سوشل میڈیا خاندان کے انتشار کا ذمے دار ۔۔۔۔۔۔۔
سماجی سائٹس نےلوگوں کو اتنا جکڑ لیا ہے کہ اب وہ اپنے والدین، ہمسفر اور اپنی اولاد تک کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے
اسلام نے خاندانی نظام کو خاص اہمیت دی ہے اور انہیں کچھ قواعد و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔ خاندان کے سبھی افراد کا معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ باہمی میل جول اور تعلقات ہی معاشرے کو مستحکم بناتے ہیں اور معاشرہ ہر رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ اﷲ تعالٰی نے ذمے داریوں کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہر فرد ذمے دار ہے اور اس سے اور اس کے ماتحت اور اہل عیال کے متعلق اس کی ذمے داریوں کی بازپرس ہوگی۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کی پاس داری سماج کے افراد کرتے ہیں اور یہی باہمی ربط کسی بھی سماج کو آگے بڑھاتا ہے۔
صحت مندانہ باہمی میل جول اور روابط کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے کے دور میں قریب رہنے والے رشتے دار و احباب ایک دوسرے سے بہ ذات خود ملاقات کرکے تبادلۂ خیال کرلیتے تھے اور کسی اور شہر یا گاؤں میں رہنے والے خطوط کے ذریعے باہمی ربط میں رہتے تھے۔ پھر دور بدلا اور آگیا ٹیکنالوجی کا دور، جس کے متعلق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:
ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ان کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی جس کا مشاہدہ اب ہم بہ چشم سر کر رہے ہیں۔
موجودہ دور کو ٹیکنالوجی کا ایرا کہا جاتا ہے، جہاں آلات ہی باہمی روابط کا ذریعہ ہیں اور اسی لیے سوشل میڈیا آج ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ ایک ایسا لازمی حصہ جو کسی بھی قید سے آزاد ہے اور ساتھ ہی ضوابط و قواعد سے بھی، یہ ہر وقت آپ کی دست رس میں ہے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ اس کی افادیت و اہمیت مسلّمہ ہے اور اسی کی بہ دولت پوری دنیا ایک عالم گیر گاؤں بن چکی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایجاد اپنے دامن میں ہزار فتنے بھی لائی ہے، اس سے کوئی ذی ہوش انسان انکار نہیں کرسکتا۔ سوشل ویب سائٹس کے صارفین بڑھتے جا رہے ہیں اسی اعتبار سے اس کے منفی اثرات بھی ہماری زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اخلاقی و سماجی برائیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اس کے مضر اثرات بھی لازمی مرتّب کرتی ہے اور یہ ایک آفاقی اصول ہے، کچھ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ اس کا منفی و مثبت استعمال ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے استعمال کیسے اور کن مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہی اسے مثبت اور منفی بناتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسمارٹ فون کے ساتھ ہم سب بھی کچھ زیادہ ہی اسمارٹ ہوگئے ہیں اور اس کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں دور دراز رہنے والے اجنبی افراد کے قریب تو کردیا ہے لیکن حقیقی رشتوں سے دوری کو بھی جنم دیا ہے۔
سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک ہے، جس نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ اب فیس بک ہمارا ہم راز ہے، بالکل اسی طرح جیسے کبھی کوئی قریبی رشتے دار ہوا کرتا تھا اور دانا بزرگ نصیحت کرتے تھے کہ بہت دیکھ بھال کر کسی کو اپنا ہم راز بنانا چاہیے اور وہ بالکل درست کہتے تھے، اس لیے کہ اگر آپ کسی کو اپنا کوئی راز بتا دیں تو وہ فرد انتہائی قابل اعتماد ہونا چاہیے ورنہ آپ کا راز، راز نہیں تشہیر بنا دیا جائے گا اور آپ اس کے مضر اور بھیانک اثرات بھگتیں گے۔
ہماری نوجوان نسل تو اپنا بیشتر بل کہ غالب وقت اور توانائی سماجی رابطوں کی اس سائٹ کو دان کرچکی ہے۔ فیس بک صارفین کو دوستوں سے رابطہ، تصاویر، ٹیکسٹ، آڈیوز اور ویڈیوز کی ترسیل کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ نوجوان نسل کے دل و دماغ پر فیس بک جنون بن کر سوار ہے۔ طالب علم اپنی پڑھائی اور دیگر کام کے اوقات بھی فیس بک پر صرف کرنے میں مگن ہیں، جس سے ان کی تعلیم و تربیت پر منفی اثراتمرتب ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل، گم راہ اور خوف میں بھی مبتلا کرکے ان کی زندگی اجیرن بنائی جاتی ہے۔
