فوجی عدالتوں کیخلاف اپیلیں پشاور ہائیکورٹ کو فیصلے سے روکنے کی استدعا مسترد
ملزموں کی 200 اپیلوں پر کل فیصلہ آنا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، دوران سماعت کارروائی کیسے روک دیں
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کی اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت روکنے کی وزارت دفاع کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کی اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت روکنے کی وزارت دفاع کی استدعا مسترد کردی جب کہ زیر التوا مقدمات میں ملزمان کیخلاف الزامات و شواہد کا چارٹ اور بری ہونے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کرلیں، جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 71 ملزمان کی بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیلوں پر سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ فوجی عدالت کا ٹرائل کا اپنا طریقہ کار ہے، زیادہ تر فیصلے ضابطہ فوجداری قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں، ہائی کورٹ نے قانون اور حقائق کو مدنظر نہیں رکھا، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد ہیں؟ صرف ایف ائی آر اور اعتراف جرم کوئی شواہد نہیں، ملٹری قواعد میں جرم تسلیم کرنا قبول نہیں کیا جاتا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکورٹ مارشل میں جرم تسلیم کرنے پر فوری سزا سنائی جا سکتی ہے، کم از کم حراستی مراکز کے آفیسر کا بیان ضرور موجود ہوتا ہے۔
ملزمان کیخلاف ایف آئی آرز اور متعدد گواہ موجود ہیں، فوجی عدالتوں سے عدم شواہد پر5ملزمان بری بھی ہوئے، جسٹس منیب اختر نے کہا بظاہر اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ملزموں سے ریکوری کی تفصیلات بھی موجود ہیں، عدالت خصوصی حالات بھی مدنظر رکھے۔
دہشتگردوں کیخلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا، فوجی عدالتوں پر آرٹیکل10اے کا اطلاق نہیں ہوتا، جسٹس منیب اختر نے کہا قانون شہادت کے تحت فوجی افسر کے سامنے اعتراف جرم کی کوئی حیثیت نہیں، اعترافی بیان صرف مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا حراستی مرکز کا مجاز افسر عدالت میں اعترافی بیان لینے کا حلف دیتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاہائی کورٹ نے قرار دیا تمام اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا رولز میں جو فارمیٹ دیا گیا بیان اس کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے۔
ہائی کورٹ نے ضابطہ فوجداری کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا جبکہ فوجی عدالتوں پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا، دہشتگرد جنت کا ٹکٹ سمجھ کر اعتراف جرم کرتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کل پشاور ہائی کورٹ فوجی عدالت کے فیصلوں کیخلاف 200 اپیلوں پر فیصلہ سنائے گی، اسے فیصلہ سنانے سے روکا جائے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دوران سماعت کیس کی کارروائی کو کیسے روک سکتے ہیں، فیصلہ آنے دیں، مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کی اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت روکنے کی وزارت دفاع کی استدعا مسترد کردی جب کہ زیر التوا مقدمات میں ملزمان کیخلاف الزامات و شواہد کا چارٹ اور بری ہونے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کرلیں، جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 71 ملزمان کی بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیلوں پر سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ فوجی عدالت کا ٹرائل کا اپنا طریقہ کار ہے، زیادہ تر فیصلے ضابطہ فوجداری قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں، ہائی کورٹ نے قانون اور حقائق کو مدنظر نہیں رکھا، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد ہیں؟ صرف ایف ائی آر اور اعتراف جرم کوئی شواہد نہیں، ملٹری قواعد میں جرم تسلیم کرنا قبول نہیں کیا جاتا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکورٹ مارشل میں جرم تسلیم کرنے پر فوری سزا سنائی جا سکتی ہے، کم از کم حراستی مراکز کے آفیسر کا بیان ضرور موجود ہوتا ہے۔
ملزمان کیخلاف ایف آئی آرز اور متعدد گواہ موجود ہیں، فوجی عدالتوں سے عدم شواہد پر5ملزمان بری بھی ہوئے، جسٹس منیب اختر نے کہا بظاہر اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ملزموں سے ریکوری کی تفصیلات بھی موجود ہیں، عدالت خصوصی حالات بھی مدنظر رکھے۔
دہشتگردوں کیخلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا، فوجی عدالتوں پر آرٹیکل10اے کا اطلاق نہیں ہوتا، جسٹس منیب اختر نے کہا قانون شہادت کے تحت فوجی افسر کے سامنے اعتراف جرم کی کوئی حیثیت نہیں، اعترافی بیان صرف مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا حراستی مرکز کا مجاز افسر عدالت میں اعترافی بیان لینے کا حلف دیتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاہائی کورٹ نے قرار دیا تمام اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا رولز میں جو فارمیٹ دیا گیا بیان اس کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے۔
ہائی کورٹ نے ضابطہ فوجداری کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا جبکہ فوجی عدالتوں پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا، دہشتگرد جنت کا ٹکٹ سمجھ کر اعتراف جرم کرتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کل پشاور ہائی کورٹ فوجی عدالت کے فیصلوں کیخلاف 200 اپیلوں پر فیصلہ سنائے گی، اسے فیصلہ سنانے سے روکا جائے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دوران سماعت کیس کی کارروائی کو کیسے روک سکتے ہیں، فیصلہ آنے دیں، مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