وزیراعظم نے سب کو حیران کر دیا
آرمی چیف کی تعیناتیوں کو کافی قریب سے دیکھنے کے بعد بالآخر نتیجہ یہ نکالا کہ وہی آرمی چیف بنتا ہے جسے ’’پیا‘‘ چاہے۔
ہمارے ہاں انگریزی اخباروں کے لیے لکھنے والوں کا ایک مخصوص گروہ ہے۔ انھیں ذلت اور مشقت کے ان دنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ایک روایتی نوعیت کے صحافی کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ اچھے اسکولوں اور پھر غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ لکھاری کبھی کبھار یا باقاعدہ کالم لکھ کر ہم جیسے عامیوں کو ''اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا'' جیسا پیغام دیتے رہتے ہیں۔ ملکی سیاست اور سیاستدانوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ایسے لکھاری ''دفاعی اور خارجہ امور'' پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہمارے مخصوص حالات کے سبب وہ یہ سوچنے میں کافی حق بجانب ہیں کہ ان دونوں شعبوں کے حوالے سے ''اصل فیصلہ سازی'' کا اختیار سیاستدانوں کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ قوت ریاست کے دائمی اداروں کے پاس جا چکی ہے۔ اسی لیے وہ ان اداروں کے لوگوں کے ساتھ ہی سماجی روابط بڑھاتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریریں غیر ملکی صحافی اور سفارت کار بھی بہت غور سے پڑھتے ہیں اور ان سے تعلقات بنانے کی کوششوں میں جتے رہتے ہیں۔ میں نے رپورٹنگ کے تقریباََ 25 سال انگریزی روزناموں کی فل ٹائم نوکری میں گزارے ہیں لیکن لاہور کی گلیوں سے اُٹھا ایک ''اُردو میڈیم'' ہی رہا اور اس ضمن میں کوئی شرمندگی ہر گز محسوس نہ کی۔ پوری توجہ صرف ''خبر'' ڈھونڈنے پر صرف کی اور خود کو ''مفکر'' بنانے کی بیماری سے محفوظ رہا۔
ایک آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف کی تقرری یقینا ایک بہت بڑی خبر ہوتی ہے۔ اللہ کا بڑا کرم رہا ہے کہ آصف نواز مرحوم کی تعیناتی سے لے کر جنرل مشرف کے انتخاب تک تمام مراحل سے واقف ہوتے ہوئے بس ''خبر'' ہی لکھتا رہا۔ آرمی چیف کی اتنی ساری تعیناتیوں کو کافی قریب سے دیکھنے کے بعد بالآخر نتیجہ یہ نکالا کہ آپ بڑی خوب صورت زبان میں جو چاہے ''مینا کاری'' کرتے رہیں بالآخر بندہ وہی آرمی چیف بنتا ہے جسے ''پیا'' چاہے۔
اپنے تجربے کی روشنی میں آج سے کئی ہفتے پہلے اسی کالم میں نہایت عاجزی سے یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ آج کل آرمی چیف بنانے کے حوالے سے ''پیا'' نواز شریف ہیں۔ زیادہ بہتر ہے کہ ان کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ ہمارے بڑے بااعتماد لکھاریوں نے مگر اس التجا پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ مضمون پر مضمون آتے رہے جن میں ممکنہ آرمی چیف کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری رہیں۔ ایسے مضامین لکھنے والوں نے بظاہر زیادہ زور یہ بات ثابت کرنے میں بھی صرف کر دیا کہ وہ تمام ممکنہ امیدواروں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ باقاعدہ دلائل کے ساتھ ان کے Strong اور Weak پہلوئوں کو Highlight کیا جاتا رہا۔ جزئیات میں تھوڑے بہت اختلاف سے قطع نظر ہماری عسکری قیادت کے Career Charts کے ماہر بنے ان سب لکھاریوں کا البتہ ایک بات پر اتفاق رہا کہ خاموش طبع مگر بہت ہی Thinking جنرل کیانی نے اپنے معاونین کو بڑی دور اندیشی سے Place ہی اس طرح کیا ہے کہ دو سب سے سینئر افراد میں سے ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بن جائے گا اور دوسرا آرمی چیف۔ اسی دوران انتہائی اعتماد کے ساتھ کہانی یہ بھی پھیلائی جاتی رہی کہ نواز شریف کسی نہ کسی صورت جنرل کیانی کے تجربے سے بدستور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ان کی مُدّتِ ملازمت میں ایک اور توسیع کے ساتھ ہی ساتھ CJSC کے لیے ان کے انتخاب کو چند دوستوں نے تقریباََ حتمی قرار دے دیا۔ اس اطلاع کے ساتھ کہ جنرل کیانی کی تعیناتی کے بعد یہ عہدہ ''نمائشی'' نہیں رہے گا۔ اس کے اختیارات میں اضافہ ہو گا اور بالآخر کوئی ایسی صورت بن جائے گی کہ وہ برطانیہ والے Chief of Defense بن جائیں گے۔ جنرل کیانی میڈیا میں چھپی کہانیوں کو نظر انداز کیا کرتے تھے۔ مگر ان جیسا Cool شخص بھی ہمارے دفاعی امور کے ماہر بنے لکھاریوں کی وجہ سے بالآخر یہ بیان دینے پر مجبور ہو گیا کہ 28 نومبر 2013ء ان کا فوجی وردی میں آخری دن ہو گا۔ مجھے یہ بات اب عیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ وزیر اعظم جنرل کیانی کے اس بیان سے تقریباََ دو دن پہلے اپنے طور پر یہ طے کر چکے تھے کہ وہ راحیل شریف کو آرمی چیف بنائیں گے۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف اب جو چاہے دعوے کرتے رہیں لیکن میں یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ لکھ سکتا ہوں کہ ان دونوں افراد کو وزیر اعظم کے انتخاب کی بالکل خبر نہ تھی۔ نئے آرمی چیف کی تلاش کے لیے انھوں نے سب سے زیادہ مشاورت جن دو افراد سے کی، ان دونوں کا تعلق پاک فوج سے بہت گہرا رہا ہے۔
ان دو میں سے ایک ان دنوں ان کی کابینہ کے رکن بھی ہیں۔ ایک اور وفاقی وزیر بھی ہیں جو خود کو ''لاعلم'' ثابت کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔ یہ وزیر صاحب اکثر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس وزیر کو نواز شریف کے فیصلے کا اپنے طور پر بڑا صحیح اندازہ تھا۔ پرویز رشید اس وزیر کا نام ہے۔ میرے وہ بڑے کرم فرما دوست ہیں لیکن میں ان سے ملنا وقت ضایع کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ کسی وزیر سے ملوں تو مجھے خبر چاہیے ہوتی ہے اور ہمارے وزیر اطلاعات سے ''خبر'' کے علاوہ بہت ساری عزت، شفقت اور محبت ہی مل سکتی ہے۔ خبروں کے حوالے سے ان جیسے جز رس شخص نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے دو روز پہلے ایک چھوٹا سا بیان دیا تھا۔ اس بیان میں کہا تو صرف اتنا کہ آئینی طور پر نئے آرمی چیف کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے۔ بظاہر جو بات انھوں نے کہی کوئی ''بڑی خبر'' نہ تھی مگر قیاس آرائیوں کے شور میں اس کی اہمیت بڑی واضح تھی اور اس میں یہ پیغام بھی مضمر تھا کہ وہ نہیں ہو گا جس کی دفاعی امور کے ماہر بنے لکھاری توقع رکھے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہی نئے آرمی چیف کا انتخاب کریں گے اور اس حوالے سے لوگوں کو حیران کر دیں گے۔
آرمی چیف کا انتخاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے لوگوں کو یقینا حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کو چنا ہے جس کے لیے اپنے تئیں دفاعی امور کے ماہر بنے لکھاریوں میں سے کوئی ایک بھی نمایاں قسم کی Lobbying نہیں کر رہا تھا۔ ذاتی طور پر میں یہ اضافہ ضرور کرنا چاہوں گا کہ میاں صاحب نے قوم کو ایک خوش گوار حیرت دی ہے۔ نئے آرمی چیف کے انتخاب میں ایک گہرا پیغام بھی مضمر ہے۔ فی الوقت اس پیغام کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ FF والے بڑے پکے فوجی ہوا کرتے ہیں اور پاکستانی فوج کو اس وقت اپنی عسکری مہارت کے اظہار کی یقینا بہت ضرورت ہے۔ اپنے ''ترجمانوں'' کے ذریعے پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے بارے میں Dictation دینے والوں کو اب یہ خبر مل جانی چاہیے کہ ان معاملات کے بارے میں قطعی فیصلہ سازی کا اختیار ریاستِ پاکستان اور اس کی منتخب حکومت کے پاس ہے۔