لاڑکانہ صفائی مہم ناکام مہنگائی کے خلاف مزدوروں کا احتجاج

پولیس دعوے بلند، کار کردگی صفر


Mahmood Pathan November 28, 2013
پولیس دعوے بلند، کار کردگی صفر فوٹو : فائل

چند روز قبل شہری یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے کہ سندھ حکومت نے ان کی چیخ و پکار سن کر لاڑکانہ شہر سے گندگی کے خاتمے اور سیوریج کے 35 سالہ ناکارہ نظام کی تبدیلی کے لیے ایک بار پھر 50 کروڑ روپے منظور کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ کو 5 کروڑ روپے جاری بھی کردیے ہیں جس پر کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد نے ضلعی و متعلقہ محکموں کے افسران کا اجلاس طلب کیا اور ہفتہ صفائی مہم کا اعلان کردیا۔

بہت انتظار کے بعد وہ دن آیا اور ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ مرزا ناصرعلی، ایڈیشنل کمشنر سیف اللہ ابڑو، پیپلز پارٹی کے سینئر نائب صدر خیر محمد شیخ نے میونسپل کارپوریشن اور نساسک عملے کے ہم راہ شہر کے پوش علاقے کھچی امام بارگاہ محلہ سے صفائی مہم کا آغاز کیا، جہاں افسران نے متعلقہ محکموں کے سو سے زائد خاکروبوں اور سینیٹیشن عملے کے ہم راہ خوب فوٹو سیشن کروایا، صفائی مہم کا اعلان کرنے والے کمشنر لاڑکانہ اپنی مصروفیات کا کہہ کر کراچی روانہ ہو گئے تو افتتاح میں ضلعی افسران نے جھاڑو پکڑ کر صفائی مہم کا افتتاح کرنا بھی گوارہ نہ سمجھا لیکن انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ضلعی انتظامیہ کی شاندار کارکردگی پر مشتمل شان دار ہینڈ آؤٹ جاری کیا۔

اگرچہ پہلے روز ہی شہر کے ان علاقوں سے صفائی کا آغاز نہیں کیا گیا جو شدید گندگی کی لپیٹ میں تھے، لیکن پھر بھی شہری پر امید تھے کہ ان کے علاقوں کی باری بھی آجائے گی ، لیکن اس وقت صحافی حیران اور شہری پریشان ہو گئے جب نہ تو پہلے دن کچھ خاص صفائی عمل میں آئی اور نہ ہی دوسرے روز عملہ اور افسران، اور یوں ہفتہ صفائی مہم تو ایک روز میں ختم ہو گئی، لیکن سندھ حکومت کی جانب سے صفائی اور سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے لاڑکانہ انتظامیہ کو فراہم کیے گئے 5 کروڑ روپے کے فنڈز کے استعمال پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور کرپشن کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ تما م سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں تو کر رہی ہیں لیکن عوامی مسائل حل کرنے کے لیے حکومتی جماعت سمیت کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے پانچ سالوں میں بھی پونے چار ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود لاڑکانہ شہر میں صفائی ستھرائی اور سیوریج کا نظام ناقص ہے اور اس بد قسمت شہر کے باسی ہر دفعہ منتخب نمائندوں اور افسران کے جھوٹے وعدوں اور دعووں کے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس مسلسل دھوکے، جھوٹے وعدے اور دعووں کے بعد شہری جان چکے ہیں کہ انہیں کوئی ریلیف ملنے والا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام آئے روز احتجاج کرتے ہوئے سندھ حکومت کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔

ایک جانب تو صفائی نہیں ہو رہی تو دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ لوکل گورنمنٹ کو فنڈز کے اجراء کے بعد ٹی ایم او باقرانی عبدالقادر شیخ کی جانب سے ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہیں جاری کرنے کے دوران با اثر افراد نے اغوا کر کے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر ترقیاتی کاموں و اخراجات کی مد میں دیے گئے دو کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز کے حصول کے لیے زبردستی ملازمین کی تن خواہوں کی فہرست پر دست خط کروالیے لیکن رقم نکلوانے کے لیے سیلری شیٹ بینک لے جانے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پوچھ گچھ اور فنڈز جاری نہ کرنے پر بھانڈا پھوٹ گیا۔

