گزری شب براتوں کی یاد میں
rmvsyndlcate@gmail.com
شب برات کی خوشی میں چٹوروں نے حلوہ کھایا اور ہونٹ چاٹے۔ ان کی شب برات حلوے ہی سے عبارت ہے۔ صوم و صلوٰۃ بجا لانے والوں نے اس شب سے منسوب عبادات کیں۔ گھر کی بیبیوں نے اپنے قریب اور دور کے مرحومین کو یاد کیا اور حلوے روٹی پر ان کی فاتحہ پڑھی۔ ہر مُردے کے نام کی ایک روٹی اور تھوڑا حلوہ۔ شب برات میں بچوں کی خوشی کا سامان بھی بہت تھا۔ مگر وہ باب اب بند ہو چکا ہے۔ اب انھیں صرف حلوے پر قناعت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے لیے پُھلجھڑی کی خوشی اب ممنوع ہے۔
مگر ٹھہرئیے' یہ مضمون تھوڑا بعد میں۔ پہلے تو یہ سُن لیں کہ شب برات کو بارش کا پہلا قطرہ جانو۔ اب آگے تیوہار ہی تیوہار ہیں۔ شب برات یہ اعلان کرتی آتی ہے کہ تیاری شروع کر دو۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اور رمضان المبارک کا چاند یہ نوید لے کر آتا ہے کہ روزے رکھ کر یہ تیس یا انتیس دن گزار لو۔ اگلے چاند کی دید کے ساتھ عید ہو گی۔ اور عید کے ساتھ ایک اور عید جڑی ہوئی ہے۔ پہلے میٹھی عید' پھر نمکین عید۔ یہ عیدالفطر ہے۔ آگے عید قربان ہے۔ اور عید قربان یہ کہتی آتی ہے کہ آج کے دن جتنی خوشی منانی ہے منا لو۔ آگے گِریہ کا موسم ہے۔
عید' بقر عید' رمضان۔ ان کے بارے میں تو ہم آپ پوری طرح واضح ہیں کہ ان تیوہاروں اور روزوں کے اس سلسلہ کی تقریب کیا ہے۔ مگر شب برات کی تقریب اتنی واضح نہیں ہے۔ البتہ اس سے مختلف روایتیں وابستہ ہیں۔ بس انھیں روایتوں ہی نے اس تیوہار میں ایک کشش پیدا کر دی ہے اور اس سے اتنی خوشی وابستہ کر دی ہے کہ ہم محاورتاً خوشی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ دن عید' رات شب برات۔
تخصیص کے ساتھ اس دن حلوہ کیوں پکایا جاتا ہے۔ روایت یوں ہے کہ خوشی کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ جنگ احد میں کتنی قیمتی جانیں قربان کرنے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ہاں اسی جنگ میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ و سلم کا دندان مبارک شہید ہوا تھا اور بی بی فاطمہؓ نے آپ کے لیے حلوہ پکایا تھا۔ اور ہاں اسی جنگ میں حضرت امیر حمزہ شہید ہوئے تھے۔ ان کی نیاز اس دن بطور خاص دلائی جاتی ہے۔ اور اب اس روایت کا رشتہ اس دن سے جوڑئیے کہ فرشتے خلقت کی عمروں کا حساب اسی مبارک شب میں کرتے ہیں۔ اور چلتے چلتے اسی روایت سے جڑی ہوئی یہ روایت بھی یا یہ وہم بھی سن لیجیے کہ اب تو یہ رسم فراموش ہے مگر گزرے زمانے میں بچے بڑے خاص طور پر لڑکے بالے لڑکیاں بالیاں اس رات اپنی پرچھائیں دیکھتی تھیں۔ اگر پرچھائیں میں سارے جسم کا سایہ نظر آئے تو اسے طول العمری کی دلیل جانتی تھیں اور اگر سائے کا سرغائب نظر آتا تو سمجھ لیا جاتا کہ عمر کے دن گنے گئے اگلی شب برات دیکھنی نصیب نہیں ہو گی۔ ان روایتوں میں ایک روایت کا اضافہ اہل تشیع کی طرف سے بھی ہوا اگرچہ اس روایت سے جنم لینے والی رسوم بس انھی تک محدود ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق بارھویں امام کی پیدائش اسی شب ہوئی تھی۔
