اقوام متحدہ نے اسرائیل کے قیام کی منظوری دے کر اپنے ہی چارٹر کی خلاف ورزی کی
قائداعظم ؒنے کہا تھا ’’ اُمید ہے فلسطین کی تقسیم کو رد کر دیا جائے گا
( قسط نمبر 4)
اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے چارٹر کے ساتھ 24 اکتوبر 1945 کو جنگ ِ عظیم دوئم کے دو مہینے چودہ دن بعد عملی طور پر وجود میں آگیا اور 2 فروری1946 کو اِس کے سیکرٹری جنرل کا انتخاب بھی ہو گیا۔ اس جنگ کے بعد چین، انڈونیشیا، مشرقی یورپ اور الجزائر اور مشرقِ وسطٰی جیسے علاقوں میں بے چینی شدت کو پہنچے لگی تھی۔
چین میں تو ماوزے تنگ کی قیادت میں اشتراکی انقلاب کے لیے جدوجہد کامیابیوں کی آخری منزل کے قریب تھی، مشرقی یورپ میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے مارکسٹ، لیننیسٹ کامیاب ہو رہے تھے، برصغیر میں 1935 کے قانون ِ ہند کے تحت مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعد انگریزوں نے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ اب ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے گا بلکہ انتخابات کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کی وزارت عظمیٰ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ورزا کی کابینہ کی تشکیل کے بعد چالیس کروڑ کی آبادی کے ہندوستان کی پہلی منتخب مرکزی اور مخلوط قومی حکومت کے بن جانے کی وجہ سے انگریز نے چالیس کروڑ آبادی کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہندوستان کو جلد آزادی دے دی جائے گی ، اگر چہ یہاں انگریز گورنر جنرل اور کمانڈر انچیف اب بھی کنٹرولنگ اتھارٹی کی حیثیت میں موجود تھے لیکن وہ اب خصوصاً انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ مشترکہ ہندوستان کا آخری قومی بجٹ مالی سال 1946-47 و زیرخزانہ لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا اور اُنہوں نے کانگریس اور انگریزوں کی مرضی کے خلاف اور مشترکہ ہندوستان کے غریب عوام کے مفاد میںبجٹ بنایا تھا اور اس میں سرمایہ داروں کی بجائے نچلی سطح پر عوام کی اکثریت کو فائدہ پہنچا تھا۔
یوں ہندوستان میں ملکی و قومی آزادی اورخود مختاری کے لحاظ سے عوام مطمئین تھے اُنہیں یقین تھا اب حکومت تو اِن کی بن چکی ہے اس لیے آزادی جلد اور یقینی ہے۔ جنگ زدہ برطانیہ ملبے کے ڈھیروں کو ہٹا کر خود کو نئی تعمیر کے ذریعے مستحکم ہونے کے تیز رفتار مراحل طے کر رہا تھا مگر اب بھی اُس کی حکومت ہندوستان سمیت دنیا کے پچاس کے قریب ملکوں میں قائم تھی جن میں اب برطانیہ نے دوسری نوآبایاتی قوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ حقوق اور اِن کے اصول وضوابط کے مطابق آزادی اور خودمختار ی دینی تھی۔
انگریز ماہرین سیاسی نوآبادیاتی نظام کے بعد اپنی اِنہی نوآبادیات کو اقتصادی نوآبادیوں میں تبدیل کرنے کے مراحل میں اپنی انتہائی اہم حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو تیزرفتاری سے عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ عالم اسلام کی بنیاد پر وہ بے چینی جو پہلی جنگ ِ عظیم کے اختتام پر دنیا کے دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تھی اب ایک نئے انداز سے دنیا بھر کے مسلم ممالک سے کہیں زیادہ شدت سے عرب دنیا میں تھی کیونکہ برطانیہ عرب دنیا کے قلب فلسطین میں تقریباً دوہزار سال بعد اسرائیل کے نام سے یہودیوں کا ملک بنانے کے اعلان پر عملدآمد کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ نے 29 نومبر1947 کو برطانوی نوآبادیات سے آزادی کے ساتھ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181(ii) کے تحت منظور کیا جس میں فلسطین کی تقسیم کے ساتھ اسرائیل کا وجود غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے تک تھا۔ 3 ستمبر 1947 کو UNSCOP کا گرین لائن سے اسرائیل کی حدود کو واضح کرتا نقشہ اقوام متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی نے تجویز کیا تھا اس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس نمبر 128 میں 29 نومبر1947 کو ووٹنگ ہوئی جس میں 33 ووٹ اس قرارداد کے حق میں آئے، 13 ممالک نے مخالفت کی اور دس ووٹ غیر حاضر رہے۔
اس پلان میں تجویز کیا گیا تھا کہ آزاد اور خود مختار یہودی اور عرب ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور یروشلم کو عالمی شہر قرار دینے کی بھی تجویز تھی، اس قرارداد کے مطابق برطانیہ نے یکم اگست 1948 سے پہلے یہاں سے نکل جانا تھا اور دو ماہ بعد یکم اکتوبر کو فلسطین کی تقسیم کے بعد اِن دو ملکوں فلسطین اور اسرائیل کوآزاد اور خود مختارہو جانا تھا۔ فلسطین کی تقسیم، اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو باوجود محدود اعترا ضا ت کے یہودیوں کی نما ئند ہ تنظیم Jewish Agency for Palestine نے تسلیم کر لیا، جب کی عرب لیڈروں اور ملکوں نے اس پلان کو رد کر دیا اور یہ موقف اپنایا کہ یہ پلان خود اقوام متحدہ کا اپنے چارٹر میں دیئے گئے حق ِ خودمختار ی کے اصول و ضوابط کے خلاف ہے جس میں مقامی آبادی کو خود مختاری کا حق دیا گیا ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو قائم ہوا تھا جو 16 دسمبر1971 تک آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ اس کے رہنما قائد اعظم نے اُس وقت کشمیر، فلسطین، شمالی افریقہ اور عرب ممالک انڈو نیشیا، سوڈان، لیبیا، مراکش، نائجیریا اور الجزائر کے مسائل اور دکھ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سمجھا تھا اور اپنے ویژن، اپنی سیاسی بصیرت سے عالمی سازشوںکا ادراک کر لیا تھا اور اسلامی اتحاد کی بنیاد پر اِن مسائل کا حل بھی تجویز کیا تھا، عالمی سیاست اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری چودہ پندرہ مہینوں میں مختلف مواقع پر یوں اظہارِ خیال کیا۔
پاکستان کے قیام سے ایک مہینے پہلے 14 جولائی 1947 کو دہلی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ، ہم کسی کے خلا ف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ، ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرتے ہوئے پوری دنیا کے امن اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، 25 اکتوبر 1947 کو قائد اعظم نے کہا کہ ''مجھے امید ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ ردکر دیا جائے گا وگرنہ دوسری صورت میں یہ مسلم دنیا کے لیے بڑی تباہی اور ناقابلِ مثال تنازعے کا سبب بنے گا، مسلم دنیا اس فیصلے کے خلاف ہو گی، پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس فیصلے کو روکنے کے لیے عرب دنیا کا بھرپور ساتھ دے، میر ے خیال کے مطابق فلسطین کی تقسیم کے خلاف شدید ردعمل ہوگا۔
1948 کے آغاز ہی میں قائد اعظم نے شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی کھل کر حمایت کی اسی طرح انہوں نے انڈو نیشیا پر نیدر لینڈ کے حملے کی شدید مخالفت کی، انہوں نے انڈونیشیا، سوڈان، لیبیا، مراکش، نائجیریا، الجزائرکی آزادی کی حمایت کی۔ قائد اعظم نے مسلم برادر ملکوں کے لیے دوستانہ اور نیک خواہشات کے پیغام میںکہا ''ہم ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، طاقت کی بنیاد پر جو سیاسی ڈرامہ فلسطین انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا گیا ہے، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ہم صرف متحد ہو کر ہی اپنی آواز دنیا میں موثرطور پر اٹھا سکتے ہیں۔
قائد اعظم جو موقف کشمیر پر رکھتے تھے اُسی بنیاد پر انہوں نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام پر عرب ملکوں کی حمایت کی،کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں ہی کو کرنا تھا، اسی طرح فلسطین کا فیصلہ یہاں اُن فلسطینیوں کو ہی کرنے دینا چاہیے تھا جو نسل در نسل صدیوں سے یہاں آباد تھے نہ کہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں سینکڑوں برسوں سے آباد اُن یہودیوں کو جن کو یہاں لا کر آباد کیا گیا، جو فسلطین کی ثقافت ، زبان، تہذیب کو چھوڑ کر صدیوں سے دوسرے ملکوں کی قومیت اور شہریت اختیار کر کے وہاں کی ثقافت ، تہذیب ، تمندن اور زبان کو اپنا چکے تھے۔
کہا جا تا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم سے پہلے دنیا بھر کے یہودی اپنی قدیم عبرانی زبان بھی مکمل طور پر بھول چکے تھے اور پوری دنیا میں صرف دو تین یہودی ایسے تھے جو عبرانی زبان جا نتے تھے یہی وجہ ہے کہ جدید دور میں یہودیوں کو پوری دنیا پر حاکمیت قائم کرنے کی پیش گوئی کے تحت بیسویں صدی کے آغاز میں اگست، ستمبر 1903 میں شائع ہونے والا The Protocols of the Elders of Zion جسے عام طور پر جیوش پروٹوکول کہا جاتا ہے، روسی زبان میں لکھا گیا، 417 صفحات پر مشتمل اس پروٹو کول کا انگریزی ترجمہ 1919 میں کیا گیا اور پھر اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں کیا گیا۔
