بھارتی متنازع شہریت بل اور اقوام ِ متحدہ

بھارتی بل اقوام متحدہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ جس سے اقوام متحدہ کے مستقبل میں کردار کا تعین ہوگا

بھارتی بل اقوام متحدہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ جس سے اقوام متحدہ کے مستقبل میں کردار کا تعین ہوگا

دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیے گئے اقوام ِ متحدہ کا مقصد دنیا بھر میں قوموں اور ملکوں کے درمیان باہمی تنازعات کا پُرامن طریقے سے حل نکالنا، امن امان کو قائم رکھنا اور دنیا میں کسی بھی طرح کی پیدا ہونے والی صورتحال میں اپنا رہنما کردار ادا کرنا تھا ۔ حالانکہ اب تک کے واقعات اور حالات کی بناء پر کہا جاتا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا درج بالا اُمور میں کردار مؤثر نہیں رہا بلکہ کہیں کہیں تو فریق یا پھر بے بس نظر آیا۔ لیکن اُس کے باوجود دنیا میں کئی ایسے محاذ ہیں جہاں کی صورتحال صرف اور صرف اقوام متحدہ کے کردار کی وجہ سے کنٹرول میں ہے یا رہی ہے ، جیسے کشمیر اور پاک بھارت کنٹرول لائن۔ چونکہ اقوام متحدہ جنگ کے دور کے اتحاد کی پیداوار تھی اور یہ توقع رکھی جارہی تھی کہ جس طرح اس اتحاد نے جنگ جیتی ہے اسی طرح اتحاد امن کو بھی برقرار رکھے گا۔

بدقسمتی سے چار ٹر پر دستخط کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ بڑی طاقتوں کے مابین کشیدگیاں اور اندرونی اختلافات پیدا ہوگئے اور ''منقسم دنیا '' کی تلخ حقیقت نے اقوام متحدہ کی کامیاب کارکردگی کو متاثر کیا ۔ جب بھی سلامتی کونسل میں کسی تنازعے میں پہل کے سوال اور امن کے لیے خطرے کے کسی مسئلے پر غور شروع ہوا تو اکثر ''ویٹو پاور '' (حتمی رائے کی طاقت) کا استعمال ہونا شروع ہوا ، جس کے پیش ِ نظر سلامتی کونسل کے اختیارات جنرل اسمبلی کی جانب منتقل کردیے گئے۔ روس نے اس کی شدید مخالفت کی لیکن امریکا اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا ۔ یوں سلامتی کونسل کے اختیارات جنرل اسمبلی کو منتقل ہوگئے اور جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے فیصلے کیے جانے لگے ۔ قومیں چونکہ مختلف بلاکوں میں منقسم ہیں اس لیے ہی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں رسہ کشی ہوتی ہے اور اس رسہ کشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگیاں ہی ہیں جن کا ہم ''سرد جنگ'' سے متعلق گفتگو میں حوالہ دیتے ہیں ۔

اور دیکھنے میں آیا ہے کہ جب قومیں تقسیم ہوجائیں اور جب بڑی طاقتوں کی سیاسی گروہ بندیاں ہونے لگیں تو پھر اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ ادارے چارٹر کے مقاصد حاصل کرنے کے بجائے اُس سرد جنگ میں شامل فریقین کے نقطہ نظر کی وضاحت اور تبلیغ کے لیے ہی اکھاڑوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور یہی صورتحال گذشتہ 75سال سے اقوام متحدہ کی ہے جو کہ اُس کی کارکردگی پر اثر انداز رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ دنیا کا طاقتور ترین ادارہ بھی تنازعات کو حل کرنے میں لاچار اور بے بس نظر آتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل -فلسطین اور پاک -بھارت -کشمیر کشیدگی سمیت دنیا کے مختلف تنازعے اب تک حل کرنے میں اقوام متحدہ ناکام رہا ہے ۔ خاص طور پر اگر کشمیر ایشو کو دیکھیں تو لائین آف کنٹرول ( LOC) کی صورت میں اقوام متحدہ کی Jurisdictionہونے اوراس پر کئی قرار دادیں پاس کرنے کے باوجود اقوام متحدہ نہ تو اپنی قراردادوں پر عمل کرواسکا ہے اور نہ ہی LOCکی پابندی کرواسکا ہے ۔ آئے دن LOC پر بھارت کی جانب سے خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے جوکہ پاک بھارت جنگی ماحول کے جاری رہنے کا باعث ہے ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے بجائے امریکا عملی طور پر تنازعات کو حل کرنے کی مجاز اختیاری بننے کی کوشش کررہا ہے اور دیگر ممالک سمیت پاک بھارت کے مابین تنازعے پر ثالثی کی بھی پیشکش کررہا ہے ۔ اگر یہ کسی ایک طاقتور ملک کو ہی کرنا ہے تو پھر اقوام متحدہ کے باقی رہنے کی کیا وجہ رہ جاتی ہے؟

