شوہر ساتھ چھوڑدے توقانون سہارا بنتا ہے
طلاق کے بعد زندگی کو مثبت طریقے سے آگے بڑھائیےعورتوں کے عالمی دن پر خصوصی تحریر
KARACHI:
طلاق کے بعد جب میں نے عدالت میں بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کیا تو سب نے میری مخالفت کی۔ کم وبیش ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ بے کار اپنا وقت ضایع کرنے جا رہی ہو۔ عدالتوں کا حال بھی تم کو معلوم ہے اور اس راستے پر جو خواری اور ذلت مقدر بنتی ہے اس کو جھیلنا بھی ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں۔ سب کی باتیں سننے کو تو سن لیں لیکن دل میں مصمم ارادہ باندھ چکی تھی کہ میں عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاؤں گی اور دیکھوں گی کہ پاکستان کے نظام عدل میں بہ حیثیت ایک عورت میرے لیے کیا ہے؟ عدالت سے رجوع کرنے والی میری اس سوچ کو مستحکم کرنے والے بہت سارے ایسے واقعات بھی تھے جن میں طلاق کے بعد بچوں سمیت عورت کی زندگی کو مشکل میں ڈال کر مرد وں نے دوسری شادیاں کیں اور پلٹ کر کبھی بچوں کی خبر نہ لی۔ میں اپنی ایک دوست کی زندگی کے حالات بھی قریب سے دیکھ رہی تھی جو طلاق کے بعد اپنے بھائیوں کے در پر بچوں سمیت پھینک دی گئی اور اس کی زندگی سے رہی سہی خوشیاں بھی سب کے بدلتے مزاجوں کی نذر ہوگئیں۔ کسی بھی شکوے کے جواب میں وہ، احسانات کی ایک طویل فہرست گنوا کر زبان بند رکھنے پہ مجبور کی جاتی رہی۔
اب میرے سامنے دو راستے تھے، اپنی عزت، آزادی اور خودمختاری گروی رکھوا کر میکے کی دہلیز پر بچوں سمیت پڑی رہ جاؤں یا پھر قانون سے مدد مانگوں۔ خواری تو دونوں صورت میں ہی اٹھانی تھی لیکن میں نے نسبتاً کم خواری والے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے عدالت کا رخ کیا۔ اور آج میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کا نظام عدل طلاق کے بعد بھی عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ گھر ٹوٹنے کے بعد پھیلنے والے معاشرتی انتشار کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک مرد اور عورت کا طلاق کے بعد معاملات کو قانونی طریقے سے حل نہ کرنا ہے۔ اور اب وہ مرد جس نے بچوں سمیت گھر سے نکالتے ہوئے کہا تھا کہ سکون کی زندگی گزار ے گا، اب کبھی رابطہ ہو تو کہتا ہے کہ تم نے مجھے عدالت کے چکر میں پھنسا کر خوار کرڈالا ہے۔ میں سمجھتی ہوں بچوں کا خرچ اٹھانا اگر خواری ہے تو یہ تو دنیا کے سب والدین ہی اٹھاتے ہیں، پھر طلاق کے بعد کوئی بھی ایک فریق اس سے بری الذمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہوتا بھی ہے تو اسے قانون کی مار مارنا ہی بہترین طریقہ ہے ۔''
سٹی کورٹ میں کیفے کے اندر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی صبا طلاق کے بعد کی قانونی چارہ جوئی کا پورا احوال بتاتے ہوئے اعتماد سے مسکرا رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں پھیلتا سکون دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ پاکستان میں بگڑتے ہوئے خاندانی اور سماجی ڈھانچے کی وجہ سے عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے کا شکار ہے لیکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا دم ہر کسی میں نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے گزرنے والی عورتیں حقیقی سکون اور خوشیاں کھو چکی ہیں۔ اس لیے سوچا کہ کیوں نہ عورتوں کے عالمی دن پر اسی مسئلے اور اس کے حل کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ طلاق یافتہ خواتین کو پورے وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جا سکے، ایسے کہ خود کو اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے وہ کسی کی مقروض ہو نہ احسان مند۔
طلاق کو ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایک ٹیبو کی طرح لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا طلاق کی طرف جا رہا ہو تو پورا خاندان اس طلاق کو، رکوانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ انتہائی ناپسندیدگی کے باوجود جوڑے کو رشتے میں بندھے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ طلاق کوئی قبیح یا حرام فعل نہیں۔ نکاح ایک سماجی بندھن ہے جس میں بندھے رہنے کا بھی انسان کو کامل اختیار دیا گیا ہے اور ختم کرنے کا بھی۔ یہ اختیار مذہب نے عورت اور مرد دونوں کو یکساں طور پر سونپا ہے۔ لیکن طلاق کے نام پر معاشرے میں چڑھنے والی ناک بھوں کی میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ ہی بچوں کی کفالت کے وہ مسائل ہیں جو کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کی پرورش کا احساس دلا کر رشتے کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سب کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ بچے کیسے پلیں گے؟َ
میرے مشاہدے کے مطابق یہ فکر بچوں کی صرف جذباتی نشوونما کی نہیں ہوتی، اگر بات صرف جذباتی تعلق کی ہوتی تو معاشرہ ان مردوں کو بھی ملعون کرتا جو بچوں کی خاطر کمانے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اصل مسئلہ بچوں کے اخراجات کا ہوتا ہے جو طلاق کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کی پرورش کون اور کیسے کرے گا؟ ہمارے معاشرے میں مرد طلاق دے کر عموماً بچوں کی طرف سے یوں بے گانہ اور لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ گویا بیوی کے ساتھ بچوں پر بھی تین لفظ بھیج دیے ہوں۔ ایسے میں عورت اور اس کے بچوں کی ذمہ داری میکے والوں کے سر آجاتی ہے جس کو اٹھانے سے اکثر اوقات بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے طلاق کے لفظ کو کوسنے اور ایسے جوڑوں خصوصاً عورت کو نشانہ ملامت بنانے کا معاشرے میں چلن عام ہے، کیوں کہ مرد تو اپنی زندگی میں خود کمانے کے قابل ہوتا ہی ہے جب کہ عورت عموماً بچوں سمیت کہیں نہ کہیں بوجھ بن رہی ہوتی ہے۔
