کھربوں ڈالر کا خرچہ کیا مگر ہاتھ کیا آیا

حضرت علی ابن ابی طالب کا ایک قول یہ بھی ہے کہ غصہ دیوانگی سے شروع ہو کر ندامت پے ختم ہوتا ہے

حضرت علی ابن ابی طالب کا ایک قول یہ بھی ہے کہ غصہ دیوانگی سے شروع ہو کر ندامت پے ختم ہوتا ہے

حضرت علی ابن ابی طالب کا ایک قول یہ بھی ہے کہ غصہ دیوانگی سے شروع ہو کر ندامت پے ختم ہوتا ہے۔اس قول کی صداقت پرکھنے کے لیے اگر کوئی سامنے کی مثال درکار ہو تو افغانستان حاضر ہے۔نائن الیون کے ایک ماہ بعد امریکا نے ٹھنڈے دل سے حکمتِ عملی بنانے اور عمل کرنے کے بجائے عالمِ طیش میں افغانستان پر ہلہ بول دیا اور اپنے القاعدہ دشمنوںکے خفیہ تعاقب کے بارے میں سوچنے کے بجائے پوری پوری فوج اتار دی اور اقتدار طالبان سے چھین کر شمالی اتحاد کے حوالے کر دیا۔القاعدہ والے تتر بتر ہو گئے اور طالبان بھی آگے پیچھے نکل لیے۔

مگر اسامہ سمیت کوئی بھی کلیدی اور اہم القاعدہ یا طالبانی شخصیت افغانستان کے اندر سے نہیں بلکہ ہاتھ آیا بھی تو باہر سے آیا۔اگلے دس برس تک امریکا کی کھلی پالیسی رہی کہ چونکہ طالبان دہشت گرد ہیں لہٰذا دہشت گردوں کو نہ تو افغان سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے گا اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بات چیت ہو گی۔ نیز جو ملک یا گروہ ان کا مددگار ہوگا وہ بھی امریکا دشمن تصور کیا جائے گا۔طالبان کو جلد ہی کچل دیا جائے گا یا ناکارہ بنا دیا جائے گا۔

اور پھر امریکی محکمہ خارجہ اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو الگ فہرستیں بنیں۔دونوں لگ بھگ ایک جیسی ہی تھیں۔ان میں دہشت گردوں، ان کی تنظیموں اور پشت پناہ ممالک کے نام ڈالے گئے اور طرح طرح کی پابندیاں یا تو لگائی گئیں یا پھر لگانے کی دھمکیاں دی گئیں۔

کئی برس مغربی ذرایع ابلاغ کے توسط سے اطلاعات آتی رہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ نہ صرف طالبان کی کوئٹہ شوریٰ اور حقانی گروپ کی مدد کر رہا ہے بلکہ القاعدہ کے دہشت گرد بھی پاکستان کی سرزمین پے پناہ گیر ہیں اور ملا عمر بھی کراچی یا بلوچستان یا ادھر ادھر ہے۔ان میں سے بہت سی اطلاعات درست تھیں جن کی بنیاد پر کامیاب کارروائیاں اور ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور بہت سی اضافی باتیں اس لیے بھی دہرائی جاتی رہیں کہ پاکستان ڈو مور کے پتھر تلے مسلسل لگا افغانستان کے بارے میں امریکی فرمائشیں پوری کرتا رہے۔

امریکا نے پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے بھارت کو بھی افغان معاملات میں ہاتھ بٹانے کی دعوت دی اور بھارت نے کئی اہم تعمیراتی و فوجی تربیتی منصوبوں کی تکمیل بھی کی۔

مگر امریکا تمام تر ذہانت استعمال کرنے کے باوجود پچھلی دو دہائیوں میں افغانستان میں ایک ایسا مقامی سیاسی، آئینی، اقتصادی، سماجی اور عسکری ڈھانچہ استوار کرنے میں بری طرح ناکام رہا جس کی مدد سے افغانستان اکیسویں صدی میں داخل ہو سکتا۔اس عرصے میں سوائے پروفیشنل کرپٹ طفیلی سیاسی گروہوں کے امریکا کو کچھ ہاتھ نہ آیا۔ایک بھی ایسا امریکا نواز رہنما ان بیس برسوں میں پیدا نہ ہو سکا جو ذاتی و خاندانی و قبائلی و علاقائی فائدے سے ہٹ کے پورے افغانستان کو ساتھ لے کر چلنے کے نظریے سے آگے بڑھ سکے۔اور جب ان ہی لوگوں پر بغیر سوال و جواب ڈالروں کی بارش ہو گئی تو یا شیخ اپنی اپنی دیکھ کا بازار گرم ہو گیا۔

حال ہی میں اخبار نیویارک ٹائمز نے افغانستان میں امریکا نے کیا کھویا کیا پایا کے موضوع پر سیر حاصل رپورٹ شایع کی۔اس کے مطابق امریکا نے افغانستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے، اسے ایک جدید جمہوری ملک میں ڈھالنے اور ایک جدید سیکیورٹی ڈھانچہ استوار کرنے کے منصوبے پر پچھلے اٹھارہ برس میں ڈیڑھ سے دو ٹریلین ڈالر لٹا دیے۔ان میں سے بیشتر امریکی کنٹریکٹرز اور افغان اسٹیبلشمنٹ کی جیبوں میں غائب ہو گئے۔