اس سلسلے میں ان دنوں نوڈیرو میں مقیم پیپلز پارٹی کی رہنما ایم این اے فریال تالپور سے باقرانی پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے کے بھتیجے اور پارٹی رہنما سہیل انور سیال نے ملاقات کر کے انہیں سارے معاملے کے متعلق آگاہ کیا ، جس کے بعد فریال تالپور نے صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ سے رابطہ کیا جن کی ہدایات پر تحصیل میونسپل آفیسر عبدالقادر شیخ کو ہٹا کر ان کی جگہ عبدالشکور مہر کو نیا ٹی ایم او مقرر کردیا گیا ہے، جب کہ با اثر افراد کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، رابطہ کرنے پر ٹی ایم او عبدالقادر شیخ نے پہلے تو کچھ بھی بتانے سے انکار کیا تاہم اصرار پر صرف اتنا بتایا کہ ان کی کوئی غلطی نہیں، وہ انتہائی سینئر ہیں اور شہریوں کی خدمت کرتے آرہے ہیں، انہیں دکھ ہے کہ انہیں پہلے لاڑکانہ سے ہٹایا گیا اور پھر اب باقرانی سے ہٹادیا گیا ہے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق اس تبدیلی کے بعد باقرانی سے ہی تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے موجودہ ایم پی اے حاجی الطاف انڑ بھی ایم این اے فریال تالپور سے ملاقات کریں گے اور موجودہ ٹی ایم او عبدالشکور مہر کے بھی تبدیل ہونے کے قوی امکان ہیں، ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ باقرانی میں کچھ عرصہ قبل بھاری رشوت کے عوض ملازمین بھرتی کیے گئے جنہیں کافی عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی پوری تن خواہ کے بجائے آدھی تن خواہ دی جاتی ہے، جب کہ کئی ملازمین کو تین چار ماہ بعد ایک تن خواہ جاری کی جاتی ہے۔

اپنی جائیداد اور گھر کی قیمتی اشیا ء فروخت کرکے مجبوری کے تحت رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنے والے ملازمین سخت اذیت میں مبتلا ہیں اور نکالے جانے کے خوف سے افسران کے سامنے لب کشائی نہیں کر سکتے ، ان میں سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو حقائق سے آگاہ کیا، واضح رہے کہ ٹی ایم او کو یرغمال اور فنڈز حاصل کرنے کے معاملے کو با اثر افراد کے خوف سے چھپایا جارہا ہے۔

بلدیہ ہی سے جڑا ایک اور اہم معاملہ لاڑکانہ میں مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ بھی ہے جس کے خلاف سندھ نیشنل پارٹی اور سول سوسائٹی کے اراکین عبدالرحمان مگسی، وہاب جوکھیو، کامریڈحبیب اﷲ شیخ، ولی محمد سولنگی، کامریڈ حاکم سولنگی اور دیگر نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ اشیاء خورونوش میں مصنوعی اضافہ کیا جارہا ہے، جب کہ ضلع انتظامیہ اس پر خاموش تماشائی ہے، مظاہرین نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روز مرہ کی چیزوں میں اضافہ دکانداروں، بڑے تاجروں کی ملی بھگت سے کیا جا رہا ہے، جس سے غریب طبقہ بہت زیادہ متاثر اور جرائم میں اضافہ ہو تا جارہا ہے، اسی مہنگائی کے ستائے رائس فیکٹریز لیبر یونین لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ اضلاع کے سیکڑوں ملازمین نے کارخانے داروں کی جانب سے ہوش ربا مہنگائی کے باوجود ماہانہ اجرت میں 40 فی صد اضافہ نہ کرنے سمیت دیگر مطالبات کے حق میں شیخ زید کالونی آریجہ روڈ سے ریلی نکالی، جس میں گڈز ٹرانسپورٹ اور پتھر مزدور اتحاد کے رہنماؤں سمیت نوڈیرو، رتوڈیرو، میروخان، باقرانی، ڈوکری اور باڈہ سے تعلق رکھنے والے دیہاڑی پیشہ مزدوروں نے بھی اظہار یک جہتی کرتے ہوئے شرکت کی۔

