’’لیاقت آباد کا رہائشی شخص روزانہ 100 بلیوں کو کھانا کھلاتا ہے‘‘
بیٹا مرغی فروش کی دکان پر 3گھنٹے کام کرکے معاوضے کے طور پربلیوں کیلیے مرغی کے پوٹے، سر اور پنجے لے آتاہے
آج کل مہنگائی کی وجہ سے تقریباً ہر انسان پریشان ہے لیکن اس معاشرے میں ایسے ''زندہ دل انسان'' بھی موجود ہیں جو خاموشی سے غریب خاندانوں اور افراد کی مدد کرتے ہیں۔
انسانوں کی مدد کے علاوہ اس معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو جانوروں کی بھوک کو مٹاتے ہیں اور ان کو کھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں،ان افراد کی جانوروں سے محبت قدرتی ہوتی ہے، جانور بھی ایسے افراد سے اس قدر مانوس ہوتے ہیں کہ جب وہ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز لاتے ہیں تو وہ اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص کراچی کے ضلع وسطی کے علاقے لیاقت آباد میں موجود ہیں جو ''بلی والے بابا'' کے نام سے مشہور ہیں جو گذشتہ25 برسوں سے فرنیچر سازی کے کام سے وابستہ ہیں اور 15 برس سے''بلی اور کتوں'' سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بھوک کامٹاتے ہیں اور ان کو اپنی مدد آپ کے تحت کھانا کھلاتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبون کے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ میرا نام نیاز احمد ہے،ان کی عمر 55برس ہے اور آبائی تعلق لاہور سے ہے،ہم کراچی میں تقریبا30 برس قبل شفٹ ہوئے ہیں، اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لیاقت آبادنمبر چار میں رہائش پذیر ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ 45 برس سے فرنیچر سازی کا کام کرتے ہیں اورفرنیچر پر ہاتھوں کی مدد سے نقش ونگار یعنی ڈیزائننگ کاکام کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ میرے چار بچے ہیں جن میں دوبیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں،بلیوں سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے نیاز احمد نے کہا کہ آج سے 20برس قبل وہ اپنی دکان پرکام کررہے تھے کہ ایک بلی آئی جو بھوکی تھی اور بار بار''میاؤں میاؤں'' کی آواز نکال رہی تھی میں قریبی مرغی فروش کے پاس گیا اور مرغی کے سر اور پوٹے لے آیا جو میں نے بلی کے سامنے رکھے تو وہ اس کو کھاگئی۔
وہ دن تھاکہ مذکورہ بلی میری دکان سے نہیں گئی اس بلی سے مجھے اپنی بیٹیوں جیسی محبت ہوگئی اور اس بلی کا نام میں نے ''منی''رکھا۔ وہ بلی تقریباً میرے پاس 7 برس تک رہی اور اس کے کئی بچے ہوئے۔ اس بلی اور ان کے بچوں سے مجھے بہت محبت رہی۔ ایک دن وہ منی بلی بیمار ہوگئی۔ میں اور میری اہلیہ نے اس بلی کا علاج بھی کرایا تاہم وہ چل بسی۔ اس دن کے بعد سے مجھے بلیوں سے مذید شدید محبت ہوگئی۔
میرے دل میں اللہ پاک نے رحم ڈالا اور مجھے ایسے اشخاص میں چنا جو جانوروں کی خدمت پر مامور ہیں۔انھوں نے بتایا کہ گذشتہ 15برسوں سے روزانہ صبح فجر کی نماز سے قبل اٹھتا ہوں اور نماز کی ادائیگی کے بعد قریبی مساجد کے اردگرد بلیوں کو کھانا ڈالتا ہوں۔پھر ناشتہ کرکے اپنی دکان پر آجاتا ہوں صبح ساڑھے 9 بجے اپنی دکان اور قریبی مسجد اور گلیوں میں مذید بلیوں کو کھانا دیتا ہوں۔