اس پروٹوکول کا کوئی ایک مصنف نہیں ہے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ روس میں انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں یہودی مذہبی اور سیاسی لیڈوں، ماہرین ِمعاشیات اور ذرائع ابلاغ کے ماہرین کے ایک اہم اجلاس کی میٹنگ کی کاروائی اور اس میں مشترکہ طور پر طے کئے جانے والے منصوبے اور حکمت علمی کا خلاصہ ہے جس میں عقائدکی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں یہودیوں کی حکومت کرنے کا مقررہ وقت آپہنچا ہے اور اس کے لیے یہودی میڈیا اور معاشیات پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اب جلد دنیا پر چھا جائیں گے۔ جنگ عظیم اوّل کے دوران1920 ہی میں اس کی 500000 کاپیاں شائع کی گئیں اور پورے امریکہ میں تقسیم کی گئیں۔
اس کے بعد اُن زبانوں میں بھی شائع ہوئیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں یہودیوں کے صدیوں سے آباد رہنے کی وجہ سے وہاں اِ ن کی مادری زبانیں بن چکی تھیں۔ اسرائیل کے قیام کے منصوبے میں اور جیوش پروٹوکول کے علاوہ ایک اہم ترین دستاویز اعلانِ بالفور ہے جو برطانوی حکومت کا صیہونی یہودیوں سے اسرائیل کے قیام سے متعلق ایک خفیہ معاہدہ ہے جس کی توثیق بھی کی گئی تھی۔
یہ معاہدہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی عثمانیہ خلافت کے خلاف بھی تھا جس کے ماتحت تقریبا ً تمام عرب اور شمالی افر یقہ کے مسلم ممالک اور مشرقی یورپ کے کئی علاقے تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد اس بڑی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد اسرائیل کے قیام کے منصوبہ پر عملدرآمد ہونا تھا، یہBalfour Declaration کے نام سے 2 نومبر1917 کو برطانیہ کے وزیر ِخارجہ Arthur Balfour آرتھر بالفور کی جانب سے برطانیہ کی یہودی آبادی کے لیڈر Lord Rothschild لارڈ روتھس ایلڈ کے نام لکھا گیا خط ہے۔ اس اعلانیہ میں بر طانوی وزیر ِخارجہ بالفور تاجِ برطانیہ کی حکومت کی جانب سے کابینہ کی منظوری کے بعد یہودی صیہونی لیڈر لارڈ روتھس کو لکھتے ہیں کہ فسلطین کے علاقے میں یہودی آزاد اور خود مختار ریاست قائم کی جائے گی۔
مذہبی اور تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو فلسطین کی مقدس سر زمین جو واحد لاشریک اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیا کے دنیا میں آنے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے اعتبار سے ہزاروں کی قبل از تاریخ کی اہم ترین تہذیب ہے، یہودیوں کے حوالے سے توریت، زبور اور انجیل کے علاہ آخری آسمانی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے قصے اور واقعات درج ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے کئی بار تباہی اور بربادی سے گزرے اور اِن کو فلسطین سے نکال دیا گیا، تاریخی طور پر اِن کی بدترین بے دخلی ڈھائی ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل عراق کے حاکم بخت نصر کے دور میں ہوئی پھر ایران کے عظیم شہنشاہ سائرس اعظم نے جب ڈھائی ہزار سال پہلے اس پورے علاقے کو فتح کیا تو مدتوں بعد اِن یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میںلا کر آباد کیا، پھر رومن کے عروج کے زمانے میں فلسطین پر صدیوں رومیوں کی حکومت رہی جو سورج کی پرستش کرنے والے مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
یوں جب فلسطین میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی پیدائش ہوئی اور پھر جب اُنہوں نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی تو تھوڑے عرصے ہی میں فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو رومن حاکم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مستقبل میں فلسطین میں رومن حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے قتل کرنے کے احکامات صادر کئے، اس پر اسلامی عقائد کے مطابق وہ کسی مکان میںچھپ گئے تو اُن کی نشاندہی کر نے والا ایک یہودی تھا اور جب وہ پہلے مکان میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھایا اور جو شخص مخبر بن کر پہلے مکان میں داخل ہوا تھا اُس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہو بہو حضرت عیسیٰؑ کی سی کر دی اور جب رومن فوجی گھر میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے اُس یہودی شخص کو حضرت عیسیٰؑ سمجھ کر گرفتاری کے بعد صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا۔
حضر ت عیسیٰؑ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے کچھ عرصے بعد تک یوں محسوس ہوا جیسے اب عیسائیت کو فروغ حاصل نہیں ہو گا اور یوں لگتا تھا کہ یہ مذہب دنیا سے جلد ہی ختم ہو جا ئے گا، لیکن عیسائیوں کے عظیم سینٹ پال جو رومن شہری اور یہودی تھے اُنہوں نے عیسائیت کو قبول کیا، اس کی تبلیغ و تحقیق میں ایسا جوش و جذبہ پیدا کیا کہ لوگ جوق در جوق اُن کے توسط سے اس نئے مذہب میں داخل ہونے لگے ، سینٹ پال سن چار عیسوی کو پیدا ہوئے اور 64 ء عیسوی کو وفات پائی، وہ حضرت عیسیٰؑ کے دور ہی میں یروشلم میں رہے لیکن ایک دوسرے سے نہیں ملے، سینٹ پال یہودی تھے، عیسائیت کے شدید مخالف تھے۔
اُنہوں نے عبرانی سیکھی تھی اور یہودیت کے اعتبار سے ابی کیماس سے علم حاصل کیا تھا، وہ ابتدا میں حضرت عیسیٰؑ کو (نعوذ باللہ ) بدعتی قرار دیتے تھے، شام کے سفر کے دوران اُنہیں کشف ہوا، اور حضرت عیسیٰؑ اُن کے سامنے آگئے اور اُن سے طویل گفتگو کی اور پھر پال جو بعد میں سینٹ کے درجے پر پہنچے عیسائی ہوگئے، اُنہوں نے اس کے بعد بقیہ زندگی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عیسائیت پر استغراق کرنے اور لکھنے میں گزاری، اُن کی تحریریں عہد نامہ جدید کا اہم حصہ بنیں، انہوں نے عیسائیت کی تبیلغ کے لیے ایشیائے کوچک ، یونان، شام اور فلسطین میں طویل سفر کئے۔
اگرچہ مذہبی فکری تحقیقی لحاظ سے عیسائیت کی تبلیغ میں رہتی دنیا تک سینٹ پال کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا لیکن مشرق وسطیٰ کے علاوہ اُس وقت کے یورپ اور پھر عظیم سلطنتِ رومن میں عیسائی مذہب رومن کے باد شاہ کا نسٹنٹائن اعظم کے عیسائی بننے کے بعد تیز رفتاری سے پھیلا اور یہ حقیقت ہے کہ اگر رومن بادشاہ کانسٹنٹائن اعظم عیسائی نہ ہوتا تو یہ تو ممکن تھا کہ عیسائی مذہب مزید پھیلتا مگر شائد اتنا نہیں پھیلتا ، کانسٹنٹائن 280 ء میںپیدا ہوئے اور 337 ء میں وفات پائی، اُس دور تک یورپ اور دیگر علاقوں میں پیگن Pagan مذہب یعنی دنیا کے قدیم مذاہب غالب تھے اور رومیوں کی اکثریت سورج کی پر ستش کرتی تھی۔
کانسٹنٹائن اپنے باپ کی وفات کے بعد 305 میں آدھے روم کا باد شاہ بنا کیونکہ باقی آدھے روم پر اُس کے حریف بادشاہ ٹیس کی حکومت تھی۔ 323 ء میںکانسٹنٹائن کی اُس سے بڑی اور فیصلہ کن جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگِ میلوین کہلاتی ہے، اس جنگ سے قبل عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے مطابق ایک معجزہ ہوا کہ جنگ سے پہلے رات کو اچانک کانسٹنٹائن اعظم کی آنکھ کھلی تو روشنی کافی زیادہ تھی وہ فوراً اپنے خیمے سے باہر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ آسمان پر مشرق کی سمت ایک بہت بڑی روشن آتشیں صلیب ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ ''اس نشان کے صدقے تجھے میلوین کی جنگ میں فتح نصیب ہو گی '' اور واقعی کانسٹنٹائن کو جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور وہ پورے روم کا شہنشاہ بن گیا تو اُس نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور باد شاہ کی جانب سے عیسائیت قبول کرنے کے بعد نہ صرف پورے روم کے لوگ عیسائی ہو گئے بلکہ فلسطین سمیت جہاں جہاں رومیوں کی حکومت تھی وہاں عیسائی مذہب آزادانہ فضا اور ماحول میں پھلنے پھولنے لگا۔
فلسطین میں جہاں پہلے عیسائیوں کی زندگیاں تنگ تھیں اب وہاں عیسائی طاقتور ہو گئے، سینٹ پال نے تو حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کو اُس کی اصل روح کے مطابق رکھا اور امن ،محبت، سلامتی، انسانی عظمت، در گزر، برداشت، ظلم سہہ کر بھی دل صاف رکھنا، کوئی ایک گال پر چانٹا مارے تو دوسرا بھی پیش کر دینا جیسی تعلیمات کی تبلیغ کی کیونکہ وہ بادشاہ نہیں تھے سینٹ تھے، مگر کا نسٹنٹائن عظیم بادشاہ بھی تھا بلکہ وہ جنگجو اور بہادر بھی تھا، یوں اس کے دور میں اور اس کے بعد عیسائیوں کی تلواریں صلیبی نشان کی طرح بننے لگیں اور آج بھی یہ فرق ہے، اس لیے پھر عیسائی مذہبی رہمناؤں نے بھی عدم برداشت کا راستہ اختیار کیا۔
جب یہ بات سامنے آئی کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی مخبری کر کے اُنہیں گرفتار کروانے والا ایک یہودی تھا تو فلسطین میں آئندہ کئی صدیوں تک عیسائیوں کے رویے یہودیوں کے لیے سخت رہے، پھر یہ بھی تھا کہ فلسطین میں اُس وقت عیسائیوں کی اکثریت بھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے فسلطین سے یہودیوں کی اکثریت ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں آباد ہو گئی، اسلام کی آمد کے بعد ساتویں صدی عیسویں میں فلسطین فتح ہوا، یہ خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطابؓ کا دور تھا جب اسلامی لشکر نے یروشلم کا محاصر ہ کر لیا۔ اہل شہر کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ اگر یہ لشکر چاہے تو چند گھنٹوں میں شہر کو تباہ وبرباد کر دے لیکن عیسائیوں اور یہودیوںکو یہ معلوم تھا کہ اسلام بھی آسمانی مذہب ہے اوراِن کے لیے بھی یروشلم مقدس ہے کیونکہ یہ پہلے مسلمانوں کا قبلہ اوّل رہا، پھر نبی کریم ؐ یہاں سے ہی معراج شریف پر تشریف لے گئے تھے، یوں یروشلم کے معززین نے کہا کہ ہماری روایت کے مطابق شہر میں فاتح کی حیثیت سے بادشاہ یا حکمران ہی داخل ہوگا۔