آئیے اس ضمن میں کچھ بڑے مسائل کی طرف نظر ڈالتے ہیں جو طلاق کے بعد کم و بیش ہر عورت کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے پاکستان کا قانون عورتوں کے لیے کتنی معاونت فراہم کرتا ہے۔
حق مہر کی عدم ادائیگی:
یہ طلاق کے بعد ہر عورت کو پیش آنے والا ایک عام مسئلہ ہے۔ اکثر شوہر طلاق دینے کے بعد حق مہر کی ادائیگی سے مکر جاتے ہیں یا اس بابت ادائیگی کا جھوٹ بول کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہر عورت کا شرعی اور قانونی حق ہے۔ اس کو غصب کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہی نہیں۔ پاکستان کے مسلم فیملی ایکٹ 1964 کے سیکشن 209کے تحت عورت اپنے حق مہر کا دعویٰ کورٹ میں دائر کرنے کا مکمل حق رکھتی ہے اور اس کے دعوے پر عدالت فوری ایکشن لیتے ہوئے سابق شوہر کو طلب کر کے حق مہر کی ادائیگی کا حکم دیتی ہے۔
عدت کے مہینوں کا خرچ :
ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے دورانیے کا خرچہ دینا شوہر پر فرض ہے۔ عملاً چاہے عورت عدت کرے یا نہ کرے، دونوں صورتوں میں وہ اس رقم کی قانونی طور پر حق دار ہے۔ عدالت اس ضمن میں مناسب رقم کی ادائیگی کا حکم جاری کرتی ہے۔ دورانِ عدت مطلقہ عورت سابق شوہر سے خرچہ پانے کی حق دار ہے، جو انکار کی صورت میں عدالت کے ذریعے حاصل کرنا بے حد آسان ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کے تحت عدت کے اس خرچے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔
شوہر سے علیحدہ رہنے کی صورت میں نان نفقے کی ادائیگی ــ:
یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بیوی شوہر کے گھر میں ہو تو بھی اس کو نان نفقے کی مد میں کچھ نہیں دیا جاتا اور اگر وہ کسی ناراضگی کی وجہ سے شوہر سے الگ ہوجائے یا میکے میں رہ رہی ہو اس صورت میں تو مرد ہر ذمہ داری سے بالکل ہی آزاد ہو جاتا ہے۔ اور میکے والے بھی اپنی انا کو اہمیت دیتے ہوئے مرد سے بیوی بچوں کے خرچ کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہ مرد کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی بچوں کے نان نفقے کا بندوبست کرے ۔ اگر عورت کسی ناچاقی کی وجہ سے شوہر سے الگ رہ رہی ہے، میکے میں خواہ علیحدہ گھر میں، اور شوہر اس کا نان نفقہ نہ دے تو اس وقت بھی قانون اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور اگر شوہر یہ خرچہ نہیں دیتا اور یہ علیحدگی طلاق میں بدل جاتی ہے تو اب قانون کی رو سے عورت صرف عدت کے خرچ کا ہی دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ پچھلے چھے سال تک کے خرچے کا دعویٰ بھی دائر کرسکتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کی سیکشن 9 کے تحت عورت شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے بھی نان نفقے کی ادائیگی کا دعویٰ دائر کر نے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
بچوں کی کسٹڈی کا دعویٰ:
طلاق سے جُڑا یہ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ طلاق کے بعد عورت کو تنگ کرنے کی نیت سے شوہر یا سسرال والے بچے اسے نہیں دیتے۔ ایسی صورت حال میں عورت بہ حیثیت ماں تو پریشان ہوتی ہی ہے، ساتھ بچوں کو بھی شدید ذہنی دھچکا لگتا ہے۔ قانون کی رو سے بچوں پر پہلا حق ماں کا ہے، کیوں کہ ماں کے ساتھ ہی بچے زیادہ قریب اور پُراعتماد ہوتے ہیں۔ قانون کی نظر میں بچوں کی کسٹڈی دیتے وقت سب سے اہم بچوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لیکن اگر طلاق کے بعد بچے سسرال والوں نے یا شوہر نے اپنے پاس رکھ لیے تو عورت گارڈین اینڈوارڈ ایکٹ کی دفعہ سترہ اور پچیس کے تحت کسٹڈی آف مائنر کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے اور زیادہ تر یہ فیصلہ عورت کے حق میں ہی دیا جاتا ہے۔
ڈیکلریشن آف گارڈین شپ:
اگر بچے طلاق کے بعد عورت کے پاس ہی ہیں تو اکثر اوقات تو مرد اس سے بچوں کو چھین کر لے جانے کی دھمکیاں دے کر رہا سہا سکون بھی غارت کر دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں عورت کے پاس حق ہے کہ وہ اب عدالت میں بچوں کی کسٹڈی کا نہیں بلکہ ڈکلریشن آف گارڈین شپ کا کیس فائل کرے گی۔ گارڈین شپ ایکٹ سیکشن سیون (ٹین) کے تحت عدالت سے گارڈین سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ بچوں پر ماں کی مستقل کسٹڈی کا ضامن ہے۔ یہ سرٹیفیکیٹ نہ صرف ماں کے لیے ایک طاقت ہے بلکہ بچوں کو مستقبل میں بے شمار مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سرٹیفیکیٹ کے بعد بننے والے'' فارم ب '' میں بچے ماں کے نام پر بہ آسانی رجسٹر ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد انہیں اپنے تمام تعلیمی مراحل میں باپ کے شناختی کارڈ یا اس سے متعلقہ کاغذات کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ماں کی دستاویزات پہ تمام مراحل آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس سرٹیفیکیٹ کے بعد عورت بہ حیثیت ماں اپنے بچوں کی فلاح وبہبود کے تمام فیصلے آزادانہ حیثیت میں کرنے کا اختیار حاصل کرلیتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کو اپنے ساتھ ملک سے باہر بھی لے جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 12 کے تحت عورت پروٹیکشن آرڈر بھی لے سکتی ہے تاکہ کوئی بھی مستقبل میں اس سے بچوں کو چھین نہ سکے۔ اس سرٹیفیکیٹ کو حاصل کر نے کے باوجود بھی بچوں کے بنیادی اور اضافی دونوں قسم کے اخراجات کی ادائیگی قانوناً باپ ہی کی ذمے داری ہے۔
بچوں کا خرچہ:
مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961کی سیکشن نائن کے تحت عورت بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے۔ کیس شروع ہونے پر عدالت سابق شوہر سے پہلے عارضی خرچ جاری کرواتی ہے پھر کیس مزید آگے بڑھتا ہے اور اس میں مرد کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے فی بچے کے حساب سے عدالت بچوں کا خرچ طے کرتی ہے۔ یہ رقم ہمیشہ طے شدہ نہیں رہتی بلکہ ہر سال دس فی صد کے حساب سے بڑھتی بھی ہے۔ قانون اور شریعت کی رو سے بچوں کی کفالت ہر صورت باپ کی ذمہ داری ہے اور وہ اس سے بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا خواہ اس کی مالی حیثیت کتنی ہی کم زور کیوں نہ ہو۔