کیا اس سے کوئی بھی ذی شعور انکار کرسکتا ہے کہ مرد حضرات خواتین کے نام سے جعلی اور گم نام آئی ڈیز بنا کر دوستی کے نام پر خواتین کو بے وقوف بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر خواتین بھی دیگر ذمے داریوں کو نظر انداز کرکے اپنا قیمتی وقت فضولیات پر صرف کردیتی ہیں۔ اسی فیس بک کو سماج دشمن عناصر فرقہ وارانہ تصاویر پوسٹ کرنے، بے بنیاد افواہیں پھیلانے، مختلف سیاسی و مذہبی مکاتب فکر میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی غرض سے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ہمارے معاشرے میں خلفشار اور بدامنی کی کیفیت جنم لینے لگتی ہے۔ اسی طرح واٹس اپ، ٹویٹر، انٹرنیٹ بلاگز کی داستان بھی کچھ ملتی جلتی ہے۔ ہر شخص اپنی نمود و نمائش میں لگا ہوا ہے، جس سے نام و نمود کا چلن جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے، اب عام ہے۔ ان سائٹس نے اکثر افراد کو اپنے شکنجے میں اتنا جکڑ لیا ہے کہ اب وہ اپنے والدین، ہم سفر اور اپنی اولاد تک کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل کے ساتھ والدین کی بھی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
پوری دنیا سے رابطہ رکھنے کی لت میں ہم اپنوں سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور نہ جانے کتنے بچوں کا مستقبل اندھیروں میں گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، بل کہ گم ہوچکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا کے بے دام غلام اور اسیر ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا آج تفریحی سرگرمیوں کے فروغ اور وقت کی بربادی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس سے ہماری نوجوان نسل مخرب اخلاق اور بے ہودہ حرکتوں میں ملوث ہورہی ہے۔ ہماری زندگی میں ذہنی تناؤ اور رشتوں میں دراڑ آنے لگی ہے، بسے بسائے گھر اجڑنے لگے ہیں، طالب علم تعلیم سے بے نیاز اور بے راہ روی اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی اصلاح کے لیے ہر وقت حاضر رہتے ہیں مگر اپنا محاسبہ کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص سوچ سمجھ کر اور صرف اشد ضرورت کی صورت میں سوشل سائٹس پر اپنا بیش قیمت وقت صرف کرے اور اس سے ہونے والے تقصانات سے بچنے کی پوری کوشش کرے، تبھی ان مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہماری نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سماجی مسائل کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ازدواجی جوڑے جو اپنی زندگی کے معاملات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، ایک ناخوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن جوڑوں نے اپنی ذاتی زندگی کو صحیح معنوں میں ذاتی رکھا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہیں کی، وہ نسبتاً خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ جس طرح سیلفیاں مقبول ہوگئی ہیں، اس نے نفسیاتی و طبی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ اس سے انسان خود نمائی اور خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرنے والے افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق فیس بک کا استعمال لوگوں کو خوشی کو ختم کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ تنہا افراد جو فیس بک کا استعمال کم کرتے تھے وہ شادی کے بعد بھی نسبتاً خوش پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے ازدواجی یا دیگر رشتوں کے بارے میں مستقل سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہنا عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ سماجی و طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل کے جدید دور میں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور رہنا تو ناممکن ہے، لیکن اس کا استعمال کم کرنا خصوصاً اپنی ذاتی زندگی کو اس سے دور رکھنا اپ کو بے شمار سماجی، طبی اور نفسیاتی مسائل سے بچا سکتا ہے۔
کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے محقق اور ماہر نفسیات لیری روزن کی تحقیقات کے مطابق فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کے زیادہ استعمال سے انسان میں خود پرستی، نفسیاتی مشکلات، سماج دشمن رویے اور پُرتشدّد جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیری روزن کے مطابق ان کے استعمال کرنے والے بچے اور بڑے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد بڑھی جا رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ آج خواتین بھی اس دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں۔ آج نہ صرف گھریلو خواتین، بل کہ ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر خواتین کو اپنے شوہروں سے یہ شکایت ہے کہ ان کی شوہروں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنا سارا وقت سوشل ویب سائٹس پہ گزار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خانگی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے شوہروں کی بیگمات نے اعلانیہ اپنے غم اور غصے کا اظہار شروع کر دیا ہے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے خاوند اس طرح سوشل میڈیا پر دوسری عورتوں کے ساتھ دل لبھاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایسی خواتین نے طلاق لینا شروع کردی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسّی فی صد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل ویب سائٹس کا ہے، جس نے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہیں۔ اس کی وجہ سے خاندان بکھر رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
اس سے ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے اور بچے خودسر ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کا شکار کچھ خواتین سوشل میڈیا نیٹ ورک کے نشے میں مبتلا ہو چکی ہیں اور وہ یہ بھول چکی ہیں کہ ان کا کوئی خاندان بھی ہے، وہ اپنا بیشتر وقت اور اکثر تو رات بھر موبائل نیٹ ورک اور چیٹ روم میں مختلف گروپس میں گفت گو کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔ شادی شدہ مرد نت نئی لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرتے اور اپنی بیویوں سے بے زار رہتے ہیں۔ چناں چہ ایسی خواتین مسلسل تکلیف دہ عمل سے گزر کر ڈیپریشن کا شکار اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہیں اور بے خوابی اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر چڑچڑی ہوتی جارہی ہیں۔ شک و شبے کا شکار ہو نے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا گھر کا سکون بھی بر باد کر دیتا ہے اور بہت سی خواتین تو اس صورت حال میں ہر وقت اپنے شوہر کی جاسوسی میں لگی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر اور بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور یہ بات معاشرے کے لیے بہت نقصان کا باعث ہے۔
ایک زمانہ تھا اور کتنا سہانا تھا جب بچے اپنی نانی، نانا، دادی، دادا سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے تھے، اور خاص کر رات کو سوتے وقت تو کہانی کی فرمائش ضرور کرتے تھے، نانا دادی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ادب کے ساتھ اخلاق و کردار اور ہماری مذہبی اقدار کا سبق ملتا تھا، اس طرح بچے کم سنی سے ہی بڑوں کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی سعی کرتے تھے اور ایک اچھا انسان اور مُسلم بننے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ لیکن اس دور فتن میں بچے اس نعمت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اب والدین انہیں کوئی موبائل فون یا آئی پیڈ خرید کر دے دیتے ہیں، اس طرح بچے تنہائی میں جو چاہے دیکھتے ہیں اور اگر وہ بچوں کی سبق آموز فلمیں بھی دیکھ رہے ہوں جو شاید ہماری خوش فہمی ہے، پھر بھی وہ موبائل یا آئی پیڈ کی روشنی کے مضر اثرات سے خود کو نہیں بچاسکتے اور ان کی بینائی شدید متاثر ہورہی ہے۔ اب تو کئی یورپی ممالک میں نوجوانوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے دوران تعلیم و مطالعہ موبائل فون کا استعمال ممنوع قرار دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی نشوو نما میں تاخیر ہو سکتی ہے، کیوں کہ وہ زیادہ وقت مصنوعی دنیا میں گزارتے ہیں۔
جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے بچوں میں جذباتی مسائل، غصہ اور خراب رویّہ پایا جاتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں نے کھیل کود کو بھی وقت چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوان جعلی آئی ڈیز بناکر دوسروں کے جذبات اور احساسات سے کھیل کر خوشی محسوس کر تے ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر لڑکیاں فلمی اداکاراؤں اور ماڈلز کی ہیجان انگیز تصاویر لگا کر لڑکوں کو متاثر کر نے کوشش میں مصروف رہتی ہیں اور پھر کسی کے ساتھ محبت کا تعلق بنا کر بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کیوں کہ نوّے فی صد لڑکے صرف وقت گزارتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دوستی کے نتیجے میں ملاقات کے بہانے بہت سی لڑکیاں اغواء برائے تاوان اور جنسی زیادتی کا بھی شکار ہورہی ہیں۔ آج کیوں کہ سوشل میڈیا کی بہ دولت جنسی ویب سائٹس تک رسائی آسان ہو چکی ہے لہذا نوعمر بچے خاص طور پر لڑکے ان ویب سائٹس کو دیکھ کر اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ اپنا وقت ان ویب پیجیز پر گزارتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت خراب کر بیٹھتے ہیں۔ یہی نہیں بل کہ بعض نوجوان جنسی تصاویر لگا کر بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔ لوگوں میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں کوتاہی کے ذمے دار وہ والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ کے زیادہ استعمال سے منع نہیں کر تے اور نہ ان پر نظر رکھتے ہیں کہ بچے سارا وقت ان پر کیوں وقت ضایع کر تے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں۔
اس گمبھیر صورت حال میں قرآن حکیم ہماری راہ نمائی فرماتا ہے: ''اور یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے، اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔'' دوسرے مقام پر قرآن حکیم ہمیں خبر دار کرتا ہے: '' قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کر رہے تھے۔''
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : '' تم ضرور اگلی اُمتوں کی عادات و اطوار کی بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے۔ حتٰی کی وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم بھی ا س میں داخل ہوگے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اﷲ ﷺ! پہلی امتّوں سے آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: پھر اور کون۔۔۔۔ ؟ ''
ڈاکٹر اقبال نے فرمایا تھا :
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
آخر میں یہ چھوٹی سی خبر بھی پڑھیے اور سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔۔ ؟
خاندانی نظام پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات، یہودی تلملا اٹھے۔ قدامت پسند مقبوضہ یروشیلم کے یہودیوں نے انٹرنیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق قدامت پسند یہودیوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کو یہودی خاندانوں کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اسمارٹ فون اور میسجنگ کی سہولیات فراہم کرنے والے سوشل میڈیا کے خلاف مذہبی اور سماجی سطح پر مقدس جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں قدامت پسند یہودی نوجوانوں میں بھی مقبولیت پا رہی ہیں۔ '' دی فار وررڈ'' نامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان میں سوشل نیٹ ورکنگ کے لیے ویب سائیٹس اور فیس بک کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس لیے یہودی مذہبی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اپنے خاندانوں کو سوشل میڈیا سے بچانے کے لیے اس کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ یہ یہودی گھرانوں اور خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ حتی کہ طلاق کی شرح میں بھی سوشل میڈیا اضافے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہودی خاندانوں میں نکاح و طلاق کے معاملات کو دیکھنے والے مذہبی پیشواؤں کے مطابق طلاق کی ان دنوں سب سے بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا ہے۔
اسرائیلی قدامت پسند یہودیوں کے ترجمان اخبار ''دیربلات'' کی رپورٹ کے مطابق یہودی مذہبی لوگ سوشل میڈیا کو کاروبار میں خرابی کی ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ اسی قدامت پسند گروپ سے ایک ویب فلٹرنگ کمپنی بھی منسلک ہے۔ یہ فلٹرنگ کمپنی سوشل میڈیا پر آنے والے والے مواد کو سنسر کرے گی، جن میں آڈیو ٹیپس، ویڈیوز اور تصاویر شامل ہوں گی۔ واضح رہے مئی 2012 کے دوران نیو یارک میں چالیس ہزار قدامت پسند یہودیوں انٹر نیٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ یہودی مذہبی راہ نماؤں کا مطالبہ ہے کہ تمام کمپیوٹرز پر ویب فلٹرز لگائے جائیں۔
صحت مندانہ باہمی میل جول اور روابط کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے کے دور میں قریب رہنے والے رشتے دار و احباب ایک دوسرے سے بہ ذات خود ملاقات کرکے تبادلۂ خیال کرلیتے تھے اور کسی اور شہر یا گاؤں میں رہنے والے خطوط کے ذریعے باہمی ربط میں رہتے تھے۔ پھر دور بدلا اور آگیا ٹیکنالوجی کا دور، جس کے متعلق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:
ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ان کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی جس کا مشاہدہ اب ہم بہ چشم سر کر رہے ہیں۔
موجودہ دور کو ٹیکنالوجی کا ایرا کہا جاتا ہے، جہاں آلات ہی باہمی روابط کا ذریعہ ہیں اور اسی لیے سوشل میڈیا آج ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ ایک ایسا لازمی حصہ جو کسی بھی قید سے آزاد ہے اور ساتھ ہی ضوابط و قواعد سے بھی، یہ ہر وقت آپ کی دست رس میں ہے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ اس کی افادیت و اہمیت مسلّمہ ہے اور اسی کی بہ دولت پوری دنیا ایک عالم گیر گاؤں بن چکی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایجاد اپنے دامن میں ہزار فتنے بھی لائی ہے، اس سے کوئی ذی ہوش انسان انکار نہیں کرسکتا۔ سوشل ویب سائٹس کے صارفین بڑھتے جا رہے ہیں اسی اعتبار سے اس کے منفی اثرات بھی ہماری زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اخلاقی و سماجی برائیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اس کے مضر اثرات بھی لازمی مرتّب کرتی ہے اور یہ ایک آفاقی اصول ہے، کچھ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ اس کا منفی و مثبت استعمال ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے استعمال کیسے اور کن مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہی اسے مثبت اور منفی بناتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسمارٹ فون کے ساتھ ہم سب بھی کچھ زیادہ ہی اسمارٹ ہوگئے ہیں اور اس کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں دور دراز رہنے والے اجنبی افراد کے قریب تو کردیا ہے لیکن حقیقی رشتوں سے دوری کو بھی جنم دیا ہے۔
سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک ہے، جس نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ اب فیس بک ہمارا ہم راز ہے، بالکل اسی طرح جیسے کبھی کوئی قریبی رشتے دار ہوا کرتا تھا اور دانا بزرگ نصیحت کرتے تھے کہ بہت دیکھ بھال کر کسی کو اپنا ہم راز بنانا چاہیے اور وہ بالکل درست کہتے تھے، اس لیے کہ اگر آپ کسی کو اپنا کوئی راز بتا دیں تو وہ فرد انتہائی قابل اعتماد ہونا چاہیے ورنہ آپ کا راز، راز نہیں تشہیر بنا دیا جائے گا اور آپ اس کے مضر اور بھیانک اثرات بھگتیں گے۔
ہماری نوجوان نسل تو اپنا بیشتر بل کہ غالب وقت اور توانائی سماجی رابطوں کی اس سائٹ کو دان کرچکی ہے۔ فیس بک صارفین کو دوستوں سے رابطہ، تصاویر، ٹیکسٹ، آڈیوز اور ویڈیوز کی ترسیل کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ نوجوان نسل کے دل و دماغ پر فیس بک جنون بن کر سوار ہے۔ طالب علم اپنی پڑھائی اور دیگر کام کے اوقات بھی فیس بک پر صرف کرنے میں مگن ہیں، جس سے ان کی تعلیم و تربیت پر منفی اثراتمرتب ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل، گم راہ اور خوف میں بھی مبتلا کرکے ان کی زندگی اجیرن بنائی جاتی ہے۔