یہی وہ سوال ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے دنیا کی حقیقت بن چکا ہے اور یہ دنیا کے عالمی امن پسندممالک کے ساتھ ساتھ خود اقوام متحدہ کو بھی شاید اب گراں گذر رہا ہے ۔ تبھی تاریخ میں پہلی بار کسی دو ملکی بلکہ دو قومی تنازعے کے حل میں اقوا م متحدہ کو براہ راست فریق بنتے دیکھا گیا ہے ، اور بھارت میں متنازعہ شہریت بل کے خلاف بھارت کے مقابل آکر اس متنازعہ قانون کے خلاف بھارتی عدالت میںپہنچ گیا ہے ۔

اس معاملے پر بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے لیکن عالمی آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب کوئی کثیر القومی ملک اپنے قوانین میں کسی ایک قوم کوفوقیت دیتے ہوئے دیگر اقوام کے خلاف تفریق رکھے اور اس قانون کے باعث دیگر قوموں کے حقوق سلب ہونے لگیں تو پھر یہ اقوام متحدہ کی Jurisdictionمیں اور اس کی ذمے داریوں میں شامل ہوجاتا ہے ، کیونکہ اقوام متحدہ ، ممالک یا حکومتوں کا اتحاد نہیں بلکہ اقوام کا اتحاد ہے ، اور اُسے اپنے نام کے مطابق کام کرنا چاہیے ۔ دنیا بھر کی اقوام کو برابری ، توقیر اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دنیا کے امن کو قائم رکھنے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔

جہاں تک بات ہے قوموں کے مابین باہمی تعاون کی تو یہ غور طلب معاملہ ہے کہ بین الاقوامی تعاون کس کے بیچ میں ؟ کس لیے ؟ اور اس کا فلسفہ کیا ہے ؟ چور یا ڈاکو اگر آپس میں تعاون کرکے کوئی واردات کرتے ہیں تو کیا ایسے تعاون کو بین الاقوامی سطح پر یا کسی اور قانون کی نظر سے اہمیت دی جاسکتی ہے ؟ تو جواب یقینا نہیں ہوگا۔ تو پھر کیسے منفی یا انسان سوز قوتوں کے تعاون کو مثبت یا انسان دوست قوتوں کے مابین تعاون کے مساوی سمجھا جاسکتا ہے ، یا پھر دونوں کیسے برابر قرار دیے جاسکتے ہیں ۔ اس لیے دنیا کے امن اور انسانی برابری کو اُتم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ دنیا میں تنازعے میں پہل کرنے والے یا جبر و بربریت کی راہ اختیار کرنے والے فریق کو قصوروار قرار دیکر اُس کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ یہی انسانی ذات کی مجموعی بھلائی کے لیے حالات سازگار بنانے کے شدید جذبے کا حامل واحد طریقہ ہوگا، ورنہ تو خیر اور شر ، حق اور ناحق یا پھر انسانی و غیر انسانی عوامل کی شناخت ہی ختم ہوکر رہ جائے گی۔

اقوام متحدہ کی بناوٹ اور اس کے فرائض ، اُس کے چارٹر یعنی ''لیگ آف نیشن'' کے عہدنامے سے عیاں ہوتے ہیں ، جس کی ابتدا ء ''ہم متحدہ اقوام کے عوام '' کے الفاظ سے ہوتی ہے ۔ یہاں عوام کا مفہوم بالکل اسی طرح آیا ہے جس مفہوم سے امریکی آئین میں متحدہ ریاست ہائے امریکا کے عوام والا جملہ آیا ہے۔ اسی بناء پر اسے اقوام متحدہ کا نام دیا گیا اور اسی تناظر میں عملی طور پر مختلف ممالک کا اندرونی حصہ ہونے کے باوجود ایسی اقوام کے مندوبین کو اقوام متحدہ میں علیحدہ جگہ یا شمولیت دی گئی ہے ، جن کو اپنے ملک میں اندرونی تنازعات کا سامنا ہے ۔

