الحمرا چلو اور ادب کی بہار دیکھو

جب گرمی کا زور ٹوٹتا ہے اور جاڑے کی رت کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے تو ادبی اجتماعات شروع ہو جاتے ہیں

rmvsyndlcate@gmail.com

ادب کا موسم اب اپنے عروج پر ہے۔ ادب کا موسم نہیں ادبی کانفرنسوں کا موسم۔ ایک وقت تھا کہ ادب کا چرچا تو تھا۔ مگر ادبی کانفرنسوں اور ادبی سیمیناروں کا ذکر مشکل ہی سے سننے میں آتا تھا۔ یہ تو ہمارے آج کے زمانے کی سوغات ہے تو اب یوں ہے کہ جب گرمی کا زور ٹوٹتا ہے اور جاڑے کی رت کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے تو ادبی اجتماعات شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے ویسے نہیں بلکہ اتنے بھرپور کہ ہم انھیں لٹریری فیسٹول اور جشن ادب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں تو یہ موسم شروع تو پہلے ہی ہو گیا تھا اور لاہور میں اسی الحمرا آرٹس کونسل ہی میں اس کا آغاز ہوا تھا۔ پہلے تین سہیلیوں کے خیال گروپ نے ایسے فیسٹیول کا ڈول ڈالا۔ وہ تو خیر اصلاً انگریزی ادب کا فیسٹیول تھا۔ بیچ بیچ میں تھوڑی اردو پنجابی بھی سہی۔ مگر اس کے بعد ایکسپریس کی اردو کانفرنس زیادہ دھوم سے منعقد ہوئی۔

اور اب خود آرٹس کونسل نے اپنی ادبی ثقافتی کانفرنس کی بساط بچھائی۔ اس کی دھوم زیادہ کچھ اس باعث ہوئی کہ مندوبین دور دور سے آئے ہوئے تھے' مصر سے' ایران سے' ہندوستان سے' مقبوضہ کشمیر سے' انگلستان سے' جرمنی سے' بنگلہ دیش سے۔

تو تین دن تک آرٹس کونسل میں خوب امی جمی رہی۔ جیسے کوئی برات اتری ہوئی ہو اور ہاں آرٹس کونسل کے سبزہ زار میں تو ایک نیا پھول کھلا تھا۔ یہ علامہ اقبال کا مجسمہ تھا اور بیچ سبزہ زار میں نصب تھا اور شائقین ادب کے لیے باعث کشش بنا ہوا تھا۔

اور ہاں اس کانفرنس سے ایک دن پہلے اس الحمرا میں تقسیم انعامات کی بھی تو تقریب ہوئی تھی۔ یہ خیر یو بی ایل گروپ کی طرف سے تھی۔ ادبی تصانیف کو جانچا پرکھا گیا۔ انگریزی اردو دونوں زبانوں کی تصانیف زیر بحث آئیں۔ کوئی شاعری کی کتاب کوئی افسانوں کا مجموعہ انھیں انعامات سے نوازا گیا۔

اگلے دن الحمرا کی عالمی ادبی ثقافتی کانفرنس کا افتتاح ہوا۔ وزیر اعظم پاکستان کی آمد سے کانفرنس کو چار چاند لگ گئے۔ سچ مچ کے چار چاند۔ عطاء الحق قاسمی نے تھوڑا قیمہ مانگا تھا۔ مل گئی دو کروڑ کی موٹی رقم۔ عطاء الحق قاسمی نہال ہو گئے۔ آرٹس کونسل خوش حال ہو گئی۔ وزیر اعظم کی تقریر دل پذیر تھی۔ عطیہ دل بدست آور تھا۔ دل پذیر اس حساب سے بھی تھی کہ ہمسایہ ملک ہندوستان سے تعلقات کی بحالی پر بہت زور دیا گیا۔ پھر اس کی گونج سنائی دی کانفرنس کے اختتامی سیشن میں جہاں بحث کا عنوان تھا' امن۔ اس اجلاس میں صحافت کے اور الیکٹرونک میڈیا کے ممتاز نمایندے جمع تھے۔ کچھ ہندوستان سے آئے ہوئے صحافی اور دانشور بھی تھے۔ وہاں بھی سب سے بڑھ کر اسی خواہش کا اظہار ہوا کہ ان دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی ہونی چاہیے۔ اور عطاء الحق قاسمی اس حد تک تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزا کا سلسلہ معطل ہو جائے تو بات یہاں تک پہنچ گئی ع

