مارچ کے منتظمین ایجنڈا اور چند سوال
بلاشبہ یہ مردوں کے غلبے کا معاشرہ ہے جہاں خواتین سے ناانصافیاں ہوتی ہیں اور وہ بہت سے مسائل کا شکار رہتی ہیں۔
عورت مارچ کے نعروں اور اس سے پہلے نجی ٹی وی چینل پر ایک معروف ڈرامہ نگار اور ایک متنازعہ نظریات رکھنے والی خاتون کے درمیان توتکار اور گالم گلوچ کی بازگشت ابھی تک سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے۔ اگر چہ بدزبانی پہلے خاتون نے کی تھی مگر پھر بھی ڈرامہ نگار کا خاتون کو (خواہ وہ کیسی بھی ہو) گالی دینا نا مناسب فعل تھا ۔
راقم نے ہوش سنبھالا تو یہی دیکھا کہ گھر کے تمام معاملات میں والدہ صاحبہ مکمل طورپر بااختیار تھیں، والد صاحب اپنے تمام تر رعب اور دبدبے کے باوجود والدہ صاحبہ کو بے حد عزت اور احترام دیتے تھے، ان کے لیے ہمیشہ جمع کا صیغہ استعمال کرتے تھے اور انھوں نے ہماری والدہ صاحبہ کے کہنے پر اپنی دونوں بیٹیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم دلائی۔ نصف صدی تک امی جان ہی میرے لیے اہم ترین اور محبوب ترین ہستی رہیں۔پوری سروس کے دوران جب بھی کہیں ماں بہن یا بیٹی کے ساتھ زیادتی نوٹس میں آئی، راقم، مجرموں کو نشانِ عبرت بنانے تک چین سے نہیں بیٹھا۔
بلاشبہ یہ مردوں کے غلبے کا معاشرہ ہے جہاں خواتین سے ناانصافیاں ہوتی ہیں اور وہ بہت سے مسائل کا شکار رہتی ہیں، جن میں سرِ فہرست جان اور عزّت و ناموس کا تحفظ ہے اور اس کے بعد باپ اور شوہر کی جائیداد میں وارثتی حق، حق مہر،گھریلو تشددّ ،چھوٹی عمر کی شادی ، قرآن سے شادی کی جاہلانہ رسم، جہیز کی لعنت، کاروکاری کا الزام لگا کر لڑکیوں کا قتل، عورتوں کی تعلیم میں رکاوٹیں اورووٹ کے حق سے محرومی شامل ہیں، مگر عورت مارچ کے منتظمین (جن میں دین بیزار خواتین و حضرات شامل تھے ) ان مسائل پر سنجیدگی سے کبھی بات نہیں کرتے نہ کبھی وہ پسماندہ علاقوں میں جاکر عورتوں کی حالتِ زار دیکھتے ہیں،وہ تو ہر چیز کیمرے اورمائیک کے لیے کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے ''کہیں باہر'' رپورٹ بھیج کر ڈالر اور یورو اینٹھنے ہوتے ہیں ۔
عورت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے تحفظ اور تکریم ، مگر مارچ والے عورتوں کے لیے تکریم کی بات نہیں کرتے وہ توایسی آزادی مانگتے ہیں جو صرف جانوروں کو حاصل ہے۔ ان کے نعروں، بینروں اور پلے کارڈ زنے ان کے اصل ایجنڈے کو بے نقاب کردیا ہے۔ بیرونی قوتیّں یہاں بے حیائی اور ہم جنس پرستی پھیلانا چاہتی ہیں ان کا اصل ایجنڈا پاکستان جیسے اہم اور حساس ملک میں حیاء کے قلعے کو مسمار کرنا ہے۔ اس کے لیے عورتوں کو والد اور شوہر کے خلاف اکسایا جارہاہے، نکاح کے مقدسّ رشتے کو توڑ دینے کی ترغیب دی جارہی ہے، اسلامی شعائر اور اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، عورت جسکے ساتھ چاہے اور جتنی دیر چاہے رہے، پھر کسی اور دوست کے ساتھ رہنا شروع کر دے، اللہ اور رسولﷺ کو ہماری زندگیوں میں دخل دینے کا (نعوذباللہ)کوئی اختیار نہیں ہے۔
شاید بہت سی خواتین نہیں جانتیں کہ' میرا جسم میری مرضی ' کا نعرہ کہاں سے لیا گیا ہے، یہ نعرہ سب سے پہلے برازیل میں سیکس ورکرز نے لگایا تھاکہ وہ اپنی کمیونٹی کو سَیکس ورکرز کے طور پر منوانا چاہتی تھیں،پھر یہ نعرہ یورپ میں abortionکو جائز قرار دلوانے کے لیے لگایا گیا۔
جہاں تک مرضی کا تعلق ہے توجسم پر اپنی مرضی ہوتی تو کسی کا جسم بے ڈھبّا نہ ہوتا، ہر مرد آرنلڈ اور ہر عورت مس یونیورس ہوتی اور کسی پر بڑھاپا طاری نہ ہوتا، جسم کے ہزاروں پرزوں میں سے کسی ایک پر بھی ہمارا اختیار نہیں۔میرے جسم ، میری جان ، میرے لباس، میری سوچ ، فکر،پسند ، ناپسند ہر چیز پر میرے خالق اور مالک کا اختیار ہے، اگر میں اپنا خالق اﷲ جل شانہُ کومانتا ہوں تو پھر ' میرا جسم میری مرضی' جیسی جاہلانہ اور بیہودہ بات میری زبان کیامیری سوچ میں بھی نہیں آسکتی اوراگر میں اُس ذاتِ باری تعالیٰ کو کائنات اور انسانوں کا خالق نہیں مانتا تو پھرجو منہ میں آئے گا اگلتا رہوںگا۔ خلیل قمر معذرت خواہانہ انداز میں کہتا ہے کہ'' میں مذہب کی بات نہیں کرتا اخلاقیات کی کرتا ہوں ''۔ ارے بھائی اخلاقیات بھی انسانوں سے نہیں آسمانوں سے آئی ہے،اِس اشو بلکہ ہر اشو کا سرا وہیں سے شروع ہوتا ہے اور وہیں حل ملتا ہے۔
بلاشبہ اس ملک کی کروڑوں خواتین نے جو اپنے گھروں میں اپنے والدین،اپنے شوہروں اوراپنے بچوں کے ساتھ ایک پرمسرت زندگی گذار رہی ہیں، انھوں نے عورت مارچ پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کے شرم و حیاء کے قلعے کو مسمار کرنے کے مذموم ایجنڈے اور بیہودہ نعروں پر لعن طعن بھیجی ہے۔یہاں تک کہ محترمہ فردوس عاشق کوبھی کہنا پڑا کہ ان کے نعروں نے شرم و حیاء کو پامال کیا ہے۔
اسلامی اقدار کی علمبردار ہزاروں خواتین مسلم تہذیب کی عکاسی کرنے والے لباس میں ملبوس تکریمِ نسواں اور حیاء مارچ میں شریک ہوئی ہیں۔ بہت سی روشن خیال رائٹر ز اور لیڈی اینکرزنے پلے کارڈ زپر لکھے نعروں کو بیہودہ قرار دیا اورپڑھی لکھی خواتین نے ببانگِ دھل کہا کہ ''35/36عورتوں کی وجہ سے ہم شرمسار ہیں، ایسی خواتین ہمارا فیمیلی سسٹم تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ foreign funded مہم ہے جسکا ایجنڈا یہاں لادینیت پھلانا ہے''،مذہبی پس منظر رکھنے والے چند رائٹرز لبرل کہلوانے کے شوق مین بدنی گروپ کی حمایت کر رہے ہیں۔
اس مارچ میں کسی پلے کارڈ پر بھارت میں مسلمان عورتوں کے خلاف ہونے والی بربریت کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا گیا۔کشمیر کی مظلوم خواتین کے حق میں ایک لفظ نہیں بولا گیا ،کیونکہ بدنی گروپ کو صرف اسمیں دلچسپی ہے کہ'' ہمیںاپنے بدن کا آزادانہ استعمال کرنے سے نہ روکا جائے اور نکاح کی پابندیاں ختم کی جائیں''
عورتوں کے لیے یورپ کیطرح آزادی مانگنے والے شائد نہیں جانتے کہ وہاں عورت کی زندگی کتنی کٹھن ہے۔ چند سال پہلے ہم جرمنی گئے تھے۔ ہمارے وفد میںتین خواتین بھی تھیں، ایک ہفتے کے بعد تینوں نے کہنا شروع کردیا کہ ''یہاں تو عورتوں کی زندگی بڑی تلخ ہے جب کہ ہم عورتوں کو پاکستان میںشہزادیوں کیطرح ٹریٹ کیا جاتا ہے''۔
آزادی کا مطالبہ کرنے والیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانوں کے کسی معاشرے میں مکمل آزادی کا کوئی تصورّ نہیں ہے۔ ہر جگہ حدود و قیود مقررّ ہیں ، جوان حدود کو کراس کریگا قانون حرکت میں آئیگا اور اسے اٹھاکر جیل میںیا ملکی حدود سے باہر پھینک دیا جائے گا۔ یہاں کا ہر اینکر ادارے کی پالیسی کے مطابق مہمانوں اور سوالوں کا انتخاب کرتا ہے۔فیض ؔصاحب کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی صاحبہ پی ٹی وی کی ملازمت کرتی رہیں وہ وہاںاپنی مرضی نہیں بلکہ ہر حکومت کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی بیٹی رمیزے سہمے ہوئے انداز میں پروگرام کرتی ہیں کہ کہیں ادارہ ناراض نہ ہو جائے۔