یوں جب یہ پیغام خلیفہِ وقت حضرت عمر ؓ تک پہنچا تو وہ فوراً ہی یروشلم روانہ ہوئے، یہ روانگی اور مسافت بھی مثالی تھی، آپؓ اور آپؓ کے غلام ایک اونٹ کے ساتھ تھے، آپؓ نے دورانِ سفر اُونٹ اور غلام دونوں کا خیال رکھا، دورانِ سفر اونٹ پر ایک وقت میں ایک سوار ہوتا، اور غلام اور آپؓ باری باری اونٹ پر سواری کرتے، پروگرام کے مطابق جس دن حضرت عمرؓ نے پہنچنا تھا تو اسلامی لشکر کے ساتھ ہی شہر کی ساری آبادی کھڑی تھی، معززینِ شہر کا خیال تھا اسلامی خلیفہ بادشاہ کی طرح نہایت شان و شوکت سے آئے گا کہ دور سے دکھائی دیا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہے اور دوسرے شخص نے اُونٹ کی مہار تھام رکھی ہے۔
اسلامی لشکر نے خوشی سے خوش آمدید کے نعرے لگائے تو یروشلم کے معززین اور شہریوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ اکیلے اُونٹ پر سوار شخص آپ کا خلیفہ ہے؟ اس پر جواب ملا نہیں وہ تو اُن کا غلام ہے اور جس نے اُونٹ کی مہار تھام رکھی ہے وہ خلیفہ حضرت عمرؓ ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب یہاںحضرت عمرؓ نے نماز ادا کرنے کے لیے کہا تو عیسائی مذہبی رہنماؤں نے یہ پیشکش کی وہ گرجا گھر میں ہی نماز ادا کر لیں جس پر اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج میں نے ایسا کیا تو کل تمام مسلمان ایسا کریں گے اور اس سے عیسائیوں کو نقصا ن ہو گا، یہاں یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پہلے دور اقتدار میں یہاں عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بہترین بر تاؤ روا رکھا۔
1099 ء سے1291 ء تک صلیبی جنگوں کا دور رہا جس میں سلطان صلاح الدین کا کردار مثالی رہا جس کی بادشاہ ''شیر دل رچرڈ '' نے خود تعریف کی اور کہا تھا کہ اب اگر مذہبی رہنما ؤں نے صلاح الدین سے جنگ کا کہا تو وہ اِن کے خلا ف ہو جا ئے گا، پھر یہ علاقہ 1516 ء تک عربوں کے پاس رہا۔ واضح رہے کہ پھر یہاں ترکی اور ترکوں کے تعلق سے خلافتِ عثمانیہ قائم ہو گئی، اُس وقت تک مسلمانوںکی ایک اور مضبو ط اور ترقی یافتہ سلطنت ہسپانیہ یعنی اسپین کی سلطنت تھی جو یہاں ترکوں کے اقتدار میں آنے سے24 سال پہلے یعنی1492 میں تباہ و برباد اس طرح ہوئی کہ اسپین میں تقریباً آٹھ سو سال پہلے قائم ہو نے والےمسلمانوں کی حکومت نے اُس زمانے میں یورپ میں بہت ترقی اور یہاں اس ترقی اور خوشحالی میں اُس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی یہودی آبادی بھی یہاں اسپین میں مسلمانوں کے دور اقتدار میں تاریخ میں سب سے زیادہ امن اور تحفظ کے ساتھ رہی مگر پندرویں صدی عیسوی تک مسلمان یہاں رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہونے لگے اور 1492 میں جب اسپین بڑی مسلم ریاست غرناطہ کے علاوہ دو بڑی اور ایک چھوٹی ریاستوںمیں تقسیم تھا تو شدت پسند مذہبی عیسائی ملکہ ازابیلا نے دوسری ریاست کے بادشاہ فرنینٹڈ سے شادی کر لی اور پھر دونوں نے ملکر غرناطہ کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔
یہاں اس کا بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر ایسے قتل عام کی مثالی نہیں ملتی کہ وہ پورا اسپین جس پر پانچ صدیوں تک مکمل طور پر اور امن و محبت برداشت اور یہودیوں عیسائیوں سے رواداری کے ساتھ حکومت کی گئی اور جب مسلمان کمزور ہوئے اور عیسائی ریاستیں بھی وجود میں آگئیں تب بھی رواداری کو قائم رکھنے کی کوشش کی، وہاں ازابیلا نے فتح حاصل کرنے کے بعد پورے اسپین میں یہ کھلا اعلان کر دیا کہ یہاں سے غیر عیسائی یعنی مسلمان اور یہودی نکل جائیں دوسری صورت میں اُنہیں قتل کر دیا جائے گا، اور پھر ایسا ہی ہوا اسپین کو غیر عیسائی آبادی سے مکمل طور پر پا ک کر دیا گیا، مسلمانوں اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد یہاں سے جان بچا کر نکلی، مسلمانوں کے لیے تو شمالی افریقہ اور عرب میں بہت سے اسلامی ممالک تھے لیکن یہودیوں کی بڑی تعداد یہاں سے یورپ منتقل ہوئی۔ واضح رہے کہ 1492 میں اسی ملکہ ازابیلا کی مالی امداد سے کرسٹوفر کولمبس ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کرنے نکلا تھا اور امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب نہ صرف یورپ میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہوئی اور اس میں اہم ماہرین علوم یہودی تھے۔
اسی زمانے میں دنیا کا مکمل خشکی کا نقشہ معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی نظام تشکیل پانے لگا اور اِنہی قوتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں جنگیں بھی رہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کے قتل عام کے بعد دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے نازی ازم کے تحت ہونے والے ہالوکاسٹ تک یہودی قوم اور بھی قتل عام کے سانحات سے گزری مگر انسانی تاریخ میںایرانی آتش پرست مذہب جن کے ما ننے والے پارسی بھی کہلاتے ہیںاور یہ مذہب ڈھائی ہزار سال پہلے زرتشت نے ایران میں متعارف کروایا تھا یہ پارسی اور یہودی ایسی قوم اور مذہبی کیمونٹی ہے کہ یہودیوں میں مذہب یعنی یہودیت پیدائشی اور نسلی طور پر چلتی ہے یعنی اگر کوئی نسلاً اور پیدائشی طور پر یہودی نہیں ہے تو وہ یہودی نہیں ہو سکتا۔
اس وقت دنیا میں تقریباًدوکروڑ کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں اور اس آبادی کا تقریباً نصف اسرائیل میں آباد ہے جہاں تک تعلق آتش پرستوں یا زرتشتوں کا ہے تو یہ قوم جو یہودیوں سے کم قدیم ہے اور نسلاً اور پیدائشی طور پر ہی اپنے مذہب کے ساتھ چلتی ہے اب پوری دنیا سے ختم ہوتی جا رہی ہے اس وقت پوری دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد تقریباً دولاکھ ہے اور کہا جاتا ہے کہ2050 ء تک دنیا سے پارسی بالکل ختم ہو جائیں گے مگر یہودی موجود ہیں اور رہیں گے۔ حیرت انگیز طور پر اِن یہودیوں نے تقریباً چار ہزار سال سے اپنے قبائل کا نسل در نسل ریکارڈ انفرادی طور پر شجرہ نسب کے لحاظ سے بہت معیار ی طور پر درست رکھا ہے۔
تقریباً دو ہزار سال سے یہ فلسطین سے نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد ہوئے، سولہویں صدی عیسوی سے اِنہوںنے یورپ اور پھر امریکہ کا رخ کیا یہاں بھی اِن مغربی ملکوں کی شہریت کے اعتبار سے یہ یہودی تین سے چار سو سال پرانے باشندے ہیں۔ اس وقت جتنے یہودی اسرائیل میں آباد ہیں۔
اِن کی90% تعداد 1917 کے بعد یہاں آئی ہے اور اس 90 فیصد تعداد میں سے بھی 60 فیصد وہ تعداد ہے جو اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے اب تک یہاں منتقل ہوتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اسی بنیاد پر جب پہلے 3 ستمبر1947 کو اقوم متحد ہ کی کمیٹی نے گرین لائن نقشے کے منصوبے کو اپنے 128ویں اجلاس میں ووٹنگ کی بنیاد پر منظور کیا اور پھر 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بر طانوی نو آبادیات کے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرار داد نمبر 181(ii) کو منظور کر لیا توکچھ اعتراضات کے ساتھ یہودیوں کی صیہونی تنظیم Jewish Agency far Palestine نے اس کو قبول کر لیا اور عرب لیڈروں اور ملکوں نے اس پلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کے خلاف ہے اور اُس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس منصوبے کو رد کرتے ہو ئے کہا تھا کہ پاکستان اس مسئلہ پر عرب برادر ملکوں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور توقع ظاہر کی تھی کہ اس پلان کو مسترد کر دیا جائے گا کیو نکہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق بتا چکے تھے کہ اسرائیل کے قیام کا یہ فیصلہ مستقبل میں اور مستقل طور پر مسلم ملکوں خصوصاً عرب ملکوں کے لیے تباہی اور بربادی کا سبب ثابت ہو گا یہ کسی طر ح بھی درست نہیں ہے۔
اس لیے اقوام متحدہ کی اسرائیل کے قیام کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد واقعی اقوام متحدہ کے اپنے چار ٹر کی روح کے خلا ف تھی، جس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرار داد منظور کی گئی اُ س وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی کل تعداد 56 تھی جس میں سے 33 نے اس کے حق میں ووٹ دئیے 13 نے مخالفت کی اور 10 غیر حاضر رہے یعنی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے اراکین کی کل تعداد دس ہوا کرتی تھی جن میں سے آج ہی کی طرح پانچ ارکان ویٹو پاور رکھتے تھے جن میں برطانیہ، امریکہ ، فرانس، چین اور روس شامل تھے جہاں تک آج کے چین کا تعلق ہے تو اُس وقت ایک تو یہ چین آزاد نہیں ہوا تھا دوئم یہ کہ حقیقی چین میں ماوزے تنگ کی قیات میں مسلح تحریک ِ آزادی جاری تھی اور امریکہ، فرانس، برطانیہ نے حقیقی چین کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی رکنیت اور ویٹو پاور تائیوان کو دے رکھی تھی جو کٹ پتلی کی صورت میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں کھیلتی تھی اور صرف ایک سوویت یونین کا واحد ووٹ سرمایہ دار بنیادوں پر آزاد معیشت پر یقین رکھنے والوں کے خلا ف تھا، یہودی اسپین سے نکلنے کے بعد اگرچہ بکھرے ہوئے انداز میں یورپ اور ایشیا میں زیادہ تر آباد تھے، انہوں نے شروع میں برطانیہ کو مرکز بنا کر اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر اُن پیش گوئیوں کے تحت جدوجہد کی جن کے مطابق اُن کے خیال میں وہ پوری دنیا کے حکمران ہونگے۔
یہودی ماہرین معاشیات نے دنیا میں مرکزی بینکنگ سسٹم اسٹاک ایکسچینج،کاغذی کرنسی کے متعارف کرانے میں اہم کر دار ادا کیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دنیاکے کل ماہرین میں ان کا تناسب سب سے زیادہ رہا، برطانیہ کے بعد اِن یہودی ماہرین کی بڑی تعداد امریکہ پہنچی اور خصوصاً امریکہ کی آزادی اور خانہ جنگی کے بعد اِن ملکوں کی بنیاد پر پوری دنیا کی تجارت اور صنعت میں اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی یعنی اِن ماہرین نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی جدید اقتصادی دنیا اور اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے حوالے سے نہ صرف بحیثیت قوم منصوبہ بندی کر لی بلکہ اس نئے طرز کے عالمی مالیاتی، اقتصادی سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جو سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کہلاتا ہے اور اس کو آزاد مارکیٹ کے ذریعے اسٹاک ایکسچینج کی کسوٹی کی پرکھ یا معیار کے مطابق رکھا جاتا ہے اور یہ آزادانہ طور پر جمہوریت سے منسلک بھی ہے۔
اس نظام کے خالق اور ماہرین میں یہودی ماہرین کی بڑی تعداد شامل رہی ہے پھر یہ بھی زمانہ کا عجب اتفاق ہے، سرمایہ دارنہ نظام کا بالکل مخالف معاشی سیاسی نظام جو کیمونزم یا اشتراکیت کہلا تا ہے اِ سکے موجد یا تخلیق کار بھی یہودی تھے یعنی کارل مارکس اور لینن یہودی نسل سے تعلق رکھتے تھے مگر یہودی نسل پر ستی اور مذہبی وابستگی کو ترک کرکے دنیا میں انسانی مساوات کی بنیاد پر معاشی اقتصادی سیاسی نظام لانے میں روس کے اشتراکی انقلاب کا سبب بنے۔کارل مارکس تو روسی اشتراکی انقلاب سے پہلے وفات پا گیا تھا لیکن لینن نے 1917ء میں روس میں اشتراکی انقلا ب برپا کیا، اور یہودیوں کا دنیا پر منظم انداز حکومت کرنے کا وہ منصوبہ جو بقول اُن یہودیوں کے جس کی پیش گوئی اِن کے مذہب میںکی گئی یہ جیوش پروٹوکول کی صورت میں روس کے اشتراکی انقلا ب سے پندرہ سال پہلے 1903 میں روس میں اور روسی زبان میں لکھا گیا جس پر کام اس سے دو دہائیوں پہلے ہو رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہودی 1890 سے فلسطین میں آکر آباد ہو نے لگے یہاں زمینیں خریدنے لگے، ترکی کی چار سو سالہ خلافت اپنی آخری دہائیوں میں کمزور اور محلاتی سازشوں کا شکار ہونے لگی تھی، جب یورپ میں تیز رفتار ترقی ہو رہی تھی تو ترکی یورپ کا مردِ بیمار کہلا نے لگا تھا، عرب، ترک تعصبات بڑھ رہے تھے، جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے عوامی غم و غصے کا درست اندازہ حکمران نہیں کر سکتے تھے، مفاد پرست درباری اور مصائب کی خوشامدوں کے عادی حکمران وقت کے تقاضوں کے مطابق نظام حکومت اور نظام ِعدل میں اصلاحات نہیں کر پا ئے تھے، یہ عوامل اور اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والے حالات تھے، جب 1914 میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی اس جنگ میں جرمنی اور ترکی ایک جانب اور باقی یورپی قوتیں ایک طرف تھیں، 1917 میں اشتراکی انقلاب کے بعد لینن نے اس جنگ کے اتحادیوں سے علیحدگی اختیار کر لی اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا۔ اس جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کی مدد بھی کی اور یوں بر طانوی حکومت کے وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء میں جب جنگ ِعظیم میں اِن اتحادیوں کی فتح یقینی ہو گئی تھی اپنے اعلانیہ والے خط کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا تاریخی اور قدرے خفیہ فیصلہ کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو انگریز وں نے اپنے مشہور زمانہ ایجنٹ لارنس جسے عام طور پر لارنس آف عریبہ بھی کہا جا تا ہے، اُسے جزیرہ نما عرب، اردن، شام، عراق اور مصر بھیجا اور ترکی کے خلاف عربوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی مالی مدد کی اور سینکڑوں ہزاروں پاونڈ سونے کے بدلے عربوں کو خریدا، اِن کو اسلحہ فراہم کیا اور پھر جنگ کے دوران اِن عربوں نے جرمنی کے تعاون سے جدہ سے استنبول تک بچھائی جانے والی ریلوے لائن کو تباہ کر کے سپلائی لائن کاٹ کر ترک فوج کو شکست دی جس کے بدلے ان عرب رہنماؤں سے یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جنگ کے بعد اِن کو یہاں ملکوں میں بادشاہتیں دی جائیں گی، کرنل لارڈلارنس جو عربوں سے زیادہ اچھی عربی بولتا تھا قرآن کا حافظ تھا اور اسکے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں جانتا تھا۔
اُس نے یہاں عرب قوم پرستی کو زیادہ بڑھایا۔ عام عرب ترکوں کے اس لیے بھی خلاف ہو گئے کہ عثمانیہ خلافت ملوکیت تھی اس کا مزاج جمہوری نہیں تھا، یوں انگریز ایجنٹ لارنس نے پہلے یہاں مسلم اتحاد مسلمان بھائی بھائی کی بنیاد پر عقائد کی بجائے عرب قومی پرستی کی بنیاد پر تعصب کو شدت سے ابھارا اور اسلامی مرکزیت کو ختم کیا یعنی کسی عرب ملک نے یہ پلان نہیں بنایا کہ ترکی کی خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد یہاں کسی عرب ملک کے لحاظ سے مسلم اتحاد کی بنیاد پر نئی خلافت قائم کی جائے گی بلکہ سب ہی عرب ممالک اپنی اپنی اور الگ الگ بادشاہتوں کے ملنے پر خوش تھے ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب 1917 میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کے لیے ایک الگ اور آزاد ملک بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور جنگ عظیم اوّل ختم ہونے والی تھی تو عرب رہنما، شیوخ بادشاہتوں کے ایسے امید وار تھے جو تاجِ برطانیہ سے زیادہ سے زیادہ وفاداری کا یقین لانے کے لیے اُس وقت کو ئی تحریک، ہنگا مہ یا تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
جس سے انگریز ناراض ہو جاتے، جہاںتک تعلق آج کے عراق، شام، مصر اور اِن سے کہیں زیادہ سعودی عرب ، اردن، لیبیا وغیرہ کا ہے تو یہاں آج بھی قبائلی سماج کی بنت کافی مضبوط ہے اور جہاں قبائلی معاشرت بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو، وہاں سماج بنیادی ارتقا کی منزل ہی طے کر رہا ہوتا ہے کسی منظم جمہوری معاشرے کی پہلی منزل پر بھی نہیں پہنچتا، مدینے کی مثالی ریاست کو مسلمان یہاں اپنی اجتماعی کمزوریوں خامیوں کی وجہ سے فراموش کر چکے تھے، پھر ایسے معاشرے جہاں قبائلیت طاقتور ہو وہاں نظریاتی سیاست چاہے وہ لسانی، ثقافتی اور تمدنی بنیاد پر ہو یا اشتراکی نظریاتی ہو یا پھر عقائد کی بنیاد پر مذہبی سیاست ہو اس پر قبائلیت حاوی رہتی اور قوم سے زیادہ قبیلے سردار کی بات پر توجہ دیتے ہیں اور قومی وحدت یوں گروہی بنیادوں پر قبائل میں اگر اشتراک پیدا کرتی ہے تو وہ بھی گنتی کے چند قبائلی سربراہوں کا اپنے مفادات کی خاطر اتحاد ہو تو ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی مضبوط اور طاقتور قبائلی معاشرے ہیں وہاںکسی جمہوری سماجی مزاج اور رویوں کا فروغ بہت مشکل ہوتا ہے، ایسے معاشروں میں گروہوں کا اتفاق بھی تھوڑے عرصے تک قائم رہتا ہے اور پھر شخصیات کی انفرادی خواہشات اور مفادات کی وجہ سے تصادم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
یوں جب 1917 میں ایک جانب جنگِ عظیم اوّل فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی تھی اور عربی زبان بولنے والے علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے تو جنگی فتح واضح طور پر برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کے حق میں دکھائی دے رہی تھی اور عربی زبان بولنے والے تمام ملکوں کے وہ سربراہ جو نو آبادیاتی لحاظ سے اب برطانیہ یا دیگر مغربی ملکوں کے غلام تھے اِن کے مقامی سربراہان جن میں سے بیشتر بادشاہ کہلاتے تھے 1917 میں بالفور کے اعلانیے سے واقف تھے اور یہی وقت تھا جب 1917 میں روس اشتراکی انقلا ب کے بعد جنگِ عظیم اوّل سے نکل گیا تھا اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔
اگر عرب ملکوں کے سربراہان انگر یز کے اس عمل کے خلاف ہوتے تو اس فیصلے کو روکا جا سکتا تھا مگر اُس وقت اور جنگ عظیم اوّل کے فوراً بعد یہاں بڑے اور تاریخی پس منظر رکھنے والے قبائلی سرداراِن، شیوخ اِن ملکوں کی باشاہتوں کے امیدوار کی حیثیت سے اُس وقت کی سپر پاور بر طانیہ کی ہر طرح کی خوشنودی میں لگے ہوئے تھے تو ساتھ ہی اپنے اپنے ملک کے دیگر چھوٹے بڑے قبائل کی حمایت بھی حاصل کرنے کے جتن کر رہے تھے۔ لارڈ لارنس جیسے زیرک ایجنٹ نے اس تقسیم در تقسیم کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور یہ باتیں برطانیہ کے پالیسی اور منصوبہ ساز بھی جانتے تھے۔ اس پورے ماحول میں ایک اور بڑی کمزوری یہاں کے عوام میں ناخواندگی اور سماجی سیاسی شعور کی پستی تھی۔ (جاری ہے)
اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے چارٹر کے ساتھ 24 اکتوبر 1945 کو جنگ ِ عظیم دوئم کے دو مہینے چودہ دن بعد عملی طور پر وجود میں آگیا اور 2 فروری1946 کو اِس کے سیکرٹری جنرل کا انتخاب بھی ہو گیا۔ اس جنگ کے بعد چین، انڈونیشیا، مشرقی یورپ اور الجزائر اور مشرقِ وسطٰی جیسے علاقوں میں بے چینی شدت کو پہنچے لگی تھی۔
چین میں تو ماوزے تنگ کی قیادت میں اشتراکی انقلاب کے لیے جدوجہد کامیابیوں کی آخری منزل کے قریب تھی، مشرقی یورپ میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے مارکسٹ، لیننیسٹ کامیاب ہو رہے تھے، برصغیر میں 1935 کے قانون ِ ہند کے تحت مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعد انگریزوں نے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ اب ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے گا بلکہ انتخابات کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کی وزارت عظمیٰ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ورزا کی کابینہ کی تشکیل کے بعد چالیس کروڑ کی آبادی کے ہندوستان کی پہلی منتخب مرکزی اور مخلوط قومی حکومت کے بن جانے کی وجہ سے انگریز نے چالیس کروڑ آبادی کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہندوستان کو جلد آزادی دے دی جائے گی ، اگر چہ یہاں انگریز گورنر جنرل اور کمانڈر انچیف اب بھی کنٹرولنگ اتھارٹی کی حیثیت میں موجود تھے لیکن وہ اب خصوصاً انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ مشترکہ ہندوستان کا آخری قومی بجٹ مالی سال 1946-47 و زیرخزانہ لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا اور اُنہوں نے کانگریس اور انگریزوں کی مرضی کے خلاف اور مشترکہ ہندوستان کے غریب عوام کے مفاد میںبجٹ بنایا تھا اور اس میں سرمایہ داروں کی بجائے نچلی سطح پر عوام کی اکثریت کو فائدہ پہنچا تھا۔
یوں ہندوستان میں ملکی و قومی آزادی اورخود مختاری کے لحاظ سے عوام مطمئین تھے اُنہیں یقین تھا اب حکومت تو اِن کی بن چکی ہے اس لیے آزادی جلد اور یقینی ہے۔ جنگ زدہ برطانیہ ملبے کے ڈھیروں کو ہٹا کر خود کو نئی تعمیر کے ذریعے مستحکم ہونے کے تیز رفتار مراحل طے کر رہا تھا مگر اب بھی اُس کی حکومت ہندوستان سمیت دنیا کے پچاس کے قریب ملکوں میں قائم تھی جن میں اب برطانیہ نے دوسری نوآبایاتی قوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ حقوق اور اِن کے اصول وضوابط کے مطابق آزادی اور خودمختار ی دینی تھی۔
انگریز ماہرین سیاسی نوآبادیاتی نظام کے بعد اپنی اِنہی نوآبادیات کو اقتصادی نوآبادیوں میں تبدیل کرنے کے مراحل میں اپنی انتہائی اہم حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو تیزرفتاری سے عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ عالم اسلام کی بنیاد پر وہ بے چینی جو پہلی جنگ ِ عظیم کے اختتام پر دنیا کے دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تھی اب ایک نئے انداز سے دنیا بھر کے مسلم ممالک سے کہیں زیادہ شدت سے عرب دنیا میں تھی کیونکہ برطانیہ عرب دنیا کے قلب فلسطین میں تقریباً دوہزار سال بعد اسرائیل کے نام سے یہودیوں کا ملک بنانے کے اعلان پر عملدآمد کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ نے 29 نومبر1947 کو برطانوی نوآبادیات سے آزادی کے ساتھ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181(ii) کے تحت منظور کیا جس میں فلسطین کی تقسیم کے ساتھ اسرائیل کا وجود غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے تک تھا۔ 3 ستمبر 1947 کو UNSCOP کا گرین لائن سے اسرائیل کی حدود کو واضح کرتا نقشہ اقوام متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی نے تجویز کیا تھا اس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس نمبر 128 میں 29 نومبر1947 کو ووٹنگ ہوئی جس میں 33 ووٹ اس قرارداد کے حق میں آئے، 13 ممالک نے مخالفت کی اور دس ووٹ غیر حاضر رہے۔
اس پلان میں تجویز کیا گیا تھا کہ آزاد اور خود مختار یہودی اور عرب ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور یروشلم کو عالمی شہر قرار دینے کی بھی تجویز تھی، اس قرارداد کے مطابق برطانیہ نے یکم اگست 1948 سے پہلے یہاں سے نکل جانا تھا اور دو ماہ بعد یکم اکتوبر کو فلسطین کی تقسیم کے بعد اِن دو ملکوں فلسطین اور اسرائیل کوآزاد اور خود مختارہو جانا تھا۔ فلسطین کی تقسیم، اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو باوجود محدود اعترا ضا ت کے یہودیوں کی نما ئند ہ تنظیم Jewish Agency for Palestine نے تسلیم کر لیا، جب کی عرب لیڈروں اور ملکوں نے اس پلان کو رد کر دیا اور یہ موقف اپنایا کہ یہ پلان خود اقوام متحدہ کا اپنے چارٹر میں دیئے گئے حق ِ خودمختار ی کے اصول و ضوابط کے خلاف ہے جس میں مقامی آبادی کو خود مختاری کا حق دیا گیا ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو قائم ہوا تھا جو 16 دسمبر1971 تک آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ اس کے رہنما قائد اعظم نے اُس وقت کشمیر، فلسطین، شمالی افریقہ اور عرب ممالک انڈو نیشیا، سوڈان، لیبیا، مراکش، نائجیریا اور الجزائر کے مسائل اور دکھ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سمجھا تھا اور اپنے ویژن، اپنی سیاسی بصیرت سے عالمی سازشوںکا ادراک کر لیا تھا اور اسلامی اتحاد کی بنیاد پر اِن مسائل کا حل بھی تجویز کیا تھا، عالمی سیاست اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری چودہ پندرہ مہینوں میں مختلف مواقع پر یوں اظہارِ خیال کیا۔
پاکستان کے قیام سے ایک مہینے پہلے 14 جولائی 1947 کو دہلی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ، ہم کسی کے خلا ف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ، ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرتے ہوئے پوری دنیا کے امن اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، 25 اکتوبر 1947 کو قائد اعظم نے کہا کہ ''مجھے امید ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ ردکر دیا جائے گا وگرنہ دوسری صورت میں یہ مسلم دنیا کے لیے بڑی تباہی اور ناقابلِ مثال تنازعے کا سبب بنے گا، مسلم دنیا اس فیصلے کے خلاف ہو گی، پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس فیصلے کو روکنے کے لیے عرب دنیا کا بھرپور ساتھ دے، میر ے خیال کے مطابق فلسطین کی تقسیم کے خلاف شدید ردعمل ہوگا۔
1948 کے آغاز ہی میں قائد اعظم نے شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی کھل کر حمایت کی اسی طرح انہوں نے انڈو نیشیا پر نیدر لینڈ کے حملے کی شدید مخالفت کی، انہوں نے انڈونیشیا، سوڈان، لیبیا، مراکش، نائجیریا، الجزائرکی آزادی کی حمایت کی۔ قائد اعظم نے مسلم برادر ملکوں کے لیے دوستانہ اور نیک خواہشات کے پیغام میںکہا ''ہم ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، طاقت کی بنیاد پر جو سیاسی ڈرامہ فلسطین انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا گیا ہے، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ہم صرف متحد ہو کر ہی اپنی آواز دنیا میں موثرطور پر اٹھا سکتے ہیں۔
قائد اعظم جو موقف کشمیر پر رکھتے تھے اُسی بنیاد پر انہوں نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام پر عرب ملکوں کی حمایت کی،کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں ہی کو کرنا تھا، اسی طرح فلسطین کا فیصلہ یہاں اُن فلسطینیوں کو ہی کرنے دینا چاہیے تھا جو نسل در نسل صدیوں سے یہاں آباد تھے نہ کہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں سینکڑوں برسوں سے آباد اُن یہودیوں کو جن کو یہاں لا کر آباد کیا گیا، جو فسلطین کی ثقافت ، زبان، تہذیب کو چھوڑ کر صدیوں سے دوسرے ملکوں کی قومیت اور شہریت اختیار کر کے وہاں کی ثقافت ، تہذیب ، تمندن اور زبان کو اپنا چکے تھے۔
کہا جا تا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم سے پہلے دنیا بھر کے یہودی اپنی قدیم عبرانی زبان بھی مکمل طور پر بھول چکے تھے اور پوری دنیا میں صرف دو تین یہودی ایسے تھے جو عبرانی زبان جا نتے تھے یہی وجہ ہے کہ جدید دور میں یہودیوں کو پوری دنیا پر حاکمیت قائم کرنے کی پیش گوئی کے تحت بیسویں صدی کے آغاز میں اگست، ستمبر 1903 میں شائع ہونے والا The Protocols of the Elders of Zion جسے عام طور پر جیوش پروٹوکول کہا جاتا ہے، روسی زبان میں لکھا گیا، 417 صفحات پر مشتمل اس پروٹو کول کا انگریزی ترجمہ 1919 میں کیا گیا اور پھر اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں کیا گیا۔
اس پروٹوکول کا کوئی ایک مصنف نہیں ہے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ روس میں انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں یہودی مذہبی اور سیاسی لیڈوں، ماہرین ِمعاشیات اور ذرائع ابلاغ کے ماہرین کے ایک اہم اجلاس کی میٹنگ کی کاروائی اور اس میں مشترکہ طور پر طے کئے جانے والے منصوبے اور حکمت علمی کا خلاصہ ہے جس میں عقائدکی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں یہودیوں کی حکومت کرنے کا مقررہ وقت آپہنچا ہے اور اس کے لیے یہودی میڈیا اور معاشیات پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اب جلد دنیا پر چھا جائیں گے۔ جنگ عظیم اوّل کے دوران1920 ہی میں اس کی 500000 کاپیاں شائع کی گئیں اور پورے امریکہ میں تقسیم کی گئیں۔
اس کے بعد اُن زبانوں میں بھی شائع ہوئیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں یہودیوں کے صدیوں سے آباد رہنے کی وجہ سے وہاں اِ ن کی مادری زبانیں بن چکی تھیں۔ اسرائیل کے قیام کے منصوبے میں اور جیوش پروٹوکول کے علاوہ ایک اہم ترین دستاویز اعلانِ بالفور ہے جو برطانوی حکومت کا صیہونی یہودیوں سے اسرائیل کے قیام سے متعلق ایک خفیہ معاہدہ ہے جس کی توثیق بھی کی گئی تھی۔
یہ معاہدہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی عثمانیہ خلافت کے خلاف بھی تھا جس کے ماتحت تقریبا ً تمام عرب اور شمالی افر یقہ کے مسلم ممالک اور مشرقی یورپ کے کئی علاقے تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد اس بڑی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد اسرائیل کے قیام کے منصوبہ پر عملدرآمد ہونا تھا، یہBalfour Declaration کے نام سے 2 نومبر1917 کو برطانیہ کے وزیر ِخارجہ Arthur Balfour آرتھر بالفور کی جانب سے برطانیہ کی یہودی آبادی کے لیڈر Lord Rothschild لارڈ روتھس ایلڈ کے نام لکھا گیا خط ہے۔ اس اعلانیہ میں بر طانوی وزیر ِخارجہ بالفور تاجِ برطانیہ کی حکومت کی جانب سے کابینہ کی منظوری کے بعد یہودی صیہونی لیڈر لارڈ روتھس کو لکھتے ہیں کہ فسلطین کے علاقے میں یہودی آزاد اور خود مختار ریاست قائم کی جائے گی۔
مذہبی اور تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو فلسطین کی مقدس سر زمین جو واحد لاشریک اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیا کے دنیا میں آنے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے اعتبار سے ہزاروں کی قبل از تاریخ کی اہم ترین تہذیب ہے، یہودیوں کے حوالے سے توریت، زبور اور انجیل کے علاہ آخری آسمانی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے قصے اور واقعات درج ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے کئی بار تباہی اور بربادی سے گزرے اور اِن کو فلسطین سے نکال دیا گیا، تاریخی طور پر اِن کی بدترین بے دخلی ڈھائی ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل عراق کے حاکم بخت نصر کے دور میں ہوئی پھر ایران کے عظیم شہنشاہ سائرس اعظم نے جب ڈھائی ہزار سال پہلے اس پورے علاقے کو فتح کیا تو مدتوں بعد اِن یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میںلا کر آباد کیا، پھر رومن کے عروج کے زمانے میں فلسطین پر صدیوں رومیوں کی حکومت رہی جو سورج کی پرستش کرنے والے مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
یوں جب فلسطین میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی پیدائش ہوئی اور پھر جب اُنہوں نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی تو تھوڑے عرصے ہی میں فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو رومن حاکم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مستقبل میں فلسطین میں رومن حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے قتل کرنے کے احکامات صادر کئے، اس پر اسلامی عقائد کے مطابق وہ کسی مکان میںچھپ گئے تو اُن کی نشاندہی کر نے والا ایک یہودی تھا اور جب وہ پہلے مکان میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھایا اور جو شخص مخبر بن کر پہلے مکان میں داخل ہوا تھا اُس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہو بہو حضرت عیسیٰؑ کی سی کر دی اور جب رومن فوجی گھر میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے اُس یہودی شخص کو حضرت عیسیٰؑ سمجھ کر گرفتاری کے بعد صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا۔
حضر ت عیسیٰؑ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے کچھ عرصے بعد تک یوں محسوس ہوا جیسے اب عیسائیت کو فروغ حاصل نہیں ہو گا اور یوں لگتا تھا کہ یہ مذہب دنیا سے جلد ہی ختم ہو جا ئے گا، لیکن عیسائیوں کے عظیم سینٹ پال جو رومن شہری اور یہودی تھے اُنہوں نے عیسائیت کو قبول کیا، اس کی تبلیغ و تحقیق میں ایسا جوش و جذبہ پیدا کیا کہ لوگ جوق در جوق اُن کے توسط سے اس نئے مذہب میں داخل ہونے لگے ، سینٹ پال سن چار عیسوی کو پیدا ہوئے اور 64 ء عیسوی کو وفات پائی، وہ حضرت عیسیٰؑ کے دور ہی میں یروشلم میں رہے لیکن ایک دوسرے سے نہیں ملے، سینٹ پال یہودی تھے، عیسائیت کے شدید مخالف تھے۔
اُنہوں نے عبرانی سیکھی تھی اور یہودیت کے اعتبار سے ابی کیماس سے علم حاصل کیا تھا، وہ ابتدا میں حضرت عیسیٰؑ کو (نعوذ باللہ ) بدعتی قرار دیتے تھے، شام کے سفر کے دوران اُنہیں کشف ہوا، اور حضرت عیسیٰؑ اُن کے سامنے آگئے اور اُن سے طویل گفتگو کی اور پھر پال جو بعد میں سینٹ کے درجے پر پہنچے عیسائی ہوگئے، اُنہوں نے اس کے بعد بقیہ زندگی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عیسائیت پر استغراق کرنے اور لکھنے میں گزاری، اُن کی تحریریں عہد نامہ جدید کا اہم حصہ بنیں، انہوں نے عیسائیت کی تبیلغ کے لیے ایشیائے کوچک ، یونان، شام اور فلسطین میں طویل سفر کئے۔
اگرچہ مذہبی فکری تحقیقی لحاظ سے عیسائیت کی تبلیغ میں رہتی دنیا تک سینٹ پال کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا لیکن مشرق وسطیٰ کے علاوہ اُس وقت کے یورپ اور پھر عظیم سلطنتِ رومن میں عیسائی مذہب رومن کے باد شاہ کا نسٹنٹائن اعظم کے عیسائی بننے کے بعد تیز رفتاری سے پھیلا اور یہ حقیقت ہے کہ اگر رومن بادشاہ کانسٹنٹائن اعظم عیسائی نہ ہوتا تو یہ تو ممکن تھا کہ عیسائی مذہب مزید پھیلتا مگر شائد اتنا نہیں پھیلتا ، کانسٹنٹائن 280 ء میںپیدا ہوئے اور 337 ء میں وفات پائی، اُس دور تک یورپ اور دیگر علاقوں میں پیگن Pagan مذہب یعنی دنیا کے قدیم مذاہب غالب تھے اور رومیوں کی اکثریت سورج کی پر ستش کرتی تھی۔
کانسٹنٹائن اپنے باپ کی وفات کے بعد 305 میں آدھے روم کا باد شاہ بنا کیونکہ باقی آدھے روم پر اُس کے حریف بادشاہ ٹیس کی حکومت تھی۔ 323 ء میںکانسٹنٹائن کی اُس سے بڑی اور فیصلہ کن جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگِ میلوین کہلاتی ہے، اس جنگ سے قبل عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے مطابق ایک معجزہ ہوا کہ جنگ سے پہلے رات کو اچانک کانسٹنٹائن اعظم کی آنکھ کھلی تو روشنی کافی زیادہ تھی وہ فوراً اپنے خیمے سے باہر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ آسمان پر مشرق کی سمت ایک بہت بڑی روشن آتشیں صلیب ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ ''اس نشان کے صدقے تجھے میلوین کی جنگ میں فتح نصیب ہو گی '' اور واقعی کانسٹنٹائن کو جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور وہ پورے روم کا شہنشاہ بن گیا تو اُس نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور باد شاہ کی جانب سے عیسائیت قبول کرنے کے بعد نہ صرف پورے روم کے لوگ عیسائی ہو گئے بلکہ فلسطین سمیت جہاں جہاں رومیوں کی حکومت تھی وہاں عیسائی مذہب آزادانہ فضا اور ماحول میں پھلنے پھولنے لگا۔
فلسطین میں جہاں پہلے عیسائیوں کی زندگیاں تنگ تھیں اب وہاں عیسائی طاقتور ہو گئے، سینٹ پال نے تو حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کو اُس کی اصل روح کے مطابق رکھا اور امن ،محبت، سلامتی، انسانی عظمت، در گزر، برداشت، ظلم سہہ کر بھی دل صاف رکھنا، کوئی ایک گال پر چانٹا مارے تو دوسرا بھی پیش کر دینا جیسی تعلیمات کی تبلیغ کی کیونکہ وہ بادشاہ نہیں تھے سینٹ تھے، مگر کا نسٹنٹائن عظیم بادشاہ بھی تھا بلکہ وہ جنگجو اور بہادر بھی تھا، یوں اس کے دور میں اور اس کے بعد عیسائیوں کی تلواریں صلیبی نشان کی طرح بننے لگیں اور آج بھی یہ فرق ہے، اس لیے پھر عیسائی مذہبی رہمناؤں نے بھی عدم برداشت کا راستہ اختیار کیا۔
جب یہ بات سامنے آئی کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی مخبری کر کے اُنہیں گرفتار کروانے والا ایک یہودی تھا تو فلسطین میں آئندہ کئی صدیوں تک عیسائیوں کے رویے یہودیوں کے لیے سخت رہے، پھر یہ بھی تھا کہ فلسطین میں اُس وقت عیسائیوں کی اکثریت بھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے فسلطین سے یہودیوں کی اکثریت ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں آباد ہو گئی، اسلام کی آمد کے بعد ساتویں صدی عیسویں میں فلسطین فتح ہوا، یہ خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطابؓ کا دور تھا جب اسلامی لشکر نے یروشلم کا محاصر ہ کر لیا۔ اہل شہر کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ اگر یہ لشکر چاہے تو چند گھنٹوں میں شہر کو تباہ وبرباد کر دے لیکن عیسائیوں اور یہودیوںکو یہ معلوم تھا کہ اسلام بھی آسمانی مذہب ہے اوراِن کے لیے بھی یروشلم مقدس ہے کیونکہ یہ پہلے مسلمانوں کا قبلہ اوّل رہا، پھر نبی کریم ؐ یہاں سے ہی معراج شریف پر تشریف لے گئے تھے، یوں یروشلم کے معززین نے کہا کہ ہماری روایت کے مطابق شہر میں فاتح کی حیثیت سے بادشاہ یا حکمران ہی داخل ہوگا۔