جب امریکا نے اکتوبر دو ہزار ایک میں طالبان کی حکومت اکھاڑی اس وقت افغانستان میں افیون کی کاشت نہ ہونے کے برابر تھی۔ طالبان نے اپنے چھ سالہ دورِ حکومت میں منشیات کی پیداوار اور ترسیل کے خلاف بھر پور کارروائی کی تھی۔مگر دو ہزار سترہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں جتنی بھی افیون پیدا ہوئی، اس کا اسی فیصد افغانستان میں پیدا ہوا اور اس وقت منشیات کی کاشت اور تجارت غیر رسمی افغان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔


امریکا کا اس عرصے میں بہت بڑا خواب رہا کہ ایک ایسی افغان فوج کھڑی ہو جائے جو کسی بیرونی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر ریاست کی حفاظت کر سکے۔اس مقصد کے لیے سوا لاکھ مسلح فوجیوں سمیت لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ کی پیرا ملٹری اور پولیس نفری پر مشتمل سیکیورٹی دستوں کو پائیدار بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے امریکا نے ستاسی ارب ڈالر، تربیت، اسلحے اور تنخواہ پر خرچ کیے۔مگر ہر سال ایک تہائی افغان رنگروٹ فرار ہو جاتے ہیں۔لہٰذا تیس فیصد نئے لڑکے بھرتی کر کے ان کی نئے سرے سے تربیت کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر تین سے چار برس میں افغان سیکیورٹی دستے بالکل نئے سرے سے وجود میں لائے جاتے ہیں۔افغان عسکریوں کی شرحِ ہلاکت بھی امریکی فوجیوں کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق مورال کا یہ عالم رہا کہ فوج اور پولیس کے سپاہی اسلحہ ، وردیاں اور راشن تک بیچ دیتے تھے۔طالبان نے سرکاری سیکیورٹی دستوں میں جاسوسی کا زبردست نیٹ ورک قائم کر لیا۔افغان فوج نے طالبان کے خلاف جو بھی اکا دکا کامیابیاں حاصل کیں، وہ امریکی فضائیہ اور امریکی رہنمائی کے بغیر ممکن نہ تھیں۔ اتنے وسائل جھونکنے کے باوجود امریکی محکمہ دفاع کے اہلکار بند کمرے میں اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد اگر افغان فوج اپنے بل بوتے پر مہینہ بھی نکال لے تو بڑی بات ہو گی۔

امریکا نے اس عرصے میں افغان معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے پچیس ارب ڈالر خرچ کیے۔مگر دو ہزار پندرہ کے بعد سے ایک بھی سالانہ معاشی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ اس وقت افغان نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح پچیس فیصد تک ہے۔کرپشن اور بدانتظامی اتنی زیادہ ہے کہ خود مقامی کمپنیاں بھی ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کے لیے بھارت اور پاکستان پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغان ِ تعمیر نو کے نام پر جتنے بھی اسپتال، تعلیمی عمارات ، عسکری اڈے اور شاہراہیںبنیں، ان پر تیس ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اگرچہ کابل سمیت چند بڑے شہروں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کچھ بہتری دیکھنے کو ملتی ہے۔لڑکیوں کی تعلیم کو بھی فروغ ملا ہے۔مگر اس تیس ارب ڈالر میں سے پندرہ سے ساڑھے پندرہ ارب ڈالر کے درمیان ٹھیکہ لینے اور دینے والوں اور ان دونوں کے درمیان میں پڑنے والوں نے غتر بود کر لیے۔ایسے کئی اسپتال بنے جن میں کبھی کوئی مریض داخل نہ ہو سکا اور ایسے تعلیمی ادارے بنے جن میں کوئی طالبِ علم نہ پڑھ سکا اور ایسے عسکری مراکز اور اڈے تعمیر ہوئے جو کبھی آپریشنل نہ ہو سکے۔

امریکا نے افغانستان پر اٹھارہ برس میں جو ڈیڑھ سے دو ٹریلین ڈالر خرچ کیے، ان میں سے آدھا امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے اور آدھا قرض ہے کہ جس پر دو ہزار تئیس تک چھ سو ارب ڈالر سود دیا جا چکا ہوگآ۔اس کے علاوہ اب تک ایک سو پچھتر ارب ڈالر امریکی جنگی زخمیوں اور معذوروں کی طبی و بیمہ جاتی و پنشنی دیکھ بھال پر خرچ ہو چکے ہیں۔اور اگلے چالیس برس میں ان پر مزید ایک اعشاریہ چار ٹریلین کے اخراجات ہوں گے۔گویا یہ جنگ امریکا کو تین سے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر میں پڑی۔اور ہاتھ کیا آیا ؟

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story