ہزار لعنت ہو ان پر کہ جس اللہ اورجس رسولﷺ نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق اور اعلیٰ ترین مقام عطا کیا، یہ ڈالر خور انھی کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دوسروں کو خلاف ورزی پر اکسارہے ہیں ۔ ویسے تو غلامانہ ذہن کے حکمران پہلے ہی ہماری قوم کو امریکا اور یورپ کا غلام بنا چکے ہیں مگر وہ یہاں غیرت اور حمیّت کی سلگنے والی ہر چنگاری کو بجھادینا چاہتے ہیں۔
اسی لیے یہاں شرم و حیاء کا قلعہ مسمار کرنا ان کی ترجیحِ اوّل ہے۔ حملہ آوروں نے یہاں عورتوں کو بے حجاب کرنے کے بعد ان کا دوپٹہ بھی اتاردیا ہے۔ عورت کے حجاب کی حکمت بے مثل مفکر اور دانائے راز علامہ اقبالؒ نے جاوید نامہ میں بڑے دلپذیر انداز میں بیان کی ہے کہ'' کائناتوں کے خالق ربِّ ذوالجلال کو ہم دیکھ نہیں سکتے کیونکہ پوشیدہ رہنا خالق کی شان ہے ، اسی طرح تخلیق کرنے والی ہر ہستی کو نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے کیو نکہ تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہے۔ اس کے صدف کا موتی خلوت میں ہی جنم لیتا ہے''۔عورت کے سب سے بڑے مسئلے یعنی تحفظ کے بارے میںاقبالؒ نے حتمی بات کردی ہے۔
نے پردہ ، نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
بلاشبہ عورت کی دل و جان سے حفاظت پہلے اس کا باپ پھر بھائی،پھر شوہراور پھر بیٹا کرتاہے۔ وہی اس کی حفاظت کے ضامن ہیں،عورت کے نام پر ڈالر اکٹھے کرنے والی آنٹیاں نہیں !
عورت مارچ کے منتظمین میںبُڈھّے سرخے اور بڑی تعداد میںشامل تھے ،مگرعام شہری ان کی مکمل شناخت چاہتے ہیں، اسی لیے عورت مارچ کی قائدین سے عوام پوچھتے ہیںکہ ٭وہ کن ممالک سے فنڈز لیتی ہیں اور فنڈز خرچ کرنے کی کیا شرائط ہیں؟ ٭کیا وہ مسلمانوں کے اس عقیدے کو مانتی ہیں کہ' زمین و آسمان اور ساری مخلوقات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور موت کے بعد تمام انسانوں نے اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے پیش ہونا ہے،یا اس عقیدے سے انکار کرتی ہیں؟۔
٭کیا وہ جانتی ہیں کہ جوشخص (چاہے وہ عورت ہو یا مرد) مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کی غلامی میں دے دیتا ہے۔اور وہ اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ اُس کے جسم تو کیا اُسکی جان، مال ،اولاد، سب کچھ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ سب کچھ اُسے امانت کے طورپر دیا گیا ہے، اُس نے اپنے ہاتھوں، ٹانگوں ، زبان، دل، دماغ اور آنکھوں کا استعمال اپنی خواہشات کے مطابق نہیں اپنے مالک یعنی اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی خواہش کیمطابق کرنا ہے۔٭کیا ان کے خیال میں عورت کے لیے شرم و حیاء کی اہمیّت ہے یا نہیں ؟اگر ہے تو لبا س کے معاملے میں شرم وحیاء کے کیا تقاضے ہیں؟ ٭کیا پاکستان میں یورپی تہذیب رائج ہونی چاہیے یا یہاں مسلمان خواتین کی معاشرت اور تمدنّ مسلم تہذیب کے مطابق ہونی چاہیے؟
٭اس ملک کی لاکھوں بیوہ خواتین کی بہبود کے لیے وہ اپنی جیب سے ایک سال میں کتنی رقم اس ملک کی لاکھوں بیوہ خواتین کی بہبود کے لیے دیتی ہیں،آپکی دس لیڈرزہی بتا دیں۔
کروڑوں شہر یوں نے اس خرافات پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر مجھے اس چیلنج میں ایک opportunity نظر آرہی ہے۔ چند سوعورتوں نے اسلامی اقدار پر حملہ آ ورہو کر کروڑوں خواتین کی آنکھیں کھول دی ہیںاورانھوں نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے نتیجے میں ہماری وہ بہنیں اور بیٹیاں جو دوپٹہ چھوڑچکی تھیں دوبارہ دوپٹہ لیں گی اور اﷲاور رسولﷺ کی خوشنودی کے لیے اپنے سر اور سینے پھر سے ڈھانپنا شروع کر دیں گی۔