ان رنگا رنگ روایتوں نے اس مبارک شب کو کتنی جگمگاتی شب بنا دیا۔ خوشی کی اس تقریب میں چھوٹنے والی آتش بازی نے اس جگمگاتی شب میں رنگا رنگی پیدا کر دی تھی۔
کتنے زمانے تک آتش بازی شب برات کا لازمی جُز بنی رہی۔ اس شب کتنی دھوم دھام سے آتش بازی چھوڑی جاتی تھی۔ دھوم دھام تو خیر اس آتش بازی کی ہوتی تھی جو گھروں اور گلیوں سے پرے کھلے میدانوں میں چھوڑی جاتی تھی۔ مرسل پٹاس سے بھرے گولے جب چھوڑے جاتے تھے تو اس کے دھماکے کی گونج دور تک جاتی تھی۔ اس کی تیاری میں اچھا خاصا بڑا حادثہ بھی ہو جاتا تھا۔ اسی سے تو مذہبی مصلحین کے اس مطالبے کو تقویت حاصل ہوئی کہ آتش بازی بدعت ہے' لہو و لعب ہے۔ اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
مگر آتش بازی کا دوسرا رنگ وہ تھا جو گھر آنگن میں نظر آتا تھا اور جو خاص طور پر بچوں کا مشغلہ تھا۔ بزرگ اندر کسی گوشے میں جانماز بچھائے عبادت میں مصروف ہیں۔ مائیں بہنیں حلوہ پکا رہی ہیں۔ حلوے روٹی پر مرحومین کی فاتحہ پڑھ رہی ہیں۔ ادھر صحن میں بچے رنگ رنگ کی آتش بازی چھوڑ رہے ہیں۔ پھلجھڑی' مہتابی' سری' چھچھوندر' چٹ پٹ' نش پلیا، ٹونٹا۔ ارے بھائی یہ نش پلیا کیا شے ہے۔ وہ جو ایک آتش بازی انار نام کی ہوتی ہے اس سے تو ہم آج بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن پہلے اسے ناسپال کہتے تھے۔ مٹی کی ایک پیالی نما ظرف میں بارود بھرا ہوا۔ اسے ذرا آگ دکھائی تو کیا ہوتا۔ بقول نظیر۔
یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثل انار و مہتاب
اک ذرا آگ دکھائی تو تماشہ نکلا
چنگاریاں اس طرح نکلتی تھیں کہ آگ کے گل پھول کا ایک اونچا ستون کھڑا ہو جاتا تھا۔ اس کے چھوٹے سائز کو نسپلیا یا نشپلیا کہتے تھے۔ آتش بازی کے ذیل میں بچے یہی خرید کر لاتے تھے۔ اس میں سے نکلتی چنگاریاں نہ تو بہت اونچی جاتی تھیں نہ بہت ضرر بھری ہوتی تھیں۔ بس جیسے دہکتے چھوٹے چھوٹے پھول نکلے اور بکھر گئے۔
اور وہ جو نظیر نے مہتاب کہا ہے وہ اصل میں مہتابی کہلاتی تھی۔ رنگ برنگی ماچس کی تیلیاں۔ ایک تیلی دکھائو تو فضا نارنجی ہو جاتی تھی۔ دوسری تیلی جلائو تو ساری فضا نیلی نیلی نظر آتی اور پھلجھڑی۔ ارے اس کی بکھرتی ہوئی جھلملاتی چاندی ایسی چنگاریاں پتہ نہیں کیسی چنگاریاں تھیں کہ آپ اپنی انگلیاں ان میں دھنسا دیں تو بھی کسی انگلی پر کوئی آبلہ نہیں پڑتا تھا۔ مگر مولوی ملائوں کی نظر میں یہ سب لہو و لعب تھا۔ اور ایسا لہو و لعب جس میں جانوں کا زیاں تھا۔
