بھارت کو پسندیدہ قرار دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے قائمہ کمیٹی
حکومتی فیصلے سے پاکستانی کاشتکاروں کا استحصال ہوگا اورزرعی شعبہ تباہ ہوجائیگا، قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ اس سے پاکستانی کاشتکاروں کا استحصال ہوگا اور یہ زرعی شعبے کی تباہی کاباعث بنے گا۔
جبکہ کمیٹی نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان اور مشاورت کا جواب نہ دینے پرچاروں صوبوں کی وزارت خوراک کے سیکریٹریوں کو اور پھٹی کی قیمت میں واضح کمی اور مڈل مین کے کردار پر سیکریٹری ٹیکسٹائل اور اپٹما کے چیئرمین کوآئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔ کمیٹی نے ملک میں پانی کے ذخائر پرتوجہ نہ دینے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پانی کے وسائل بڑھانے پر توجہ نہ دی گئی توآئندہ جنگ بھارت کے بجائے صوبے آپس میں لڑیں گے، وزیرتحفظ خوراک سکندر بوسن نے کہا کہ 15روز بعد آلو کی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد قیمتیں کم ہو جائیں گی، بھارت میں ہولی کے باعث ٹماٹرکی سپلائی میں کمی ہوئی جواب ختم ہوجائے گی،گندم کی امدادی قیمت کے تعین میں صوبے تعاون نہیں کر رہے۔ قائمہ کمیٹی کااجلاس جمعرات کوچیئرمین شاکر بشیراعوان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔
اس موقع پر ایڈیشنل سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایاکہ اٹھارہویںآئینی ترمیم کے بعد وزارت کے اہم اختیارات صوبوں کومنتقل کردیے گئے۔ اس وقت وزارت صرف بیرون ملک ڈونرز ریسرچ اور دیگر اداروںسے رابطہ کیلیے کام کررہی ہے۔ وفاقی وزیرسکندرحیات بوسن نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت کو اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ فرٹیلائزر ریویوکمیٹی کے حوالے سے انھوںنے کہاکہ کمیٹی کی جانب سے بروقت یوریا کھادکی درآمدکے حوالے سے سمری روانہ کرنے کی وجہ سے یوریاکی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
انھوںنے کہاکہ2007ء میںسیڈ ایکٹ کی منظوری کے لیے ایک بل جمع کرایا تھا جوابھی تک منظور نہیںہوا جس کی وجہ سے ملک میںسرمایہ کاری نہیںہورہی۔ اراکین کمیٹی سیڈایکٹ کی منظوری کے لیے اپنا کردار اداکریں۔ وفاقی وزیرنے کمیٹی کوبتایاکہ بھارت میںحالیہ دیوالی کی وجہ سے ٹماٹر کی سپلائی میں تعطل رہا۔ کمیٹی نے متفقہ طورپرکہاکہ پانی کی قلت ملک کے لیے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرحکومت نے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے وسائل میںاضافہ نہ کیاتوآئندہ چند برسوں میں قلت کاخدشہ ہے۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے اجلاس کوآگاہ کیا کہ پاکستان تیزی سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ زراعت کی وزارت کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 25ارب روپے تھا جو کہ گھٹ کر محض 75کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ انھوں نے رواں برس تمام زرعی اجناس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود حکومت کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس پر نظر ثانی سے انکار پر انتہائی تشویش اور تعجب کا اظہار کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ اگر صورت حال کا درست ادراک نہ کیا گیا تو گندم کی پیداواری لاگت انتہائی بڑھ جائے گی اور 25ملین ٹن کے پیدواری ہدف کا حصول دشوار ہوجائے گا۔ کسانوں کو گزشتہ برس کی طرح پھٹی کے 2800سے 2900روپے فی من (40گرام) ہی ادا کیے جا رہے ہیں جبکہ ڈالرکی قیمت تقریباً 110روپے تک جا پہنچی ہے۔
جبکہ کمیٹی نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان اور مشاورت کا جواب نہ دینے پرچاروں صوبوں کی وزارت خوراک کے سیکریٹریوں کو اور پھٹی کی قیمت میں واضح کمی اور مڈل مین کے کردار پر سیکریٹری ٹیکسٹائل اور اپٹما کے چیئرمین کوآئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔ کمیٹی نے ملک میں پانی کے ذخائر پرتوجہ نہ دینے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پانی کے وسائل بڑھانے پر توجہ نہ دی گئی توآئندہ جنگ بھارت کے بجائے صوبے آپس میں لڑیں گے، وزیرتحفظ خوراک سکندر بوسن نے کہا کہ 15روز بعد آلو کی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد قیمتیں کم ہو جائیں گی، بھارت میں ہولی کے باعث ٹماٹرکی سپلائی میں کمی ہوئی جواب ختم ہوجائے گی،گندم کی امدادی قیمت کے تعین میں صوبے تعاون نہیں کر رہے۔ قائمہ کمیٹی کااجلاس جمعرات کوچیئرمین شاکر بشیراعوان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔
اس موقع پر ایڈیشنل سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایاکہ اٹھارہویںآئینی ترمیم کے بعد وزارت کے اہم اختیارات صوبوں کومنتقل کردیے گئے۔ اس وقت وزارت صرف بیرون ملک ڈونرز ریسرچ اور دیگر اداروںسے رابطہ کیلیے کام کررہی ہے۔ وفاقی وزیرسکندرحیات بوسن نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت کو اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ فرٹیلائزر ریویوکمیٹی کے حوالے سے انھوںنے کہاکہ کمیٹی کی جانب سے بروقت یوریا کھادکی درآمدکے حوالے سے سمری روانہ کرنے کی وجہ سے یوریاکی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
انھوںنے کہاکہ2007ء میںسیڈ ایکٹ کی منظوری کے لیے ایک بل جمع کرایا تھا جوابھی تک منظور نہیںہوا جس کی وجہ سے ملک میںسرمایہ کاری نہیںہورہی۔ اراکین کمیٹی سیڈایکٹ کی منظوری کے لیے اپنا کردار اداکریں۔ وفاقی وزیرنے کمیٹی کوبتایاکہ بھارت میںحالیہ دیوالی کی وجہ سے ٹماٹر کی سپلائی میں تعطل رہا۔ کمیٹی نے متفقہ طورپرکہاکہ پانی کی قلت ملک کے لیے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرحکومت نے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے وسائل میںاضافہ نہ کیاتوآئندہ چند برسوں میں قلت کاخدشہ ہے۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے اجلاس کوآگاہ کیا کہ پاکستان تیزی سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ زراعت کی وزارت کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 25ارب روپے تھا جو کہ گھٹ کر محض 75کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ انھوں نے رواں برس تمام زرعی اجناس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود حکومت کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس پر نظر ثانی سے انکار پر انتہائی تشویش اور تعجب کا اظہار کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ اگر صورت حال کا درست ادراک نہ کیا گیا تو گندم کی پیداواری لاگت انتہائی بڑھ جائے گی اور 25ملین ٹن کے پیدواری ہدف کا حصول دشوار ہوجائے گا۔ کسانوں کو گزشتہ برس کی طرح پھٹی کے 2800سے 2900روپے فی من (40گرام) ہی ادا کیے جا رہے ہیں جبکہ ڈالرکی قیمت تقریباً 110روپے تک جا پہنچی ہے۔