بنگلہ دیش میں چند روز
بنگلہ دیش کے انتخابات منصفانہ ہوں گے اگر خالدہ ضیاء نے بائیکاٹ کر دیا جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے
ڈھاکہ پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی میں ایک بحث میں پھنس گیا کہ آیا 5 جنوری 2014ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے یا نہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے تمام سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت تشکیل دیدی ہے حتیٰ کہ اپنی سب سے بڑی حریف بیگم خالدہ ضیا کو بھی پیش کش کی ہے جو بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں۔ لیکن بیگم خالدہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خود شیخ حسینہ ہی ہیں۔
میں بنگلہ دیش میں اپنے پانچ روزہ قیام کے بعد یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات منصفانہ ہوں گے اگر خالدہ ضیاء نے بائیکاٹ کر دیا جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے۔ مگر شیخ حسینہ حکومت چھوڑتی دکھائی نہیں دیتیں، بلکہ اقتدار میں رہنے کی خاطر کسی بھی انتہا تک جا سکتی ہیں۔ حسینہ شیخ نے ملک کے آئین میں ترمیم کر دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی سربراہی میں نگران حکومت قائم کی جا سکتی ہے جو انتخابات کی نگرانی کرے گی۔ (مجھے جس بات پر تعجب ہوا وہ شیخ حسینہ کی وہ پُھرتی تھی جس کے باعث پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت کے پانچ میں سے چوتھا حصہ ان سے الگ ہو گیا ہے۔ ان کے بر خود غلط انداز حکومت نے کرپشن میں مزید اضافہ کر دیا ہے حتیٰ کہ دیہی علاقوں میں متعین سرکاری اہلکار بھی کرپشن میں ملوث ہو گئے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء نے ہر تیسرے دن ہڑتال کروا کر صورتحال کو اور زیادہ خراب کر دیا ہے جس سے کہ عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شیخ حسینہ بھی ہڑتالیں کرواتی رہی ہیں، جب وہ اقتدار میں نہیں تھیں۔
دونوں بیگمات نے، جو کہ باری باری وزیر اعظم بنتی ہیں، غالباً پہلی مرتبہ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی حتیٰ کہ دونوں طرف سے مصالحت کنند گان بھی کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ دونوں خواتین میں ذاتی مخاصمت بہت زیادہ ہے۔ اس شبہ کو تقویت پہنچانے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جب حسینہ شیخ اقتدار سے باہر تھیں تو ان کے جلسہ پر حملہ کرنے والے بیگم خالدہ ضیاء کے قریبی معتمد تھے۔
اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کو پہنچ رہا ہے۔ اس جماعت نے بڑے طے شدہ طریق کار کے تحت معاشرے کے ہر طبقے میں اپنے ''سیل'' قائم کر لیے ہیں حتیٰ کہ دانشوروں کے حلقے میں بھی جماعت کی پذیرائی موجود ہے۔ جماعت کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ بی این پی اس پر انحصار کرتی ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء کی سابق حکومت میں یہ دونوں اکٹھی تھیں۔ اگر اور جب بی این پی اقتدار میں آئے گی تب بھی یہ دونوں مخلوط حکومت کی پارٹنر ہونگی۔ سب سے بدتر نتیجہ بنیاد پرستوں کے معرض وجود میں آنے کا ہوا۔ اس میں اضافہ نماز جمعہ کے موقع پر مولویوں اور ملائوں کی مسموم تقاریر کی وجہ سے ہوا۔ اس بات کا سہرا شیخ حسینہ کے سر ہے جنہوں نے بنیاد پرستوں کے خلاف لڑائی کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا اور حکومت کو سیکولر ازم کے انھی اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جن پر ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے اپنی حکومت استوار کی تھی۔