دودھ پلانے کا خرچہ:
طلاق اگر اس وقت ہوئی ہے جب عورت بچے کو دودھ پلانے کے مرحلے سے گزر رہی ہو تو ایسے میں وہ شوہر سے دودھ پلانے کے خرچ کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔ اور یہ خرچہ بچے کے خرچے کے علاوہ ہوگا۔ اس کا حکم قرآن سے بھی ثابت ہے اور یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ سابق شوہر کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عورت کے لیے رضاعت کے مہینوں کا کیا خرچ مقرر کرواتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس سیکشن9 کے تحت عدالت عورت اور بچوں کے خرچ کے معاملات عورت کے حق میں طے کرواتی ہے۔
برائڈل گفٹ کا قانون:
جہیز اور گفٹ کی مالک عورت ہے جس کا وہ کسی بھی وقت کلیم کر سکتی ہے۔ فیملی مسلم ایکٹ 1976 کے سیکشن ٹو کے تحت دلہن کو جو والدین کی طرف سے ملے گا وہ جہیز ہوگا اور جو سسرال والے دیں گے وہ گفٹ ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کیسز کی بھرمار ہے کہ جب طلاق کے بعد سسرال والے نہ صرف اپنے یہاں کے دیے ہوئے گفٹس بھی قبضے میں لے لیتے ہیں بلکہ جہیز بھی واپس نہیں کرتے، جب کہ دونوں چیزوں پر صرف اور صرف عورت کا حق تسلیم شدہ ہے۔ اس حق کی ادائیگی کے لیے سیکشن 10کے تحت کیس فائل کیا جاتا ہے۔ 1976کا برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ عورت کے جہیز اور تحائف پر اس کی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے۔
وزیٹیشن رائٹ:
یہ بچوں کی ماں یا باپ سے ملاقات کا قانون ہے۔ اگر بچوں کی بہبود اور بہتر مستقبل کی خاطر ماں کی رضا سے بچے باپ کے حوالے کر بھی دیے جاتے ہیں تو ماں کی بچوں سے ملاقات کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کے لیے کوئی لگا بندھا قانون مقرر نہیں ہے۔ یہ وزیٹیشن رائٹ نان کسٹوڈین پیرنٹ کو دیا جاتا ہے اور ملاقاتوں کی تعداد کا تعین جج کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ ماں یا باپ کو ماہانہ کتنی ملاقاتوں کی اجازت دیتا ہے اور ملاقات کے لیے ماں اور باپ دونوں کی باہمی رضامندی سے کسی جگہ کا تعین بھی کر لیا جاتا ہے ۔ یہ ملاقات طے شدہ وقت پر کورٹ کے احاطے میں بھی ہو سکتی ہے۔
مسلم فیملی ایکٹ 1964کے اسکیجوئل 5میں مکمل وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کون کون سے مقدمات فیملی کورٹ کی حد میں آتے ہیں۔ ان میں گارڈین شپ، خرچہ، نان نفقہ، جہیز، حق مہر، خلع و طلاق کے معاملات شامل ہیں۔ اس ضمن میں مسلم فیملی آرڈیننس1961، مسلم فیملی ایکٹ 1964 ، ڈاوری اینڈ برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ 1976، ڈیزولوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939موجود ہیں۔ تمام فیملی معاملات انہی ایکٹ کے تحت ریگیولیٹ کیے جاتے ہیں۔ بہت سی باتوں سے ہمارے ہاں کی خواتین ناواقف ہیں اور یہ لاعلمی مستقبل میں ان کے لیے ایک بہت بڑی تکلیف اور مصیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ تین طلاق کے ساتھ ہی شوہر کی زندگی سے اس کا ہر قسم کا تعلق ختم ہوگیا جب کہ قانون کہتا ہے کہ اگر وہ طلاق کی عدت گزار رہی ہے اور اس دوران سابق شوہر فوت ہوجائے تو بھی وہ اس کی وراثت میں حق دار رہے گی۔ حتی کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی اور اسے ڈائیوورس سرٹیفیکیٹ نہیں دیا تو بھی وہ اس کی جائیداد میں وارث اور حق دار رہے گی۔
کیا عدالت کا راستہ ذہنی وجسمانی تھکن اور کوفت کا باعث بنتا ہے؟ کیا یہاں چلنے والے کیسز کی طوالت سر کا درد بن کر کسی سمجھوتے پر مجبور کر دیتی ہے؟ کیا واقعی انصاف کی فراہمی کے لیے عدالت کا رخ کرنے کے لیے جیب کا نوٹوں سے بھرا ہونا لازمی ہے؟ یہ اور ایسے ہی کتنے سوالات عدالت سے انصاف کے لیے رجوع کرنے کے نام پر عورتوں کے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان کا جواب تلاش کیے بنا ہی اکثر ہار مان لیتی ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے عالمی دن پر میں خواتین کے لیے ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کر کے لائی ہوں جن کی طرف سے لاعلمی کے باعث وہ زندگی میں اکثر بدترین سمجھوتے کررہی ہوتی ہیں اور علیحدگی کے بعد اپنے حقوق سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے بہ آسانی ان سے دست بردار ہوجاتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ کا یہی رویہ مردانہ سماج کو مزید غرور عطا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ہماری بے خبری اور لاعلمی نے ہی مردوں کو قانون کی بابت ایسا بے خوف بنا دیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ کوئی جبر اور ظلم کرنے سے ذرا نہیں گھبراتے۔
خواتین کے ذہنوں میں کلبلاتے ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا یقین کرلیں کہ عدالت کی طرف بڑھتے آپ کے قدم خواری کی طرف نہیں بلکہ آسانی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ اگر آپ اپنا حق لینے کا تہیہ کر چکی ہیں تو سب سے پہلی فکر اس خرچے کی ستاتی ہے جو وکیلوں کی فیس کی ادائیگی کے نام پر پہلے ہی دن آپ کی جیب پر پڑنے والا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ کسی ٹرسٹ یا ادارے سے رجوع کریں جو خواتین کے حقوق کی فراہمی میں بلامعاوضہ ہر قسم کا قانونی ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے کئی اداروں کے بڑے نام آئے دن ہماری سماعت سے گزرتے بھی ہیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر آپ کی جیب وکیل کی فیس ادا کرنے کے قابل ہے تو وکیل ہائر کر لیجیے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ وکیل نہ تو آپ سے ہر پیشی پر پیسے وصول کرتے ہیں اور نہ ہی کیس کئی سال کھنچنے کی صورت میں آپ سے بے جا رقم ہتھیاتے ہیں۔ اگر آپ کے اندر شعور ہے اور آپ سارے معاملات اور قانونی طریقوں سے باخبر ہیں تو کوئی آپ کو بے وقوف بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ وکیل مہینے یا پیشیوں کے حساب سے نہیں بلکہ پورے کیس کی فیس طے کرتے ہیں جو کم سے کم بیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک ہوتی ہے۔ اب چاہے آپ کا کیس چھے مہینے چلے یا چھے سال، طے شدہ سے زیادہ رقم نہ کوئی وکیل آپ سے طلب کرے گا اور نہ ہی آپ کیس جلدی آگے بڑھانے کی لالچ میں فراہم کریں گی، کیوں کہ جج کی طرف سے آپ کے کیس کو مہینے میں دو تاریخوں سے زیادہ نہیں دی جائیں گی لہٰذا جلدی کی لالچ میں اپنی جیب پر بار نہ بڑھائیے۔ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔
دوسرا اندیشہ جس کا شکار خواتین اکثر ہوجاتی ہیں وہ ہے خواری۔ بھلا کیسے کیس کی ہر تاریخ پر عدالت جایا جائے گا؟ سارا دن کون کمرۂ عدالت کے باہر کھڑا ہوکر اپنے نام کی پکار پر کان لگائے گا؟ بھلا پیچھے گھر اور بچوں کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ تو جناب اس اندیشے کو میں ، بنا کسی جھجھک کے رد کرتی ہوں۔ آپ کا وکیل چاہے اس کا تعلق کسی سماجی اور فلاحی ادارے سے ہو یا پھر آپ نے فیس دے کر ہائر کیا ہو دونوں صورتوں میں وہی آپ کے کیس کا مکمل ذمہ دار ہے۔ کیس کی ابتدا میں بایو میٹرک کے لیے آپ کو ایک یا دو بار شاید عدالت جانا پڑے، اس کے بعد آپ کا کیس وکیل کا مسئلہ ہے۔ ہاں آپ کا ایک کام ہے اور وہ یہ کہ اپنے کیس کی اگلی تاریخ یاد رکھیے اور اس دن وکیل کو فون کر کے لازمی ہونے والی کارروائی کی بابت معلوم کیجیے۔ اگر آپ کا کیس عدالت میں دو سال بھی چلتا ہے جو کہ ایک عام بات ہے، تو آپ کو اس پورے عرصے میں چار یا چھے سے زیادہ چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔
''بال سفید ہونے سے پہلے انصاف نہیں ملے گا ۔'' ہے ناں آپ کے ذہن میں کلبلاتا یہی اگلا اندیشہ۔ ذرا سوچیے کیا یہ ہماری زبان پر چڑھا ایک عام جملہ نہیں کہ دن تو گویا پر لگا کر اڑ رہے ہیں، نیا سال تو یوں ہی چلا آتا ہے گویا بارہ مہینے نہیں بلکہ چند ہفتوں کی دوری پر ہو۔ تو پھر کیس کے معاملے میں یہی گزرتے دن آپ کو پہاڑ کیوں لگنے لگتے ہیں۔ فیملی کورٹ میں دائر کیس زیادہ سے زیادہ دو سے ڈھائی سال کی مدت میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اس مدت کے بعد جو فوائد آپ کے اور آپ کے بچوں کے حصے میں آئیں گے وہ آپ کی ساری تھکن دو ر کرکے آپ کو طمانیت سے بھر دیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدالت شوہر کی مالی حیثیت کے پیشِ نظر بہت سارا ماہانہ خرچ نہ طے کرے لیکن کیا یہی اطمینان کافی نہ ہوگا کہ بچوں کو دنیا میں لانے اور آپ کو طلاق دے کر باہر کرنے والا اب اتنی آزادی سے زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کے پیروں میں آپ نے قانون کی بیڑیاں ڈال دی ہیں جو اسے قدم قدم پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس ضرور دلائیں گی۔
ایک اندیشہ آپ کو اور ستاتا ہوگا کہ کورٹ سے کیس ختم ہونے کے بعد اگر سابق شوہر ان سب کی ادائیگی سے مکر گیا، اس نے خرچہ کسی بھی وقت روک لیا تو کیا پھر میں وکیلوں کے پیچھے بھاگوں گی اور دو سال کیس چلنے کا انتظار کروں گی؟ ارے نہیں، آپ کی یہ سوچ پانی کے بلبلے سے زیادہ اہم نہیں۔ اس بار آپ کی طرف سے جانے والی صرف ایک درخواست پر ہی کورٹ ایکشن لے گی کیوں کہ اب یہ معاملہ آپ سے زیادہ کورٹ کے عزت و وقار کا ہے۔ کورٹ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے معاملے میں کڑا ایکشن لے گی ، لیکن اس کے لیے بس یہ لازمی ہے کہ ایک درخواست کی صورت میں یہ معاملہ عدالت کے نوٹس میں لایا جائے۔
عدالت سے فرار ممکن نہیں۔ پاکستان کا قانون عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جب آپ اس سے رجوع کریں گی۔ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر بند باندھنے کا یہ ایک موثر طریقہ بھی ہے، اگر مرد کو معلوم ہو کہ طلاق کے بعد عدالت میں اسے کھینچا جاسکتا گا اور تمام ذمہ داریوں کو بعد میں بھی اسی کے سر تھوپا جائے گا تو وہ طلاق دینے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ عدالت کے راستے اسے بار بار یہ احساس دلائیں گے کہ طلاق دینا تو آسان تھا لیکن اس کے نتائج بھگتنا بہت مشکل ہے۔ سو طلاق کے نتائج عورت ہونے کے ناتے اکیلی آپ کیوں بھگتیں؟ بچے آپ تنہا کیوں پالیں؟
وجہ کوئی بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ طلاق کی شرح یہاں بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن جس تیزی سے طلاق کے کیسز سامنے آرہے ہیں اس کے مقابلے میں اپنی اور بچوں کی کفالت کے لیے قانون کی مدد لینے والی عورتیں بہت کم ہیں۔ صارم برنی ٹرسٹ میں گذشتہ ایک سال میں مینٹیننس کے ایک سو پندرہ اور جہیز کی حوالگی کے صرف سولہ کیسز آئے۔ چائلڈ ریکوری کے لیے آنے والے کیسوں کی تعداد بارہ رہی، جب کہ اس کا شمار پاکستان کے ایک ایسے ادارے میں کیا جاتا ہے جہاں مفت قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے، اس کے باوجود عورتیں ساری زندگی رونے دھونے اور شکوے شکایتوں میں بتانے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن انصاف کے لیے کسی در پر دستک نہیں دیتیں۔
یاد رکھیے، میاں بیوی کا رشتہ بہت قیمتی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن درست قانونی کارروائی سے بہت جلد آپ ایک عام زندگی کی طرف لوٹ سکتی ہیں ورنہ ساری زندگی طلاق آپ کے دل کا روگ اور ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہی بنی رہے گی ۔ ہم تو بس راستہ دکھا سکتے ہیں ، مشورہ دے سکتے ہیں۔ انتخاب تو آپ کو کرنا ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں قانونی باریکیوں پر راہنمائی فراہم کرنے کے لیے میں ایڈووکیٹ شہباز مرتضی انصاری، اسدمشوانی ایڈووکیٹ اور صارم برنی ٹرسٹ کے لیگل ایڈ ڈیپارٹمینٹ کے انچارج بسالت علی خان وکلاء کی شکر گزار ہوں)
