شہرقائد گوناں گوں مسائل کے نرغے میں۔۔۔

مصائب کے شکار عوام موثر بلدیاتی نظام کے منتظر

مصائب کے شکار عوام موثر بلدیاتی نظام کے منتظر۔ فوٹو : فائل

شہر قائد کے باسیوں کو بڑی بے چینی سے بلدیاتی انتخابات کا انتظار ہے، تاکہ انہیں بنیادی مسائل کا تیز تر اور آسان حل میسر آئے لیکن حکومت کی طرف سے کی جانے والی ٹال مٹول اور الیکشن کمیشن کا تیاریاں مکمل نہ ہونے کا عذر شہریوں میں بے چینی پیدا کر رہا ہے۔

اس وقت کراچی کے شہری بلدیاتی نظام سے متعلق کھینچا تانی اور سرکاری افسران کی من مانی کے نتیجے میں بے شمار مسائل کا سامنا کررہے ہیں، جن میں فراہمی و نکاسیِ آب، صحت و صفائی، علاج معالجہ، تجاوزات، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں اور تعمیراتی کاموں میں تاخیر جیسے مسائل شامل ہیں۔ اس وقت کراچی میں پینے اور استعمال کے پانی کا بحران دیکھا جارہا ہے، جسے متعلقہ ادارہ بجلی کی غیر اعلانیہ اور مسلسل بندش سے جوڑ رہا ہے۔ پچھلے دنوں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث شہر کو 20 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دھابیجی، گھارو، پپری، این ای کے اور حب پمپنگ اسٹیشنوں پر کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جانب سے مسلسل لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے فراہمی آب کا نظام بری طرح متاثر ہوا اور شہر کے متعدد علاقوں میں قلت آب کا مسئلہ دیکھا گیا۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کراچی واٹر بورڈ اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نے قلت آب کے مسئلے پر ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرایا ہو۔ ماضی میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بلوں کی عدم ادائیگی کا تنازع پیدا ہوا تھا، جس کا نقصان صرف اور صرف شہریوں کو اٹھانا پڑا تھا۔ واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ پچھلے چند دنوں سے چار گھنٹوں تک مسلسل بجلی کی فراہمی معطل رہنے کی وجہ سے اورنگی، بلدیہ، قصبہ، سائٹ، سائٹ انڈسٹریل ایریا، نیازی کالو نی، فقیر کالونی، مومن آباد، اجمیر نگری، پہاڑ گنج، نارتھ ناظم آباد، گولیمار کے مکین روزانہ پانچ کروڑ گیلن پانی سے محروم رہے۔

اس کے علاوہ پانی کے بحران نے مختلف دنوں میں گلشن اقبال، لیاقت آباد، لانڈھی، ملیر، ڈیفنس، کلفٹن، لائنز ایریا، شاہ فیصل کالونی، پی آئی بی کالونی، ماڈل کالونی اور دیگر علاقوں کے شہریوں کو بھی شدید مشکل سے دوچار کیا۔ واٹر بورڈ بلک سپلائی کے انجنیئر افتخار احمد کا کہنا تھا کہ کے ای ایس سی کی جانب سے پانچوں پمپنگ اسٹیشنوں پر چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی گئی جب کہ ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل نجم عالم کے مطابق لوڈ شیڈنگ کے باعث 20 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔

بتایا جاتا ہے کہ واٹر بورڈ مجموعی طور پر 64 کروڑ گیلن پانی شہر کو روزانہ فراہم کرتا ہے، جسے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مکمل نہیں کیا گیا اور شہریوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ادھر کے ای ایس سی کے مطابق واٹر بورڈ پر بجلی کے بلوں کی مد میں 25 ارب روپے واجب الادا ہیں اور اس عدم ادائیگی کے باعث وہ لوڈ شیڈنگ کرنے پر مجبور ہے۔



