قد بڑھانے کا مجرب نسخہ
نیا پاکستان بن چکا ہے، ادارے درست کیے جا چکے ہیں، گاڑی کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا گیا ہے۔
مان لیا کہ ہم ماننے والے لوگ ہیں، جو بھی کوئی کہتا ہے وہ مان لیتے ہیں کہ ستر سال کا تجربہ ہے ہمارا ماننے کا۔ لہذا اب بھی مان لیا کہ یہ سب کچھ ہو جائے گا بلکہ ہو گیا ہے کیونکہ یہ ریاست مدینہ ہے اوریہاں کوئی جھوٹ نہیں بولتا، سارے صادق و امین ہوتے ہیں۔
نیا پاکستان بن چکا ہے، ادارے درست کیے جا چکے ہیں، گاڑی کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا گیا ہے، چور بدمعاش کچھ بھاگ گئے ہیں کچھ مشرف بہ انصاف کر دیے گئے ہیں،کرپشن کو پانچ بار پھانسی دی جا چکی ہے اور اس کی لاش ایک سال تک برسر عام لٹکی رہی ہے۔ بے ایمانی، بد دیانتی ،چوری، غبن سب کو دیس نکالا دیا گیا ہے۔
پچاس لاکھ مکان اور پچاس لاکھ نوکریاں بھی دی جائیں گی، یہ تعداد پہلے پچاس کروڑ تھی لیکن ''آڈٹ'' والوں نے پچاس لاکھ کر دی۔ ابتدا ہو چکی ہے۔ وزیر، مشیر، معاون اور دیگرے بھرتی بھی کیے جا چکے ہیں پھر بیانات اور کراس کویسچن کا سلسلہ چلا تو سب اس پر متفق ہوئے کہ یہ شریر لڑکا باغ کے لیے خطرہ ہے جو ہماری ساری محنت کا بیڑا غرق کر دے گا۔ اس پر سب اٹھ کھڑے ہوئے، سامنے والے گھر کے قریب پہنچے تو لڑکا دروازے کے پاس کھیل رہا تھا۔
پوری ٹولی اسے پکڑ کر گھونسوں لاتوں سے تواضع کرتے ہوئے بولی، تم ہمارے باغ کا ستیاناس کرو گے؟ وہ سب تو تب کرو گے جب ہم کرنے دیں نا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس لڑکے کا باپ چیخ پکار سن کر باہر نکل آیا ورنہ مستقبل کا باغ لگانے والے تو اس خطرے کا قلع قمع ہی کر دیتے۔ ہمیں بھی یہی خدشہ ہے کہ سب کچھ تو ہوتا رہے گا جس طرح گزشتہ ستر سال میں ہوتا رہا ہے لیکن اس بدمعاش لڑکے کا کیا بنے گا جس کا نام روپیہ ہے اور روز بروز ''نکما'' ہوتا جا رہا ہے بلکہ اپنی بڑی بہن مہنگائی سے مل کر باغ کا ناس مار رہا ہے، یہ تو ہمارے ''باغ'' کو بالکل بھی پینپنے نہیںدے گا، نہ ریاست مدینہ بننے دے گا نہ صادق و امین کو چین لینے دے گا نہ نیا پاکستان تعمیر کر نے دے گا۔ بلکہ تعمیر سے پہلے ہی ساری اینٹیں چرا کر لے جائے گا، سمینٹ کی بوریاں پھاڑ دے گا، سریا کباڑی کو بیچ کر چھوہارے کھا لے گا۔ اسی کا کچھ کرنا چاہیے،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
یہ تو ممکن نہیں کہ یہ راتوں رات ڈالر کے برابر پہنچ جائے گا ۔ اگر ہم روپیہ کو کچھ مقویات اور قد بڑھانے کی دوائیں کھلا بھی دیں اور وہ اپنا قد بڑھانا شروع بھی کر دے تو ڈالر کوکون اپنا قد بڑھانے سے روکے گا۔ وہ بھی تو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر کا ہے۔ اور بڑھنے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
یہ بڑا گھمبیر بلکہ گوتم گھمبیر مسئلہ ہے۔ ویسے تو ہمیں موجودہ چارہ گروں کی ''ٹولی'' پر بھروسہ ہے کہ وہ اس کا کوئی حل ضرور نکالیں گے کیونکہ موجودہ ''ٹولی'' میں ٹاپ کلاس کے جدی پشتی اور خاندانی چارہ گر جمع ہیں اور سربراہی بھی بہت بڑے چارہ گر کے ہاتھ میں ہے جس کی اپنی پوری زندگی چارہ گری کی مثال ہے۔ لیکن ہمارا بھی تو آخر کچھ فرض بنتا ہے، جب وہ ہمارے لیے اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں تو ہمیں کم از کم کوئی اچھا سا مشورہ دے کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اور ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کا قد بڑھانے کاہے اور قد بڑھانے کا ایک مجرب نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔
ہوا یوں کہ ہمارے ایک دوست کی بیٹی باقی تو ہر لحاظ سے ٹھیک ٹھاک تھی لیکن اس کا قد بڑھ نہیں رہا تھا، اس نے بہت سارے علاج معالجے اور نسخے آزمائے لیکن ''ٹھگنی'' بڑھنے کے بجائے اور ٹھینگی ہوتی جائے۔ وہ ہم سے اکثر اس کے مستقبل کا رونا روتا تھا اور کسی تدبیر کا طالب ہوتا تھا۔ آخر ہم نے ایک دن یونہی اس کا نام بدلنے کو کہا بلکہ ایک عورت کی مثال بھی دی جس کا نام ''سرو'' تھا اور وہ ہوبہو ''سرو'' تھی بھی۔ آپ یقین کریں اس نے یہ بات مان لی اور اپنی بیٹی کا نام ''وڑہ'' (یعنی چھوٹی) سے بدل کر چنار بیگم رکھ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ''وڑہ'' چنار ہو گئی۔ اور یہی مجرب نسخہ ہم اپنے خدمت گاروں، چارہ گروں اور خدمت گزاروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ''روپیہ'' کانام بدل کر ''مہنگائی'' رکھ لیں۔
پھر دیکھیے انداز قد افزائی چنار۔
کچھ دنوں میں اگر اس نے اپنا قد بڑھا کر ڈالر سے بھی اونچا نہ کر لیا تو پھر ہمارا نام بدل کر روپیہ رکھ لیجیے۔
نیا پاکستان بن چکا ہے، ادارے درست کیے جا چکے ہیں، گاڑی کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا گیا ہے، چور بدمعاش کچھ بھاگ گئے ہیں کچھ مشرف بہ انصاف کر دیے گئے ہیں،کرپشن کو پانچ بار پھانسی دی جا چکی ہے اور اس کی لاش ایک سال تک برسر عام لٹکی رہی ہے۔ بے ایمانی، بد دیانتی ،چوری، غبن سب کو دیس نکالا دیا گیا ہے۔
پچاس لاکھ مکان اور پچاس لاکھ نوکریاں بھی دی جائیں گی، یہ تعداد پہلے پچاس کروڑ تھی لیکن ''آڈٹ'' والوں نے پچاس لاکھ کر دی۔ ابتدا ہو چکی ہے۔ وزیر، مشیر، معاون اور دیگرے بھرتی بھی کیے جا چکے ہیں پھر بیانات اور کراس کویسچن کا سلسلہ چلا تو سب اس پر متفق ہوئے کہ یہ شریر لڑکا باغ کے لیے خطرہ ہے جو ہماری ساری محنت کا بیڑا غرق کر دے گا۔ اس پر سب اٹھ کھڑے ہوئے، سامنے والے گھر کے قریب پہنچے تو لڑکا دروازے کے پاس کھیل رہا تھا۔
