نظر اور نظریہ
1986 سے لے کر آج تک فرقہ بندی کا عفریت پنپ کرخاردار درخت بن چکا ہے،اس کی آبیاری کرنے والے ملک کے خیرخواہ بن گئے ہیں۔
ساکنان پاکستان صاحبان نظر ہیں اور فضل خدا سے وہ نسل ابھی زندہ ہے جس کے سامنے بھارت تقسیم ہوا، یا وہ لوگ جنھوں نے براہ راست اپنے والدین سے تقسیم ہند کی باتیں سنیں، انھیں کسی مصنوعی تاریخ اور غیر مدلل کہانیوں یا داستانوں کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کی ضرورت ان لوگوں کو تھی جہاں جہاں مسلمان اقلیت تھے اور انھیں اپنی تہذیب و ثقافت، مذہب و عقائد کو بچانے کے لیے انگریزوں کی واپسی کے بعد بچانا تھا تو وہاں اس نظریے نے جنم لیا، دلی، لکھنو، حیدر آباد دکن، ڈھاکا، سندھ، حیدر آباد میں ان تحریکوں کا باقاعدہ زور و شور تھا، باوجود اس کے کہ پنجاب میں یونینسٹوں کی حکومت تھی، وہاں بھی یہ تحریک زور و شور سے جاری تھی، مینار پاکستان اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔
پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم نے جو پہلی تقریر کی وہ پاکستان کی سیاست کے خدوخال تھے، جس میں قائداعظم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ تمام باشندگان پاکستان بلاتفریق عقائد، ہندو، مسلم، کرسچن سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور اپنے عقائد کے اعتبار سے زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔دراصل دستور پاکستان قیام پاکستان کے 28 برس بعد وجود میں آیا، یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ قائد کو وقت نہ ملا اور یہ مختلف سیاسی پگڈنڈیوں اور مطلق العنانیوں اور نام نہاد جمہوری ادوار سے گزرتا ہوا آج ہمارے سامنے ہے اور اس پر بھی عملدرآمد کرنے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اگر تاریخ کو یوں ہی مسخ کیا جانے لگا تو پھر امکان ہے کہ قائداعظم کے علاوہ کوئی اور بھی بانی پاکستان نکل آئے۔ علامہ اقبال کے مفکر پاکستان پر کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ ان کی تقریر میں مسلمانوں کے لیے حکمرانی کا خیال ملتا ہے، وہ خطبہ الٰہ آباد ہو یا دیگر مواقع پر مگر اقبال کے یہاں بھی مسلمانوں کی تقسیم کا کوئی ذکر اچھے انداز میں نہیں ملتا ۔
مگر 1986 سے لے کر آج تک فرقہ بندی کا عفریت پنپ کر خاردار درخت بن چکا ہے، اس کی آبیاری کرنے والے ملک کے خیر خواہ بن گئے ہیں۔
لہٰذا جب تک امریکا اور پاکستان کا معاہدہ دہشت گردی کے مسئلے پر موجود ہے یہ ڈرون حملے بند نہ ہوں گے۔ ویسے بھی حال ہی میں ایک سینیٹر فرینک نے یہ کہا ہے کہ پاکستان میں تمام ڈرون حملے پاکستانی حکومت کے ایما پر ہوتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبا میں شیعہ لڑکے بھی شامل ہوتے تھے گوکہ ان کی تعداد کم ہوتی تھی بلکہ جماعت اسلامی کے لیڈر جناب پراچہ نے اپنی گفتگو میں اس بات کی تصدیق بھی ایک ٹاک شو میں کی کہ ان کی جماعت میں شیعہ حضرات موجود ہوتے تھے سیاسی افق پر ملت کی تقسیم ایک خطرناک عمل ہے بہرحال ابھی مختلف مسالک کے قائدین میں ابھی اتنی یگانگت تو باقی رہ گئی ہے کہ تمام مکاتب نے یوم امن منایا اور تشدد کی نفی کی قومی اسمبلی کراچی کے رکن پی ٹی آئی نے انچولی دھماکے کی مذمت کی مگر مرکزی قیادت کو کراچی کے معاملے پر سوگ منانے کا موقع نہ ملا یا خیال نہ آیا، جو سیاسی کمی مرکز سے رہ گئی وہ عارف علوی نے پوری کردی۔
اس پورے سیاسی بھونچال میں اگر کسی جماعت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تو وہ اے این پی کو، گو نظریاتی طور پر اے این پی اپنے رفتگان کے نام لیتی رہی مگر وہ اپنے رفتگان کی سادہ زندگی سے بہت دور نکل گئے اور باچا خان کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہ تھے جس سے پارٹی کو سخت نقصان پہنچا اس کا اظہار ولی خان مرحوم کی بیوہ نسیم ولی نے بارہا کیا اور اب ان کی قوت برداشت جواب دے چکی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مجبوراً سیاست میں حصہ لیں گی، ان کی آمد کا مقصد ایک طرف تو اے این پی کی ساکھ کو بحال کرنا ہے، دوسرا کے پی کے میں عمران خان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ عمران خان اس وقت جو سیاسی راؤنڈ کھیل رہے ہیں اس کا اصل مرکز کے پی کے کی سیاست پر عبور پانا ہے، دوسرا اہم مقصد طالبان میں اپنی ساکھ بحال کرنا ہے۔ پاکستان میں ہر پارٹی اپنا ووٹ بینک بڑھانے میں مصروف ہے، نہ ان کو ملک سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی طالبان سے کوئی خاص ربط و ضبط ، بس اپنے حساب کتاب کو درست رکھنا ہے، اس کے لیے وہ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، کسی کو بھی ادراک نہیں کہ آنے والا ہر روز پاکستان کے عوام کے لیے کس قدر دشوار گزار ہے، کتنی شدید پریشانی آنے کو ہے۔
لیڈران عوام کو لڑانے میں مصروف ہیں کیونکہ اس طرح عوام اپنے فروعی معاملات میں الجھے رہیں گے اور اپنے مسائل سے غافل رہیں گے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے امکانات موجود نہیں، روپے کی قدر مزید جھٹکے کھانے کو ہے، اسٹاک مارکیٹ کے مصنوعی ابھار دھوکے کے سوا کچھ نہیں، حکمرانوں کے غیر ملکی دورے ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ کلیدی مسائل سے ہٹانے کے لیے ہیں۔ آخر ان حالات میں نیٹو سپلائی روکنے اور پھر کے پی کے کے حالات کو ابتر بنانے کا اصل مقصد کوئی نہ کوئی تو ضرور ہوگا۔ آخر امریکا کا کون سا شہر ایسا ہے جہاں سے عمران خان نے چندا جمع نہیں کیا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ امریکا دشمنی کی آڑ میں کوئی اور کام متوقع ہے بلکہ مرکزی حکومت پر صوبائی حکومت کا غلبہ، پاکستان اور امریکا کے مابین روبرو تصادم، پاکستان کی اقتصادی ناکہ بندی، ابھی تو پاکستان دنیا کی کوئی بھی کرکٹ ٹیم میچ کھیلنے نہیں آسکتی، اب ایک ایسا وقت آنے کو ہے کہ دنیا کا کوئی بھی سربراہ مملکت پاکستان آنے سے گریز کرنے کو ہے۔ عمران خان نے جس طرح طالبان سے گفتگو کے لیے اے پی سی بلائی تھی اسی طرز پر وہ مرکزی حکومت اور فوج کو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اٹھائیں مگر یہ کرکٹ کا گراؤنڈ نہیں ہے جہاں کپتان ہونے کے ناتے کسی کو کہیں بھی کھڑا کردیں، یہ ہے عالمی سیاست۔ دنیا کی پڑھی لکھی قوموں سے معرکہ ہے آج کی جنگ کے معنی ہی کچھ اور ہیں۔