اس کے بعد شام 5 بجے دوبارہ ان بلیوں کو کھانا دیتا ہوں۔یہ میرا روز کا معمول ہے،اس کام کی کوئی چھٹی نہیں ہے۔انھوں نے بتایا کہ میں تقریبا روز 100سے زائد بلیوں کو کھانا کھلاتا ہوں۔بلیوں کی خوراک کے حوالے سے نیاز احمد نے بتایا کہ 10برس سے تو میں مختلف مرغی فروشوں سے ان بلیوں کے لیے مرغی کے سر پوٹے اور کلیجی خرید کر لاتا تھا تاہم اب میرا بڑا بیٹا نعمان جو میرے ساتھ ہی فرنیچر کا کام کرتا ہے،اس کو بھی بلیوں سے بہت محبت ہے اور اس نے مرغی کاٹنے کا کام سیکھ لیا ہے، وہ روزانہ صبح اٹھ کر ایک مرغی فروش کی دکان پر 3گھنٹے کام کرتا ہے۔
جہاں سے وہ معاوضہ نہیں لیتا ہے اس کو مذکورہ دکان سے مرغی کے سر اور پوٹے مفت مل جاتے ہیں،اس کے علاوہ میں بھی تقریبا0 15سے200 روپے تک روزانہ مرغی کے پوٹے اور سر خرید لیتا ہوں یہ ساری خوراک جمع کرکے میں ان بلیوں کو روزانہ کی بنیاد پر دوقت کھانا کھلاتا ہوں۔اس لیے اب میری دکان سینکڑوں بلیاں جمع رہتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہماری کیا مجال ہے کہ ہم ان بلیوں کوکھانا کھلائیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کانظام ہے اور وہ ہی بہتر جانتا ہے۔یہ میر نظر بہترین صدقہ جاریہ ہے۔یہ کام کرکے مجھے خوشی اور دلی راحت محسوس ہوتی ہے۔بس میری خوائش ہے کہ میں عمرہ یا حج کرلوں،انھوں نے بتایا کہ اس بلیوں کو کھانا کھلانے کے کام میں مختلف افراد نے حصہ لینے کے لیے مجھ سے رجوع کیا ہے۔
تاہم میں نے ان کو منع کردیا،یہ کام میں اپنی کمائی سے کرنا مناسب سمجھتا ہوں،جب تک زندگی ہے اس کام کو جاری رکھوں گا اور میرے بیٹے بھی اس کام کو جاری رکھنے کا عہد کرچکے ہیں اور میرے شانہ بشانہ ہیں،انھوں نے بتایا کہ صدقہ ہزار مشکلات اور بیماریوں سے دور رکھتا ہے،ان بلیوں کی محبت کا مجھ سے یہ حال ہے کہ جب میں دکان پر فرنیچر کا کام کررہا ہوتا ہوں یہ بلیاں میرے اردگرد گھومتی رہتی ہیں،میرے پاؤں میں لپٹ کر اپنے پیار کا اظہار کرتی ہیں،انھوں نے ایک پیغام دیا کہ ''کر انسان اور جانور کی خدمت پھر دیکھ تیرے حالات اللہ کیسے بدلتا ہے''،انھوں نے کہا کہ علاقے کے لوگ مجھے محبت سے بلی والا بابا کہتے ہیں۔
انسانوں کی مدد کے علاوہ اس معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو جانوروں کی بھوک کو مٹاتے ہیں اور ان کو کھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں،ان افراد کی جانوروں سے محبت قدرتی ہوتی ہے، جانور بھی ایسے افراد سے اس قدر مانوس ہوتے ہیں کہ جب وہ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز لاتے ہیں تو وہ اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص کراچی کے ضلع وسطی کے علاقے لیاقت آباد میں موجود ہیں جو ''بلی والے بابا'' کے نام سے مشہور ہیں جو گذشتہ25 برسوں سے فرنیچر سازی کے کام سے وابستہ ہیں اور 15 برس سے''بلی اور کتوں'' سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بھوک کامٹاتے ہیں اور ان کو اپنی مدد آپ کے تحت کھانا کھلاتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبون کے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ میرا نام نیاز احمد ہے،ان کی عمر 55برس ہے اور آبائی تعلق لاہور سے ہے،ہم کراچی میں تقریبا30 برس قبل شفٹ ہوئے ہیں، اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لیاقت آبادنمبر چار میں رہائش پذیر ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ 45 برس سے فرنیچر سازی کا کام کرتے ہیں اورفرنیچر پر ہاتھوں کی مدد سے نقش ونگار یعنی ڈیزائننگ کاکام کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ میرے چار بچے ہیں جن میں دوبیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں،بلیوں سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے نیاز احمد نے کہا کہ آج سے 20برس قبل وہ اپنی دکان پرکام کررہے تھے کہ ایک بلی آئی جو بھوکی تھی اور بار بار''میاؤں میاؤں'' کی آواز نکال رہی تھی میں قریبی مرغی فروش کے پاس گیا اور مرغی کے سر اور پوٹے لے آیا جو میں نے بلی کے سامنے رکھے تو وہ اس کو کھاگئی۔