اور اس پر بھی نہ سمجھے تُو' تو تجھ بت کو خدا سمجھے

قصہ مختصر یہ خالص ادبی کانفرنس نہیں تھی۔ آخر یہ آرٹس کونسل کی کانفرنس تھی اور آرٹس کونسل پر محض ادب کی اجارہ داری تو نہیں ہے۔ فنون لطیفہ کا ٹھکانہ بھی تو یہی کونسل ہے۔ سو یہ ادبی نہیں' ادبی و ثقافتی کانفرنس تھی۔ سو ادب کے سوا بھی موضوعات یہاں زیر بحث آئے۔ ایک نشست تھیٹر کے بارے میں۔ ایک سیشن میں موسیقی زیر بحث تھی۔ پھر محفل موسیقی بھی اور ناہید صدیقی کا کتھک بھی۔ ساتھ میں مشاعرہ بھی۔ سو یہ رنگا رنگ کانفرنس تھی۔ ادب بھی تھا اور فنون لطیفہ کی رنگا رنگی بھی تھی۔ اور ہاں ایک رنگ تصوّف کا بھی تھا۔

ادب کے ذیل میں ایک سیشن اردو افسانے کے بارے میں' ایک سیشن شاعری کی نئی اصناف پر بحث مباحثہ کے لیے وقف' ایک سیشن طنز و مزاح پر بحث کے لیے مخصوص۔


افسانے کے سیشن کے بارے میں کیا عرض کریں۔ صورت احوال یہ تھی ع

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

اور کوئی کون۔ ایک کونے میں ہم دبکے بیٹھے تھے۔ کسی گوشے میں بیٹھے عبداللہ حسین کان لگا کر سن رہے تھے۔ اور بول کون رہے تھے' مسعود اشعر' ناصر عباس نیر' ڈاکٹر انوار' حمید شاہد وغیرہ وغیرہ ادھر احوال یہ تھا کہ ٹک ٹک دیدم' دم نہ کشیدم۔ کتنا کچھ تم لکھ چکے۔ اب جگر تھام کے بیٹھو اور سنو۔ سب کی سنو۔ حتی کہ سعادت سعید کی بھی سنو۔ اب مآل سعیِ افسانہ کھلا

اور شاعری کا سیشن۔ یہاں کشور ناہید نے کرسی صدارت سنبھالی ہوئی تھی۔ مہمان خصوصی دو تھے۔ ایک تھا' دوسری تھی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی اور سری نگر سے آنے والی مہمان ڈاکٹر شبنم عشائی۔

مقالے دو بیبیوں نے پڑھے۔ ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے اور ڈاکٹر شبنم عشائی نے۔ ہر چند کہ دونوں مقالہ نگاروں نے دیے ہوئے موضوع کو ایسا زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا پھر بھی مقالے خوب تھے ویسے کیا ضرور ہے کہ بات کرنے والا منظور شدہ موضوع کا قیدی بن کر ہی بات کرے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو۔ ڈاکٹر فہمیدہ حسین کے مقالہ میں نیا ذائقہ اس حساب سے تھا کہ انھوں نے یہ قیاس کر کے کہ وہاں تو سب ہی اردو شاعری پر رواں ہوں گے سندھی شاعری سے رجوع کیا اور اس کے کچھ رنگ اس طرح دکھائے کہ سامعین واہ واہ واہ واہ کہہ اٹھے۔

اصل میں یہاں بحث یہ تھی کہ اردو شاعری میں جو نئی اصناف در آئی ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ کتنی بحثا بحثی کے بعد ڈاکٹر خورشید رضوی نے جو یہاں مہمان خصوصی تھے اس کا بہتر طریقے سے جائزہ لیا غزل سے آگے نکل کر نئے شاعروں نے نظم معریٰ لکھی۔ پھر اس مقام سے بڑھ کر نظم آزاد کہی۔ پھر اس سے بھی آگے جا کر نثری نظم میں گل پھول کھلائے۔ اپنے سارے تجربے برحق بشرطیکہ شعریت بھی ہم رکاب رہے۔ خالی فارم کا نیا ہونا وجہ جواز نہیں بن سکتا۔ فارم نئی ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی ساتھ لائی ہے اصل بات دیکھنے کی یہ ہے۔

اور ہاں افتتاحی اجلاس میں موضوع زیر بحث تھا' مسلم ثقافت کا روشن چہرہ۔ سب نے روشن چہرے ہی کی بات کی۔ سب سے بڑھ کر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اور اپنی روشن خیالی سے انھوں نے خوب داد لوٹی۔ مگر کسی نے یہ سوال نہ اٹھایا کہ ہمارے زمانے میں مسلم ثقافت کا یہ روشن چہرہ تاریک خیالی کی زد میں کیوں آیا ہوا ہے ع

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے یا نہیں
Load Next Story