سپریم کورٹ کا 35 لاپتہ افراد کو کسی بھی صورت 2 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم
لوگوں کےاغوا میں ایف سی کے علاوہ آئی ایس آئی کا بھی نام آرہا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے 35 لاپتا افراد کو 2 دسمبر تک پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
لاپتا افرادسےمتعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف، اٹارنی جنرل اور بلوچستان کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نئی حکومت کے آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، ابھی بھی لوگ لاپتہ ہورے ہیں۔ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت کو پالیسی بنانی چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتا افراد کے اہل خانہ بلوچستان سے پیدل چل کرکراچی آگئے کیا وزیراعظم اور وزیر دفاع کولوگوں کی پریشانی کا احساس نہیں، ہماری یہ ثقافت نہیں کہ خواتین روڈ پر نکلیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ لوگوں کےاغوا میں ایف سی کے علاوہ آئی ایس آئی کا بھی نام آرہاہے۔ گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئی جی ایف سی بلوچستان کوعدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تاہم عدم پیشی پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر وہ کل عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، پھر دیکھتےہیں پولیس کیسے انہیں گرفتار نہیں کرتی، اب کوئی رعایت نہیں کریں گے پھرجوہوگاہم دیکھ لیں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ مالاکنڈ جیل کے سپریٹینڈنٹ کے مطابق یاسین شاہ سمیت دیگر 35 افراد کو فوجی لے گئے ہیں، عدالتی حکم پر بھی ان لاپتا افراد کو پیش نہیں کیا جارہا، ایسی صورتحال میں آئین کی حیثیت کیا رہ گئی، اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ادارےعدالت کا احترام کررہے ہوتے تو35 افراد کو عدالت میں پیش کردیتے، ہمیں پتہ ہے کون کون سا فوجی ان لوگوں کو اپنی تحویل میں لے گیا ان کی ضد ہے کہ لاپتا افراد کو پیش نہیں کرنا لیکن انہیں لانا تو پڑے گا، اب ہم انھیں کوئی رعایت نہیں دیں گے، سیکریٹری دفاع نے کہا کہ آرمی چیف ان دنوں مصروف ہیں انہیں آرمی سمیت اعلیٰ افسران سے بات کرنا ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری دفاع کہیں لکھ کر دے دیں کہ پیر تک 35 افراد پیش کردیں گے اور کل صرف یاسین شاہ کو پیش کردیا جائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کی جانب سے انہیں وقت دیا جائے، کل آرمی چیف کی تبدیلی ہورہی ہے، جس کے بعد وہ براہ راست اور وزیراعظم کے ذریعے چیف آف آرمی اسٹاف سے بات کریں گے کیونکہ وزیراعظم کا وعدہ ہے ہم تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس بات پر متفق ہے کہ کل 35 بندے پیش کیے جائیں، اداروں کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ماتحت ہیں، اگر وزیر دفاع ایسا نہیں کہہ سکتے تو عدالت سے چلے جائیں، بعد ازاں چف جسٹس نے کہا کہ وزیر دفاع ہم آپ کی بات رکھ رہے ہیں اور آپ ہماری بات رکھیں، پیر تک کا وقت دیتے ہیں 2دسمبر کو اسلام آباد میں 35 افراد کو پیش کریں اگر ایسا نہ کرسکے تو عدالت پولیس ان تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے گی جن کی تحویل میں یہ بندے ہیں۔
لاپتا افرادسےمتعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف، اٹارنی جنرل اور بلوچستان کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نئی حکومت کے آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، ابھی بھی لوگ لاپتہ ہورے ہیں۔ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت کو پالیسی بنانی چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتا افراد کے اہل خانہ بلوچستان سے پیدل چل کرکراچی آگئے کیا وزیراعظم اور وزیر دفاع کولوگوں کی پریشانی کا احساس نہیں، ہماری یہ ثقافت نہیں کہ خواتین روڈ پر نکلیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ لوگوں کےاغوا میں ایف سی کے علاوہ آئی ایس آئی کا بھی نام آرہاہے۔ گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئی جی ایف سی بلوچستان کوعدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تاہم عدم پیشی پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر وہ کل عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، پھر دیکھتےہیں پولیس کیسے انہیں گرفتار نہیں کرتی، اب کوئی رعایت نہیں کریں گے پھرجوہوگاہم دیکھ لیں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ مالاکنڈ جیل کے سپریٹینڈنٹ کے مطابق یاسین شاہ سمیت دیگر 35 افراد کو فوجی لے گئے ہیں، عدالتی حکم پر بھی ان لاپتا افراد کو پیش نہیں کیا جارہا، ایسی صورتحال میں آئین کی حیثیت کیا رہ گئی، اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ادارےعدالت کا احترام کررہے ہوتے تو35 افراد کو عدالت میں پیش کردیتے، ہمیں پتہ ہے کون کون سا فوجی ان لوگوں کو اپنی تحویل میں لے گیا ان کی ضد ہے کہ لاپتا افراد کو پیش نہیں کرنا لیکن انہیں لانا تو پڑے گا، اب ہم انھیں کوئی رعایت نہیں دیں گے، سیکریٹری دفاع نے کہا کہ آرمی چیف ان دنوں مصروف ہیں انہیں آرمی سمیت اعلیٰ افسران سے بات کرنا ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری دفاع کہیں لکھ کر دے دیں کہ پیر تک 35 افراد پیش کردیں گے اور کل صرف یاسین شاہ کو پیش کردیا جائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کی جانب سے انہیں وقت دیا جائے، کل آرمی چیف کی تبدیلی ہورہی ہے، جس کے بعد وہ براہ راست اور وزیراعظم کے ذریعے چیف آف آرمی اسٹاف سے بات کریں گے کیونکہ وزیراعظم کا وعدہ ہے ہم تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس بات پر متفق ہے کہ کل 35 بندے پیش کیے جائیں، اداروں کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ماتحت ہیں، اگر وزیر دفاع ایسا نہیں کہہ سکتے تو عدالت سے چلے جائیں، بعد ازاں چف جسٹس نے کہا کہ وزیر دفاع ہم آپ کی بات رکھ رہے ہیں اور آپ ہماری بات رکھیں، پیر تک کا وقت دیتے ہیں 2دسمبر کو اسلام آباد میں 35 افراد کو پیش کریں اگر ایسا نہ کرسکے تو عدالت پولیس ان تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے گی جن کی تحویل میں یہ بندے ہیں۔