طلاق کے بعد جب میں نے عدالت میں بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کیا تو سب نے میری مخالفت کی۔ کم وبیش ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ بے کار اپنا وقت ضایع کرنے جا رہی ہو۔ عدالتوں کا حال بھی تم کو معلوم ہے اور اس راستے پر جو خواری اور ذلت مقدر بنتی ہے اس کو جھیلنا بھی ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں۔ سب کی باتیں سننے کو تو سن لیں لیکن دل میں مصمم ارادہ باندھ چکی تھی کہ میں عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاؤں گی اور دیکھوں گی کہ پاکستان کے نظام عدل میں بہ حیثیت ایک عورت میرے لیے کیا ہے؟ عدالت سے رجوع کرنے والی میری اس سوچ کو مستحکم کرنے والے بہت سارے ایسے واقعات بھی تھے جن میں طلاق کے بعد بچوں سمیت عورت کی زندگی کو مشکل میں ڈال کر مرد وں نے دوسری شادیاں کیں اور پلٹ کر کبھی بچوں کی خبر نہ لی۔ میں اپنی ایک دوست کی زندگی کے حالات بھی قریب سے دیکھ رہی تھی جو طلاق کے بعد اپنے بھائیوں کے در پر بچوں سمیت پھینک دی گئی اور اس کی زندگی سے رہی سہی خوشیاں بھی سب کے بدلتے مزاجوں کی نذر ہوگئیں۔ کسی بھی شکوے کے جواب میں وہ، احسانات کی ایک طویل فہرست گنوا کر زبان بند رکھنے پہ مجبور کی جاتی رہی۔
اب میرے سامنے دو راستے تھے، اپنی عزت، آزادی اور خودمختاری گروی رکھوا کر میکے کی دہلیز پر بچوں سمیت پڑی رہ جاؤں یا پھر قانون سے مدد مانگوں۔ خواری تو دونوں صورت میں ہی اٹھانی تھی لیکن میں نے نسبتاً کم خواری والے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے عدالت کا رخ کیا۔ اور آج میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کا نظام عدل طلاق کے بعد بھی عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ گھر ٹوٹنے کے بعد پھیلنے والے معاشرتی انتشار کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک مرد اور عورت کا طلاق کے بعد معاملات کو قانونی طریقے سے حل نہ کرنا ہے۔ اور اب وہ مرد جس نے بچوں سمیت گھر سے نکالتے ہوئے کہا تھا کہ سکون کی زندگی گزار ے گا، اب کبھی رابطہ ہو تو کہتا ہے کہ تم نے مجھے عدالت کے چکر میں پھنسا کر خوار کرڈالا ہے۔ میں سمجھتی ہوں بچوں کا خرچ اٹھانا اگر خواری ہے تو یہ تو دنیا کے سب والدین ہی اٹھاتے ہیں، پھر طلاق کے بعد کوئی بھی ایک فریق اس سے بری الذمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہوتا بھی ہے تو اسے قانون کی مار مارنا ہی بہترین طریقہ ہے ۔''
سٹی کورٹ میں کیفے کے اندر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی صبا طلاق کے بعد کی قانونی چارہ جوئی کا پورا احوال بتاتے ہوئے اعتماد سے مسکرا رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں پھیلتا سکون دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ پاکستان میں بگڑتے ہوئے خاندانی اور سماجی ڈھانچے کی وجہ سے عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے کا شکار ہے لیکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا دم ہر کسی میں نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے گزرنے والی عورتیں حقیقی سکون اور خوشیاں کھو چکی ہیں۔ اس لیے سوچا کہ کیوں نہ عورتوں کے عالمی دن پر اسی مسئلے اور اس کے حل کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ طلاق یافتہ خواتین کو پورے وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جا سکے، ایسے کہ خود کو اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے وہ کسی کی مقروض ہو نہ احسان مند۔
طلاق کو ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایک ٹیبو کی طرح لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا طلاق کی طرف جا رہا ہو تو پورا خاندان اس طلاق کو، رکوانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ انتہائی ناپسندیدگی کے باوجود جوڑے کو رشتے میں بندھے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ طلاق کوئی قبیح یا حرام فعل نہیں۔ نکاح ایک سماجی بندھن ہے جس میں بندھے رہنے کا بھی انسان کو کامل اختیار دیا گیا ہے اور ختم کرنے کا بھی۔ یہ اختیار مذہب نے عورت اور مرد دونوں کو یکساں طور پر سونپا ہے۔ لیکن طلاق کے نام پر معاشرے میں چڑھنے والی ناک بھوں کی میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ ہی بچوں کی کفالت کے وہ مسائل ہیں جو کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کی پرورش کا احساس دلا کر رشتے کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سب کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ بچے کیسے پلیں گے؟َ
میرے مشاہدے کے مطابق یہ فکر بچوں کی صرف جذباتی نشوونما کی نہیں ہوتی، اگر بات صرف جذباتی تعلق کی ہوتی تو معاشرہ ان مردوں کو بھی ملعون کرتا جو بچوں کی خاطر کمانے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اصل مسئلہ بچوں کے اخراجات کا ہوتا ہے جو طلاق کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کی پرورش کون اور کیسے کرے گا؟ ہمارے معاشرے میں مرد طلاق دے کر عموماً بچوں کی طرف سے یوں بے گانہ اور لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ گویا بیوی کے ساتھ بچوں پر بھی تین لفظ بھیج دیے ہوں۔ ایسے میں عورت اور اس کے بچوں کی ذمہ داری میکے والوں کے سر آجاتی ہے جس کو اٹھانے سے اکثر اوقات بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے طلاق کے لفظ کو کوسنے اور ایسے جوڑوں خصوصاً عورت کو نشانہ ملامت بنانے کا معاشرے میں چلن عام ہے، کیوں کہ مرد تو اپنی زندگی میں خود کمانے کے قابل ہوتا ہی ہے جب کہ عورت عموماً بچوں سمیت کہیں نہ کہیں بوجھ بن رہی ہوتی ہے۔
آئیے اس ضمن میں کچھ بڑے مسائل کی طرف نظر ڈالتے ہیں جو طلاق کے بعد کم و بیش ہر عورت کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے پاکستان کا قانون عورتوں کے لیے کتنی معاونت فراہم کرتا ہے۔
