اسٹیم سیل کی بدولت ایچ آئی وی ایڈز کا دوسرا مریض شفایاب
یونیورسٹی آف کیمبرج کے ماہرین نے کہا ہے کہ علاج کے بعد 30 ماہ سے دوائیں نہ لینے والا مریض اب بھی تندرست ہے
WASHINGTON DC:
ایچ آئی وی اور ایڈز کے علاج کے حوالے سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) سے علاج کرنے والا دوسرا مریض اب مکمل طور پر شفایاب قرار دیا گیا ہے۔
اس مریض کا علاج کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا ہے جسے 'لندن کا مریض' کہا گیا ہے جو حقیقت میں وینزویلا کا باشندہ ہے اور خود کینسر کا شکار بھی ہے۔ کئی برس قبل اس کے علاج کے بعد اسٹیم سیل کی افادیت کی خبریں شائع ہوئیں۔ لیکن اب اسے ایڈز اور ایچ آئی وی کی روایتی ادویہ چھوڑے ہوئے بھی 30 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے خون میں متعلقہ مرض کا کوئی وائرس نہیں ملا ہے۔
معالجین کی ٹیم کے سربراہ رویندرا گپتا نے لینسٹ ایچ آئی وی نامی سائنسی جریدے میں اپنی رپورٹ شائع کراتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ سے بڑی حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ مریض ایچ آئی وی ایڈز کے موذی مرض سے نجات پاچکا ہے۔ رویندرا نے بتایا کہ مریض کے جسم میں ہم نے ہر اس مقام کا جائزہ لیا جہاں ایچ آئی وی چھپ کر رہ سکتا ہے لیکن تمام مقامات بالکل صاف ملے ہیں۔
40 سالہ مریض کو 2003 میں ایچ آئی وی کا مریض قرار دیا گیا تھا اور 2012 تک اسے دوا دی جاتی رہی۔ تاہم اگلے برس اسے مہلک کینسر کی ایک قسم، ہاجکنز لمفوما نے آجکڑا۔ 2016 میں کینسر کے علاج کے لیے اس نے ہڈیوں کا گودا منتقل کریا لیکن ساتھ ہی ایک شخص کو ایسے اسٹیم سیل بھی لگائے گئے جو پورے یورپ میں نایاب ہیں اور ایچ آئی وی سے بچانے والی جینیاتی تبدیلی رکھتے ہیں۔
اس طرح یہ مریض اب ایچ آئی وی سے محفوظ ہوچکا ہے جبکہ 2011 میں عین اسی طریقے سے ایک امریکی ٹموتھی براؤن کا کامیاب علاج کیا گیا تھا۔ جبکہ نئے مریض کی کمر کی ہڈی، آنتوں اور لمفی نالیوں کے مائعات وغیرہ میں کسی بھی جگہ ایچ آئی وی کے آثار نہیں ملے ہیں۔ تاہم انہوں نے ایڈز وائرس کے بعض ٹکڑے ضرور دریافت کئے ہیں لیکن ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اب مریض کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
لیکن سائنسداں خبردار کررہے ہیں کہ یہ طریقہ علاج ہر ایک کے لیے شفابخش نہیں جس سے سالانہ دس لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اسی طرح کئی مریضوں پر اسٹیم سیل کا طریقہ آزمایا گیا لیکن یکساں نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ دیگر ماہرین نے بھی کہا ہے کہ یہ علاج ہر مریض کے لیے کارگر ثابت نہ ہوگا۔
ایچ آئی وی اور ایڈز کے علاج کے حوالے سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) سے علاج کرنے والا دوسرا مریض اب مکمل طور پر شفایاب قرار دیا گیا ہے۔
اس مریض کا علاج کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا ہے جسے 'لندن کا مریض' کہا گیا ہے جو حقیقت میں وینزویلا کا باشندہ ہے اور خود کینسر کا شکار بھی ہے۔ کئی برس قبل اس کے علاج کے بعد اسٹیم سیل کی افادیت کی خبریں شائع ہوئیں۔ لیکن اب اسے ایڈز اور ایچ آئی وی کی روایتی ادویہ چھوڑے ہوئے بھی 30 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے خون میں متعلقہ مرض کا کوئی وائرس نہیں ملا ہے۔
معالجین کی ٹیم کے سربراہ رویندرا گپتا نے لینسٹ ایچ آئی وی نامی سائنسی جریدے میں اپنی رپورٹ شائع کراتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ سے بڑی حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ مریض ایچ آئی وی ایڈز کے موذی مرض سے نجات پاچکا ہے۔ رویندرا نے بتایا کہ مریض کے جسم میں ہم نے ہر اس مقام کا جائزہ لیا جہاں ایچ آئی وی چھپ کر رہ سکتا ہے لیکن تمام مقامات بالکل صاف ملے ہیں۔
40 سالہ مریض کو 2003 میں ایچ آئی وی کا مریض قرار دیا گیا تھا اور 2012 تک اسے دوا دی جاتی رہی۔ تاہم اگلے برس اسے مہلک کینسر کی ایک قسم، ہاجکنز لمفوما نے آجکڑا۔ 2016 میں کینسر کے علاج کے لیے اس نے ہڈیوں کا گودا منتقل کریا لیکن ساتھ ہی ایک شخص کو ایسے اسٹیم سیل بھی لگائے گئے جو پورے یورپ میں نایاب ہیں اور ایچ آئی وی سے بچانے والی جینیاتی تبدیلی رکھتے ہیں۔
اس طرح یہ مریض اب ایچ آئی وی سے محفوظ ہوچکا ہے جبکہ 2011 میں عین اسی طریقے سے ایک امریکی ٹموتھی براؤن کا کامیاب علاج کیا گیا تھا۔ جبکہ نئے مریض کی کمر کی ہڈی، آنتوں اور لمفی نالیوں کے مائعات وغیرہ میں کسی بھی جگہ ایچ آئی وی کے آثار نہیں ملے ہیں۔ تاہم انہوں نے ایڈز وائرس کے بعض ٹکڑے ضرور دریافت کئے ہیں لیکن ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اب مریض کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
لیکن سائنسداں خبردار کررہے ہیں کہ یہ طریقہ علاج ہر ایک کے لیے شفابخش نہیں جس سے سالانہ دس لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اسی طرح کئی مریضوں پر اسٹیم سیل کا طریقہ آزمایا گیا لیکن یکساں نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ دیگر ماہرین نے بھی کہا ہے کہ یہ علاج ہر مریض کے لیے کارگر ثابت نہ ہوگا۔