یوں جب یہ پیغام خلیفہِ وقت حضرت عمر ؓ تک پہنچا تو وہ فوراً ہی یروشلم روانہ ہوئے، یہ روانگی اور مسافت بھی مثالی تھی، آپؓ اور آپؓ کے غلام ایک اونٹ کے ساتھ تھے، آپؓ نے دورانِ سفر اُونٹ اور غلام دونوں کا خیال رکھا، دورانِ سفر اونٹ پر ایک وقت میں ایک سوار ہوتا، اور غلام اور آپؓ باری باری اونٹ پر سواری کرتے، پروگرام کے مطابق جس دن حضرت عمرؓ نے پہنچنا تھا تو اسلامی لشکر کے ساتھ ہی شہر کی ساری آبادی کھڑی تھی، معززینِ شہر کا خیال تھا اسلامی خلیفہ بادشاہ کی طرح نہایت شان و شوکت سے آئے گا کہ دور سے دکھائی دیا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہے اور دوسرے شخص نے اُونٹ کی مہار تھام رکھی ہے۔
اسلامی لشکر نے خوشی سے خوش آمدید کے نعرے لگائے تو یروشلم کے معززین اور شہریوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ اکیلے اُونٹ پر سوار شخص آپ کا خلیفہ ہے؟ اس پر جواب ملا نہیں وہ تو اُن کا غلام ہے اور جس نے اُونٹ کی مہار تھام رکھی ہے وہ خلیفہ حضرت عمرؓ ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب یہاںحضرت عمرؓ نے نماز ادا کرنے کے لیے کہا تو عیسائی مذہبی رہنماؤں نے یہ پیشکش کی وہ گرجا گھر میں ہی نماز ادا کر لیں جس پر اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج میں نے ایسا کیا تو کل تمام مسلمان ایسا کریں گے اور اس سے عیسائیوں کو نقصا ن ہو گا، یہاں یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پہلے دور اقتدار میں یہاں عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بہترین بر تاؤ روا رکھا۔
1099 ء سے1291 ء تک صلیبی جنگوں کا دور رہا جس میں سلطان صلاح الدین کا کردار مثالی رہا جس کی بادشاہ ''شیر دل رچرڈ '' نے خود تعریف کی اور کہا تھا کہ اب اگر مذہبی رہنما ؤں نے صلاح الدین سے جنگ کا کہا تو وہ اِن کے خلا ف ہو جا ئے گا، پھر یہ علاقہ 1516 ء تک عربوں کے پاس رہا۔ واضح رہے کہ پھر یہاں ترکی اور ترکوں کے تعلق سے خلافتِ عثمانیہ قائم ہو گئی، اُس وقت تک مسلمانوںکی ایک اور مضبو ط اور ترقی یافتہ سلطنت ہسپانیہ یعنی اسپین کی سلطنت تھی جو یہاں ترکوں کے اقتدار میں آنے سے24 سال پہلے یعنی1492 میں تباہ و برباد اس طرح ہوئی کہ اسپین میں تقریباً آٹھ سو سال پہلے قائم ہو نے والےمسلمانوں کی حکومت نے اُس زمانے میں یورپ میں بہت ترقی اور یہاں اس ترقی اور خوشحالی میں اُس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی یہودی آبادی بھی یہاں اسپین میں مسلمانوں کے دور اقتدار میں تاریخ میں سب سے زیادہ امن اور تحفظ کے ساتھ رہی مگر پندرویں صدی عیسوی تک مسلمان یہاں رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہونے لگے اور 1492 میں جب اسپین بڑی مسلم ریاست غرناطہ کے علاوہ دو بڑی اور ایک چھوٹی ریاستوںمیں تقسیم تھا تو شدت پسند مذہبی عیسائی ملکہ ازابیلا نے دوسری ریاست کے بادشاہ فرنینٹڈ سے شادی کر لی اور پھر دونوں نے ملکر غرناطہ کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔
یہاں اس کا بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر ایسے قتل عام کی مثالی نہیں ملتی کہ وہ پورا اسپین جس پر پانچ صدیوں تک مکمل طور پر اور امن و محبت برداشت اور یہودیوں عیسائیوں سے رواداری کے ساتھ حکومت کی گئی اور جب مسلمان کمزور ہوئے اور عیسائی ریاستیں بھی وجود میں آگئیں تب بھی رواداری کو قائم رکھنے کی کوشش کی، وہاں ازابیلا نے فتح حاصل کرنے کے بعد پورے اسپین میں یہ کھلا اعلان کر دیا کہ یہاں سے غیر عیسائی یعنی مسلمان اور یہودی نکل جائیں دوسری صورت میں اُنہیں قتل کر دیا جائے گا، اور پھر ایسا ہی ہوا اسپین کو غیر عیسائی آبادی سے مکمل طور پر پا ک کر دیا گیا، مسلمانوں اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد یہاں سے جان بچا کر نکلی، مسلمانوں کے لیے تو شمالی افریقہ اور عرب میں بہت سے اسلامی ممالک تھے لیکن یہودیوں کی بڑی تعداد یہاں سے یورپ منتقل ہوئی۔ واضح رہے کہ 1492 میں اسی ملکہ ازابیلا کی مالی امداد سے کرسٹوفر کولمبس ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کرنے نکلا تھا اور امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب نہ صرف یورپ میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہوئی اور اس میں اہم ماہرین علوم یہودی تھے۔
اسی زمانے میں دنیا کا مکمل خشکی کا نقشہ معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی نظام تشکیل پانے لگا اور اِنہی قوتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں جنگیں بھی رہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کے قتل عام کے بعد دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے نازی ازم کے تحت ہونے والے ہالوکاسٹ تک یہودی قوم اور بھی قتل عام کے سانحات سے گزری مگر انسانی تاریخ میںایرانی آتش پرست مذہب جن کے ما ننے والے پارسی بھی کہلاتے ہیںاور یہ مذہب ڈھائی ہزار سال پہلے زرتشت نے ایران میں متعارف کروایا تھا یہ پارسی اور یہودی ایسی قوم اور مذہبی کیمونٹی ہے کہ یہودیوں میں مذہب یعنی یہودیت پیدائشی اور نسلی طور پر چلتی ہے یعنی اگر کوئی نسلاً اور پیدائشی طور پر یہودی نہیں ہے تو وہ یہودی نہیں ہو سکتا۔
اس وقت دنیا میں تقریباًدوکروڑ کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں اور اس آبادی کا تقریباً نصف اسرائیل میں آباد ہے جہاں تک تعلق آتش پرستوں یا زرتشتوں کا ہے تو یہ قوم جو یہودیوں سے کم قدیم ہے اور نسلاً اور پیدائشی طور پر ہی اپنے مذہب کے ساتھ چلتی ہے اب پوری دنیا سے ختم ہوتی جا رہی ہے اس وقت پوری دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد تقریباً دولاکھ ہے اور کہا جاتا ہے کہ2050 ء تک دنیا سے پارسی بالکل ختم ہو جائیں گے مگر یہودی موجود ہیں اور رہیں گے۔ حیرت انگیز طور پر اِن یہودیوں نے تقریباً چار ہزار سال سے اپنے قبائل کا نسل در نسل ریکارڈ انفرادی طور پر شجرہ نسب کے لحاظ سے بہت معیار ی طور پر درست رکھا ہے۔
تقریباً دو ہزار سال سے یہ فلسطین سے نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد ہوئے، سولہویں صدی عیسوی سے اِنہوںنے یورپ اور پھر امریکہ کا رخ کیا یہاں بھی اِن مغربی ملکوں کی شہریت کے اعتبار سے یہ یہودی تین سے چار سو سال پرانے باشندے ہیں۔ اس وقت جتنے یہودی اسرائیل میں آباد ہیں۔
اِن کی90% تعداد 1917 کے بعد یہاں آئی ہے اور اس 90 فیصد تعداد میں سے بھی 60 فیصد وہ تعداد ہے جو اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے اب تک یہاں منتقل ہوتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اسی بنیاد پر جب پہلے 3 ستمبر1947 کو اقوم متحد ہ کی کمیٹی نے گرین لائن نقشے کے منصوبے کو اپنے 128ویں اجلاس میں ووٹنگ کی بنیاد پر منظور کیا اور پھر 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بر طانوی نو آبادیات کے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرار داد نمبر 181(ii) کو منظور کر لیا توکچھ اعتراضات کے ساتھ یہودیوں کی صیہونی تنظیم Jewish Agency far Palestine نے اس کو قبول کر لیا اور عرب لیڈروں اور ملکوں نے اس پلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کے خلاف ہے اور اُس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس منصوبے کو رد کرتے ہو ئے کہا تھا کہ پاکستان اس مسئلہ پر عرب برادر ملکوں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور توقع ظاہر کی تھی کہ اس پلان کو مسترد کر دیا جائے گا کیو نکہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق بتا چکے تھے کہ اسرائیل کے قیام کا یہ فیصلہ مستقبل میں اور مستقل طور پر مسلم ملکوں خصوصاً عرب ملکوں کے لیے تباہی اور بربادی کا سبب ثابت ہو گا یہ کسی طر ح بھی درست نہیں ہے۔
اس لیے اقوام متحدہ کی اسرائیل کے قیام کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد واقعی اقوام متحدہ کے اپنے چار ٹر کی روح کے خلا ف تھی، جس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرار داد منظور کی گئی اُ س وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی کل تعداد 56 تھی جس میں سے 33 نے اس کے حق میں ووٹ دئیے 13 نے مخالفت کی اور 10 غیر حاضر رہے یعنی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے اراکین کی کل تعداد دس ہوا کرتی تھی جن میں سے آج ہی کی طرح پانچ ارکان ویٹو پاور رکھتے تھے جن میں برطانیہ، امریکہ ، فرانس، چین اور روس شامل تھے جہاں تک آج کے چین کا تعلق ہے تو اُس وقت ایک تو یہ چین آزاد نہیں ہوا تھا دوئم یہ کہ حقیقی چین میں ماوزے تنگ کی قیات میں مسلح تحریک ِ آزادی جاری تھی اور امریکہ، فرانس، برطانیہ نے حقیقی چین کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی رکنیت اور ویٹو پاور تائیوان کو دے رکھی تھی جو کٹ پتلی کی صورت میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں کھیلتی تھی اور صرف ایک سوویت یونین کا واحد ووٹ سرمایہ دار بنیادوں پر آزاد معیشت پر یقین رکھنے والوں کے خلا ف تھا، یہودی اسپین سے نکلنے کے بعد اگرچہ بکھرے ہوئے انداز میں یورپ اور ایشیا میں زیادہ تر آباد تھے، انہوں نے شروع میں برطانیہ کو مرکز بنا کر اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر اُن پیش گوئیوں کے تحت جدوجہد کی جن کے مطابق اُن کے خیال میں وہ پوری دنیا کے حکمران ہونگے۔