حسینہ شیخ کے ان اقدامات سے بھارت میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا کیونکہ بھارت بھی اجتماعیت کی سیاست کا دعویدار ہے لیکن بی جے پی کی طرف سے نریندر مودی کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کرنے پر بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے پر تاریک سایے چھا گئے ہیں۔ یہی کام خالدہ ضیا نے بنگلہ دیش میں کیا ہے۔ بنگلہ دیش ایسا ملک ہے جس نے اس اصول کی بنیاد پر آزادی حاصل کی کہ وہ مذہب کو سیاست میں خلط ملط نہیں کریں گے جس سے کہ بھارت میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت وہاں کا منظر نامہ یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ عوام کے لیے غریبی افیون کا کام کر رہی ہے جس کا کارل مارکس نے بھی بطور خاص ذکر کیا تھا۔ بائیں بازو کی سیاست کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک بہت مضبوط کمیونٹی پارٹی تھی لیکن اب اس کا ڈھانچہ ہی رہ گیا ہے اور اس کا رجحان اسٹیبلشمنٹ کی طرف بڑھ گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہی پرانی کہانی ہے جو بھارت سمیت پورے برصغیر میں نظر آتی ہے۔ اگر بائیں بازو کی پارٹیوں کے احیاء کی کوئی امید ہوتی تو برصغیر کے 70 فیصد عوام جو انتہا درجے کے غریب ہیں وہ مذہبی جماعتوں کی کوئی بات نہ سنتے جو کہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتیں اس صورت حال کو سنبھال سکتی تھیں لیکن افسوس انھوں نے بھی عوام کے ساتھ وفا نہیںکی۔
شیخ حسینہ کو اپنے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے بھارت مخالف جذبات کا سامنا ہے کیونکہ اس نے نئی دہلی کو راہداری کی سہولتیں دے رکھی ہیں۔ اگر وزیر اعظم من موہن سنگھ دریائے تیستا کا پانی شیخ حسینہ کو دے دیتے تو موصوفہ پوزیشن بہت بہتر ہو سکتی تھی۔ مغربی بنگال کی آنجہانی وزیر اعلیٰ جیوتی باسو دور اندیش خاتون تھیں۔ انھوں نے فرخا بیراج کے پانی کی تقسیم کے معاملے میں بنگلہ دیش کو پوری رعایتیں دے دی تھیں۔ لیکن ریاست کی موجودہ وزیر اعلی ممتاز بینرجی کو اپنے ووٹ بینک کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کو اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہاں کے لوگ پاکستان کا ذکر صرف اپنی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔ یاد رہے بنگلہ دیش ایک زمانے میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ آزادی سے نو مہینے قبل حکومت پاکستان نے صدر جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کو انتخابات میں بھرپور حیثیت سے جیتنے کے باوجود حکومت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام سالہا سال تک مغربی پاکستان کے بالا دست طبقوں کے زیر نگیں رہے۔ تب عوامی لیگ نے واضح اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور مشرقی پاکستان کی خود مختاری کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس کے مطابق امور خارجہ اور دفاع کے علاوہ مشرقی پاکستان کو تمام امور میں بااختیار بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یحییٰ خان نے ان کا مطالبہ منظور کرنے کے بجائے وہاں فوجی کارروائی کا حکم دیدیا تا کہ ان کی تحریک کو کچلا جا سکے۔ بہر حال میں نے بعد ازاں دیکھا کہ پاکستان والوں کو اپنے ملک کا ایک حصہ کھو جانے پر بہت افسوس ہے اس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کچھ عمل دخل تھا۔ پاکستان کے ایک چوٹی کے وکیل نے مجھے کہا کہ اب ہمیں احساس ہوا ہے کہ انڈیا کے عوام کو 1947ء میں تقسیم کے وقت کیا محسوس ہوا ہو گا جب برطانوی یہاں سے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بنگلہ دیش کی 65 فیصد آبادی جو کہ اپنے وطن کی آزادی کے بعد پیدا ہوئی ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کے آبائو اجداد پر آزادی کی جدوجہد کے دوران کیا صدمات گزرے تھے اور نہ ہی ان کو یہ جاننے کی کوئی خواہش ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہاں اس دور کے واقعات کے بارے میں کوئی اچھی کتاب بھی نہیں لکھی گئی۔