پوری ٹولی اسے پکڑ کر گھونسوں لاتوں سے تواضع کرتے ہوئے بولی، تم ہمارے باغ کا ستیاناس کرو گے؟ وہ سب تو تب کرو گے جب ہم کرنے دیں نا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس لڑکے کا باپ چیخ پکار سن کر باہر نکل آیا ورنہ مستقبل کا باغ لگانے والے تو اس خطرے کا قلع قمع ہی کر دیتے۔ ہمیں بھی یہی خدشہ ہے کہ سب کچھ تو ہوتا رہے گا جس طرح گزشتہ ستر سال میں ہوتا رہا ہے لیکن اس بدمعاش لڑکے کا کیا بنے گا جس کا نام روپیہ ہے اور روز بروز ''نکما'' ہوتا جا رہا ہے بلکہ اپنی بڑی بہن مہنگائی سے مل کر باغ کا ناس مار رہا ہے، یہ تو ہمارے ''باغ'' کو بالکل بھی پینپنے نہیںدے گا، نہ ریاست مدینہ بننے دے گا نہ صادق و امین کو چین لینے دے گا نہ نیا پاکستان تعمیر کر نے دے گا۔ بلکہ تعمیر سے پہلے ہی ساری اینٹیں چرا کر لے جائے گا، سمینٹ کی بوریاں پھاڑ دے گا، سریا کباڑی کو بیچ کر چھوہارے کھا لے گا۔ اسی کا کچھ کرنا چاہیے،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
یہ تو ممکن نہیں کہ یہ راتوں رات ڈالر کے برابر پہنچ جائے گا ۔ اگر ہم روپیہ کو کچھ مقویات اور قد بڑھانے کی دوائیں کھلا بھی دیں اور وہ اپنا قد بڑھانا شروع بھی کر دے تو ڈالر کوکون اپنا قد بڑھانے سے روکے گا۔ وہ بھی تو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر کا ہے۔ اور بڑھنے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
یہ بڑا گھمبیر بلکہ گوتم گھمبیر مسئلہ ہے۔ ویسے تو ہمیں موجودہ چارہ گروں کی ''ٹولی'' پر بھروسہ ہے کہ وہ اس کا کوئی حل ضرور نکالیں گے کیونکہ موجودہ ''ٹولی'' میں ٹاپ کلاس کے جدی پشتی اور خاندانی چارہ گر جمع ہیں اور سربراہی بھی بہت بڑے چارہ گر کے ہاتھ میں ہے جس کی اپنی پوری زندگی چارہ گری کی مثال ہے۔ لیکن ہمارا بھی تو آخر کچھ فرض بنتا ہے، جب وہ ہمارے لیے اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں تو ہمیں کم از کم کوئی اچھا سا مشورہ دے کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اور ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کا قد بڑھانے کاہے اور قد بڑھانے کا ایک مجرب نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔
ہوا یوں کہ ہمارے ایک دوست کی بیٹی باقی تو ہر لحاظ سے ٹھیک ٹھاک تھی لیکن اس کا قد بڑھ نہیں رہا تھا، اس نے بہت سارے علاج معالجے اور نسخے آزمائے لیکن ''ٹھگنی'' بڑھنے کے بجائے اور ٹھینگی ہوتی جائے۔ وہ ہم سے اکثر اس کے مستقبل کا رونا روتا تھا اور کسی تدبیر کا طالب ہوتا تھا۔ آخر ہم نے ایک دن یونہی اس کا نام بدلنے کو کہا بلکہ ایک عورت کی مثال بھی دی جس کا نام ''سرو'' تھا اور وہ ہوبہو ''سرو'' تھی بھی۔ آپ یقین کریں اس نے یہ بات مان لی اور اپنی بیٹی کا نام ''وڑہ'' (یعنی چھوٹی) سے بدل کر چنار بیگم رکھ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ''وڑہ'' چنار ہو گئی۔ اور یہی مجرب نسخہ ہم اپنے خدمت گاروں، چارہ گروں اور خدمت گزاروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ''روپیہ'' کانام بدل کر ''مہنگائی'' رکھ لیں۔
پھر دیکھیے انداز قد افزائی چنار۔
کچھ دنوں میں اگر اس نے اپنا قد بڑھا کر ڈالر سے بھی اونچا نہ کر لیا تو پھر ہمارا نام بدل کر روپیہ رکھ لیجیے۔