یہودی ماہرین معاشیات نے دنیا میں مرکزی بینکنگ سسٹم اسٹاک ایکسچینج،کاغذی کرنسی کے متعارف کرانے میں اہم کر دار ادا کیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دنیاکے کل ماہرین میں ان کا تناسب سب سے زیادہ رہا، برطانیہ کے بعد اِن یہودی ماہرین کی بڑی تعداد امریکہ پہنچی اور خصوصاً امریکہ کی آزادی اور خانہ جنگی کے بعد اِن ملکوں کی بنیاد پر پوری دنیا کی تجارت اور صنعت میں اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی یعنی اِن ماہرین نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی جدید اقتصادی دنیا اور اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے حوالے سے نہ صرف بحیثیت قوم منصوبہ بندی کر لی بلکہ اس نئے طرز کے عالمی مالیاتی، اقتصادی سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جو سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کہلاتا ہے اور اس کو آزاد مارکیٹ کے ذریعے اسٹاک ایکسچینج کی کسوٹی کی پرکھ یا معیار کے مطابق رکھا جاتا ہے اور یہ آزادانہ طور پر جمہوریت سے منسلک بھی ہے۔
اس نظام کے خالق اور ماہرین میں یہودی ماہرین کی بڑی تعداد شامل رہی ہے پھر یہ بھی زمانہ کا عجب اتفاق ہے، سرمایہ دارنہ نظام کا بالکل مخالف معاشی سیاسی نظام جو کیمونزم یا اشتراکیت کہلا تا ہے اِ سکے موجد یا تخلیق کار بھی یہودی تھے یعنی کارل مارکس اور لینن یہودی نسل سے تعلق رکھتے تھے مگر یہودی نسل پر ستی اور مذہبی وابستگی کو ترک کرکے دنیا میں انسانی مساوات کی بنیاد پر معاشی اقتصادی سیاسی نظام لانے میں روس کے اشتراکی انقلاب کا سبب بنے۔کارل مارکس تو روسی اشتراکی انقلاب سے پہلے وفات پا گیا تھا لیکن لینن نے 1917ء میں روس میں اشتراکی انقلا ب برپا کیا، اور یہودیوں کا دنیا پر منظم انداز حکومت کرنے کا وہ منصوبہ جو بقول اُن یہودیوں کے جس کی پیش گوئی اِن کے مذہب میںکی گئی یہ جیوش پروٹوکول کی صورت میں روس کے اشتراکی انقلا ب سے پندرہ سال پہلے 1903 میں روس میں اور روسی زبان میں لکھا گیا جس پر کام اس سے دو دہائیوں پہلے ہو رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہودی 1890 سے فلسطین میں آکر آباد ہو نے لگے یہاں زمینیں خریدنے لگے، ترکی کی چار سو سالہ خلافت اپنی آخری دہائیوں میں کمزور اور محلاتی سازشوں کا شکار ہونے لگی تھی، جب یورپ میں تیز رفتار ترقی ہو رہی تھی تو ترکی یورپ کا مردِ بیمار کہلا نے لگا تھا، عرب، ترک تعصبات بڑھ رہے تھے، جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے عوامی غم و غصے کا درست اندازہ حکمران نہیں کر سکتے تھے، مفاد پرست درباری اور مصائب کی خوشامدوں کے عادی حکمران وقت کے تقاضوں کے مطابق نظام حکومت اور نظام ِعدل میں اصلاحات نہیں کر پا ئے تھے، یہ عوامل اور اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والے حالات تھے، جب 1914 میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی اس جنگ میں جرمنی اور ترکی ایک جانب اور باقی یورپی قوتیں ایک طرف تھیں، 1917 میں اشتراکی انقلاب کے بعد لینن نے اس جنگ کے اتحادیوں سے علیحدگی اختیار کر لی اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا۔ اس جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کی مدد بھی کی اور یوں بر طانوی حکومت کے وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء میں جب جنگ ِعظیم میں اِن اتحادیوں کی فتح یقینی ہو گئی تھی اپنے اعلانیہ والے خط کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا تاریخی اور قدرے خفیہ فیصلہ کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو انگریز وں نے اپنے مشہور زمانہ ایجنٹ لارنس جسے عام طور پر لارنس آف عریبہ بھی کہا جا تا ہے، اُسے جزیرہ نما عرب، اردن، شام، عراق اور مصر بھیجا اور ترکی کے خلاف عربوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی مالی مدد کی اور سینکڑوں ہزاروں پاونڈ سونے کے بدلے عربوں کو خریدا، اِن کو اسلحہ فراہم کیا اور پھر جنگ کے دوران اِن عربوں نے جرمنی کے تعاون سے جدہ سے استنبول تک بچھائی جانے والی ریلوے لائن کو تباہ کر کے سپلائی لائن کاٹ کر ترک فوج کو شکست دی جس کے بدلے ان عرب رہنماؤں سے یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جنگ کے بعد اِن کو یہاں ملکوں میں بادشاہتیں دی جائیں گی، کرنل لارڈلارنس جو عربوں سے زیادہ اچھی عربی بولتا تھا قرآن کا حافظ تھا اور اسکے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں جانتا تھا۔
اُس نے یہاں عرب قوم پرستی کو زیادہ بڑھایا۔ عام عرب ترکوں کے اس لیے بھی خلاف ہو گئے کہ عثمانیہ خلافت ملوکیت تھی اس کا مزاج جمہوری نہیں تھا، یوں انگریز ایجنٹ لارنس نے پہلے یہاں مسلم اتحاد مسلمان بھائی بھائی کی بنیاد پر عقائد کی بجائے عرب قومی پرستی کی بنیاد پر تعصب کو شدت سے ابھارا اور اسلامی مرکزیت کو ختم کیا یعنی کسی عرب ملک نے یہ پلان نہیں بنایا کہ ترکی کی خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد یہاں کسی عرب ملک کے لحاظ سے مسلم اتحاد کی بنیاد پر نئی خلافت قائم کی جائے گی بلکہ سب ہی عرب ممالک اپنی اپنی اور الگ الگ بادشاہتوں کے ملنے پر خوش تھے ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب 1917 میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کے لیے ایک الگ اور آزاد ملک بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور جنگ عظیم اوّل ختم ہونے والی تھی تو عرب رہنما، شیوخ بادشاہتوں کے ایسے امید وار تھے جو تاجِ برطانیہ سے زیادہ سے زیادہ وفاداری کا یقین لانے کے لیے اُس وقت کو ئی تحریک، ہنگا مہ یا تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
جس سے انگریز ناراض ہو جاتے، جہاںتک تعلق آج کے عراق، شام، مصر اور اِن سے کہیں زیادہ سعودی عرب ، اردن، لیبیا وغیرہ کا ہے تو یہاں آج بھی قبائلی سماج کی بنت کافی مضبوط ہے اور جہاں قبائلی معاشرت بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو، وہاں سماج بنیادی ارتقا کی منزل ہی طے کر رہا ہوتا ہے کسی منظم جمہوری معاشرے کی پہلی منزل پر بھی نہیں پہنچتا، مدینے کی مثالی ریاست کو مسلمان یہاں اپنی اجتماعی کمزوریوں خامیوں کی وجہ سے فراموش کر چکے تھے، پھر ایسے معاشرے جہاں قبائلیت طاقتور ہو وہاں نظریاتی سیاست چاہے وہ لسانی، ثقافتی اور تمدنی بنیاد پر ہو یا اشتراکی نظریاتی ہو یا پھر عقائد کی بنیاد پر مذہبی سیاست ہو اس پر قبائلیت حاوی رہتی اور قوم سے زیادہ قبیلے سردار کی بات پر توجہ دیتے ہیں اور قومی وحدت یوں گروہی بنیادوں پر قبائل میں اگر اشتراک پیدا کرتی ہے تو وہ بھی گنتی کے چند قبائلی سربراہوں کا اپنے مفادات کی خاطر اتحاد ہو تو ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی مضبوط اور طاقتور قبائلی معاشرے ہیں وہاںکسی جمہوری سماجی مزاج اور رویوں کا فروغ بہت مشکل ہوتا ہے، ایسے معاشروں میں گروہوں کا اتفاق بھی تھوڑے عرصے تک قائم رہتا ہے اور پھر شخصیات کی انفرادی خواہشات اور مفادات کی وجہ سے تصادم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
یوں جب 1917 میں ایک جانب جنگِ عظیم اوّل فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی تھی اور عربی زبان بولنے والے علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے تو جنگی فتح واضح طور پر برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کے حق میں دکھائی دے رہی تھی اور عربی زبان بولنے والے تمام ملکوں کے وہ سربراہ جو نو آبادیاتی لحاظ سے اب برطانیہ یا دیگر مغربی ملکوں کے غلام تھے اِن کے مقامی سربراہان جن میں سے بیشتر بادشاہ کہلاتے تھے 1917 میں بالفور کے اعلانیے سے واقف تھے اور یہی وقت تھا جب 1917 میں روس اشتراکی انقلا ب کے بعد جنگِ عظیم اوّل سے نکل گیا تھا اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔
اگر عرب ملکوں کے سربراہان انگر یز کے اس عمل کے خلاف ہوتے تو اس فیصلے کو روکا جا سکتا تھا مگر اُس وقت اور جنگ عظیم اوّل کے فوراً بعد یہاں بڑے اور تاریخی پس منظر رکھنے والے قبائلی سرداراِن، شیوخ اِن ملکوں کی باشاہتوں کے امیدوار کی حیثیت سے اُس وقت کی سپر پاور بر طانیہ کی ہر طرح کی خوشنودی میں لگے ہوئے تھے تو ساتھ ہی اپنے اپنے ملک کے دیگر چھوٹے بڑے قبائل کی حمایت بھی حاصل کرنے کے جتن کر رہے تھے۔ لارڈ لارنس جیسے زیرک ایجنٹ نے اس تقسیم در تقسیم کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور یہ باتیں برطانیہ کے پالیسی اور منصوبہ ساز بھی جانتے تھے۔ اس پورے ماحول میں ایک اور بڑی کمزوری یہاں کے عوام میں ناخواندگی اور سماجی سیاسی شعور کی پستی تھی۔ (جاری ہے)