اور عوام کی حکومت یا تنظیم کی ایسی تشریح معروف سماجی و سیاسی فلسفی 'والٹر لپمین ' نے اپنی مشہور تصنیف ''پبلک فلاسافی '' میں کی ہے ۔لیکن یہ بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ اقوام متحدہ کی موجودہ تشکیل بینتھام (Bentham) کے نظریہ پر قائم ہے ۔ اُس کے مطابق '' عوام کے معنی ''زندہ لوگوں کا مجموعہ '' یعنی کچھ ریاستی ، حکومتی نمایندہ افراد'' ۔ اب اگر یہ درست مان لیا جائے تو پھر یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم عوام کو اُن چند سَروں سے شناخت کریں جو صرف اپنی عیاشی اور سلامتی کے لیے ووٹ کرتے ہیں ۔ ایسے میں قوم کہاں اور کیسی ہوگی ، اور عوام کے مفاد کی حفاظت کرنا کس کا فرض ہوگا؟

انسان ذات قوموں کے وجود میں آنے سے بھی قبل موجود تھی اور اُن کے خاتمے کے بعد بھی موجود ہوگی ، اور یہی فرد و قوم سے بالاتر حیثیت کی حامل ہے ۔ اس لیے اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے ذکر کو اُتم رکھا گیا ہے ، اور اقوام متحدہ اپنے چارٹر کی حقیقی روح کے مطابق دنیا بھر میں خالص انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کرنے کی مجاز ہے ۔

اب آتے ہیںبھارتی متنازع شہریت بل Citizenship Ammendment Act(CAA) کی طرف ۔ یہ بل بھارت کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس ہونے کے بعد 12دسمبر 2019کو بھارت بھر میں نافذ کیا گیا ۔ اس قانون کے تحت افغانستان ، بنگلادیش اور پاکستان سے آنیوالے ہندو ، سکھ ، بدھ مت ، پارسی اور مسیحی افراد کوشہریت دینے کا راستہ صاف کیا گیا ہے ۔ یوں تو اس بل پر تمام بھارت میں اشتعال ہے لیکن بھارتی مسلمان اس قانون کو خاص طور پر اپنے خلاف سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے نافذ ہوتے ہی بھارت میں ملک گیر احتجاج شروع ہوگئے ۔ خصوصاً آسام ، تریپورہ ، منی پور اور کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا ۔مسلمان تین ماہ سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں ۔ اس احتجاج کو کچلنے کے لیے مودی سرکار نے 100 دنوں سے زیادہ عرصہ سے کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے ۔ احتجاج میں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے اور کئی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

اس قانون نے مختلف کمیونٹیز کو بھی آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے ۔ بھارت یوں تو تاریخی طور پر سیکیولر ملک رہا ہے لیکن اس وقت بھارت میں مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت ہے جوکہ ہندو انتہا پسند جماعت ہے ۔ اس نے ملک بھر میں ہندو انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ جو مسلم آبادیوں پر آئے دن حملے کرتے رہتے ہیں ، جس کا نمونہ گذشتہ دنوں دہلی میں فسادات کی صورت میں نظر آیا، جس میں ایک ہی دن میں 13لوگ مارے گئے ، کئی زخمی ہوئے اور مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ۔ اس ساری کارروائی کے دوران بھارتی سرکار کی جانب سے کوئی انتظامی کارروائی نظر نہیں آئی اور نہ ہی اب تک اس واقع میں ملوث کوئی فرد گرفتار ہوا ہے ۔

تازہ صورتحال کے مطابق اس وقت کشمیر کے ساتھ ساتھ دہلی ، ممبئی ، حیدرآباد ، میرٹھ ، کانپور ، فیروزآباد ، رام پور ، مظفر نگر سمیت ملک بھر میں مظاہرے ہورہے ہیں ۔ حاصل مطلب کہ بھارت میں اس وقت خانہ جنگی کی صورتحال ہے اور اس میں خصوصی طور پر مسلمان نشانے پر ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے صورتحال اس قدر گمبھیر ہوگئی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی اُن کی بات سننے کو تیار نہیں ۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے کے فیصلے سے متنازع شہریت بل سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے تک، عدالت مسلمانوں اور متنازع بل کے دیگر مخالفین کے موقف کو سننے کو تیار نہیں۔ 50کروڑ بھارتی مسلمان یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ آخر اُن کے ساتھ یہ تفریق کیوں ؟ وہ پوچھ رہے ہیں کہ اُن کا قصور کیا ہے ؟ اُن کے ان سوالات کو روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ سینئر صحافی اور اردو کے ایک ہرفن مولا طنزیہ شاعر عثمان جامعی نے کیا خوب رخ دیا ہے کہ :

''اس گھر کو جلانے سے پہلے


جیون ہتھیانے سے پہلے

اتنا تو بتادو تم ہم کو

بدلہ پچھلی دس صدیوں کا

اور کتنی صدیوں تک لوگے

بدلہ غوری اور مغلوں کا

اور کتنی نسلوں تک لوگے

اتنا تو بتادو تم ہم کو

کہ یہ کس بات کا بدلہ ہے

آخر ہے جرم ہمارا کیا

یہ کن صدمات کا بدلہ ہے ''

