ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں امریکا کی روس پر برتری
سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار، پاکستان اور بھارت درآمدات میں 30 فی صد سے زائد کمی لائے، رپورٹ
HUNTSVILLE:
عالمی سطح پر ہتھیاروں کی فروخت میں امریکا نے روس پر برتری حاصل کرلی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سویڈن کے محققین کا کہنا ہے کہ 2015 سے 2019 کے دوران عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 2010-2014 کے مقابلے میں ساڑھے 5 فی صد اضافہ ہوا۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(سپری) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں 23فی صد اضافہ ہوا اور ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں اس کا حصہ 36 فی صد رہا۔ 2015سے 2019 کے مابین امریکا نے دنیا کے 96ممالک کو بڑے ہتھیار فروخت کیے۔
امریکی ہتھیاروں کی مجموعی برآمد میں سے نصف مشرق وسطی کو کی گئیں جب کہ بقیہ نصف ہتھیار سعودی عرب کو برآمد ہوئے۔
سعودی عرب دنیا میں امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ 2010سے 2014 کے دورانیے کے مقابلے میں 2015 کے بعد سعودی عرب نے ہتھیاروں کی خریداری میں 130 فی صد اضافہ کیا۔ 2015 سے 2019کے مابین بڑے ہتھیاروں کی عالمی سطح پرہونے والی خریداری میں سعودی عرب کا حصہ 12 فی صد رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقی وسطی میں جاری کشیدگی اور مستقبل میں مزید تنازعات کے خدشات کو مد نظر رکھا جائے تو خطے میں ہتھیاروں کی اتنی بڑی فروخت تشویش ناک ہے۔
رپورٹ جاری کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں سعودی مداخلت سے متعلق تحفظات کے باوجود امریکا اور برطانیہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھی ہوئی ہے۔
ہتھیار برآمد کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک روس کی برآمدات 18 فی صد کم ہوئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے روسی ہتھیاروں کی درآمد میں کمی کو اس کی بڑی وجہ بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت ہتھیاروں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک رہ چکا ہے تاہم اب وہ اپنی درآمدات میں 32 فی صد کمی لاچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ہتھیاروں کی درآمد 39 فی صد کم کردی ہے۔دونوں ایٹمی طاقتیں بڑے ہتھیاروں کی مقامی سطح پر پیداوار کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اب بھی ان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فرانس کی ہتھیاروں کی برآمدات میں 72فی صد کا ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سے قبل جرمنی عالمی برآمدات میں 7.9 فی صد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم فرانس اس سے آگے نکل چکا ہے۔ فرانس کی برآمدات کی نصف مصر، قطر اور بھارت کو کی گئیں۔ جس میں سے تقریباً چوتھائی حصہ رافیل جنگی طیاروں پر مشتمل تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے بعد ہتھیاروں کی برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہورہی تھی۔ 2000کے بعد اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ہتھیاروں کی فروخت میں امریکا نے روس پر برتری حاصل کرلی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سویڈن کے محققین کا کہنا ہے کہ 2015 سے 2019 کے دوران عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 2010-2014 کے مقابلے میں ساڑھے 5 فی صد اضافہ ہوا۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(سپری) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں 23فی صد اضافہ ہوا اور ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں اس کا حصہ 36 فی صد رہا۔ 2015سے 2019 کے مابین امریکا نے دنیا کے 96ممالک کو بڑے ہتھیار فروخت کیے۔
امریکی ہتھیاروں کی مجموعی برآمد میں سے نصف مشرق وسطی کو کی گئیں جب کہ بقیہ نصف ہتھیار سعودی عرب کو برآمد ہوئے۔
سعودی عرب دنیا میں امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ 2010سے 2014 کے دورانیے کے مقابلے میں 2015 کے بعد سعودی عرب نے ہتھیاروں کی خریداری میں 130 فی صد اضافہ کیا۔ 2015 سے 2019کے مابین بڑے ہتھیاروں کی عالمی سطح پرہونے والی خریداری میں سعودی عرب کا حصہ 12 فی صد رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقی وسطی میں جاری کشیدگی اور مستقبل میں مزید تنازعات کے خدشات کو مد نظر رکھا جائے تو خطے میں ہتھیاروں کی اتنی بڑی فروخت تشویش ناک ہے۔
رپورٹ جاری کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں سعودی مداخلت سے متعلق تحفظات کے باوجود امریکا اور برطانیہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھی ہوئی ہے۔
ہتھیار برآمد کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک روس کی برآمدات 18 فی صد کم ہوئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے روسی ہتھیاروں کی درآمد میں کمی کو اس کی بڑی وجہ بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت ہتھیاروں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک رہ چکا ہے تاہم اب وہ اپنی درآمدات میں 32 فی صد کمی لاچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ہتھیاروں کی درآمد 39 فی صد کم کردی ہے۔دونوں ایٹمی طاقتیں بڑے ہتھیاروں کی مقامی سطح پر پیداوار کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اب بھی ان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فرانس کی ہتھیاروں کی برآمدات میں 72فی صد کا ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سے قبل جرمنی عالمی برآمدات میں 7.9 فی صد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم فرانس اس سے آگے نکل چکا ہے۔ فرانس کی برآمدات کی نصف مصر، قطر اور بھارت کو کی گئیں۔ جس میں سے تقریباً چوتھائی حصہ رافیل جنگی طیاروں پر مشتمل تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے بعد ہتھیاروں کی برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہورہی تھی۔ 2000کے بعد اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