گزرتے ہوئے برسوںکے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگوں میں مثبت انداز فکر اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اندرونی مصائب و مسائل کے باوجود ملک کی گزشتہ عشرے میں شرح نمو 6 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ انسانوں کی بہتری کے حوالے سے ان کے اعداد و شمار بھارت سے زیادہ اچھے ہیں۔ زراعت کی شرح نمو میں ملک خود کفیل ہو گیا ہے جب کہ اس کی تیار شدہ کپڑوں کی صنعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے گو کہ اس حوالے سے وہاں قوانین محنت کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت اب بھی وہاں پھیلی ہوئی ہے اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود دیہات کی حالت اتنی اچھی ہے کہ وہاں سے لوگ شہروں کی طرف ہجوم در ہجوم نہیں آ رہے جیسا کہ وہ سیلابوں اور قحط کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے انھوں نے اپنے طور پر خودکفالت سیکھ لی ہے جو کہ یقیناً بے حد قابل ستائش ہے۔
یہ درست ہے کہ مستقبل کے بارے میں یقین کے ساتھ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن انتخابات کے موقع پر وہاں تشدد کے واقعات وسیع پیمانے پر ہوتے ہیں بالخصوص جب بیگم خالدہ ضیا شیخ حسینہ کی حکومت کے زیر انتظام انتخابات کرانے کی سختی سے مخالفت کرتی ہوں۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ایک بار پھر فوج حکومت پر قبضہ کر لے جس طرح کہ چند سال پہلے اس نے کیا تھا لیکن پھر خود ہی وہ واپس چلی گئی تھی جب اس نے دیکھا کہ لوگ جمہوریت کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ اگرچہ دو بیگمات کی ریشہ دوانیوں سے جمہوریت کی شکل مسخ ہو چکی ہے۔ وہاں کے ایک چوٹی کے اخبار کے ایڈیٹر نے تو عدلیہ کو مداخلت کرنے کی دعوت دیدی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ آئین کے محافظ ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
میں بنگلہ دیش میں اپنے پانچ روزہ قیام کے بعد یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات منصفانہ ہوں گے اگر خالدہ ضیاء نے بائیکاٹ کر دیا جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے۔ مگر شیخ حسینہ حکومت چھوڑتی دکھائی نہیں دیتیں، بلکہ اقتدار میں رہنے کی خاطر کسی بھی انتہا تک جا سکتی ہیں۔ حسینہ شیخ نے ملک کے آئین میں ترمیم کر دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی سربراہی میں نگران حکومت قائم کی جا سکتی ہے جو انتخابات کی نگرانی کرے گی۔ (مجھے جس بات پر تعجب ہوا وہ شیخ حسینہ کی وہ پُھرتی تھی جس کے باعث پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت کے پانچ میں سے چوتھا حصہ ان سے الگ ہو گیا ہے۔ ان کے بر خود غلط انداز حکومت نے کرپشن میں مزید اضافہ کر دیا ہے حتیٰ کہ دیہی علاقوں میں متعین سرکاری اہلکار بھی کرپشن میں ملوث ہو گئے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء نے ہر تیسرے دن ہڑتال کروا کر صورتحال کو اور زیادہ خراب کر دیا ہے جس سے کہ عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شیخ حسینہ بھی ہڑتالیں کرواتی رہی ہیں، جب وہ اقتدار میں نہیں تھیں۔