دوماہ تک بھارت میں جاری رہنے والی کشیدگی پر بھارتی سرکار کی جانب سے جانبدار کردار کے باعث ہی بالآخر اقوام متحدہ نے بھارت کے تکراری شہریت بل کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق مچل بچلیٹ نے ایسی درخواست داخل کی ہے، جوکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اس خدشے کے اظہار کی بناء پر کی گئی ہے ، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''بھارتی متنازع شہریت بل سے مسلمان شہریوں کے بے گھر اور بے ریاست ہونے کا خدشہ ہے ''۔

نیپولین کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ ''دنیا میں ظلم ، ظالم کی وجہ سے نہیں بلکہ شریفوں کی خاموشی کے سبب قائم ہے ''۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ'' فیصلہ کرنے میں جتنی دیر کروگے ، فیصلہ اتنا ہی کمزور ہوگا۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جنگ اعصاب کی ہوتی ہے اور جس نے بھی باہر نکل کر اعصاب کی جنگ لڑی ہے، انھوں نے نہ صرف وہ جنگ جیتی ہے بلکہ دیگران کو بھی اپنے زیر اثر کیا ہے ۔ اس لحاظ سے اس وقت بھارتی مسلمان اور اقوام متحدہ نے 75سال سے خود پر مسلط اعصابی جنگ کو اب عملی میدان میں لڑنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ یقینا نہ صرف انھیں ایک پائیدار فتح سے ہمکنار کرے گا بلکہ دنیا میں موجود دیگر ایسے عوامل کو حل کرنے کے لیے بھی قوت بخشے گا ۔ بھارتی مسلمانوں کی ممکنہ فتح دنیا کی قوموں کے لیے رہنمائی کی علامت ہوگی تو اقوام متحدہ کے کردار کو دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے میں فیصلہ کن اور غیرجانبدار ثالث بننے کاذریعہ ثابت ہوگا۔

اقوام متحدہ کا یہ قدم نہایت ہی اہم ہے ۔ اس لیے اُس پر تندہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ ویٹو پاور دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ جنگ نہ صرف لڑنی ہے بلکہ اس کو جیتنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرنی ہے ۔ ساتھ ہی ایسے معاملات کو اپنے مرکز میں اپنے اختیارات سے حل کرنے اور اپنے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لیے اپنے دستور اور چارٹر میں اصلاحات کے لیے بھی کوششیں کرنی چاہئیں ۔ کیونکہ یہ صرف وسائل یا محض کوئی جغرافیائی حدود کے معاملات نہیں بلکہ ان اُمور میں انسانی حیات اور اُن مخصوص لوگوں ، گروہوں ، طبقات اور قوموں کی نسلوں کو لاحق خطرات کا بھی معاملہ ہے ۔ جن کے تحفظ کے لیے ہی اقوام متحدہ کو وجود میں لایا گیا تھا ۔اقوام متحدہ کا ایسا قدم پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے ۔ اگر اس میں وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل -فلسطین اور کردوں کے معاملات سے لے کر دنیا کی دیگر قوموں کو متعلقہ ممالک میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی کارآمد اُصول بن جائے گا، اور پھر شاید دنیا میں بنی نوع ِ انسان کے حقیقی اتحاد کا وہ ماحول تیار ہوجائے ، جس کے لیے اقوام متحدہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی ۔

اس ساری صورتحال کا سبب اقوام متحدہ میںویٹو پاور بلاکوں کی سیٹنگ ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ'' ویٹو پاور سوشلسٹ ملکوں کے گروپ ، سرمایہ دار ملکوں کے گروپ ، روحانی پس منظر کے حامل ملکوں کے گروپ، کثیر آبادی والے ملکوں کے گروپ اور کم آبادی والے ملکوں کے گروپ کو دینے چاہیے تھے لیکن اُس کے برعکس ویٹو پاور چند مخصوص طاقتور ملکوں کو دیے گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ پر پانچ خاص ملکوں امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، چین اور روس کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے ''۔ جوکہ دنیا کی اقوام میں برابری اور یکساں ترقی کے مواقع میں رکاوٹ ہیں ۔ جب کہ بھارتی بل اقوام متحدہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ جس سے اقوام متحدہ کے مستقبل میں کردار کا تعین ہوگا ۔ ورنہ عالمی لابیوں کے چکر ویو میں گِھرا اقوام متحدہ آج تک کشمیر مسئلے پر اپنے دائرہ کار اور کردار پر سوالیہ نشان(؟) لیے کھڑا ہے۔
Load Next Story