انسانی اسمگلنگ ایک دردناک مسئلہ
پاکستان انسانی اسمگلنگ کے علاوہ انسانی اعضا کی فروخت میں بھی عالمی شہرت رکھتا ہے لیکن ادارے سو رہے ہیں
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر ماہ درجنوں پاکستانیوں کو ویزے سے زیادہ قیام کرنے، غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرنے اور جعلی یا نامکمل سفری دستاویزات پر بیرون ملک جانے کی کوششیں کرنے کے جرم میں ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے حوالے کیا جاتا ہے، جہاں ان کے خلاف مقدمات درج ہوتے ہیں۔ خراب مالی حالات ہونے کی وجہ سے اور اکثر اوقات ملک کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والا کراچی میں کوئی نہیں ہوتا ہے۔ ان کی مجبوریوں اور لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمے کے کچھ کرپٹ افسران انھیں بھاری فیس کے عوض اپنے تجویز کردہ وکیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وصول شدہ آدھی فیس افسر کی جیب میں جاتی ہے اس لیے کوئی متاثرہ شخص رشوت کی وصولی کی شکایات بھی نہیں کرسکتا ہے۔ تفتیشی افسر کے تجویز کردہ وکیل ان افراد کا مقدمہ لڑنے کے بجائے انھیں اقرار جرم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عدالت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک دو پیشی میں چند ہزار جرمانہ عاید کرکے انھیں رہا کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر ایف آئی اے نے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے دو تفتیشی افسران کے خلاف تحقیقات کرائی تو پتہ چلا کہ ان کی جانب سے درج مقدمات کے ملزمان کی وکالت دو مخصوص وکلا نے ہی کی، جو اکثر اوقات انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل میں ہی پائے جاتے ہیں، اس رپورٹ پر ان افسران کے تبادلے اندرون سندھ کردیے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ پولیس، ایف آئی اے، انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اس قسم کے کرپٹ افراد کی خاصی تعداد موجود ہے جو غیر قانونی دھندوں میں ملوث افراد اور گروہوں کے ساتھ روابط رکھتے ہیں، ان کے تعلقات فٹ پاتھ پر بیٹھے ایجنٹوں سے لے کر قانون کے شعبے میں پائے جانے والے ایجنٹوں اور ٹاؤٹ تک استوار ہیں، جس کی وجہ سے جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان کی افزائش اور حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ شریف، لاعلم، ان پڑھ اور سادہ لوح شہری ان سے خوفزدہ ہونے کی وجہ سے قانونی راستہ اپنانے کے بجائے ایجنٹوں کے ذریعے بھاری نذرانہ اور رشوتیں دے کر اپنے معاملات نمٹانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی کارروائیوں سے حج و عمرے کے زائرین بھی محفوظ نہیں رہتے۔ پچھلے سال عمرہ زائرین کی چپلوں میں ہیروئن چھپاکر بھیجنے کا واقعہ ہوا، جنھیں سعودی حکام نے گرفتار کیا اور حکومتی مداخلت و کوششوں سے یہ خاندان تختہ دار سے واپس آیا۔ صرف کراچی میں دنیا بھر کے 78 ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 35 لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، ہزاروں غیر ملکی جیلوں میں بھی قید ہیں، ان میں بڑی تعداد بنگالیوں کی ہے۔
شہر میں گنے کی مشینیں، پان کے کیبن اور سوپ کے ٹھیلے وغیرہ بھی زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی ملکیت بتائے جاتے ہیں، جب کہ افغانیوں کو پناہ گزین قرار دے کر رفیوجی کارڈ جاری کردیے گئے ہیں، ان غیر قانونی افراد کی وجہ سے شہروں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لوگ پولیس و دیگر ناپسندیدہ عناصر کے لیے مخبری کے فرائض اور سیاسی عناصر کے لیے ورک فورس کے فرائض انجام دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں، ان سے انتہائی کم اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔ حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کی سہولت اور ان کا ڈیٹا مرتب کرنے کی خاطر نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی (نارا) کو ایسے افراد کی رجسٹریشن اور ان کے سروے کا کام تفویض کیا تھا جس کے لیے صرف چند ضروری معلومات اور تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد یہ افراد سوائے ووٹ ڈالنے کے اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے اکثر سہولیات کے اہل ہوجاتے ہیں۔ چند سو روپے سالانہ کے عوض انھیں ورک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، یہ اپنا بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، اپنے بچوں کا اسکول میں داخلہ کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ پھر وہیں آجاتا ہے کہ یہ تارکین وطن پولیس، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری محکموں کے خوف، عدم احساس تحفظ اور عدم آگاہی کی بنا پر نارا کا کارڈ بنوانے کے بجائے غیر قانونی قیام پر اکتفا کرتے ہیں، اسی لیے نارا سے رجسٹریشن حاصل کرنے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے۔
دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے مختلف انداز و مقاصد ہیں، کہیں بچوں کو غلامی اور صنعتوں و گھروں میں مشقت کے لیے، کہیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کرنے کے لیے تو کہیں بچوں و خواتین کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ روزگار و ہنر مستقبل کی خواہش میں رضاکارانہ اسمگل ہونے والے بھی شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سالانہ دو سے ڈھائی لاکھ خواتین و بچے اسمگل کیے جاتے ہیں۔ خواتین کی اسمگلنگ میں بھارت کا نام دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے، اس لیے بھارت کو خواتین کے لیے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں بھارت کی کثیر آبادی، غربت اور رسومات بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔
زمینی و آبی راستوں سے روزگار کے لیے اسمگل ہونے کی کوششیں کرنے کے الزام میں ایران سے سالانہ تقریباً پندرہ ہزار جب کہ عمان سے 8 ہزار کے لگ بھگ پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے ایف آئی اے کے حوالے کیا جاتا ہے جب کہ دیگر ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ٹریول ایجنٹس اور ایف آئی اے کے کرپٹ عناصر کی ملی بھگت سے سب سے زیادہ اور ناحق متاثر بنگال اور سابقہ مشرق پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہو رہے ہیں جن کے خاندان اور رشتے داریاں دونوں ممالک میں منقسم ہیں، ان سے ملاقات کے لیے جانے کے خواہش مند، غربت، لاعلمی، سرکاری محکموں کے طریقہ کار سے لاعلمی اور خوف کی وجہ سے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے ٹکٹ و سفری دستاویزات کا انتظام کرواکے جب بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو جعلی ویزے یا پاسپورٹ کی وجہ سے ڈی پورٹ کرکے ایف آئی اے اور انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کی تحویل میں دے دیے جاتے ہیں اور مہینوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔
پاکستان انسانی اسمگلنگ کے علاوہ انسانی اعضا کی فروخت میں بھی عالمی شہرت رکھتا ہے۔ لیکن ادارے سو رہے ہیں، مجبور ہیں یا پھر اس میں ملوث مافیا کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بچوں، خواتین کے علاوہ روزگار کے لیے رضاکارانہ اسمگلنگ ہونیوالے افراد کے دلخراش واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، چند سال قبل کوئٹہ میں دوران سفر کٹنیر میں مقفل 110 افراد میں سے 55 افراد گاڑی کا اے سی بند ہوجانے کی وجہ سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جن کی عمریں 14 سے 16 سال تھیں، ان ناسمجھ اور کم عمر افراد کے سرپرست ایسی مہم جوئی کی اجازت اور پیسہ دینے سے قبل کچھ سوچ بچار کر لیتے تو ان نوجوانوں کی زندگیاں نہ جاتیں۔ ایک مرتبہ تربت میں بھی 3 سال سے 5 سال کی عمر کے بچوں سے بھری بس پکڑی گئی تھی جنھیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کرنے کے لیے اسمگل کیا جارہا تھا۔ ایک مرتبہ بحری جہاز کے ٹینک میں چھپے یورپ جانے کے خواہش مند نوجوان ٹینک میں غلطی سے پانی بھر دیے جانے کے سبب ہلاک ہوگئے تھے جب لاشیں پانی میں تیرنے لگیں تو علم ہوا اس قسم کے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو مر جانے یا مار دیے جانے کے بعد سمندر یا بیابانوں میں پھینک دیا جاتا ہوگا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث کوئی شخص اپنے کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔
غربت، افلاس، جہالت اور لالچ کی وجہ سے ملک میں جرائم اور خودکشیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے لوگ پیٹ کی آگ بجھانے اور قرضہ چکانے کے لیے اپنے جسمانی اعضا تک فروخت کر رہے ہیں، نوجوانوں میں خصوصاً بلند معیار زندگی، آسائشات اور تعیشات کے حصول کی دیوانگی اور سرپرستوں کا ان سے صرف نظر کرنا بھی بنیادی عوامل ہیں۔ بدقسمتی سے ریاست اور ریاستی ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان میں امنگ و جذبے کی کمی ہے، اس کے لیے جب تک ان میں خداخوفی، احساس ذمے داری، احتساب و جوابدہی کا تصور پیدا نہیں ہوگا، ملک میں روزگار و انصاف کے مواقع فراہم نہیں ہوں گے انسانی زندگیوں کا اتلاف اور وسائل کے ضیاع کو نہیں روکا جاسکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پولیس، ایف آئی اے، انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اس قسم کے کرپٹ افراد کی خاصی تعداد موجود ہے جو غیر قانونی دھندوں میں ملوث افراد اور گروہوں کے ساتھ روابط رکھتے ہیں، ان کے تعلقات فٹ پاتھ پر بیٹھے ایجنٹوں سے لے کر قانون کے شعبے میں پائے جانے والے ایجنٹوں اور ٹاؤٹ تک استوار ہیں، جس کی وجہ سے جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان کی افزائش اور حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ شریف، لاعلم، ان پڑھ اور سادہ لوح شہری ان سے خوفزدہ ہونے کی وجہ سے قانونی راستہ اپنانے کے بجائے ایجنٹوں کے ذریعے بھاری نذرانہ اور رشوتیں دے کر اپنے معاملات نمٹانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی کارروائیوں سے حج و عمرے کے زائرین بھی محفوظ نہیں رہتے۔ پچھلے سال عمرہ زائرین کی چپلوں میں ہیروئن چھپاکر بھیجنے کا واقعہ ہوا، جنھیں سعودی حکام نے گرفتار کیا اور حکومتی مداخلت و کوششوں سے یہ خاندان تختہ دار سے واپس آیا۔ صرف کراچی میں دنیا بھر کے 78 ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 35 لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، ہزاروں غیر ملکی جیلوں میں بھی قید ہیں، ان میں بڑی تعداد بنگالیوں کی ہے۔
شہر میں گنے کی مشینیں، پان کے کیبن اور سوپ کے ٹھیلے وغیرہ بھی زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی ملکیت بتائے جاتے ہیں، جب کہ افغانیوں کو پناہ گزین قرار دے کر رفیوجی کارڈ جاری کردیے گئے ہیں، ان غیر قانونی افراد کی وجہ سے شہروں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لوگ پولیس و دیگر ناپسندیدہ عناصر کے لیے مخبری کے فرائض اور سیاسی عناصر کے لیے ورک فورس کے فرائض انجام دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں، ان سے انتہائی کم اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔ حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کی سہولت اور ان کا ڈیٹا مرتب کرنے کی خاطر نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی (نارا) کو ایسے افراد کی رجسٹریشن اور ان کے سروے کا کام تفویض کیا تھا جس کے لیے صرف چند ضروری معلومات اور تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد یہ افراد سوائے ووٹ ڈالنے کے اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے اکثر سہولیات کے اہل ہوجاتے ہیں۔ چند سو روپے سالانہ کے عوض انھیں ورک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، یہ اپنا بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، اپنے بچوں کا اسکول میں داخلہ کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ پھر وہیں آجاتا ہے کہ یہ تارکین وطن پولیس، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری محکموں کے خوف، عدم احساس تحفظ اور عدم آگاہی کی بنا پر نارا کا کارڈ بنوانے کے بجائے غیر قانونی قیام پر اکتفا کرتے ہیں، اسی لیے نارا سے رجسٹریشن حاصل کرنے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے۔
دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے مختلف انداز و مقاصد ہیں، کہیں بچوں کو غلامی اور صنعتوں و گھروں میں مشقت کے لیے، کہیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کرنے کے لیے تو کہیں بچوں و خواتین کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ روزگار و ہنر مستقبل کی خواہش میں رضاکارانہ اسمگل ہونے والے بھی شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سالانہ دو سے ڈھائی لاکھ خواتین و بچے اسمگل کیے جاتے ہیں۔ خواتین کی اسمگلنگ میں بھارت کا نام دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے، اس لیے بھارت کو خواتین کے لیے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں بھارت کی کثیر آبادی، غربت اور رسومات بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔
زمینی و آبی راستوں سے روزگار کے لیے اسمگل ہونے کی کوششیں کرنے کے الزام میں ایران سے سالانہ تقریباً پندرہ ہزار جب کہ عمان سے 8 ہزار کے لگ بھگ پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے ایف آئی اے کے حوالے کیا جاتا ہے جب کہ دیگر ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ٹریول ایجنٹس اور ایف آئی اے کے کرپٹ عناصر کی ملی بھگت سے سب سے زیادہ اور ناحق متاثر بنگال اور سابقہ مشرق پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہو رہے ہیں جن کے خاندان اور رشتے داریاں دونوں ممالک میں منقسم ہیں، ان سے ملاقات کے لیے جانے کے خواہش مند، غربت، لاعلمی، سرکاری محکموں کے طریقہ کار سے لاعلمی اور خوف کی وجہ سے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے ٹکٹ و سفری دستاویزات کا انتظام کرواکے جب بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو جعلی ویزے یا پاسپورٹ کی وجہ سے ڈی پورٹ کرکے ایف آئی اے اور انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کی تحویل میں دے دیے جاتے ہیں اور مہینوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔
پاکستان انسانی اسمگلنگ کے علاوہ انسانی اعضا کی فروخت میں بھی عالمی شہرت رکھتا ہے۔ لیکن ادارے سو رہے ہیں، مجبور ہیں یا پھر اس میں ملوث مافیا کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بچوں، خواتین کے علاوہ روزگار کے لیے رضاکارانہ اسمگلنگ ہونیوالے افراد کے دلخراش واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، چند سال قبل کوئٹہ میں دوران سفر کٹنیر میں مقفل 110 افراد میں سے 55 افراد گاڑی کا اے سی بند ہوجانے کی وجہ سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جن کی عمریں 14 سے 16 سال تھیں، ان ناسمجھ اور کم عمر افراد کے سرپرست ایسی مہم جوئی کی اجازت اور پیسہ دینے سے قبل کچھ سوچ بچار کر لیتے تو ان نوجوانوں کی زندگیاں نہ جاتیں۔ ایک مرتبہ تربت میں بھی 3 سال سے 5 سال کی عمر کے بچوں سے بھری بس پکڑی گئی تھی جنھیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کرنے کے لیے اسمگل کیا جارہا تھا۔ ایک مرتبہ بحری جہاز کے ٹینک میں چھپے یورپ جانے کے خواہش مند نوجوان ٹینک میں غلطی سے پانی بھر دیے جانے کے سبب ہلاک ہوگئے تھے جب لاشیں پانی میں تیرنے لگیں تو علم ہوا اس قسم کے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو مر جانے یا مار دیے جانے کے بعد سمندر یا بیابانوں میں پھینک دیا جاتا ہوگا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث کوئی شخص اپنے کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔
غربت، افلاس، جہالت اور لالچ کی وجہ سے ملک میں جرائم اور خودکشیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے لوگ پیٹ کی آگ بجھانے اور قرضہ چکانے کے لیے اپنے جسمانی اعضا تک فروخت کر رہے ہیں، نوجوانوں میں خصوصاً بلند معیار زندگی، آسائشات اور تعیشات کے حصول کی دیوانگی اور سرپرستوں کا ان سے صرف نظر کرنا بھی بنیادی عوامل ہیں۔ بدقسمتی سے ریاست اور ریاستی ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان میں امنگ و جذبے کی کمی ہے، اس کے لیے جب تک ان میں خداخوفی، احساس ذمے داری، احتساب و جوابدہی کا تصور پیدا نہیں ہوگا، ملک میں روزگار و انصاف کے مواقع فراہم نہیں ہوں گے انسانی زندگیوں کا اتلاف اور وسائل کے ضیاع کو نہیں روکا جاسکے گا۔