تقسیم سے پہلے بھی اس لہو و لعب کے خلاف شور مچتا تو تھا۔ مولوی ملائوں کے حساب سے یہ بہت بڑی بدعت تھی۔ مگر تقسیم سے پہلے ان کی سُنی نہیں جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ان کی بہت جلدی سنی گئی۔ ہماری حکومتوں کو بچوں کی خوشی سے زیادہ مولویوں اور مصلحین کی دلجوئی منظور تھی۔ اس لیے آتش بازی پر پابندی لگا دی گئی۔ مطلب یہ کہ مرسل پٹاس والے گولوں کے ساتھ مہتابیاں پھلجھڑیاں اور سریاں بھی خطرناک آگ کے کھیل میں شمار ہوئیں۔ اور ہم نے کتنی بار یہ منظر دیکھا کہ گلی کے نکڑ پر ایک چھابڑی والا چھابڑی میں تھوڑی پھلجھڑیاں مہتابیاں' سریاں اور ایسی ہی چٹ پٹ قسم کی آتش بازی لیے بیٹھا ہے۔ بچے اس کے گرد جمع ہیں اور اپنی اپنی پسند کی اشیا خرید رہے ہیں۔ دور سے کسی پولیس والے نے تاڑا' لپک کر آیا اور اس کی چھابڑی کو الٹ دیا یا اپنے تصرف میں لے لیا۔ بچوں کی خوشی پہ پانی پھر گیا۔ غریب چھابڑی والے کی روزی گئی۔ مگر قانون کی بالادستی قائم ہو گئی۔ اور ایک بدعت کا خاتمہ ہو گیا۔
اس کے ساتھ ہی شب برات ایک بجھا بجھا تیوہار نظر آنے لگا۔
اصل میں جب ہم اپنی مذہبی روایت یا تہذیبی روایت کے حوالے سے یا موسم کے حوالے سے خوشی کا اہتمام کرتے ہیں تو ایک تیوہار کا ڈول ڈالتے ہیں۔ خوشی کے اہتمام میں کچھ رسمیں جنم لیتی ہیں۔ کچھ تفریحات کے پہلو بھی نکلتے ہیں۔ کچھ ذائقے ہمیں یاد آتے ہیں اور ہم خوش ذائقہ غذائیں تیار کرتے ہیں۔ کچھ ماکولات کچھ مشروبات۔ اس واسطے سے وہ واقعہ جس کی ہم یاد منا رہے ہیں ہماری رگ و پے میں اتر جاتا ہے۔ مگر یہ بات بنیاد پرستوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سب ان کی نظروں میں بدعت ہے۔ ارے ایک مرتبہ تو ہمارے ایک مذہبی مصلح نے عید پر سویاں کھانے کی رسم کو بھی بدعت قرار دیدیا تھا۔ مگر عید کی خوشی میں یاروں نے یہ بات ایک کان سنی اور دوسرے کان اڑا دی۔ اور ذوق و شوق سے سویاں کھاتے رہے ہیں۔ مصلح موصوف نے بھی شاید یہ سوچا کہ یہ کھانے پینے کا معاملہ ہے' تھوڑی بدعت بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے۔ سو پھر انھوں نے اپنے محاکمہ کو دہرایا نہیں۔ اور لیجیے چلتے چلتے ناسخ کا ایک شعر سن لیجیے۔
کیوں ہیں اشک اپنے پھلجھڑی کی طرح
شب فرقت شب برات نہیں
مگر ٹھہرئیے' یہ مضمون تھوڑا بعد میں۔ پہلے تو یہ سُن لیں کہ شب برات کو بارش کا پہلا قطرہ جانو۔ اب آگے تیوہار ہی تیوہار ہیں۔ شب برات یہ اعلان کرتی آتی ہے کہ تیاری شروع کر دو۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اور رمضان المبارک کا چاند یہ نوید لے کر آتا ہے کہ روزے رکھ کر یہ تیس یا انتیس دن گزار لو۔ اگلے چاند کی دید کے ساتھ عید ہو گی۔ اور عید کے ساتھ ایک اور عید جڑی ہوئی ہے۔ پہلے میٹھی عید' پھر نمکین عید۔ یہ عیدالفطر ہے۔ آگے عید قربان ہے۔ اور عید قربان یہ کہتی آتی ہے کہ آج کے دن جتنی خوشی منانی ہے منا لو۔ آگے گِریہ کا موسم ہے۔
عید' بقر عید' رمضان۔ ان کے بارے میں تو ہم آپ پوری طرح واضح ہیں کہ ان تیوہاروں اور روزوں کے اس سلسلہ کی تقریب کیا ہے۔ مگر شب برات کی تقریب اتنی واضح نہیں ہے۔ البتہ اس سے مختلف روایتیں وابستہ ہیں۔ بس انھیں روایتوں ہی نے اس تیوہار میں ایک کشش پیدا کر دی ہے اور اس سے اتنی خوشی وابستہ کر دی ہے کہ ہم محاورتاً خوشی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ دن عید' رات شب برات۔
