عمارت سے محروم پاکستان ڈگری کالج

سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی


Ashraf Mughal 1 November 28, 2013
سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی۔ فوٹو : فائل

وطن عزیز میں سرکاری محکموں کی ناقص صورت حال قابل تشویش ہے۔

حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے محکموں اور ملازمین میں اضافہ کرنے میں لگی ہوئی پرہے۔ سرکاری محکموں میں بد انتظامی اور شدید بدعنوانی عروج ہے، جس کی وجہ سے سرکاری محکمے اپنے شعبوں میں اصلاحات لانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے عوام کے لیے اذیت بن گئے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے سالانہ بجٹ میں نصف سے زیادہ رقم سرکاری ملازمین کی تن خواہوں، الاؤنسز اور پینشن سمیت دیگر مراعات کی مد میں خرچ ہوجاتی ہے، باقی ماندہ بجٹ ترقیاتی کاموں اور سرکاری عمارتوں میں فرنیچر کی خریداری سمیت دیگر سامان کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔

سالانہ بجٹ میں ایک بڑی رقم سرکاری افسران اور ملازمین کاغذات میں دکھا کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں رقوم کی خورد برد اور بدعنوانی عام ہونے اور سزا جزا کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن دن بہ دن بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے سرکاری محکمے ترقی کرنے کی بجائے زوال پذیر ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سابقہ 5 سال کی حکومت کے دور میں تو سرکاری محکموں میں ریکارڈ کرپشن، اور خلاف ضابطہ بے تحاشہ بھرتیاں کی گئیں، جس سے محکموں میں اضافی سیاسی بھرتیوں اور تن خواہوں کی مد میں رقوم منظور نہ ہونے کی وجہ سے اضافی بھرتی شدہ ملازمین نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

حکومت کے دیگر بے شمار اقدامات اور پالیسیوں میں جہاں غلط منصوبہ بندی اور عدم دل چسپی اور نا اہلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، وہیں حکومت کے غلط اقدامات کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے، جس کی ایک مثال محکمہ تعلیم سندھ کیِ ( بے مثال) کارکردگی بھی ہے۔گورنمنٹ پاکستان ڈگری کالج خیرپور اس کی نمایاں مثال ہے، جس کی آج تک عمارت نہیں بن سکی، پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں خیرپور میں 1972 میں گورنمنٹ پاکستان ڈگری کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن اس کی عمارت منظور نہ ہو سکی، کالج کو پہلے ریڈیو پاکستان کے قریب ایک نجی جگہ بعد میں گورنمنٹ پکاشیڈ پرائمری اسکول اور اب گورنمنٹ ایلیمنٹری ٹریننگ کالج کے ایک حصے میں منتقل کیا گیا ہے۔ کالج کے اسٹاف میں پرنسپل، ایک وائس پرنسپل، 5 اسسٹنٹ پروفیسر، 11 لیکچرر سمیت 22 ملازمین ہیں۔

اس کالج سے اب تک لاکھوں طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو چکے ہیں اور دیگر زیر تعلیم ہیں۔ لیکن حکومت خیرپور میں دیگر غیر ضروری عمارتوں کو تو تعمیرکر رہی ہے، لیکن اس کالج کی اپنی عمارت تعمیر کرنے کے میں ناکام ہے ۔ پاکستان ڈگری کالج کا نام پاکستان جیسے مقدس نام پر رکھا گیا ہے، مگر ملک سے اپنی محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے ایک بات بڑی تعجب خیز ہے کہ وہ پاکستان کے نام سے بنے اس تعلیمی ادارے کو اپنی عمارت نہیں دے سکے۔ پاکستان کالج کو مختلف عمارتوں میں منتقل کرنے پر اسے ملک کا موبائل کالج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

خیرپور ضلع میں وزیراعلیٰ کا آبائی ضلع اور حلقہ انتخاب ہونے کی وجہ سے سی ایم پیکج کے تحت میگاپراجیکٹ شروع ہیں، لیکن پاکستان کالج کے علاوہ ایکسائز، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، پاپولیشن، پیرول، مارکیٹ کمیٹی، میونسپل کمیٹی، بیت المال ، محکمہ ریوینیو اور یونین کونسلوں کے دفاتر سمیت سندھ اور وفاقی حکومتوں کے محکموں کی اپنی عمارتیں نہیں ہیں اور وہ سالہا سال سے کرایے کی عمارتوں میں ہیں، ان محکموں کے دفاتر کے کرایہ کی مد میں سندھ حکومت کے کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔

حکومت میں شامل سیاست دانوں نے اپنی نجی عمارتوں کو سرکاری دفاتر کو کرایہ پر دیا ہوا ہے اور سندھ حکومت کے راشی عمل داروں کی ملی بھگت سے کرایہ کو 2 سو فیصد زیادہ منظور کروا کر حکومتی خزانے کو لوٹا جا رہا ہے۔ کرائے کی عمارتوں میں سرکاری دفاتر ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہونے کے ساتھ دشوار گزار راستوں اور گنجان آبادی کی وجہ سے ملازمین کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری افسران اور ملازمین کی رہائش گاہوں کا بھی بندوبست نہیں ہے اس لیے سرکاری افسران اور ملازمین بھی کرایہ پر رہائش گاہیں لے کر رہنے پر مجبور ہیں۔

اس کے ساتھ ہی افسران بالا نے سرکاری عمارتوں میں دفاتر نہ ہونے کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کے مختلف مقامات پر الگ سے غیر قانونی دفاتر بھی بنا رکھے ہیں، یہاں پر سرکاری کاموں کے سلسلے میں غیر قانونی لین دین، رشوت لے کر ملزمان کو الگ نجی جیلوں میں رکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے محلوں میں جرائم پیشہ اور خراب شہرت رکھنے والے افراد کا کھلے عام آنا جانا ہے، جس کی وجہ سے عام شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

ملک میں کرائے پر دی جانے والی عمارتوں کے مالکان کو دہشت گردی کی وجہ سے چند ضابطوں کا پابند کیا گیا ہے، جس میں مالکان کو کرایہ دار کی مکمل دستاویزات مقامی تھانے میں جمع کرانے کی ہدایات بھی شامل ہیں ، لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور زیادہ کرایہ کے لالچ میں غیر مقامی اور جرائم پیشہ افراد کو عمارتیں دے دی جاتی ہیں، ایسی عمارتیں جرائم پیشہ عناصر مالکان سے لے کر وہاں غیرقانونی سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں، جس کا نتیجہ بعد میں دہشت گردی کی صورت میں معصوم بے گناہ شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے محکموں کے لیے سرکاری عمارتیں تعمیر کرے اور نجی عمارتوں میں موجود عمارتوں کو سرکاری عمارتوں میں منتقل کیا جائے تاکہ کرایہ کی مد میں کروڑوں روپے کی رقم حکومت کو بچ سکے اور سرکاری افسران اور ملازمین کو بھی دفاتر کی سہولیات مل سکیں۔

اس کے علاوہ سرکاری افسران اور ملازمین کی رہائش کے لیے گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اسکیم بنائی جائے تاکہ حکومت اور عوام کے لیے خدمات سرانجام دینے والے افسر اور ملازمین دل جمعی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں