کورونا وائرس اور پاکستان حکومت کے اقدامات
ہمیں اپنے ملک اور اپنی حکومت کا نہ صرف ساتھ دینا ہوگا بلکہ اپنی تجاویز بھی اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے پیش کرنا ہوں گی
TURBAT, BALOCHISTAN:
چین کورونا وائرس کا ماخذ ہے۔ وہاں سے کورونا وائرس کی ابتدا کے حوالے سے ابھی تک کم و بیش تمام تحقیق کرنے والے متفق نظر آتے ہیں۔ اور جب تک اس وائرس کا مرکز کوئی اور نہیں ملتا فی الحال تو سب اس پر متفق رہیں گے۔ اس وائرس کی دوسرے ممالک تک منتقلی بھی چین سے ہی ثابت ہورہی ہے۔ جیسے ایران میں اس وائرس کی منتقلی کا باعث قم شہر میں آنے والا ایک چینی شہری قرار پایا۔ اسی طرح دیگر ممالک میں بھی یہ وائرس چین سے پھیلنے کے شواہد موجود ہیں۔
پوری دنیا اس وقت اس عالمی وبا کے خلاف صف آرا ہے اور اس کے علاج کے حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں۔ کورونا کا دائرہ 40 سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس عالمی وبا کے حوالے سے صرف ایک مثبت بات جو ابھی تک موجود ہے کہ اس میں شرح اموات کا تناسب قدرے کم ہے، جو اس وقت پوری دنیا میں 3 سے 5 فیصد تک شمار کیا جارہا ہے۔ عالمی تحقیقی ادارے اس حوالے سے اپنے لائیو کاؤنٹرز جاری رکھے ہوئے ہیں، جو اعداد و شمار کے حوالے سے کافی حد تک موثر ہیں۔ لیکن ایران جیسے ممالک جہاں سہولیات ناکافی ہیں، وہاں شرح اموات 7 سے 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو یقینی طور پر باعث پریشانی ہے۔ چین نے تو ایک ہفتے میں ہزار بستروں کا اسپتال بنادیا لیکن ایران کےلیے ایسا کرنا ممکن نہیں کہ وسائل ناکافی ہیں۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک جنوبی کوریا ہے۔ جب کہ شمالی کوریا کے حوالے سے میڈیا بے خبر ہے۔ اس لیے وہاں کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات کا فقدان ہے۔ لیکن کوئی شک نہیں کہ وہاں بھی صورتحال ایران جیسی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ ممالک میں جہاں افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک شامل ہے تو امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کا شکار ہے۔ لہٰذا ہم کسی بھی صورت اس عالمی وبا کو محدود علاقے سے منسوب اب نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں ابتدائی دو کیسز کے بعد حکومتی اقدامات پر بے شک تنقید بھی کی گئی اور کی جانی چاہیے کہ تنقید کسی بھی کام میں بہتری کےلیے آبِ حیات ہے۔ آخری معلوم اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد انیس تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہاں صرف تنقید ہی مقصد نہیں کیونکہ کورونا وائرس نہیں دیکھ رہا کہ کون حکومت میں ہے کون اپوزیشن میں۔ حکومت نے ابتدائی مریضوں کو جس انداز سے سنبھالا ہے، اس کی توصیف اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ وبائی مرض ہے، اور پاکستان میں اس وقت تک اسے وبائی صورت اختیار کرنے سے کسی نہ کسی طرح روک کر رکھا گیا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وائرس کے مقامی سطح پر پھیلنے کے ابھی تک شواہد نہیں ملے اور یہ دیارِ غیر سے آنے والے افراد میں موجود پایا گیا اور انہی سے کسی حد تک پھیلا۔
وفاق کے اسپتالوں میں اقدامات اس وقت تک قابل بھروسہ اس لیے ہیں کہ مریضوں کی تعداد کم ہے۔ دوسری جانب کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے راولپنڈی کے یورولوجی انسٹیٹیوٹ میں ہنگامی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ بہترین ہے۔ اس ہنگامی مرکز میں سو بستروں کے اسپتال کی سہولت بھی موجود ہوگی۔ کراچی کا آغا خان اسپتال ہو یا دیگر سرکاری اسپتال، وہاں ہنگامی اقدامات کیے گئے ہیں۔ لیکن جس طرح یہ وبا دنیا کے 109ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ہمیں بہرحال ملک میں طبی ایمرجنسی نافذ کرنے کا سوچنا ہوگا کہ کسی بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ حکومت کو اپنے وسائل کا رخ جہاں اس ناسور کی جانب موڑنا ہوگا، وہاں ایسے مخیر حضرات جو ہر مشکل میں اخباری بیانات کا سہارا لیتے رہے ہیں، انہیں بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے تمام دستیاب وسائل کا رخ پاکستانی عوام کی جانب موڑنا ہوگا۔ فیس ماسک کی قلت اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہمیں ابھی بطور قوم مثبت رجحانات اپنانے میں وقت لگے گا۔ ہم بے شک ایٹمی قوت ہیں لیکن اخلاقیات کے حوالے سے ہمیں ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
حکومت پاکستان نے اس وائرس کے عالمی وبا بنتے ہی چند اہم فیصلے کیے، جو ہوسکتا ہے وقتی طور پر ہمیں ناگوار گزرے ہوں لیکن ان اقدامات کے دور رس نتائج یقینی طور پر پاکستان کےلیے بہتر ہیں۔ حکومتی اقدامات یقینی طور پر بہتری کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ ایران کے ساتھ بارڈر بند کرنا ہو یا حالیہ فیصلے میں افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش، کسی بھی حوالے سے جہاں ہم حکومت کو تنقید کے ہدف کے طور پر تختہ مشق بناتے ہیں، وہاں اچھے فیصلوں کی توصیف اس لیے لازم ہے کہ سراہے جانے سے حکومت مزید بہتر کام کےلیے ہمت پکڑے گی جو مجموعی طور پر پاکستانی عوام کےلیے ہی بہتر ہوگا۔
متاثرہ علاقوں سے پروازوں کی معطلی، سرحدوں کی بندش، ملک کے اندر ہنگامی حالات و سہولیات کی دستیابی یا متاثرہ مریضوں کو باقاعدہ علاج کی سہولیات دینا تمام حوالوں سے تنقید سہنے کو بھی اگر حکومت موجود ہے تو پھر ہمیں بہتر معاملات پر توصیف کو بھی اپنا شعار بنانا ہوگا۔
کوئی بھی ملک اکیلے کورونا وائرس کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔ عالمی ادارے اس حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں اور انہیں کردار ادا کرنا بھی چاہیے۔ پوری دنیا اس وقت تحقیق کرنے والوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہے کہ اس ناسور کا کوئی علاج، کوئی دوا، کوئی حل دریافت کیا جاسکے۔ گلوبل ویلیج میں تمام اکائیاں اس وقت اس عالمی وبا سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی حکومت بھی اس وقت عالمی اکائی کی صورت اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک اور اپنی حکومت کا تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف ساتھ دینا ہوگا بلکہ اپنی تجاویز بھی اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے پیش کرنا ہوں گی تاکہ حکومت پاکستان بہتر انداز سے پاکستانیوں کو اس وبا سے محفوظ رکھ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چین کورونا وائرس کا ماخذ ہے۔ وہاں سے کورونا وائرس کی ابتدا کے حوالے سے ابھی تک کم و بیش تمام تحقیق کرنے والے متفق نظر آتے ہیں۔ اور جب تک اس وائرس کا مرکز کوئی اور نہیں ملتا فی الحال تو سب اس پر متفق رہیں گے۔ اس وائرس کی دوسرے ممالک تک منتقلی بھی چین سے ہی ثابت ہورہی ہے۔ جیسے ایران میں اس وائرس کی منتقلی کا باعث قم شہر میں آنے والا ایک چینی شہری قرار پایا۔ اسی طرح دیگر ممالک میں بھی یہ وائرس چین سے پھیلنے کے شواہد موجود ہیں۔
پوری دنیا اس وقت اس عالمی وبا کے خلاف صف آرا ہے اور اس کے علاج کے حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں۔ کورونا کا دائرہ 40 سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس عالمی وبا کے حوالے سے صرف ایک مثبت بات جو ابھی تک موجود ہے کہ اس میں شرح اموات کا تناسب قدرے کم ہے، جو اس وقت پوری دنیا میں 3 سے 5 فیصد تک شمار کیا جارہا ہے۔ عالمی تحقیقی ادارے اس حوالے سے اپنے لائیو کاؤنٹرز جاری رکھے ہوئے ہیں، جو اعداد و شمار کے حوالے سے کافی حد تک موثر ہیں۔ لیکن ایران جیسے ممالک جہاں سہولیات ناکافی ہیں، وہاں شرح اموات 7 سے 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو یقینی طور پر باعث پریشانی ہے۔ چین نے تو ایک ہفتے میں ہزار بستروں کا اسپتال بنادیا لیکن ایران کےلیے ایسا کرنا ممکن نہیں کہ وسائل ناکافی ہیں۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک جنوبی کوریا ہے۔ جب کہ شمالی کوریا کے حوالے سے میڈیا بے خبر ہے۔ اس لیے وہاں کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات کا فقدان ہے۔ لیکن کوئی شک نہیں کہ وہاں بھی صورتحال ایران جیسی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ ممالک میں جہاں افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک شامل ہے تو امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کا شکار ہے۔ لہٰذا ہم کسی بھی صورت اس عالمی وبا کو محدود علاقے سے منسوب اب نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں ابتدائی دو کیسز کے بعد حکومتی اقدامات پر بے شک تنقید بھی کی گئی اور کی جانی چاہیے کہ تنقید کسی بھی کام میں بہتری کےلیے آبِ حیات ہے۔ آخری معلوم اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد انیس تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہاں صرف تنقید ہی مقصد نہیں کیونکہ کورونا وائرس نہیں دیکھ رہا کہ کون حکومت میں ہے کون اپوزیشن میں۔ حکومت نے ابتدائی مریضوں کو جس انداز سے سنبھالا ہے، اس کی توصیف اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ وبائی مرض ہے، اور پاکستان میں اس وقت تک اسے وبائی صورت اختیار کرنے سے کسی نہ کسی طرح روک کر رکھا گیا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وائرس کے مقامی سطح پر پھیلنے کے ابھی تک شواہد نہیں ملے اور یہ دیارِ غیر سے آنے والے افراد میں موجود پایا گیا اور انہی سے کسی حد تک پھیلا۔
وفاق کے اسپتالوں میں اقدامات اس وقت تک قابل بھروسہ اس لیے ہیں کہ مریضوں کی تعداد کم ہے۔ دوسری جانب کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے راولپنڈی کے یورولوجی انسٹیٹیوٹ میں ہنگامی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ بہترین ہے۔ اس ہنگامی مرکز میں سو بستروں کے اسپتال کی سہولت بھی موجود ہوگی۔ کراچی کا آغا خان اسپتال ہو یا دیگر سرکاری اسپتال، وہاں ہنگامی اقدامات کیے گئے ہیں۔ لیکن جس طرح یہ وبا دنیا کے 109ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ہمیں بہرحال ملک میں طبی ایمرجنسی نافذ کرنے کا سوچنا ہوگا کہ کسی بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ حکومت کو اپنے وسائل کا رخ جہاں اس ناسور کی جانب موڑنا ہوگا، وہاں ایسے مخیر حضرات جو ہر مشکل میں اخباری بیانات کا سہارا لیتے رہے ہیں، انہیں بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے تمام دستیاب وسائل کا رخ پاکستانی عوام کی جانب موڑنا ہوگا۔ فیس ماسک کی قلت اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہمیں ابھی بطور قوم مثبت رجحانات اپنانے میں وقت لگے گا۔ ہم بے شک ایٹمی قوت ہیں لیکن اخلاقیات کے حوالے سے ہمیں ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
حکومت پاکستان نے اس وائرس کے عالمی وبا بنتے ہی چند اہم فیصلے کیے، جو ہوسکتا ہے وقتی طور پر ہمیں ناگوار گزرے ہوں لیکن ان اقدامات کے دور رس نتائج یقینی طور پر پاکستان کےلیے بہتر ہیں۔ حکومتی اقدامات یقینی طور پر بہتری کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ ایران کے ساتھ بارڈر بند کرنا ہو یا حالیہ فیصلے میں افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش، کسی بھی حوالے سے جہاں ہم حکومت کو تنقید کے ہدف کے طور پر تختہ مشق بناتے ہیں، وہاں اچھے فیصلوں کی توصیف اس لیے لازم ہے کہ سراہے جانے سے حکومت مزید بہتر کام کےلیے ہمت پکڑے گی جو مجموعی طور پر پاکستانی عوام کےلیے ہی بہتر ہوگا۔
متاثرہ علاقوں سے پروازوں کی معطلی، سرحدوں کی بندش، ملک کے اندر ہنگامی حالات و سہولیات کی دستیابی یا متاثرہ مریضوں کو باقاعدہ علاج کی سہولیات دینا تمام حوالوں سے تنقید سہنے کو بھی اگر حکومت موجود ہے تو پھر ہمیں بہتر معاملات پر توصیف کو بھی اپنا شعار بنانا ہوگا۔
کوئی بھی ملک اکیلے کورونا وائرس کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔ عالمی ادارے اس حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں اور انہیں کردار ادا کرنا بھی چاہیے۔ پوری دنیا اس وقت تحقیق کرنے والوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہے کہ اس ناسور کا کوئی علاج، کوئی دوا، کوئی حل دریافت کیا جاسکے۔ گلوبل ویلیج میں تمام اکائیاں اس وقت اس عالمی وبا سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی حکومت بھی اس وقت عالمی اکائی کی صورت اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک اور اپنی حکومت کا تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف ساتھ دینا ہوگا بلکہ اپنی تجاویز بھی اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے پیش کرنا ہوں گی تاکہ حکومت پاکستان بہتر انداز سے پاکستانیوں کو اس وبا سے محفوظ رکھ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