تخصیص کے ساتھ اس دن حلوہ کیوں پکایا جاتا ہے۔ روایت یوں ہے کہ خوشی کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ جنگ احد میں کتنی قیمتی جانیں قربان کرنے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ہاں اسی جنگ میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ و سلم کا دندان مبارک شہید ہوا تھا اور بی بی فاطمہؓ نے آپ کے لیے حلوہ پکایا تھا۔ اور ہاں اسی جنگ میں حضرت امیر حمزہ شہید ہوئے تھے۔ ان کی نیاز اس دن بطور خاص دلائی جاتی ہے۔ اور اب اس روایت کا رشتہ اس دن سے جوڑئیے کہ فرشتے خلقت کی عمروں کا حساب اسی مبارک شب میں کرتے ہیں۔ اور چلتے چلتے اسی روایت سے جڑی ہوئی یہ روایت بھی یا یہ وہم بھی سن لیجیے کہ اب تو یہ رسم فراموش ہے مگر گزرے زمانے میں بچے بڑے خاص طور پر لڑکے بالے لڑکیاں بالیاں اس رات اپنی پرچھائیں دیکھتی تھیں۔ اگر پرچھائیں میں سارے جسم کا سایہ نظر آئے تو اسے طول العمری کی دلیل جانتی تھیں اور اگر سائے کا سرغائب نظر آتا تو سمجھ لیا جاتا کہ عمر کے دن گنے گئے اگلی شب برات دیکھنی نصیب نہیں ہو گی۔ ان روایتوں میں ایک روایت کا اضافہ اہل تشیع کی طرف سے بھی ہوا اگرچہ اس روایت سے جنم لینے والی رسوم بس انھی تک محدود ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق بارھویں امام کی پیدائش اسی شب ہوئی تھی۔
ان رنگا رنگ روایتوں نے اس مبارک شب کو کتنی جگمگاتی شب بنا دیا۔ خوشی کی اس تقریب میں چھوٹنے والی آتش بازی نے اس جگمگاتی شب میں رنگا رنگی پیدا کر دی تھی۔
کتنے زمانے تک آتش بازی شب برات کا لازمی جُز بنی رہی۔ اس شب کتنی دھوم دھام سے آتش بازی چھوڑی جاتی تھی۔ دھوم دھام تو خیر اس آتش بازی کی ہوتی تھی جو گھروں اور گلیوں سے پرے کھلے میدانوں میں چھوڑی جاتی تھی۔ مرسل پٹاس سے بھرے گولے جب چھوڑے جاتے تھے تو اس کے دھماکے کی گونج دور تک جاتی تھی۔ اس کی تیاری میں اچھا خاصا بڑا حادثہ بھی ہو جاتا تھا۔ اسی سے تو مذہبی مصلحین کے اس مطالبے کو تقویت حاصل ہوئی کہ آتش بازی بدعت ہے' لہو و لعب ہے۔ اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
مگر آتش بازی کا دوسرا رنگ وہ تھا جو گھر آنگن میں نظر آتا تھا اور جو خاص طور پر بچوں کا مشغلہ تھا۔ بزرگ اندر کسی گوشے میں جانماز بچھائے عبادت میں مصروف ہیں۔ مائیں بہنیں حلوہ پکا رہی ہیں۔ حلوے روٹی پر مرحومین کی فاتحہ پڑھ رہی ہیں۔ ادھر صحن میں بچے رنگ رنگ کی آتش بازی چھوڑ رہے ہیں۔ پھلجھڑی' مہتابی' سری' چھچھوندر' چٹ پٹ' نش پلیا، ٹونٹا۔ ارے بھائی یہ نش پلیا کیا شے ہے۔ وہ جو ایک آتش بازی انار نام کی ہوتی ہے اس سے تو ہم آج بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن پہلے اسے ناسپال کہتے تھے۔ مٹی کی ایک پیالی نما ظرف میں بارود بھرا ہوا۔ اسے ذرا آگ دکھائی تو کیا ہوتا۔ بقول نظیر۔
یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثل انار و مہتاب
اک ذرا آگ دکھائی تو تماشہ نکلا
چنگاریاں اس طرح نکلتی تھیں کہ آگ کے گل پھول کا ایک اونچا ستون کھڑا ہو جاتا تھا۔ اس کے چھوٹے سائز کو نسپلیا یا نشپلیا کہتے تھے۔ آتش بازی کے ذیل میں بچے یہی خرید کر لاتے تھے۔ اس میں سے نکلتی چنگاریاں نہ تو بہت اونچی جاتی تھیں نہ بہت ضرر بھری ہوتی تھیں۔ بس جیسے دہکتے چھوٹے چھوٹے پھول نکلے اور بکھر گئے۔
اور وہ جو نظیر نے مہتاب کہا ہے وہ اصل میں مہتابی کہلاتی تھی۔ رنگ برنگی ماچس کی تیلیاں۔ ایک تیلی دکھائو تو فضا نارنجی ہو جاتی تھی۔ دوسری تیلی جلائو تو ساری فضا نیلی نیلی نظر آتی اور پھلجھڑی۔ ارے اس کی بکھرتی ہوئی جھلملاتی چاندی ایسی چنگاریاں پتہ نہیں کیسی چنگاریاں تھیں کہ آپ اپنی انگلیاں ان میں دھنسا دیں تو بھی کسی انگلی پر کوئی آبلہ نہیں پڑتا تھا۔ مگر مولوی ملائوں کی نظر میں یہ سب لہو و لعب تھا۔ اور ایسا لہو و لعب جس میں جانوں کا زیاں تھا۔
تقسیم سے پہلے بھی اس لہو و لعب کے خلاف شور مچتا تو تھا۔ مولوی ملائوں کے حساب سے یہ بہت بڑی بدعت تھی۔ مگر تقسیم سے پہلے ان کی سُنی نہیں جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ان کی بہت جلدی سنی گئی۔ ہماری حکومتوں کو بچوں کی خوشی سے زیادہ مولویوں اور مصلحین کی دلجوئی منظور تھی۔ اس لیے آتش بازی پر پابندی لگا دی گئی۔ مطلب یہ کہ مرسل پٹاس والے گولوں کے ساتھ مہتابیاں پھلجھڑیاں اور سریاں بھی خطرناک آگ کے کھیل میں شمار ہوئیں۔ اور ہم نے کتنی بار یہ منظر دیکھا کہ گلی کے نکڑ پر ایک چھابڑی والا چھابڑی میں تھوڑی پھلجھڑیاں مہتابیاں' سریاں اور ایسی ہی چٹ پٹ قسم کی آتش بازی لیے بیٹھا ہے۔ بچے اس کے گرد جمع ہیں اور اپنی اپنی پسند کی اشیا خرید رہے ہیں۔ دور سے کسی پولیس والے نے تاڑا' لپک کر آیا اور اس کی چھابڑی کو الٹ دیا یا اپنے تصرف میں لے لیا۔ بچوں کی خوشی پہ پانی پھر گیا۔ غریب چھابڑی والے کی روزی گئی۔ مگر قانون کی بالادستی قائم ہو گئی۔ اور ایک بدعت کا خاتمہ ہو گیا۔
اس کے ساتھ ہی شب برات ایک بجھا بجھا تیوہار نظر آنے لگا۔
اصل میں جب ہم اپنی مذہبی روایت یا تہذیبی روایت کے حوالے سے یا موسم کے حوالے سے خوشی کا اہتمام کرتے ہیں تو ایک تیوہار کا ڈول ڈالتے ہیں۔ خوشی کے اہتمام میں کچھ رسمیں جنم لیتی ہیں۔ کچھ تفریحات کے پہلو بھی نکلتے ہیں۔ کچھ ذائقے ہمیں یاد آتے ہیں اور ہم خوش ذائقہ غذائیں تیار کرتے ہیں۔ کچھ ماکولات کچھ مشروبات۔ اس واسطے سے وہ واقعہ جس کی ہم یاد منا رہے ہیں ہماری رگ و پے میں اتر جاتا ہے۔ مگر یہ بات بنیاد پرستوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سب ان کی نظروں میں بدعت ہے۔ ارے ایک مرتبہ تو ہمارے ایک مذہبی مصلح نے عید پر سویاں کھانے کی رسم کو بھی بدعت قرار دیدیا تھا۔ مگر عید کی خوشی میں یاروں نے یہ بات ایک کان سنی اور دوسرے کان اڑا دی۔ اور ذوق و شوق سے سویاں کھاتے رہے ہیں۔ مصلح موصوف نے بھی شاید یہ سوچا کہ یہ کھانے پینے کا معاملہ ہے' تھوڑی بدعت بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے۔ سو پھر انھوں نے اپنے محاکمہ کو دہرایا نہیں۔ اور لیجیے چلتے چلتے ناسخ کا ایک شعر سن لیجیے۔
کیوں ہیں اشک اپنے پھلجھڑی کی طرح
شب فرقت شب برات نہیں