حکومت کا سرمایہ کاروں کے لیے مراعاتی پیکیج
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو اسلام آباد میں بزنس مین کمیونٹی کے نمایندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک...
وزیر اعظم نواز شریف۔ فوٹو: فائل
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو اسلام آباد میں بزنس مین کمیونٹی کے نمایندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں تجارت اور زراعت کی ترقی کے لیے بزنس اور ایگری کلچرل ایڈوائزری کونسل تشکیل دینے اور تجارت و سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے جامع مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ انھوں نے تاجروں اور صنعتکاروں سے کہا کہ گرین فیلڈ انڈسٹریل پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے سرمائے کے ذرایع سے متعلق چھان بین نہیں کی جائے گی تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس شعبے میں یکم جنوری 2014ء یا اس کے بعد منصوبہ شروع کیا جائے' اس میں کم از کم ڈھائی کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جائے' استثنیٰ کی سہولت کیپٹیو پاور پلانٹس' کم لاگت کی ہائوسنگ اسکیم' لائیو اسٹاک کے علاوہ تھرکول' بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مائننگ اور کوائرنگ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر بھی حاصل ہوگی' البتہ اسلحہ' بارود' کھاد' چینی' سگریٹ' مشروبات' سیمنٹ' ٹیکسٹائل اسپننگ یونٹس' فلور ملز' ویجی ٹیبل گھی اور کوکنگ آئل کے کارخانوں میں سرمایہ کاری پر یہ سہولت حاصل نہیں ہو گی۔
اس وقت ملک کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں' توانائی کے بحران اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث ملکی سرمایہ کار یہاں اپنا سرمایہ لگانے کے بجائے اسے بیرون ملک منتقل کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ جب ملکی سرمایہ کار ہی اپنا سرمایہ یہاں محفوظ نہیں سمجھتا تو ایسی گمبھیر اور پیچیدہ صورتحال میں غیر ملکی سرمایہ کار یہاں کیا آئے گا۔ جب سرمایہ کار کو اغوا برائے تاوان' بھتہ خوری اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ ایسے میں اپنا سرمایہ یہاں کیسے لگائے گا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امن ہو گا تو ملک ترقی کرے گا' حکومت کراچی میں امن قائم کرنا چاہتی ہے' آپریشن سے حکومت کو نتائج مل رہے ہیں' ایک وقت آئے گا کراچی کا شمار پرامن ترین شہروں میں ہو گا' کراچی میں وقتی آپریشن نہیں ہے اور یہ کام ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔ کراچی کی صورتحال انتہائی خراب ہے' پاکستان کا سب سے بڑا معاشی شہر ہونے کے باوجود یہ سرمایہ کاری کے لیے محفوظ نہیں رہا اور یہاں کا سرمایہ کار دوسرے محفوظ علاقوں کی جانب بھاگ رہا ہے۔
جب تک کراچی میں امن نہیں ہو گا سرمایہ کار حکومتی اپیلوں اور دعوئوں پر دھیان نہیں دے گا۔ سرمایہ ہمیشہ جائے امن کی جانب سفر کرتا ہے' اسے زبردستی نہیں روکا جا سکتا۔ حکومت نے کراچی آپریشن کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا تھا' آپریشن کے دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے مگر ابھی تک کراچی کے حالات اتنے بہتر نہیں ہوئے کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے پر کشش بن سکے۔ وزیر اعظم نے تاجروں اور صنعتکاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مختلف ترغیبات دی ہیں حتیٰ کہ انھیں یہاں تک سہولت دی ہے کہ ان کے سرمائے کے ذرایع سے متعلق چھان بین نہیں کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے ان میں سرمایہ کاری کی ضرورت تو ہے اس سے ملک ترقی کرے گا اور روز گار کے نئے وسائل پیدا ہوں گے مگر دیگر شعبوں کھاد' گھی اور کوکنگ آئل وغیرہ کے لیے یہ سہولت نہ دینے سے سرمایہ کاری کا دائرہ محدود ہو جائے گا اور بہت کم سرمایہ کار حکومت کے متعین کردہ شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔
حکومت اگر سرمایہ کاری کا عمل تیز کرنا اور ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دینا چاہتی ہے تو اسے دوسرے تمام شعبوں میں بھی ایسی ہی ترغیبات دینا چاہئیں۔ وزیر اعظم نے زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے 400 ٹیکس دہندگان کو خصوصی شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا جس کے تحت انھیں ہوائی اڈوں پر وی آئی پی لائونج استعمال کرنے' امیگریشن کائونٹروں پر تیز تر کلیئرنس' بلا معاوضہ پاسپورٹ کی سہولت کے علاوہ ان کا بیگیج الائونس پانچ سو ڈالر سے ساڑھے پانچ ہزار ڈالر تک بڑھایا جائے گا' اس کے علاوہ ہر کیٹیگری میں دس بڑے ٹیکس دہندگان کو ایکسی لینس ایوارڈ دیے جائیں گے' انھیں آڈٹ سے بھی استثنیٰ حاصل ہو گا۔
ہمارے ہاں ٹیکس چوری کا رواج عام ہے۔ نہ صرف بڑے بڑے سرمایہ کار بلکہ بااثر سیاستدان' ارکان اسمبلی اور حکومتی ارکان کی بھی ایک بڑی تعداد دیانت داری سے اپنا ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ عوامی حلقوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ سرمایہ کار اور تاجر ٹیکس چوری کے لیے ٹیکس کلکٹر کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ٹیکس کا ایک حصہ قومی خزانے میں جانے کے بجائے بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ حکومت کو ایسے سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہو گی ورنہ حکومت سرمایہ کاروں کو دی گئی ترغیبات کے فوائد سے مستفید نہ ہو سکے گی۔ حکومت سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے ابھار تو رہی ہے مگر جب سرمایہ کار یہ دیکھتا ہے کہ ملک کی حکمران اشرافیہ بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہی ہے' وہاں ان کے بڑے بڑے کاروبار اور فلیٹس ہیں اور وہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں دیگر سرمایہ کار حکومتی اپیلوں پر کیسے کان دھریں گے۔
حکمران اشرافیہ سب سے پہلے اپنا بیرون ملک پڑا سرمایہ اندرون ملک لائے تا کہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو۔ حکومت اپنی پالیسیوں کو درست خطوط پر چلائے سرمایہ کاری کا دائرہ خود بخود بڑھتا چلا جائے گا۔ ملک میں ایک جانب توانائی کا بحران ہے تو دوسری جانب دستیاب توانائی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے، پٹرول کی قیمتوں میں کچھ عرصہ بعد ہی اضافے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت پٹرول کی قیمتوں کا تعین سالانہ بنیادوں پر کرے، بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرے تا کہ مصنوعات کی پیداواری لاگت کم ہو کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے صنعتکاری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ حکومت محدود شعبوں کے لیے مراعاتی پیکیج دینے کے بجائے اس کا دائرہ تمام شعبوں تک بڑھائے تا کہ سرمایہ کاری کا عمل تیز ہو اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہو۔