دونوں بیگمات نے، جو کہ باری باری وزیر اعظم بنتی ہیں، غالباً پہلی مرتبہ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی حتیٰ کہ دونوں طرف سے مصالحت کنند گان بھی کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ دونوں خواتین میں ذاتی مخاصمت بہت زیادہ ہے۔ اس شبہ کو تقویت پہنچانے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جب حسینہ شیخ اقتدار سے باہر تھیں تو ان کے جلسہ پر حملہ کرنے والے بیگم خالدہ ضیاء کے قریبی معتمد تھے۔
اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کو پہنچ رہا ہے۔ اس جماعت نے بڑے طے شدہ طریق کار کے تحت معاشرے کے ہر طبقے میں اپنے ''سیل'' قائم کر لیے ہیں حتیٰ کہ دانشوروں کے حلقے میں بھی جماعت کی پذیرائی موجود ہے۔ جماعت کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ بی این پی اس پر انحصار کرتی ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء کی سابق حکومت میں یہ دونوں اکٹھی تھیں۔ اگر اور جب بی این پی اقتدار میں آئے گی تب بھی یہ دونوں مخلوط حکومت کی پارٹنر ہونگی۔ سب سے بدتر نتیجہ بنیاد پرستوں کے معرض وجود میں آنے کا ہوا۔ اس میں اضافہ نماز جمعہ کے موقع پر مولویوں اور ملائوں کی مسموم تقاریر کی وجہ سے ہوا۔ اس بات کا سہرا شیخ حسینہ کے سر ہے جنہوں نے بنیاد پرستوں کے خلاف لڑائی کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا اور حکومت کو سیکولر ازم کے انھی اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جن پر ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے اپنی حکومت استوار کی تھی۔
حسینہ شیخ کے ان اقدامات سے بھارت میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا کیونکہ بھارت بھی اجتماعیت کی سیاست کا دعویدار ہے لیکن بی جے پی کی طرف سے نریندر مودی کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کرنے پر بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے پر تاریک سایے چھا گئے ہیں۔ یہی کام خالدہ ضیا نے بنگلہ دیش میں کیا ہے۔ بنگلہ دیش ایسا ملک ہے جس نے اس اصول کی بنیاد پر آزادی حاصل کی کہ وہ مذہب کو سیاست میں خلط ملط نہیں کریں گے جس سے کہ بھارت میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت وہاں کا منظر نامہ یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ عوام کے لیے غریبی افیون کا کام کر رہی ہے جس کا کارل مارکس نے بھی بطور خاص ذکر کیا تھا۔ بائیں بازو کی سیاست کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک بہت مضبوط کمیونٹی پارٹی تھی لیکن اب اس کا ڈھانچہ ہی رہ گیا ہے اور اس کا رجحان اسٹیبلشمنٹ کی طرف بڑھ گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہی پرانی کہانی ہے جو بھارت سمیت پورے برصغیر میں نظر آتی ہے۔ اگر بائیں بازو کی پارٹیوں کے احیاء کی کوئی امید ہوتی تو برصغیر کے 70 فیصد عوام جو انتہا درجے کے غریب ہیں وہ مذہبی جماعتوں کی کوئی بات نہ سنتے جو کہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتیں اس صورت حال کو سنبھال سکتی تھیں لیکن افسوس انھوں نے بھی عوام کے ساتھ وفا نہیںکی۔
شیخ حسینہ کو اپنے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے بھارت مخالف جذبات کا سامنا ہے کیونکہ اس نے نئی دہلی کو راہداری کی سہولتیں دے رکھی ہیں۔ اگر وزیر اعظم من موہن سنگھ دریائے تیستا کا پانی شیخ حسینہ کو دے دیتے تو موصوفہ پوزیشن بہت بہتر ہو سکتی تھی۔ مغربی بنگال کی آنجہانی وزیر اعلیٰ جیوتی باسو دور اندیش خاتون تھیں۔ انھوں نے فرخا بیراج کے پانی کی تقسیم کے معاملے میں بنگلہ دیش کو پوری رعایتیں دے دی تھیں۔ لیکن ریاست کی موجودہ وزیر اعلی ممتاز بینرجی کو اپنے ووٹ بینک کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کو اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہاں کے لوگ پاکستان کا ذکر صرف اپنی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔ یاد رہے بنگلہ دیش ایک زمانے میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ آزادی سے نو مہینے قبل حکومت پاکستان نے صدر جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کو انتخابات میں بھرپور حیثیت سے جیتنے کے باوجود حکومت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام سالہا سال تک مغربی پاکستان کے بالا دست طبقوں کے زیر نگیں رہے۔ تب عوامی لیگ نے واضح اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور مشرقی پاکستان کی خود مختاری کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس کے مطابق امور خارجہ اور دفاع کے علاوہ مشرقی پاکستان کو تمام امور میں بااختیار بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یحییٰ خان نے ان کا مطالبہ منظور کرنے کے بجائے وہاں فوجی کارروائی کا حکم دیدیا تا کہ ان کی تحریک کو کچلا جا سکے۔ بہر حال میں نے بعد ازاں دیکھا کہ پاکستان والوں کو اپنے ملک کا ایک حصہ کھو جانے پر بہت افسوس ہے اس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کچھ عمل دخل تھا۔ پاکستان کے ایک چوٹی کے وکیل نے مجھے کہا کہ اب ہمیں احساس ہوا ہے کہ انڈیا کے عوام کو 1947ء میں تقسیم کے وقت کیا محسوس ہوا ہو گا جب برطانوی یہاں سے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بنگلہ دیش کی 65 فیصد آبادی جو کہ اپنے وطن کی آزادی کے بعد پیدا ہوئی ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کے آبائو اجداد پر آزادی کی جدوجہد کے دوران کیا صدمات گزرے تھے اور نہ ہی ان کو یہ جاننے کی کوئی خواہش ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہاں اس دور کے واقعات کے بارے میں کوئی اچھی کتاب بھی نہیں لکھی گئی۔
گزرتے ہوئے برسوںکے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگوں میں مثبت انداز فکر اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اندرونی مصائب و مسائل کے باوجود ملک کی گزشتہ عشرے میں شرح نمو 6 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ انسانوں کی بہتری کے حوالے سے ان کے اعداد و شمار بھارت سے زیادہ اچھے ہیں۔ زراعت کی شرح نمو میں ملک خود کفیل ہو گیا ہے جب کہ اس کی تیار شدہ کپڑوں کی صنعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے گو کہ اس حوالے سے وہاں قوانین محنت کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت اب بھی وہاں پھیلی ہوئی ہے اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود دیہات کی حالت اتنی اچھی ہے کہ وہاں سے لوگ شہروں کی طرف ہجوم در ہجوم نہیں آ رہے جیسا کہ وہ سیلابوں اور قحط کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے انھوں نے اپنے طور پر خودکفالت سیکھ لی ہے جو کہ یقیناً بے حد قابل ستائش ہے۔
یہ درست ہے کہ مستقبل کے بارے میں یقین کے ساتھ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن انتخابات کے موقع پر وہاں تشدد کے واقعات وسیع پیمانے پر ہوتے ہیں بالخصوص جب بیگم خالدہ ضیا شیخ حسینہ کی حکومت کے زیر انتظام انتخابات کرانے کی سختی سے مخالفت کرتی ہوں۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ایک بار پھر فوج حکومت پر قبضہ کر لے جس طرح کہ چند سال پہلے اس نے کیا تھا لیکن پھر خود ہی وہ واپس چلی گئی تھی جب اس نے دیکھا کہ لوگ جمہوریت کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ اگرچہ دو بیگمات کی ریشہ دوانیوں سے جمہوریت کی شکل مسخ ہو چکی ہے۔ وہاں کے ایک چوٹی کے اخبار کے ایڈیٹر نے تو عدلیہ کو مداخلت کرنے کی دعوت دیدی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ آئین کے محافظ ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)