وہ دن تھاکہ مذکورہ بلی میری دکان سے نہیں گئی اس بلی سے مجھے اپنی بیٹیوں جیسی محبت ہوگئی اور اس بلی کا نام میں نے ''منی''رکھا۔ وہ بلی تقریباً میرے پاس 7 برس تک رہی اور اس کے کئی بچے ہوئے۔ اس بلی اور ان کے بچوں سے مجھے بہت محبت رہی۔ ایک دن وہ منی بلی بیمار ہوگئی۔ میں اور میری اہلیہ نے اس بلی کا علاج بھی کرایا تاہم وہ چل بسی۔ اس دن کے بعد سے مجھے بلیوں سے مذید شدید محبت ہوگئی۔
میرے دل میں اللہ پاک نے رحم ڈالا اور مجھے ایسے اشخاص میں چنا جو جانوروں کی خدمت پر مامور ہیں۔انھوں نے بتایا کہ گذشتہ 15برسوں سے روزانہ صبح فجر کی نماز سے قبل اٹھتا ہوں اور نماز کی ادائیگی کے بعد قریبی مساجد کے اردگرد بلیوں کو کھانا ڈالتا ہوں۔پھر ناشتہ کرکے اپنی دکان پر آجاتا ہوں صبح ساڑھے 9 بجے اپنی دکان اور قریبی مسجد اور گلیوں میں مذید بلیوں کو کھانا دیتا ہوں۔
اس کے بعد شام 5 بجے دوبارہ ان بلیوں کو کھانا دیتا ہوں۔یہ میرا روز کا معمول ہے،اس کام کی کوئی چھٹی نہیں ہے۔انھوں نے بتایا کہ میں تقریبا روز 100سے زائد بلیوں کو کھانا کھلاتا ہوں۔بلیوں کی خوراک کے حوالے سے نیاز احمد نے بتایا کہ 10برس سے تو میں مختلف مرغی فروشوں سے ان بلیوں کے لیے مرغی کے سر پوٹے اور کلیجی خرید کر لاتا تھا تاہم اب میرا بڑا بیٹا نعمان جو میرے ساتھ ہی فرنیچر کا کام کرتا ہے،اس کو بھی بلیوں سے بہت محبت ہے اور اس نے مرغی کاٹنے کا کام سیکھ لیا ہے، وہ روزانہ صبح اٹھ کر ایک مرغی فروش کی دکان پر 3گھنٹے کام کرتا ہے۔
جہاں سے وہ معاوضہ نہیں لیتا ہے اس کو مذکورہ دکان سے مرغی کے سر اور پوٹے مفت مل جاتے ہیں،اس کے علاوہ میں بھی تقریبا0 15سے200 روپے تک روزانہ مرغی کے پوٹے اور سر خرید لیتا ہوں یہ ساری خوراک جمع کرکے میں ان بلیوں کو روزانہ کی بنیاد پر دوقت کھانا کھلاتا ہوں۔اس لیے اب میری دکان سینکڑوں بلیاں جمع رہتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہماری کیا مجال ہے کہ ہم ان بلیوں کوکھانا کھلائیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کانظام ہے اور وہ ہی بہتر جانتا ہے۔یہ میر نظر بہترین صدقہ جاریہ ہے۔یہ کام کرکے مجھے خوشی اور دلی راحت محسوس ہوتی ہے۔بس میری خوائش ہے کہ میں عمرہ یا حج کرلوں،انھوں نے بتایا کہ اس بلیوں کو کھانا کھلانے کے کام میں مختلف افراد نے حصہ لینے کے لیے مجھ سے رجوع کیا ہے۔
تاہم میں نے ان کو منع کردیا،یہ کام میں اپنی کمائی سے کرنا مناسب سمجھتا ہوں،جب تک زندگی ہے اس کام کو جاری رکھوں گا اور میرے بیٹے بھی اس کام کو جاری رکھنے کا عہد کرچکے ہیں اور میرے شانہ بشانہ ہیں،انھوں نے بتایا کہ صدقہ ہزار مشکلات اور بیماریوں سے دور رکھتا ہے،ان بلیوں کی محبت کا مجھ سے یہ حال ہے کہ جب میں دکان پر فرنیچر کا کام کررہا ہوتا ہوں یہ بلیاں میرے اردگرد گھومتی رہتی ہیں،میرے پاؤں میں لپٹ کر اپنے پیار کا اظہار کرتی ہیں،انھوں نے ایک پیغام دیا کہ ''کر انسان اور جانور کی خدمت پھر دیکھ تیرے حالات اللہ کیسے بدلتا ہے''،انھوں نے کہا کہ علاقے کے لوگ مجھے محبت سے بلی والا بابا کہتے ہیں۔