حق مہر کی عدم ادائیگی:
یہ طلاق کے بعد ہر عورت کو پیش آنے والا ایک عام مسئلہ ہے۔ اکثر شوہر طلاق دینے کے بعد حق مہر کی ادائیگی سے مکر جاتے ہیں یا اس بابت ادائیگی کا جھوٹ بول کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہر عورت کا شرعی اور قانونی حق ہے۔ اس کو غصب کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہی نہیں۔ پاکستان کے مسلم فیملی ایکٹ 1964 کے سیکشن 209کے تحت عورت اپنے حق مہر کا دعویٰ کورٹ میں دائر کرنے کا مکمل حق رکھتی ہے اور اس کے دعوے پر عدالت فوری ایکشن لیتے ہوئے سابق شوہر کو طلب کر کے حق مہر کی ادائیگی کا حکم دیتی ہے۔
عدت کے مہینوں کا خرچ :
ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے دورانیے کا خرچہ دینا شوہر پر فرض ہے۔ عملاً چاہے عورت عدت کرے یا نہ کرے، دونوں صورتوں میں وہ اس رقم کی قانونی طور پر حق دار ہے۔ عدالت اس ضمن میں مناسب رقم کی ادائیگی کا حکم جاری کرتی ہے۔ دورانِ عدت مطلقہ عورت سابق شوہر سے خرچہ پانے کی حق دار ہے، جو انکار کی صورت میں عدالت کے ذریعے حاصل کرنا بے حد آسان ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کے تحت عدت کے اس خرچے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔
شوہر سے علیحدہ رہنے کی صورت میں نان نفقے کی ادائیگی ــ:
یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بیوی شوہر کے گھر میں ہو تو بھی اس کو نان نفقے کی مد میں کچھ نہیں دیا جاتا اور اگر وہ کسی ناراضگی کی وجہ سے شوہر سے الگ ہوجائے یا میکے میں رہ رہی ہو اس صورت میں تو مرد ہر ذمہ داری سے بالکل ہی آزاد ہو جاتا ہے۔ اور میکے والے بھی اپنی انا کو اہمیت دیتے ہوئے مرد سے بیوی بچوں کے خرچ کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہ مرد کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی بچوں کے نان نفقے کا بندوبست کرے ۔ اگر عورت کسی ناچاقی کی وجہ سے شوہر سے الگ رہ رہی ہے، میکے میں خواہ علیحدہ گھر میں، اور شوہر اس کا نان نفقہ نہ دے تو اس وقت بھی قانون اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور اگر شوہر یہ خرچہ نہیں دیتا اور یہ علیحدگی طلاق میں بدل جاتی ہے تو اب قانون کی رو سے عورت صرف عدت کے خرچ کا ہی دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ پچھلے چھے سال تک کے خرچے کا دعویٰ بھی دائر کرسکتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کی سیکشن 9 کے تحت عورت شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے بھی نان نفقے کی ادائیگی کا دعویٰ دائر کر نے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
بچوں کی کسٹڈی کا دعویٰ:
طلاق سے جُڑا یہ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ طلاق کے بعد عورت کو تنگ کرنے کی نیت سے شوہر یا سسرال والے بچے اسے نہیں دیتے۔ ایسی صورت حال میں عورت بہ حیثیت ماں تو پریشان ہوتی ہی ہے، ساتھ بچوں کو بھی شدید ذہنی دھچکا لگتا ہے۔ قانون کی رو سے بچوں پر پہلا حق ماں کا ہے، کیوں کہ ماں کے ساتھ ہی بچے زیادہ قریب اور پُراعتماد ہوتے ہیں۔ قانون کی نظر میں بچوں کی کسٹڈی دیتے وقت سب سے اہم بچوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لیکن اگر طلاق کے بعد بچے سسرال والوں نے یا شوہر نے اپنے پاس رکھ لیے تو عورت گارڈین اینڈوارڈ ایکٹ کی دفعہ سترہ اور پچیس کے تحت کسٹڈی آف مائنر کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے اور زیادہ تر یہ فیصلہ عورت کے حق میں ہی دیا جاتا ہے۔
ڈیکلریشن آف گارڈین شپ:
اگر بچے طلاق کے بعد عورت کے پاس ہی ہیں تو اکثر اوقات تو مرد اس سے بچوں کو چھین کر لے جانے کی دھمکیاں دے کر رہا سہا سکون بھی غارت کر دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں عورت کے پاس حق ہے کہ وہ اب عدالت میں بچوں کی کسٹڈی کا نہیں بلکہ ڈکلریشن آف گارڈین شپ کا کیس فائل کرے گی۔ گارڈین شپ ایکٹ سیکشن سیون (ٹین) کے تحت عدالت سے گارڈین سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ بچوں پر ماں کی مستقل کسٹڈی کا ضامن ہے۔ یہ سرٹیفیکیٹ نہ صرف ماں کے لیے ایک طاقت ہے بلکہ بچوں کو مستقبل میں بے شمار مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سرٹیفیکیٹ کے بعد بننے والے'' فارم ب '' میں بچے ماں کے نام پر بہ آسانی رجسٹر ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد انہیں اپنے تمام تعلیمی مراحل میں باپ کے شناختی کارڈ یا اس سے متعلقہ کاغذات کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ماں کی دستاویزات پہ تمام مراحل آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس سرٹیفیکیٹ کے بعد عورت بہ حیثیت ماں اپنے بچوں کی فلاح وبہبود کے تمام فیصلے آزادانہ حیثیت میں کرنے کا اختیار حاصل کرلیتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کو اپنے ساتھ ملک سے باہر بھی لے جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 12 کے تحت عورت پروٹیکشن آرڈر بھی لے سکتی ہے تاکہ کوئی بھی مستقبل میں اس سے بچوں کو چھین نہ سکے۔ اس سرٹیفیکیٹ کو حاصل کر نے کے باوجود بھی بچوں کے بنیادی اور اضافی دونوں قسم کے اخراجات کی ادائیگی قانوناً باپ ہی کی ذمے داری ہے۔
بچوں کا خرچہ:
مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961کی سیکشن نائن کے تحت عورت بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے۔ کیس شروع ہونے پر عدالت سابق شوہر سے پہلے عارضی خرچ جاری کرواتی ہے پھر کیس مزید آگے بڑھتا ہے اور اس میں مرد کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے فی بچے کے حساب سے عدالت بچوں کا خرچ طے کرتی ہے۔ یہ رقم ہمیشہ طے شدہ نہیں رہتی بلکہ ہر سال دس فی صد کے حساب سے بڑھتی بھی ہے۔ قانون اور شریعت کی رو سے بچوں کی کفالت ہر صورت باپ کی ذمہ داری ہے اور وہ اس سے بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا خواہ اس کی مالی حیثیت کتنی ہی کم زور کیوں نہ ہو۔