ریلی کی قیادت وطن دوست مزدور فیڈریشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری عبدالعزیز عباسی، قادر کرد، غوث بخش چانڈیو، محمد بلوچ، علی اصغرگاڈہی،گل کورائی، بخت سولنگی اور دیگر کر رہے تھے، ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں لال جھنڈے، بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ریلی کے شرکاء نے شہر کے مختلف راستوں لاہوری محلہ، بندر روڈ، پاکستانی چوک کا گشت کرتے ہوئے جناح باغ چوک پر دھرنا دیا اورکارخانے داروں، مل مالکان کے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔

اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ میں مہنگائی دو سو فی صد بڑھ چکی ہے جس پر مزدوروں نے اپنی اجرت میں 40 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تاہم مالکان نے مزدوروں کو حقیر جانتے ہوئے ہمارا جائز مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، لیکن اگر کارخانے داروں نے اجرت نہ بڑھائی تو ہڑتال کر کے ملیں بند کر دیں گے اور عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔ محکمہ پولیس کی کہانی بھی سن لیں، لاڑکانہ پولیس کی گاڑیوں کی حالت انتہائی خراب ہے، اہلکار رسیاں باندھ باندھ کر سیٹوں کو قابل استعمال بنانے لگے رہتے ہیں، شہر میں گشت کرنے والی پولیس موبائلوں کی حالت بظاہر تو اچھی ہے لیکن اندر سے کچھ اور ہی ہے اور پولیس موبائل کی سیٹیں شاید اب پولیس اہلکاروں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہیں، محکمہ پولیس جنہیں مرمت کے لیے سالانہ لاکھوں روپے بجٹ دیے جانے کے باوجود کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اہلکار پولیس موبائل کی سیٹوں کو رسیوں سے باندھ کر قابل استعمال بنا رہے ہیں، تاکہ شہر میں امن امان کی صورت حال پر قابو پایا جاسکے، لاڑکانہ پولیس کے پاس جو گشت کرنے والی موبائل موجود ہیں ان میں سے اکثر کی حالت مخدوش ہے جبکہ مصدقہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ حکومت ، مخیر حضرات ا ور سماجی تنظیموں کی جانب سے لاڑکانہ پولیس اہلکاروں کو جو موٹر سائیکلیں گشت کے فراہم کی گئی ہیں ان موٹر سائیکلوں میں سے بھی محکمہ پولیس کے چند بد عنوان اہلکاروں نے موٹر سائیکلوں کا قیمتی سامان نکال کر فروخت کردیا ہے اور اس وقت بھی لاڑکانہ مدد گار 15 آفس میں کئی نئی موٹر سائیکلیں ناکارہ کھڑی ہیں اس سلسلے میں جب اے ایس پی سٹی ساجد کھوکھر نے بتایا کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ چند موٹر سائیکلیں ناکارہ ہیں جن کی جلد مرمت کروائی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ پولیس کے زیر اہتمام ایگل ون اور مجاہد کے اہلکار شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف گشت کرنے پر معمور کیے گئے تھے لیکن حال ہی میں اینٹی کار لفٹنگ سیل سی پی ایل سی کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے جس وجہ سے گشت پر معمورکچھ اہلکار اس شعبے میں تعینات کیے گئے ہیں، اس لیے سات نئی موٹر سائیکلیں فارغ ہیں جن کے لیے اہلکار موجود نہیں اس کی رپورٹ ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفی کورائی کو دے دی گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں اینٹی کار لفنٹنگ شعبے کو بنے تین ماہ ہونے کو ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے اور جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ان تین ماہ میں کتنی چوری شدہ گاڑیاں پکڑی گئی ہیں تو جواب تھا ایک بھی نہیں۔ اے ایس پی کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لاڑکانہ میں کار چوری کی شرح ایک فی صد ہے جب کہ موٹر سائیکل چوری کو سی پی ایل سی کے تعاون سے بنائے گئے سیل میں شامل نہیں کیا جارہا اس کے لیے بھی اپنے تحفظات ایس ایس پی لاڑکانہ کو تحریری طور پر ارسال کردیے ہیں جو جلد اس پر ایکشن لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں