عورت مارچ کے بعد

عورت مارچ میں جو کچھ دکھایا گیا، وہ صرف ایک جھلک تھی، اصل معاملہ تو کہیں آگے جاچکا ہے


آپ رویے تبدیل کرلیجیے، نتائج بھی بدل جائیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

RAWALPINDI: لاہور کے عورت مارچ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی اپنی سوچ کے مطابق رائے دے رہا ہے۔ کچھ بینرز دیکھ کر تو مجھے بھی کوفت ہونے لگی۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ یہ سب اس معاشرے کو آئینہ دکھایا گیا ہے تو غلط نہیں۔ کیونکہ یہ سب دیکھ کر جن مردوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں، دین اور روایات کا رونا رو رہے ہیں، میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ ان کی کوئی بھی بات ماں، بہن کی گالی دیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

آئے دن اپنے کلینک میں آنے والے لوگوں سے سنتی ہوں کہ شوہر نامدار آفس میں کام کرنے والی کولیگز کے ساتھ ٹائم گزارتے ہیں اور بیوی شکایت کرے تو مجرم۔ اور اہم بات یہ کہ نہ تو گھر والی کو عزت قدر دینی ہے، نہ اس کو جس کے ساتھ باہر وقت گزارنا ہے۔ حتیٰ کہ کو ورکرز اور کولیگز کےلیے یہ غیرت مند حضرات جس قسم کی گفتگو آپس میں کرتے ہیں قسم سے عورت ہی کا حوصلہ ہے جس ہمت سے وہ گھر سے نکلتی ہے۔ پردہ نہ کرنے والیوں کی تو بات ہی نہیں، ہمارے مردوں کی آنکھوں میں تو ایکسرے مشینیں فٹ ہیں، جو راہ چلتی عورت کی جسامت ناپ لیتے ہیں اور پھر آپس میں ڈسکس کرتے ہیں۔

عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ہو تو گویا ان کےلیے جیک پاٹ نکل آیا، بلکہ اب تو شادی شدہ پر بھی طبع آزمائی کرنے سے باز نہیں آتے۔ اپنی اور باہر والی میں فرق بس اتنا سا ہے کہ اپنی خواتین کو بھی ان کے جائز حقوق تک رسائی نہ دو، ورنہ معاشرے کے طعنے سننے پڑیں گے، جس کے نتیجے میں غیرت کے نام پر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔

یہ میل ڈومینیٹڈ سوسائٹی ہے تو پھر اس کے تمام عزت بے عزتی کے معیار بھی تو مرد ہی کے بنائے ہوئے ہیں اور جب انہی سب باتوں کو عورت مارچ میں بینرز پر لکھ کر دنیا کو دکھایا گیا تو بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے اور تھوڑی سی غیرت کھا کر مرجانے کے، آٹھ مارچ سے اب تک منہ کھلے ہوئے ہیں اور مثال پیش کی جارہی ہے خاتون جنت کی۔

اب میں آپ سے پوچھوں کہ کیا ان کے والد، شوہر اور بیٹوں کی زندگی کی کوئی ایک مثال بھی آپ ایسی لاسکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی بھی عورت کو نیچ سمجھ کر کوئی معاملہ کیا ہو؟ میرے خیال میں تو وہ ہمارے ان مردوں کو ''رجل'' کی کیٹیگری میں بھی شامل نہیں کریں گے۔

عورت کو انسانی شرافت کے ساتھ عزت دینے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس معاشرے میں تمام روایات، رسوم اور معیار آپ نے، میں نے، ہم سب نے مل کر بنائے ہیں اور ان گندگی سے لتھڑے معاشرے کو صاف بھی ہم نے ہی مل کر کرنا ہے، ورنہ جو ہلکی سی جھلک دیکھی ہے وہ سب ہونے سے بھی کوئی روک نہیں سکے گا۔ جتنا مرضی منہ سے جھاگ اڑا لیں۔

شرم، حیا اورتمیز صرف عورت کےلیے نہیں، مرد کےلیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ امید ہے برا نہیں مانیں گے۔ بلکہ آج سے اور کچھ نہیں تو عورت کے نام پر گالیاں دینا بند کردیں۔

یہ صحیح اور غلط کی بحث نہیں۔ میں تو ان رویوں کی بات کررہی ہوں جو یہ نوبت لائے ہیں۔ کل جو کچھ دکھایا گیا مجھے تو کچھ بھی نیا اور عجیب نہیں لگا، سب کچھ اسی سوسائٹی سے اٹھایا گیا تھا۔ رہ گئی بات شہری بااختیار اور مجبور عورت کی، تو عورت جب بھی جہاں بھی خودمختار ہو اس نے مرد کو لات مار دی۔ اتنی نفرت کیوں؟ اس لیے کہ صدیوں سے اس خطے میں عورت کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک ہوتا آیا ہے وہ اسی کا بدلہ دے رہی ہے۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مرد اپنا کردار ویسا کیوں نہیں بناتے کہ جہاں عرب کی سب سے زیادہ بااختیار اور دولت مند خاتون خود شادی کا پیغام دے کر مرد کو اپنانا چاہے۔

آج چند شہری خواتین تھیں، آپ آج رورل ایریا کی عورت کو خودمختار کردیں، میں شرطیہ کہتی ہوں وہاں سے بھی یہی رسپانس آئے گا۔ کوئی تب تک سہتا ہے جب تک مجبور ہے۔ یہاں مردوں نے سمجھا کہ دین بھی عورت کےلیے اور رسومات بھی عورت کےلیے۔ اب تک کے رویے یہ نوبت لائے ہیں۔ آپ رویے تبدیل کرلیجیے، نتائج بھی بدل جائیں گے۔ مگر یہ تو مردانگی کے خلاف ہے۔ کیسے بدلیں؟ تربیت ہی ایسی ہوئی گھر سے بھی اور باہر سے بھی۔

عورت مارچ میں جو کچھ دکھایا گیا، وہ صرف ایک جھلک تھی۔ اصل معاملہ تو کہیں آگے جاچکا۔ اگر میں اور آپ اپنے گھر میں محفوظ بیٹھے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام معاشرہ محفوظ ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرکے بھی گھٹن کا ماحول پیدا کیا گیا۔ اگر سچ میں اسلام ہوتا تو ایسا گھٹن زدہ معاشرہ نہ ہوتا۔ میں نے حجاب والی لڑکیوں کو یونیورسٹی اساتذہ کے ہاتھوں ہراساں ہوتے دیکھا ہے۔

یہی بچیاں کل احتجاج کر رہی تھیں۔ عورت اور بچی کو چھوڑیں، کیا آپ اپنے 8، 10 سال کے بیٹے کو اکیلا گھر سے باہر بھیج سکتے ہیں؟ یہاں تو بھیڑیے بچے کھا جاتے ہیں۔ یہی تو المیہ ہے۔ ہم یہی دیکھتے رہے کہ کرتا آگے سے پھٹا کہ پیچھے سے اور یہاں تمام لباس ہی تار تار ہوگیا ہے۔ چلیے اب بھی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں