ننھے فرشتوں کو بچاؤ…

جب تک غربت کی تلوار سر پر لٹکتی رہے گی، مردم شماری بڑھتی رہے گی اور وسائل کی کمی ہوتی جائے گی

بچے جو گھر کی رونق ہوتے ہیں اور مستقبل کے معمار، جن سے والدین اور قوم کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور یہ سب کچھ حقیقت بنانے میں والدین کا بڑا کردار ہے، جس میں خاص طور پر ماں اور پھر اچھی اور معیاری غذا کی فراہمی ضروری ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں غذائی قلت کا طوفان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کا پہلا شکار غریب ممالک ہیں۔ اب جب کہ غذا کی کمی ہے تو بیماریاں بھی حملہ کرتی ہیں جس میں نومولود بچوں سے لے کر 5 سال کی عمر تک کے بچے مختلف بیماریوں سے لڑتے رہتے ہیں لیکن وقت پر صحیح علاج نہ ملنے سے وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بچے کو بچانے کے لیے ماں کی صحیح خوراک کا ملنا بھی بہت زیادہ اہم ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ تین ٹائم تو کیا ایک وقت بھی پوری خوراک نہیں کھاتی۔

دنیا میں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور بہت ساری این جی اوز ماں اور بچوں کی زندگی بچانے کے لیے بہت سارے پروگرام بناکر چلا رہے ہیں، جس کے پروجیکٹ پاکستان میں بھی چل رہے ہیں۔ پاکستان میں ان این جی اوز کے نمایندے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جاکر صحافیوں اور عوام کے منتخب نمایندوں کو بلا کر انھیں پاکستان میں ہر جگہ کی ماں اور بچوں کی صحت، غذا اور بیماریوں سے بچنے کے بارے میں کیے ہوئے سروے بتاتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب کوئی عورت ماں بننے والی ہو تو اس کی غذا اور خوراک میں اضافہ کیا جائے اور اسے کھانے کے علاوہ فروٹ اور دوسری ایسی چیزیں کھلائی جائیں جس سے اس کی صحت اچھی رہے اور اس میں خون کی کمی نہ ہو، ورنہ پیٹ میں پلنے والے بچے کی صحت خراب ہوجائے گی اور وہ پیٹ کے اندر بھی مرسکتا ہے اور دنیا میں آنے کے ساتھ ہی مختلف خطرناک اور جان لیوا بیماریاں کا شکار ہوجائے گا اور یہ سلسلہ پانچ سال کی عمر تک خطرے میں رہتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک غربت کی تلوار سر پر لٹکتی رہے گی، مردم شماری بڑھتی رہے گی اور وسائل کی کمی ہوتی جائے گی، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ماں اور بچوں کی صحت صحیح رہے۔ اس لیے حکومت، این جی اوز اور دوسرے عالمی ادارے غربت کو ختم کرنے کا سوچیں۔ اب ایک مزدور اور کھیت میں کام کرنے والا ملازم ہے، اس کے پاس کبھی پیسہ ہوتا ہے کبھی نہیں مگر گھر میں کھانا تو چاہیے اور وہ بھی تین نہیں تو دو ٹائم۔ ایک مزدور روزانہ 500 روپے کماتا ہے اگر اسے کام مل جائے اور اسے گھر میں موجود ایک بیوی اور 5 سے 8 بچے پالنے ہیں۔ اس وقت ٹماٹر 160 سے 200 روپے تک بک رہے ہیں، آلو 80 روپے، پیاز 60 روپے، چینی 70 روپے، چائے کی پتی کم ازکم ایک ٹائم کے لیے 10 روپے سے 20 روپے تک، دودھ 70 سے 75 روپے اور گھی کم ازکم ایک لیٹر 100 روپے ملتا ہے۔ کھانا پکانے کے لیے آٹا بھی چاہیے جو 40 روپے کلو ہے، ترکاری میں مرچیں، نمک بھی استعمال ہوتا ہے اور ان سب کو بنانے کے لیے آگ کی ضرورت ہے۔ غریبوں کے پاس سوئی گیس نہیں ہے، لکڑیاں بہت مہنگی ہیں، گوشت اور مرغی کو تو غریب سوچ نہیں سکتا لیکن دال بھی اب 100 سے اوپر ایک کلو ہے۔


