خط لکھنے کا اختیار
جس ملک کے عوام اپنے مستقبل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اس ملک کے عوام کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا
جس ملک کے عوام اپنے مستقبل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اس ملک کے عوام کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستانی عوام کو اتنا مایوس اور کنفیوژکردیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے اجتماعی مستقبل پر غور کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس ملک میں عوام کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں ، البتہ ساری فکر اپنے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ خوشحال بنانے پر مرکوز ہے۔
بہتر مستقبل کا تعلق بہتر صحت سے ہوتا ہے اور اس حوالے سے عوام کی صحت پر نظر ڈالی جائے تو سوائے مایوسی اور تشویش کے کچھ نظر نہیں آتا۔ آج صحت کی بات قلم کی نوک پر اس لیے آئی کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی صحت سے کھیل رہی ہے'' ہماری اس حوالے سے معلومات زیادہ نہیں لیکن بہ ظاہر تو بڑے میاں کی صحت بہتر نظر آرہی ہے اور پھر جن شاہوں کو دنیا بھر کی طبی سہولتیں حاصل ہوں ایک ایک درجن ڈاکٹر چوبیس گھنٹے دیکھ بھال پر لگے ہوئے ہوں جن کے دولت خانے میں آئی سی یو قائم کر دیا جائے، ایسے شاہوں کی صحت کے بارے میں پریشان ہونا ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔
نواز شریف بغرض علاج عدلیہ کی اجازت سے لندن آئے ہیں لیکن اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ تین ماہ کے عرصے میں علاج پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا، سارا وقت گھومنے پھرنے میں بسر ہوا۔ ہماری حکومت نے برطانوی حکومت کو ایک خط لکھا ہے کہ ''علاج کی چھٹی'' ختم ہوگئی ہے لہٰذا مریض کو واپس پاکستان بھیجا جائے۔ شہباز شریف جنھیں ہم ان کی ٹیڑھی ہیٹ کی وجہ سے پسند کرتے ہیں ، کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی صحت سے کھیل رہی ہے، حکمرانوں کو نواز شریف کی واپسی کا خط لکھنے کا کوئی اختیار نہیں۔ قائد (ن) لیگ عدالتی حکم پر باہر گئے ہیں ان کے علاج میں رکاوٹیں قتل کے مترادف ہیں۔ عمران خان نواز شریف کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتا، جھوٹی اور ''کرپٹ حکومت'' نے معیشت کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔
شہباز شریف کی یہ ذمے داری ہے کہ اگر بڑے میاں کی صحت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو آواز اٹھائیں۔ چھوٹے بھائی نے آواز اٹھا کر اپنی ذمے داری پوری کردی ہے البتہ مہربان تو ''کل'' مہربان چھوٹے میاں کو اس حوالے سے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے اور اللہ اپنے ''نیک بندوں'' پر مہربان رہتا ہے اور آئی سی یو گھر میں موجود ہو اس مریض کے بارے میں پریشان ہونا عقلمندی نہیں ہے، جس ملک کے دانشوروں ، مفکروں، ادیبوں ، شاعروں کو ہومیو پیتھک علاج کی سہولتیں میسر نہ ہوں اس ملک کی اشرافیہ کو اگر چوبیس گھنٹے بارہ بارہ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہوں اس ملک کے عوام کا طبی سہولتوں کے حوالے سے کیا حال ہے اس کے بارے میں سوچنا بے کار ہے۔
یہ ایک کھلی نا انصافی ہے اس کو قسمت کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے جب عوام کو اس کا شعور حاصل ہوگا تو جو کچھ ہوگا، اس کے تصور ہی سے خوف آتا ہے۔ اس ملک میں 72 سال سے اشرافیہ کا راج ہے اب دنیا اس راج پاٹ کے اسرار سے واقف ہو رہی ہے عوام انگڑائی لے رہے ہیں۔ تاریخ میں انقلاب فرانس کا ذکر موجود ہے ۔