واٹر بورڈ کے اعلا حکام نے کے ای ایس سی کی انتظامیہ سے تشویش کا اظہار کر تے ہو ئے کہا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق تمام پمپنگ اسٹیشنوں پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائے۔ اس کے جواب میں کے ای ایس سی کے ترجمان نے کہا ہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ ہمیشہ کی طرح اپنی نااہلی کا ذمہ دار کے ای ایس سی کو قرار دے رہی ہے۔ ادارہ اب بھی واٹر بورڈ کے پمپنگ اسٹیشنوں کو بلا تعطل 20 گھنٹے کی بجلی فراہم کررہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ واٹر بورڈ کی انتظامیہ نہ تو واجبات کی ادائیگی کے عدالتی حکم کو مانتی ہے اور نہ ہی اسے شہریوں کی پریشانی کا کوئی احساس ہے۔ ترجمان نے کہا کہ شہر میں پانی کے بحران کا ذمہ دار واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور اس کی انتظامیہ خود ہے۔

پچھلے دنوں واٹر بورڈ نے پمپنگ اسٹیشنز پر لوڈ شیڈنگ سے متعلق کے ای ایس سی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ واٹر بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ کے ای ایس سی شہریوں کو بوند بوند کے لیے ترسا رہی ہے۔ واٹر بورڈ حکام کے مطابق بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث شہر کو کئی کروڑ گیلن پانی کم فراہم کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں اداروں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے، لیکن دوسری طرف ایم ڈی واٹر بورڈ قطب الدین شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کے ای ایس سی کے ساتھ واجبات کا معاملہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے۔ واٹر بورڈ حکام نے ابرار حسین ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کے ای ایس سی کی پمپنگ اسٹیشنز پر چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شہر میں پانی کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے پریشر ختم ہوجاتا ہے، دوبارہ پریشر کے لیے تیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں جب کہ لوڈ شیڈنگ سے بیک پریشر کے باعث پائپ لائنیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔


26 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے کے ای ایس سی کو ہدایت کی کہ پمپنگ اسٹیشن کی بجلی فوری بحال کی جائے اور تاحکم ثانی لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے، جب کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایک ہفتے میں کے ای ایس سی کوسات کروڑ روپے ادا کرے ۔دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں اداروں کے مابین تنازع طے پا جائے گا یا شہری پانی کو ترستے رہیں گے۔

دوسری طرف عوام کو سفر کی بہتر سہولت فراہم کرنے اور ٹریفک جام کے مسائل سے نمٹنے کے لیے فلائی اوور کی تعمیر کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رؤف اختر فاروقی نے کہا ہے کہ ملیر 15 اور ملیر ہالٹ فلائی اوورز کا تعمیراتی کام ایک ہفتے کے اندر شروع کر دیا جائے گا۔ جب کہ ہوٹل مہران شاہراہ فیصل پر انڈرپاس کی جگہ فلائی اوور تعمیر کرنے پر غور کیا جا رہا ہے یہ بات انہوں نے ہفتے کے روز اپنے دفتر میں رواں مالی سال کے دوران نئے تعمیر کیے جانے والے فلائی اوورز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی، ڈائریکٹر جنرل محکمہ انجینئرنگ نیاز احمد سومرو، مشیر مالیات فرحان درانی، سینئر ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن محمد اطہر، سینئر ڈائریکٹر ماسٹر پلان افتخار قائم خانی اور دیگر افسران نے شرکت کی، انہوں نے کہا کہ شاہراہ فیصل اور شاہین کمپلیکس پر بننے والے فلائی اوورز کے لیے 467 ملین روپے کے فنڈز حکومت نے فراہم کردیے ہیں، جب کہ بقیہ 50 فیصد رقم بھی جلد فراہم کردی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ شاہراہ فیصل پر انڈرپاس بنانے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا اور یوٹیلیٹی لائنوں کی مختلف اداروں سے اجازت نامے حاصل کرنے اور ٹریفک کو متبادل روٹس فراہم کرنے کے لئے متعدد مسائل کا سامنا ہوگا جبکہ اس مقام پر فلائی اوور کی تعمیر نہ صرف انتہائی کم وقت میں مکمل ہوسکے گی بلکہ ٹریفک کو بھی متبادل روٹ فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، فلائی اوور پر زیادہ تر کام رات کے اوقات میں کیا جائے گا تاکہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر ٹریفک بھی رواں دواں رہے اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ انجینئرنگ نیاز احمد سومرو نے بتایا کہ ملیر ہالٹ اور ملیر15 پر تین، تین لین کے فلائی اوورز تعمیر کیے جارہے ہیں جس کے لئے ٹینڈرنگ سمیت تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔

ملیر 15 پر 532 ملین روپے اور ملیر ہالٹ پر 386 ملین روپے کی لاگت سے فلائی اوورز تعمیر کئے جائیں گے جس کا آغاز ایک ہفتے کے اندر کر دیا جائے گا جس کی تعمیر کے بعد شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والے شہریوں کو سہولت میسر آئے گی اور ٹریفک کی روانی میں مزید بہتری آئے گی اور میٹروپول ہوٹل سے نیشنل ہائی وے تک ٹریفک بغیر کسی رکاوٹ کے گزر سکے گا ان فلائی اوور کی تعمیر سے ایئرپورٹ، نیشنل ہائی وے، پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم، ایکسپورٹ پروسسنگ زون، ملیر، لانڈھی، سعود آباد، قائد آباد اور ملحقہ آبادیوں میں رہائش پذیر شہریوں کو سہولت میسر آئے گی۔ یہ فلائی اوور ملیر ہالٹ کے سگنل اور اس سے آگے ریلوے لائن کو بھی کراس کرے گا، ملیر ہالٹ کے مقام پر جو فلائی اوور تعمیر کیا جا رہا ہے اس کے تینوں لین 3.3 میٹرز کے ہوںگے جبکہ فلائی اوور کی لمبائی 411 میٹر ہوگی۔



ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ شہر میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی اور تمام منصوبے اپنے مقررہ وقت میں مکمل کیے جائیں انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کے تمام افسران ٹیم ورک کے طور پر کام کریں اور شہر کی بہتر سے بہتر خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور رواں مالی سال میں جن منصوبوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے یا حکومت سندھ کی جانب سے فنڈز ریلیز کردیے گئے ہیں، انہیں فوری شروع کیا جائے اور کاغذی کارروائی کے بجائے عملی اقدام کیے جائیں تاکہ شہر میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جاسکیں۔

ایڈمنسٹریٹر رؤف اختر فاروقی نے شہر کے مختلف علاقوں میں کاٹے جانے والے درختوں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ شہر کے ان علاقوں میں راشد منہاس روڈ، یونیورسٹی روڈ، سبزی منڈی اور شاہراہ فیصل پر سائن بورڈ زکو نمایاں کرنے کے لئے درختوں کو کاٹے جانے کی اطلاعات پر انہوں نے فوری طور پر کراچی کے تمام علاقوں میں درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کردی ہے انہوں نے کہا کہ جہاں ضروری ہووہاں پارکس کا عملہ باقاعدہ اجازت لے کر درختوں کی کٹائی کر سکے گا۔ یہ ایک اچھا قدم ہے، جس سے شہریوں پر متعلقہ ادارے کا اعتماد بحال ہو گا مگر فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے شجر کاری مہم چلانا ضروری ہے۔

شہر قائد کے باسی گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں ۔ ناقص بلدیاتی نظام، قتل و غارت گری، اغواء برائے تاوان، اہدافی قتل، دہشت گردی، بھتا خوری جیسے عذاب کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو گئے ہیں اور منتظر ہیں کہ کوئی تو ہو جو زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کا سہارہ بنے اور انہیں اذیت سے چھٹکارا دلائے ۔
Load Next Story