہ گزر کانپ اٹھی ہے
اپنے مضمون میں انھوں نے اپنے ان دیرینہ دوستوں کا بھی ذکر کیا ہے جو برے وقت میں ان کے کام آئے انھیں سہارا دیا ہمت بندھائی وہ ''رنگ ادب'' کے شاعر علی کے لیے بھی ممنویت کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی کتابوں کی اشاعت میں ان کا مکمل تعاون اور خلوص شامل رہا ہے۔ شاعر صدیقی نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور ان گیتوں کو فردوسی بیگم، احمد رشدی، عالمگیر اور شہناز بیگم جیسے لیجنڈ فنکاروں نے گایا اور شبنم، ندیم،شبانہ جیسے بڑے اداکاروں پر فلمائے گئے ان کا شمار اپنے وقت کے شہرت یافتہ گیتوں میں ہوتا ہے اور آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔
حمدیہ و نعتیہ اشعار سے کتاب کی ابتدا ہوئی ہے۔ شاعر صدیقی کی تخلیق کردہ کئی نعتیں زبان زدعام ہوکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں چپے چپے پر ان کے عقیدت بھرے جذبات و الفاظ کی دھوم مچ گئی۔ احمد رشدی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور آج بھی دلوں کو گرمانے اور ایمان کو حرارت بخشنے والے اشعار کو جوکہ نعت کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں کوئی بھی ایسا شخص جو اللہ اور اس کے حبیب پاکؐ سے محبت و عقیدت رکھتا ہے وہ شاعر صدیقی کی شاعری خصوصاً اس نعت گوئی کو بھلا نہیں سکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے چند اشعار:
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
مدینے سے گزر جب ہو صبا، صلی علی پڑھ کر
ادب سے روضۂ اقدس کو چومنا بڑھ کر
پھر ان سے دیدہ و دل کا پیام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
شاعر صدیقی جب عمرہ کرکے وطن تشریف لائے تو بے اختیار دلی کیفیت کو شاعری کے قلب میں ڈھال دیا۔
نظر میں شہرِ مدینہ بسا کے لایا ہوں
آج نور کے سانچے میں ڈھل کے آیا ہوں
شاعر صدیقی ہجرت کے دہرے کرب سے گزرے ہیں اس اذیت کا اظہار انھوں نے اس طرح کیا ہے۔
گھر کی تقسیم جب ہوئی شاعر
اپنے حصے میں بے گھری آئی
ان کی شاعری میں تلخ تجربات اور زمانے کی ستم گری کا نوحہ گونجتا نظر آتا ہے وہ بار بار کٹھنائیوں اور آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ غم، مصائب و تکالیف کا احساس ان کی غزلیات اور نظموں میں دَر آیا ہے۔
اپنے مشاہدے کی بنا پر صحنِ گلستان کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں۔
بہار آئی مگر کچھ اس طرح صحنِ گلستاں میں
خزاں کی آندھیاں چلنے لگیں فصلِ بہاراں میں
اگر احساس ہوتا ہے کبھی اپنی تباہی کا
تو چند آنسو چھلک کر جذب ہو جاتے ہیں داماں میں
شاعر و نقاد اکرم کنجاہی شاعر صدیقی کے بارے میں لکھتے ہیں ''شاعر صدیقی غزل کے اچھے شاعر ہیں اس لیے ان کی غزل میں حزینہ عناصر درد و غم اور رنج و الم بھی کم نہیں ہیں۔ دردِ دل، دردِ جگر، دردِ الم، دردِ فراق پیار کی سوغات ہیں، انھوں نے ہر درد کا بھرم رکھا ہوا ہے اور دیدہ گریہ سے درخواست گزار ہیں کہ بھرم رکھنا۔
اکرم کنجاہی نے 42 صفحات پر مقدمہ درج کیا ہے اور شاعری کی اصناف اور ان کے حالات زندگی خصوصاً ہجرت اور ان کے دوست احباب کے بارے میں معلومات فراہم کی ہے۔قلم کار حساس ہوتا ہے ہر واقعہ اور ہر غم کی کیفیت کو شدت سے محسوس کرتا ہے، زمانے کی ستم انگیزیاں، بدلتے حالات، شامِ غم اور لہو کی برسات اسے اتنا غمزدہ کردیتی ہے کہ اس کا قلم سیاہی کی جگہ خون اگلنے لگتا ہے اور سچائی کا سورج سوا نیزے پر اتر آتا ہے یہی تخلیقیت تاریخ کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے، زمانے سانس لیتے ہیں، سانحات و حادثات الفاظ کی شکل میں زندہ ہو جاتے ہیں بے شک ایک سچا لکھاری اپنے وقت کی تاریخ مرتب کرتا ہے۔
ہمارے بزرگ شاعر جناب شاعر صدیقی نے بھی خزاں کے بہت سے رنگ دیکھے ہیں، پت جھڑ کا موسم، ہو کا عالم، چلچلاتی دھوپ کے ریگزار، اپنوں کو تڑپتا اور سسکتا ہوا دیکھا۔ جس طرح ان کی غزلیں آپ بیتی اور جگ بیتی کی داستان سنا رہی ہیں اسی طرح ان کی نظمیہ شاعری بھی بیتے اور موجودہ دنوں کا مرثیہ لکھ رہی ہے۔ ایک اہم تحریر ''یادوں کے جھروکوں سے'' شاعر صدیقی کی ہے۔ آخری صفحات دکھوں کی سیاہ رات اور خونی یادوں کے دیے جلا رہی ہے کہ معتبر و ممتاز قلم کار نے بقول غالب ''درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا'' اپنی دکھ بھری بپتا اشکبار آنکھوں اور زخمی دل کے ساتھ سنائی ہے کہ کس طرح انھیں دو ہجرتوں کی مسافتوں کو طے کرنا پڑا، ان راستوں پر خون کے دریا بھی تھے اور معصوم و بے گناہ لوگوں کی چیخیں بھی۔ یہی وہ احساس تھا جب انھوں نے ''سولہ دسمبر'' جیسی نظم اس وقت لکھی جب سقوط مشرقی پاکستان کی پہلی برسی تھی۔ وہ اس دکھ بھری داستان کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں کہ اس کہانی میں وہ بھی شریک تھے۔ ان کے یہ شعر اس بات کا ثبوت بن کر سامنے آئے ہیں۔
پرچھائیاں بن بن کر ابھرتے ہیں مناظر
وہ خونی مناظر کہ نظر کانپ اٹھی ہے
وہ خون وہ خنجر' وہ تڑپتی ہوئی لاشیں
پھر آج ہر اک راہ گزر کانپ اٹھی ہے
اپنے مضمون میں انھوں نے اپنے ان دیرینہ دوستوں کا بھی ذکر کیا ہے جو برے وقت میں ان کے کام آئے انھیں سہارا دیا ہمت بندھائی وہ ''رنگ ادب'' کے شاعر علی کے لیے بھی ممنویت کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی کتابوں کی اشاعت میں ان کا مکمل تعاون اور خلوص شامل رہا ہے۔ شاعر صدیقی نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور ان گیتوں کو فردوسی بیگم، احمد رشدی، عالمگیر اور شہناز بیگم جیسے لیجنڈ فنکاروں نے گایا اور شبنم، ندیم،شبانہ جیسے بڑے اداکاروں پر فلمائے گئے ان کا شمار اپنے وقت کے شہرت یافتہ گیتوں میں ہوتا ہے اور آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