کیا اس سے کوئی بھی ذی شعور انکار کرسکتا ہے کہ مرد حضرات خواتین کے نام سے جعلی اور گم نام آئی ڈیز بنا کر دوستی کے نام پر خواتین کو بے وقوف بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر خواتین بھی دیگر ذمے داریوں کو نظر انداز کرکے اپنا قیمتی وقت فضولیات پر صرف کردیتی ہیں۔ اسی فیس بک کو سماج دشمن عناصر فرقہ وارانہ تصاویر پوسٹ کرنے، بے بنیاد افواہیں پھیلانے، مختلف سیاسی و مذہبی مکاتب فکر میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی غرض سے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ہمارے معاشرے میں خلفشار اور بدامنی کی کیفیت جنم لینے لگتی ہے۔ اسی طرح واٹس اپ، ٹویٹر، انٹرنیٹ بلاگز کی داستان بھی کچھ ملتی جلتی ہے۔ ہر شخص اپنی نمود و نمائش میں لگا ہوا ہے، جس سے نام و نمود کا چلن جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے، اب عام ہے۔ ان سائٹس نے اکثر افراد کو اپنے شکنجے میں اتنا جکڑ لیا ہے کہ اب وہ اپنے والدین، ہم سفر اور اپنی اولاد تک کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل کے ساتھ والدین کی بھی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
پوری دنیا سے رابطہ رکھنے کی لت میں ہم اپنوں سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور نہ جانے کتنے بچوں کا مستقبل اندھیروں میں گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، بل کہ گم ہوچکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا کے بے دام غلام اور اسیر ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا آج تفریحی سرگرمیوں کے فروغ اور وقت کی بربادی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس سے ہماری نوجوان نسل مخرب اخلاق اور بے ہودہ حرکتوں میں ملوث ہورہی ہے۔ ہماری زندگی میں ذہنی تناؤ اور رشتوں میں دراڑ آنے لگی ہے، بسے بسائے گھر اجڑنے لگے ہیں، طالب علم تعلیم سے بے نیاز اور بے راہ روی اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی اصلاح کے لیے ہر وقت حاضر رہتے ہیں مگر اپنا محاسبہ کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص سوچ سمجھ کر اور صرف اشد ضرورت کی صورت میں سوشل سائٹس پر اپنا بیش قیمت وقت صرف کرے اور اس سے ہونے والے تقصانات سے بچنے کی پوری کوشش کرے، تبھی ان مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہماری نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سماجی مسائل کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ازدواجی جوڑے جو اپنی زندگی کے معاملات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، ایک ناخوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن جوڑوں نے اپنی ذاتی زندگی کو صحیح معنوں میں ذاتی رکھا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہیں کی، وہ نسبتاً خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ جس طرح سیلفیاں مقبول ہوگئی ہیں، اس نے نفسیاتی و طبی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ اس سے انسان خود نمائی اور خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرنے والے افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق فیس بک کا استعمال لوگوں کو خوشی کو ختم کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ تنہا افراد جو فیس بک کا استعمال کم کرتے تھے وہ شادی کے بعد بھی نسبتاً خوش پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے ازدواجی یا دیگر رشتوں کے بارے میں مستقل سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہنا عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ سماجی و طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل کے جدید دور میں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور رہنا تو ناممکن ہے، لیکن اس کا استعمال کم کرنا خصوصاً اپنی ذاتی زندگی کو اس سے دور رکھنا اپ کو بے شمار سماجی، طبی اور نفسیاتی مسائل سے بچا سکتا ہے۔
کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے محقق اور ماہر نفسیات لیری روزن کی تحقیقات کے مطابق فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کے زیادہ استعمال سے انسان میں خود پرستی، نفسیاتی مشکلات، سماج دشمن رویے اور پُرتشدّد جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیری روزن کے مطابق ان کے استعمال کرنے والے بچے اور بڑے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد بڑھی جا رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ آج خواتین بھی اس دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں۔ آج نہ صرف گھریلو خواتین، بل کہ ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر خواتین کو اپنے شوہروں سے یہ شکایت ہے کہ ان کی شوہروں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنا سارا وقت سوشل ویب سائٹس پہ گزار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خانگی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے شوہروں کی بیگمات نے اعلانیہ اپنے غم اور غصے کا اظہار شروع کر دیا ہے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے خاوند اس طرح سوشل میڈیا پر دوسری عورتوں کے ساتھ دل لبھاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایسی خواتین نے طلاق لینا شروع کردی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسّی فی صد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل ویب سائٹس کا ہے، جس نے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہیں۔ اس کی وجہ سے خاندان بکھر رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
اس سے ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے اور بچے خودسر ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کا شکار کچھ خواتین سوشل میڈیا نیٹ ورک کے نشے میں مبتلا ہو چکی ہیں اور وہ یہ بھول چکی ہیں کہ ان کا کوئی خاندان بھی ہے، وہ اپنا بیشتر وقت اور اکثر تو رات بھر موبائل نیٹ ورک اور چیٹ روم میں مختلف گروپس میں گفت گو کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔ شادی شدہ مرد نت نئی لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرتے اور اپنی بیویوں سے بے زار رہتے ہیں۔ چناں چہ ایسی خواتین مسلسل تکلیف دہ عمل سے گزر کر ڈیپریشن کا شکار اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہیں اور بے خوابی اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر چڑچڑی ہوتی جارہی ہیں۔ شک و شبے کا شکار ہو نے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا گھر کا سکون بھی بر باد کر دیتا ہے اور بہت سی خواتین تو اس صورت حال میں ہر وقت اپنے شوہر کی جاسوسی میں لگی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر اور بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور یہ بات معاشرے کے لیے بہت نقصان کا باعث ہے۔
ایک زمانہ تھا اور کتنا سہانا تھا جب بچے اپنی نانی، نانا، دادی، دادا سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے تھے، اور خاص کر رات کو سوتے وقت تو کہانی کی فرمائش ضرور کرتے تھے، نانا دادی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ادب کے ساتھ اخلاق و کردار اور ہماری مذہبی اقدار کا سبق ملتا تھا، اس طرح بچے کم سنی سے ہی بڑوں کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی سعی کرتے تھے اور ایک اچھا انسان اور مُسلم بننے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ لیکن اس دور فتن میں بچے اس نعمت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اب والدین انہیں کوئی موبائل فون یا آئی پیڈ خرید کر دے دیتے ہیں، اس طرح بچے تنہائی میں جو چاہے دیکھتے ہیں اور اگر وہ بچوں کی سبق آموز فلمیں بھی دیکھ رہے ہوں جو شاید ہماری خوش فہمی ہے، پھر بھی وہ موبائل یا آئی پیڈ کی روشنی کے مضر اثرات سے خود کو نہیں بچاسکتے اور ان کی بینائی شدید متاثر ہورہی ہے۔ اب تو کئی یورپی ممالک میں نوجوانوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے دوران تعلیم و مطالعہ موبائل فون کا استعمال ممنوع قرار دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی نشوو نما میں تاخیر ہو سکتی ہے، کیوں کہ وہ زیادہ وقت مصنوعی دنیا میں گزارتے ہیں۔
جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے بچوں میں جذباتی مسائل، غصہ اور خراب رویّہ پایا جاتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں نے کھیل کود کو بھی وقت چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوان جعلی آئی ڈیز بناکر دوسروں کے جذبات اور احساسات سے کھیل کر خوشی محسوس کر تے ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر لڑکیاں فلمی اداکاراؤں اور ماڈلز کی ہیجان انگیز تصاویر لگا کر لڑکوں کو متاثر کر نے کوشش میں مصروف رہتی ہیں اور پھر کسی کے ساتھ محبت کا تعلق بنا کر بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کیوں کہ نوّے فی صد لڑکے صرف وقت گزارتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دوستی کے نتیجے میں ملاقات کے بہانے بہت سی لڑکیاں اغواء برائے تاوان اور جنسی زیادتی کا بھی شکار ہورہی ہیں۔ آج کیوں کہ سوشل میڈیا کی بہ دولت جنسی ویب سائٹس تک رسائی آسان ہو چکی ہے لہذا نوعمر بچے خاص طور پر لڑکے ان ویب سائٹس کو دیکھ کر اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ اپنا وقت ان ویب پیجیز پر گزارتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت خراب کر بیٹھتے ہیں۔ یہی نہیں بل کہ بعض نوجوان جنسی تصاویر لگا کر بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔ لوگوں میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں کوتاہی کے ذمے دار وہ والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ کے زیادہ استعمال سے منع نہیں کر تے اور نہ ان پر نظر رکھتے ہیں کہ بچے سارا وقت ان پر کیوں وقت ضایع کر تے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں۔
اس گمبھیر صورت حال میں قرآن حکیم ہماری راہ نمائی فرماتا ہے: ''اور یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے، اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔'' دوسرے مقام پر قرآن حکیم ہمیں خبر دار کرتا ہے: '' قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کر رہے تھے۔''
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : '' تم ضرور اگلی اُمتوں کی عادات و اطوار کی بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے۔ حتٰی کی وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم بھی ا س میں داخل ہوگے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اﷲ ﷺ! پہلی امتّوں سے آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: پھر اور کون۔۔۔۔ ؟ ''
ڈاکٹر اقبال نے فرمایا تھا :
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
آخر میں یہ چھوٹی سی خبر بھی پڑھیے اور سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔۔ ؟
خاندانی نظام پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات، یہودی تلملا اٹھے۔ قدامت پسند مقبوضہ یروشیلم کے یہودیوں نے انٹرنیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق قدامت پسند یہودیوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کو یہودی خاندانوں کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اسمارٹ فون اور میسجنگ کی سہولیات فراہم کرنے والے سوشل میڈیا کے خلاف مذہبی اور سماجی سطح پر مقدس جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں قدامت پسند یہودی نوجوانوں میں بھی مقبولیت پا رہی ہیں۔ '' دی فار وررڈ'' نامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان میں سوشل نیٹ ورکنگ کے لیے ویب سائیٹس اور فیس بک کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس لیے یہودی مذہبی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اپنے خاندانوں کو سوشل میڈیا سے بچانے کے لیے اس کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ یہ یہودی گھرانوں اور خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ حتی کہ طلاق کی شرح میں بھی سوشل میڈیا اضافے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہودی خاندانوں میں نکاح و طلاق کے معاملات کو دیکھنے والے مذہبی پیشواؤں کے مطابق طلاق کی ان دنوں سب سے بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا ہے۔
اسرائیلی قدامت پسند یہودیوں کے ترجمان اخبار ''دیربلات'' کی رپورٹ کے مطابق یہودی مذہبی لوگ سوشل میڈیا کو کاروبار میں خرابی کی ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ اسی قدامت پسند گروپ سے ایک ویب فلٹرنگ کمپنی بھی منسلک ہے۔ یہ فلٹرنگ کمپنی سوشل میڈیا پر آنے والے والے مواد کو سنسر کرے گی، جن میں آڈیو ٹیپس، ویڈیوز اور تصاویر شامل ہوں گی۔ واضح رہے مئی 2012 کے دوران نیو یارک میں چالیس ہزار قدامت پسند یہودیوں انٹر نیٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ یہودی مذہبی راہ نماؤں کا مطالبہ ہے کہ تمام کمپیوٹرز پر ویب فلٹرز لگائے جائیں۔