گھر اپنا نہیں ہے اگر کرائے کا ہے تو بس ہوگیا کام۔ آپ نے کپڑے پہننے ہیں، انھیں دھونا ہے، خود نہانا ہے، پینے کے لیے پانی چاہیے، اگر آپ یا پھر بچے بیمار ہوجائیں تو آپ سرکاری اسپتالوں کے چکر لگا کر پاگل ہوجاتے ہیں جہاں سے ایک دو گولیاں ملتی ہیں وہ بھی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے ہونے کے بعد، کبھی ڈاکٹر نہیں آتا، کبھی ڈاکٹرز کی اور کبھی کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے ہڑتال ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی فیس اور پھر وہ جو دوائیں لکھ کر دیتے ہیں ان کی بھاری بھرکم قیمت، لہٰذا غربت کا مارا غریب ان غیر معیاری نام نہاد ڈاکٹروں سے دوائیں لیتے ہیں جن کی دوا سے مریض یا تو ٹھیک ہوجاتا ہے یا پھر اللہ کو پیارا۔ تعلیم دلانے سے غریب آدمی قاصر ہے، اس لیے بچہ جیسے بڑا ہوتا ہے اسے کسی کام میں لگوا دیتے ہیں تاکہ کچھ پیسے آجائیں تو دو وقت کے کچھ نوالے پیٹ میں ڈالیں۔

حال ہی میں کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں یونیسیف ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت "Save the Childern" والوں کی طرف سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا، جس میں موضوع تھا کہ اپنے بچوں کو اچھی غذا دے کر انھیں صحت مند بنائیں اور بیماریوں سے بچائیں، اس کے ساتھ ماں کی صحت کا بھی خیال رکھا جائے۔اس موقع پر مقررین نے اچھی غذا پر لیکچر بھی دیا اور تجویزیں بھی پیش کیں۔ جنرل الیکشن 2013 سے پہلے سیاسی پارٹیوں سے ملاقاتیں کی تھیں اور انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے آئین میں ماں کی صحت کے ساتھ بچوں کی صحت، اچھی غذا اور بیماریوں سے بچاؤ کی مزید تدابیر شامل کریں اور جو بھی پارٹی حکومت میں آئے وہ اس سلسلے میں بجٹ بڑھائے۔ یہ سیمینار خاص طور پر صحافیوں کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاکہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو معلومات فراہم کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس طرف مزید دھیان دیے۔ اس میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ماں اور بچے کی صحت اور غذا کو ہیومن رائٹس کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بچے صحت مند ہوں گے تو اس کا اثر آپ کے ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی پر ہوگا جس میں معاشی حالت سرفہرست ہے۔

جیساکہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جن چیزوں میں وٹامنز اور پروٹین ہیں اب وہ بھی غریب کی خرید سے بہت دور چلی گئی ہیں۔ جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما نہ صرف رک جاتی ہے بلکہ اس کی صلاحیتوں کو ختم کردیتی ہے جو ہمارا بڑا قومی نقصان ہے۔ نمک میں آیوڈین کا استعمال اچھی چیز ہے مگر حکومت کو چاہیے کہ اس کی قیمت میں کمی لائے۔ اس کے علاوہ بچوں اور بڑوں کو جو پینے کا پانی ملتا ہے وہ گندا ہے جس سے بچوں میں ڈائیریا ہوجاتا ہے۔ دوسری مہلک بیماریوں سے بچنے کے لیے جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں ان کے بارے میں جگہ اور اوقات کے بارے میں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں مفت تشہیر کی جائے۔ بچوں میں ہاتھ دھونے کی عادت کو پکا کرنے کے لیے والدین اپنا رول ادا کریں۔ میڈیا بھی اپنی ذمے داریاں نبھائے۔ جو لوگ کھانے اور پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ سبزیاں، پھل، فروٹ کھانے سے پہلے صحیح طریقے سے دھو کر استعمال کی جائیں کیونکہ اب ان پر بھی اسپرے کیا جاتا ہے جو صحت کے لیے مضر ہے۔

ملک میں گاؤں اور بڑے شہروں میں رہنے والے جو پانی استعمال کرتے ہیں اس کا معیار صحیح نہیں ہے، آپ کراچی، حیدر آباد، سکھر یا پھر دوسرے ایسے علاقے جہاں انڈر گراؤنڈ واٹر نہیں ہے وہاں لائن کا پانی آتا ہے، وہاں جہاں سے پانی آتا ہے اس میں کتے بلیاں اور دوسرے جانور مرے ہوئے ملتے ہیں۔ گھر چاہے جھگی ہو اسے صاف رکھا جائے، اس میں ہوا آنی چاہیے تاکہ باقی غیر صحتمند ماحول سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی این جی اوز ہیں انھیں گاؤں میں جاکر پروگرام کرنے چاہئیں تاکہ وہ لوگ جو زیادہ شکار ہیں ان میں شعور پیدا ہو۔ Save the Children کے سلسلے میں جو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے لیے بھی اس سلسلے میں پروگرام کیا گیا تھا وہ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ عوامی منتخب نمایندے ہی قانون پاس کرتے ہیں۔ بجٹ پیش کرتے ہیں اور غربت کو ختم کرنے میں یہ لوگ بہت بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہر مسئلے کا حل ہے غربت ختم کرو نہ کہ غریب ختم کرو۔
Load Next Story