سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قد

قابل رحم ہے وہ قوم جس کے گنتی کے کچھ افراد کے سوا باقی سبھی کی زندگی ایک دکھ بھری داستان ہو

قابل رحم ہے وہ قوم جس کے گنتی کے کچھ افراد کے سوا باقی سبھی کی زندگی ایک دکھ بھری داستان ہو

قابل رحم ہے وہ قوم جس کے گنتی کے کچھ افراد کے سوا باقی سبھی کی زندگی ایک دکھ بھری داستان ہو۔ عمر حیات میں بڑھاپا ایک ایسا تکلیف دہ دورانیہ یا پیریڈ ہوتا ہے جسے حرف عام میں بُراپا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بڑھاپا موت کا قاصد اور فنا کا سب سے آخری وعدہ ہے۔ غم اور دکھ کو دو بڑھاپوں میں سے ایک بڑھاپا سمجھا جاتا ہے۔

بڑھاپے میں اولاد اور جسمانی اعضا دونوں ایک ساتھ جواب دینے لگتے ہیں، اس دور میں بیوی اور برداشت کا ساتھ بھی کم ہونے لگتا ہے۔ بڑھاپا پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی دھکے دینے سے جاتا ہے، اس دور میں دانت جانے لگتے ہیں اور عقل آنے لگتی ہے، غصے اور جھنجھلاہٹ کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان جرم اور اپنا بڑھاپا بہت مشکل سے قبول کرتا ہے اور یہ بھی جھوٹ نہیں کہ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور ایک جوان چھپا ہوتا ہے، لیکن بڑھاپے کی ایک بری ادا یہ بھی ہوتی ہے کہ اس اسٹیج میں اچھی بھلی آنٹیاں تک ''انکل'' کہنے لگتی ہیں لیکن اس کا برا نہیں منانا چاہیے اور یہ بھی درست ہے کہ بوڑھے اگر نہ ہوتے تو چشموں، دانتوں، چھڑیوں اور ہیئرکلرکی انڈسٹری مکمل تباہ ہوگئی ہوتی۔

عصر حاضر میں ناروے، سوئیڈن اور ڈنمارک دنیا کی مثالی رفاہی اور معاشرتی ریاستیں ہیں جہاں ضرورت مندوں خاص کر عمر رسیدہ لوگوں کو گرم جرابوں، گرم ٹوپیوں سے لے کرکافی کے ڈبے اور دودھ تک احترام کی مٹھاس کے ساتھ دیے جاتے ہیں۔ وہاں انسان کے انسان سے رشتے کمزور ہیں، البتہ ریاست کا ہر شہری سے رشتہ بہت مضبوط ہے لیکن ہمارے ملک میں دونوں ہی نہیں ہیں بلکہ یہاں تو ہر عمر کے ''عام شہری'' کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت ہر سطح پر عام ہے، تاہم اچھا خاندان یا گھرانہ اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گئے وقتوں کے بڑے بوڑھے گھرکا ستون ، مرکزی دروازہ ، گھر کی پہچان اورگھرکی رونق ہوتے تھے۔ ان کے فیصلوں کے آگے کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ اسے نظر انداز کرسکے، ان سے پوچھ کر گھر سے نکلنا اور انھی کے ڈر یا احترام میں رات گئے گھر پلٹنے سے گریزکیا جاتا تھا۔ پہلے بڑے بوڑھوں سے گھرکے نوزائیدہ بچوں کے نام بھی رکھوائے جاتے، کسی کے رشتے یا شادی بیاہ کی بات ہوتی تو آخری فیصلہ انھی بڑے بوڑھوں کا ہوتا، کسی تقریب کا آغاز اور کھانے کے برتن کو اس وقت تک ہاتھ نہ لگایا جاتا جب تک کہ خاندان یا گھر کے بزرگ کی آمد نہ ہو جاتی۔ لڑائی جھگڑے میں تصفیہ بھی انھی سے کرایا جاتا، لیکن ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی تباہ حالی نے سبھی رشتوں میں سے احترام، عزت اور اپنائیت ختم کرکے رکھ دی ہے یوں اب گھر کے بڑے بوڑھے کاٹھ کباڑ یا پرانے فرنیچر کی طرح ہوگئے ہیں۔

پہلے بوڑھوں کو زیرک یا سیانا سمجھا جاتا تھا لیکن اب انھیں صرف اور صرف بوجھ ہی سمجھا جاتا ہے۔پہلے کے والدین درجن بھر بچوں کی کفالت کرتے تھے اور ان کے ماتھے پر بل نہیں آتے تھے لیکن اب درجن بھر بچے ایک ماں باپ کی کفالت کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

خاص طور پر بیمار و لاچار والدین جب بستر پر پڑ جاتے ہیں تو ان کی گد بننی شروع ہوجاتی ہے۔ بیٹے بالخصوص جوان بیٹے اپنی بیوی اور بچوں کے ناز نخرے دیکھنے لگتے ہیں، کاش وہ جان پاتے کہ بیٹوں کی زندگی والدین کی دعاؤں سے بنتی ہے بیوی کی اداؤں سے نہیں۔بیشتر بیٹے معقول جواز تلاش کرکے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی دوسری جگہ جا بستے ہیں، نہ ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی اعانت ان کا فرض رہ جاتی ہے صرف اور صرف بیوی بچے ہی ان کی پہلی اور آخری ذمے داری بن جاتے ہیں۔


کیا ہی اچھا ہوتا کہ جوان اولادیں کسی لمحے یہ سوچ پاتیں کہ ایک نہ ایک دن انھیں بھی ناقدری، عدم توجہی اور لاچاری و نظراندازی کے پلنگ پر دراز ہونا پڑے گا کہ یہ اکیس ویں صدی کا تقاضا بھی ہے اور مکافات عمل بھی۔ بہرحال خدا کسی کو ایسا بڑھاپا نہ دے جس میں انسان کے پوشیدہ اعضا اس کے اپنے یا پرائے دیکھیں۔ بہت ہی خوش قسمت ہوتے ہیں وہ بوڑھے والدین جن کی اولادیں ان کی ہر طرح سے خدمت کرتی ہیں اور دنیا وآخرت دونوں جگہ اپنی عاقبت اور سرخروئی ثابت کرکے اسے سنوارنے کا اہتمام و انتظام کرلیتی ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ یعنی بوڑھے والدین نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ہے۔

لیکن فی زمانہ یہ کلیہ بھی غلط ثابت ہوگیا ہے، بڑے بوڑھے کی اوقات کوڑیوں کا مول بلکہ کھوٹے سکے کی حیثیت اختیارکرگئی ہے۔ گیارہ سال مسلسل ہم نے بینک میں پنشن کی سیٹ پر کام کیا تو دیکھا کہ تقریباً سبھی پنشنرز کی ایک ہی کہانی ہے، سبھی اپنے گھر والوں کے رویے سے شاکی اور ان کے رویوں کے طلبگار ثابت ہوئے، ہر دوسرے پنشنر کی داستان سن کر ہماری آنکھیں ان کی آنکھوں کی طرح نمناک ہوتی رہیں لیکن اس کا مداوا اس کا تدارک اگر آنسو ہی ہوتے تو وہ کبھی آنکھ میں آتے ہی نہیں۔ بیشتر بوڑھے اپنا حال دل کہنے کے لیے لوگوں کو ڈھونڈتے اور لوگ ان سے بچتے پھرتے پائے جاتے ہیں۔

کچھ لوگ بڑھاپے میں ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتے ہیں ان میں سے بعض پانچ وقت اللہ کے گھر حاضری دیتے ہیں اور بیشتر کا چکرکبھی کبھار ہی مسجد کا لگ پاتا ہے وہ دین داری کے بجائے دنیاداری کے چکر میں پڑے رہتے ہیں، اخبار، ٹی وی اسکرین اورگلی محلے کے بے کار لوگوں سے ان کا ٹاک شو چلتا رہتا ہے۔ بعض بوڑھے رعونیت میں اپنی زندگی کا سنہری دور گزارتے ہوئے انسان کو انسان نہیں سمجھتے لیکن عمر کے اس حصے میں آکر لوگوں کے سلام کا جواب بھی خوش دلی سے دینے لگتے ہیں۔ اکثر سفید پوش بوڑھے پنشن پرگزارا کرتے اور اپنے گھر کے باہر، یا پارکوں میں اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ گیدرنگ کرکے بہت خوش رہتے ہیں، اپنی اولادوں سے ملنے والا دکھ ان کی اولاد کی اولادوں کی طرف سے ملنے والے سکھ یا قرار کو وہ بہت انجوائے کرتے ہیں، انھیں اسکول، ٹیوشن ڈراپ کرتے ہیں اور مطالعہ اور ٹی وی ڈراموں میں اپنا بقیہ وقت پورا کرتے رہتے ہیں۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اکثر بوڑھے انسان مرنے سے بہت ڈرتے ہیں، شاید اس لیے کہ وہ اپنے پیاروں اور ان سے جڑی یادوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے، لیکن جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے پرائے اور آشنا اجنبی بن گئے تو پھر موت ہی کو یاد کرکے اس کے حوالے خود کو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ کاری بھلائی کے کام اور نیک اولادیں ہیں لیکن انسانوں کی اکثریت یہ سرمایہ ضایع کرکے خسارے کی زندگی گزارتی ہے۔ بعض اوقات ترکے میں ملی ہوئی پراپرٹی کے ساتھ ساتھ بوڑھے باپ کے گناہوں کا قرض بھی اولادوں کے حصے میں آجاتا ہے اور ایمان دار بچوں کو وہ قرض چکانا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کے نوے فیصد بوڑھوں کا المیہ ان کی نافرمان اولادیں ہیں کیونکہ نافرمان اولاد ہاتھ کی چھٹی انگلی کی طرح ہوتی ہے، کاٹنے سے درد ہوتا ہے اور اگر نہ کاٹو تو ہاتھ کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔ الغرض یہ کہ:

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قد

یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
Load Next Story