دودھ پلانے کا خرچہ:
طلاق اگر اس وقت ہوئی ہے جب عورت بچے کو دودھ پلانے کے مرحلے سے گزر رہی ہو تو ایسے میں وہ شوہر سے دودھ پلانے کے خرچ کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔ اور یہ خرچہ بچے کے خرچے کے علاوہ ہوگا۔ اس کا حکم قرآن سے بھی ثابت ہے اور یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ سابق شوہر کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عورت کے لیے رضاعت کے مہینوں کا کیا خرچ مقرر کرواتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس سیکشن9 کے تحت عدالت عورت اور بچوں کے خرچ کے معاملات عورت کے حق میں طے کرواتی ہے۔
برائڈل گفٹ کا قانون:
جہیز اور گفٹ کی مالک عورت ہے جس کا وہ کسی بھی وقت کلیم کر سکتی ہے۔ فیملی مسلم ایکٹ 1976 کے سیکشن ٹو کے تحت دلہن کو جو والدین کی طرف سے ملے گا وہ جہیز ہوگا اور جو سسرال والے دیں گے وہ گفٹ ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کیسز کی بھرمار ہے کہ جب طلاق کے بعد سسرال والے نہ صرف اپنے یہاں کے دیے ہوئے گفٹس بھی قبضے میں لے لیتے ہیں بلکہ جہیز بھی واپس نہیں کرتے، جب کہ دونوں چیزوں پر صرف اور صرف عورت کا حق تسلیم شدہ ہے۔ اس حق کی ادائیگی کے لیے سیکشن 10کے تحت کیس فائل کیا جاتا ہے۔ 1976کا برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ عورت کے جہیز اور تحائف پر اس کی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے۔
وزیٹیشن رائٹ:
یہ بچوں کی ماں یا باپ سے ملاقات کا قانون ہے۔ اگر بچوں کی بہبود اور بہتر مستقبل کی خاطر ماں کی رضا سے بچے باپ کے حوالے کر بھی دیے جاتے ہیں تو ماں کی بچوں سے ملاقات کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کے لیے کوئی لگا بندھا قانون مقرر نہیں ہے۔ یہ وزیٹیشن رائٹ نان کسٹوڈین پیرنٹ کو دیا جاتا ہے اور ملاقاتوں کی تعداد کا تعین جج کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ ماں یا باپ کو ماہانہ کتنی ملاقاتوں کی اجازت دیتا ہے اور ملاقات کے لیے ماں اور باپ دونوں کی باہمی رضامندی سے کسی جگہ کا تعین بھی کر لیا جاتا ہے ۔ یہ ملاقات طے شدہ وقت پر کورٹ کے احاطے میں بھی ہو سکتی ہے۔
مسلم فیملی ایکٹ 1964کے اسکیجوئل 5میں مکمل وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کون کون سے مقدمات فیملی کورٹ کی حد میں آتے ہیں۔ ان میں گارڈین شپ، خرچہ، نان نفقہ، جہیز، حق مہر، خلع و طلاق کے معاملات شامل ہیں۔ اس ضمن میں مسلم فیملی آرڈیننس1961، مسلم فیملی ایکٹ 1964 ، ڈاوری اینڈ برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ 1976، ڈیزولوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939موجود ہیں۔ تمام فیملی معاملات انہی ایکٹ کے تحت ریگیولیٹ کیے جاتے ہیں۔ بہت سی باتوں سے ہمارے ہاں کی خواتین ناواقف ہیں اور یہ لاعلمی مستقبل میں ان کے لیے ایک بہت بڑی تکلیف اور مصیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ تین طلاق کے ساتھ ہی شوہر کی زندگی سے اس کا ہر قسم کا تعلق ختم ہوگیا جب کہ قانون کہتا ہے کہ اگر وہ طلاق کی عدت گزار رہی ہے اور اس دوران سابق شوہر فوت ہوجائے تو بھی وہ اس کی وراثت میں حق دار رہے گی۔ حتی کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی اور اسے ڈائیوورس سرٹیفیکیٹ نہیں دیا تو بھی وہ اس کی جائیداد میں وارث اور حق دار رہے گی۔
کیا عدالت کا راستہ ذہنی وجسمانی تھکن اور کوفت کا باعث بنتا ہے؟ کیا یہاں چلنے والے کیسز کی طوالت سر کا درد بن کر کسی سمجھوتے پر مجبور کر دیتی ہے؟ کیا واقعی انصاف کی فراہمی کے لیے عدالت کا رخ کرنے کے لیے جیب کا نوٹوں سے بھرا ہونا لازمی ہے؟ یہ اور ایسے ہی کتنے سوالات عدالت سے انصاف کے لیے رجوع کرنے کے نام پر عورتوں کے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان کا جواب تلاش کیے بنا ہی اکثر ہار مان لیتی ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے عالمی دن پر میں خواتین کے لیے ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کر کے لائی ہوں جن کی طرف سے لاعلمی کے باعث وہ زندگی میں اکثر بدترین سمجھوتے کررہی ہوتی ہیں اور علیحدگی کے بعد اپنے حقوق سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے بہ آسانی ان سے دست بردار ہوجاتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ کا یہی رویہ مردانہ سماج کو مزید غرور عطا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ہماری بے خبری اور لاعلمی نے ہی مردوں کو قانون کی بابت ایسا بے خوف بنا دیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ کوئی جبر اور ظلم کرنے سے ذرا نہیں گھبراتے۔
خواتین کے ذہنوں میں کلبلاتے ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا یقین کرلیں کہ عدالت کی طرف بڑھتے آپ کے قدم خواری کی طرف نہیں بلکہ آسانی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ اگر آپ اپنا حق لینے کا تہیہ کر چکی ہیں تو سب سے پہلی فکر اس خرچے کی ستاتی ہے جو وکیلوں کی فیس کی ادائیگی کے نام پر پہلے ہی دن آپ کی جیب پر پڑنے والا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ کسی ٹرسٹ یا ادارے سے رجوع کریں جو خواتین کے حقوق کی فراہمی میں بلامعاوضہ ہر قسم کا قانونی ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے کئی اداروں کے بڑے نام آئے دن ہماری سماعت سے گزرتے بھی ہیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر آپ کی جیب وکیل کی فیس ادا کرنے کے قابل ہے تو وکیل ہائر کر لیجیے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ وکیل نہ تو آپ سے ہر پیشی پر پیسے وصول کرتے ہیں اور نہ ہی کیس کئی سال کھنچنے کی صورت میں آپ سے بے جا رقم ہتھیاتے ہیں۔ اگر آپ کے اندر شعور ہے اور آپ سارے معاملات اور قانونی طریقوں سے باخبر ہیں تو کوئی آپ کو بے وقوف بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ وکیل مہینے یا پیشیوں کے حساب سے نہیں بلکہ پورے کیس کی فیس طے کرتے ہیں جو کم سے کم بیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک ہوتی ہے۔ اب چاہے آپ کا کیس چھے مہینے چلے یا چھے سال، طے شدہ سے زیادہ رقم نہ کوئی وکیل آپ سے طلب کرے گا اور نہ ہی آپ کیس جلدی آگے بڑھانے کی لالچ میں فراہم کریں گی، کیوں کہ جج کی طرف سے آپ کے کیس کو مہینے میں دو تاریخوں سے زیادہ نہیں دی جائیں گی لہٰذا جلدی کی لالچ میں اپنی جیب پر بار نہ بڑھائیے۔ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔
دوسرا اندیشہ جس کا شکار خواتین اکثر ہوجاتی ہیں وہ ہے خواری۔ بھلا کیسے کیس کی ہر تاریخ پر عدالت جایا جائے گا؟ سارا دن کون کمرۂ عدالت کے باہر کھڑا ہوکر اپنے نام کی پکار پر کان لگائے گا؟ بھلا پیچھے گھر اور بچوں کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ تو جناب اس اندیشے کو میں ، بنا کسی جھجھک کے رد کرتی ہوں۔ آپ کا وکیل چاہے اس کا تعلق کسی سماجی اور فلاحی ادارے سے ہو یا پھر آپ نے فیس دے کر ہائر کیا ہو دونوں صورتوں میں وہی آپ کے کیس کا مکمل ذمہ دار ہے۔ کیس کی ابتدا میں بایو میٹرک کے لیے آپ کو ایک یا دو بار شاید عدالت جانا پڑے، اس کے بعد آپ کا کیس وکیل کا مسئلہ ہے۔ ہاں آپ کا ایک کام ہے اور وہ یہ کہ اپنے کیس کی اگلی تاریخ یاد رکھیے اور اس دن وکیل کو فون کر کے لازمی ہونے والی کارروائی کی بابت معلوم کیجیے۔ اگر آپ کا کیس عدالت میں دو سال بھی چلتا ہے جو کہ ایک عام بات ہے، تو آپ کو اس پورے عرصے میں چار یا چھے سے زیادہ چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔
''بال سفید ہونے سے پہلے انصاف نہیں ملے گا ۔'' ہے ناں آپ کے ذہن میں کلبلاتا یہی اگلا اندیشہ۔ ذرا سوچیے کیا یہ ہماری زبان پر چڑھا ایک عام جملہ نہیں کہ دن تو گویا پر لگا کر اڑ رہے ہیں، نیا سال تو یوں ہی چلا آتا ہے گویا بارہ مہینے نہیں بلکہ چند ہفتوں کی دوری پر ہو۔ تو پھر کیس کے معاملے میں یہی گزرتے دن آپ کو پہاڑ کیوں لگنے لگتے ہیں۔ فیملی کورٹ میں دائر کیس زیادہ سے زیادہ دو سے ڈھائی سال کی مدت میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اس مدت کے بعد جو فوائد آپ کے اور آپ کے بچوں کے حصے میں آئیں گے وہ آپ کی ساری تھکن دو ر کرکے آپ کو طمانیت سے بھر دیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدالت شوہر کی مالی حیثیت کے پیشِ نظر بہت سارا ماہانہ خرچ نہ طے کرے لیکن کیا یہی اطمینان کافی نہ ہوگا کہ بچوں کو دنیا میں لانے اور آپ کو طلاق دے کر باہر کرنے والا اب اتنی آزادی سے زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کے پیروں میں آپ نے قانون کی بیڑیاں ڈال دی ہیں جو اسے قدم قدم پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس ضرور دلائیں گی۔
ایک اندیشہ آپ کو اور ستاتا ہوگا کہ کورٹ سے کیس ختم ہونے کے بعد اگر سابق شوہر ان سب کی ادائیگی سے مکر گیا، اس نے خرچہ کسی بھی وقت روک لیا تو کیا پھر میں وکیلوں کے پیچھے بھاگوں گی اور دو سال کیس چلنے کا انتظار کروں گی؟ ارے نہیں، آپ کی یہ سوچ پانی کے بلبلے سے زیادہ اہم نہیں۔ اس بار آپ کی طرف سے جانے والی صرف ایک درخواست پر ہی کورٹ ایکشن لے گی کیوں کہ اب یہ معاملہ آپ سے زیادہ کورٹ کے عزت و وقار کا ہے۔ کورٹ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے معاملے میں کڑا ایکشن لے گی ، لیکن اس کے لیے بس یہ لازمی ہے کہ ایک درخواست کی صورت میں یہ معاملہ عدالت کے نوٹس میں لایا جائے۔
عدالت سے فرار ممکن نہیں۔ پاکستان کا قانون عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جب آپ اس سے رجوع کریں گی۔ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر بند باندھنے کا یہ ایک موثر طریقہ بھی ہے، اگر مرد کو معلوم ہو کہ طلاق کے بعد عدالت میں اسے کھینچا جاسکتا گا اور تمام ذمہ داریوں کو بعد میں بھی اسی کے سر تھوپا جائے گا تو وہ طلاق دینے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ عدالت کے راستے اسے بار بار یہ احساس دلائیں گے کہ طلاق دینا تو آسان تھا لیکن اس کے نتائج بھگتنا بہت مشکل ہے۔ سو طلاق کے نتائج عورت ہونے کے ناتے اکیلی آپ کیوں بھگتیں؟ بچے آپ تنہا کیوں پالیں؟
وجہ کوئی بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ طلاق کی شرح یہاں بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن جس تیزی سے طلاق کے کیسز سامنے آرہے ہیں اس کے مقابلے میں اپنی اور بچوں کی کفالت کے لیے قانون کی مدد لینے والی عورتیں بہت کم ہیں۔ صارم برنی ٹرسٹ میں گذشتہ ایک سال میں مینٹیننس کے ایک سو پندرہ اور جہیز کی حوالگی کے صرف سولہ کیسز آئے۔ چائلڈ ریکوری کے لیے آنے والے کیسوں کی تعداد بارہ رہی، جب کہ اس کا شمار پاکستان کے ایک ایسے ادارے میں کیا جاتا ہے جہاں مفت قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے، اس کے باوجود عورتیں ساری زندگی رونے دھونے اور شکوے شکایتوں میں بتانے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن انصاف کے لیے کسی در پر دستک نہیں دیتیں۔
یاد رکھیے، میاں بیوی کا رشتہ بہت قیمتی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن درست قانونی کارروائی سے بہت جلد آپ ایک عام زندگی کی طرف لوٹ سکتی ہیں ورنہ ساری زندگی طلاق آپ کے دل کا روگ اور ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہی بنی رہے گی ۔ ہم تو بس راستہ دکھا سکتے ہیں ، مشورہ دے سکتے ہیں۔ انتخاب تو آپ کو کرنا ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں قانونی باریکیوں پر راہنمائی فراہم کرنے کے لیے میں ایڈووکیٹ شہباز مرتضی انصاری، اسدمشوانی ایڈووکیٹ اور صارم برنی ٹرسٹ کے لیگل ایڈ ڈیپارٹمینٹ کے انچارج بسالت علی خان وکلاء کی شکر گزار ہوں)