انقلاب فرانس کو گزرے اب لگ بھگ ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں۔ وہ ظلم جو 1789 میں فرانس کے عوام پر ہو رہا تھا، اب اس سے زیادہ ناانصافی اور ظلم آج کے عوام پر ہو رہا ہے۔ ایک جاہل ارب پتی کے مقابلے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کالم نگار اپنا فکری سرمایہ خرچ کرکے ایک کالم کا معاوضہ انتہائی قلیل پاتا ہے، ایک غیر ماہر مزدور کی ماہانہ آمدنی سے کم ہے کیا چوبیس گھنٹے بارہ بارہ ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہنے والی اشرافیہ کو اس معاشی تضاد پر شرم آئے گی؟ پاکستان کے تقدیر کے مارے 22کروڑ عوام کو اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف کیا کرنا چاہیے، اس کے لیے انقلاب فرانس اور 1949کے انقلاب چین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ورنہ اگلے سو سال تک بھی عوام کے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ کسی بھی ناانصافی کے خلاف تبدیلی خود بخود نہیں آتی بلکہ تبدیلی لانی پڑتی ہے۔
پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو 72 سال سے اشرافیہ کس کس طرح لوٹ رہی ہے اور لوٹ کے اربوں روپوں کو قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح ملک کے اندر اور ملک کے باہر محفوظ ٹھکانوں میں پہنچا رہی ہے اسے دیکھنے کے لیے کسی دوربین کی ضرورت نہیں جب عوام کو انصاف دینے والے ادارے آنکھیں بند کیے بیٹھتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو خط لکھنے کا اختیار نہیں'' بے شک حکمرانوں کو اس قسم کے خطرناک خط لکھنے کا اختیار نہیں اس کے بجائے حکومت کو یہ خط لکھنا چاہیے تھا کہ میاں صاحب کو پاکستان میں بارہ ڈاکٹروں کی سہولت حاصل تھی برطانیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ان سہولتوں کو ڈبل کردے۔
پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے جہاں کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے غریب ملک میں اگر اربوں روپے اشرافیہ کی کرپشن کی نذر ہو جائیں تو عوام کا کیا حشر ہوگا اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اشرافیہ کی نظر میں ایک مڈل کلاس حکومت کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ماضی کے 24 ہزار ارب کے قرضوں کی وجہ وہ عوامی مفاد کے بڑے کام نہیں کر پا رہی ہے عوام تھوڑا صبر سے کام لیں۔
بہتر مستقبل کا تعلق بہتر صحت سے ہوتا ہے اور اس حوالے سے عوام کی صحت پر نظر ڈالی جائے تو سوائے مایوسی اور تشویش کے کچھ نظر نہیں آتا۔ آج صحت کی بات قلم کی نوک پر اس لیے آئی کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی صحت سے کھیل رہی ہے'' ہماری اس حوالے سے معلومات زیادہ نہیں لیکن بہ ظاہر تو بڑے میاں کی صحت بہتر نظر آرہی ہے اور پھر جن شاہوں کو دنیا بھر کی طبی سہولتیں حاصل ہوں ایک ایک درجن ڈاکٹر چوبیس گھنٹے دیکھ بھال پر لگے ہوئے ہوں جن کے دولت خانے میں آئی سی یو قائم کر دیا جائے، ایسے شاہوں کی صحت کے بارے میں پریشان ہونا ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔
نواز شریف بغرض علاج عدلیہ کی اجازت سے لندن آئے ہیں لیکن اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ تین ماہ کے عرصے میں علاج پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا، سارا وقت گھومنے پھرنے میں بسر ہوا۔ ہماری حکومت نے برطانوی حکومت کو ایک خط لکھا ہے کہ ''علاج کی چھٹی'' ختم ہوگئی ہے لہٰذا مریض کو واپس پاکستان بھیجا جائے۔ شہباز شریف جنھیں ہم ان کی ٹیڑھی ہیٹ کی وجہ سے پسند کرتے ہیں ، کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی صحت سے کھیل رہی ہے، حکمرانوں کو نواز شریف کی واپسی کا خط لکھنے کا کوئی اختیار نہیں۔ قائد (ن) لیگ عدالتی حکم پر باہر گئے ہیں ان کے علاج میں رکاوٹیں قتل کے مترادف ہیں۔ عمران خان نواز شریف کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتا، جھوٹی اور ''کرپٹ حکومت'' نے معیشت کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔
شہباز شریف کی یہ ذمے داری ہے کہ اگر بڑے میاں کی صحت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو آواز اٹھائیں۔ چھوٹے بھائی نے آواز اٹھا کر اپنی ذمے داری پوری کردی ہے البتہ مہربان تو ''کل'' مہربان چھوٹے میاں کو اس حوالے سے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے اور اللہ اپنے ''نیک بندوں'' پر مہربان رہتا ہے اور آئی سی یو گھر میں موجود ہو اس مریض کے بارے میں پریشان ہونا عقلمندی نہیں ہے، جس ملک کے دانشوروں ، مفکروں، ادیبوں ، شاعروں کو ہومیو پیتھک علاج کی سہولتیں میسر نہ ہوں اس ملک کی اشرافیہ کو اگر چوبیس گھنٹے بارہ بارہ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہوں اس ملک کے عوام کا طبی سہولتوں کے حوالے سے کیا حال ہے اس کے بارے میں سوچنا بے کار ہے۔
یہ ایک کھلی نا انصافی ہے اس کو قسمت کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے جب عوام کو اس کا شعور حاصل ہوگا تو جو کچھ ہوگا، اس کے تصور ہی سے خوف آتا ہے۔ اس ملک میں 72 سال سے اشرافیہ کا راج ہے اب دنیا اس راج پاٹ کے اسرار سے واقف ہو رہی ہے عوام انگڑائی لے رہے ہیں۔ تاریخ میں انقلاب فرانس کا ذکر موجود ہے ۔
انقلاب فرانس کو گزرے اب لگ بھگ ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں۔ وہ ظلم جو 1789 میں فرانس کے عوام پر ہو رہا تھا، اب اس سے زیادہ ناانصافی اور ظلم آج کے عوام پر ہو رہا ہے۔ ایک جاہل ارب پتی کے مقابلے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کالم نگار اپنا فکری سرمایہ خرچ کرکے ایک کالم کا معاوضہ انتہائی قلیل پاتا ہے، ایک غیر ماہر مزدور کی ماہانہ آمدنی سے کم ہے کیا چوبیس گھنٹے بارہ بارہ ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہنے والی اشرافیہ کو اس معاشی تضاد پر شرم آئے گی؟ پاکستان کے تقدیر کے مارے 22کروڑ عوام کو اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف کیا کرنا چاہیے، اس کے لیے انقلاب فرانس اور 1949کے انقلاب چین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ورنہ اگلے سو سال تک بھی عوام کے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ کسی بھی ناانصافی کے خلاف تبدیلی خود بخود نہیں آتی بلکہ تبدیلی لانی پڑتی ہے۔
پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو 72 سال سے اشرافیہ کس کس طرح لوٹ رہی ہے اور لوٹ کے اربوں روپوں کو قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح ملک کے اندر اور ملک کے باہر محفوظ ٹھکانوں میں پہنچا رہی ہے اسے دیکھنے کے لیے کسی دوربین کی ضرورت نہیں جب عوام کو انصاف دینے والے ادارے آنکھیں بند کیے بیٹھتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو خط لکھنے کا اختیار نہیں'' بے شک حکمرانوں کو اس قسم کے خطرناک خط لکھنے کا اختیار نہیں اس کے بجائے حکومت کو یہ خط لکھنا چاہیے تھا کہ میاں صاحب کو پاکستان میں بارہ ڈاکٹروں کی سہولت حاصل تھی برطانیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ان سہولتوں کو ڈبل کردے۔
پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے جہاں کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے غریب ملک میں اگر اربوں روپے اشرافیہ کی کرپشن کی نذر ہو جائیں تو عوام کا کیا حشر ہوگا اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اشرافیہ کی نظر میں ایک مڈل کلاس حکومت کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ماضی کے 24 ہزار ارب کے قرضوں کی وجہ وہ عوامی مفاد کے بڑے کام نہیں کر پا رہی ہے عوام تھوڑا صبر سے کام لیں۔