کیا پنجابی ثقافت معدوم ہورہی ہے

پنجابی ثقافت کے ساتھ یہ ظلم صرف پاکستانی پنجاب میں ہوا، بھارتی پنجاب میں آج بھی ثقافت زندہ ہے


14 مارچ کو پنجاب کی ثقافت کے دن عہد کریں کہ ہم اس ثقافت کو آباد کریں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پنجابی ثقافت کا عالمی دن 14 مارچ کو سوشل میڈیا پوسٹس، تقاریب اور واک کے ذریعے منایا جائے گا۔ یعنی پنجاب کی زبان، ادب، تہذیب، روایات، کھانے، تاریخ، قانون، رسوم و رواج، فن اور اخلاقیات کو دور جدید کے تقاضوں سے روشناس کرایا جائے گا۔ اردو اور انگریزی زبانوں میں تقاریر ہوں گی۔ شلوار قمیض اور جینز میں ملبوس نوجوان لڑکے اور لڑکیاں واک کریں گے۔ فاسٹ فوڈ کے ذریعے ریفریشمنٹ دی جائے گی۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا پر 'سیو مائی پنجاب' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹس ہوں گے۔ کسی مشہور ہندی، اردو اور انگریزی گانے کی دھن بجائی جائیں گی اور اس کے بعد اللہ اللہ خیر صلا۔

میں پنجابی نہیں ہوں۔ پنجابی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل نہیں ہے۔ مغربی لباس پہنتا ہوں۔ اردو گانے بھی سن لیتا ہوں، لیکن جب بھی غصہ آتا ہے تو ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں موٹی سی گالی دینے سے گریز نہیں کرتا۔ یعنی محبت کے اظہار کےلیے میں انگریزی کا سہارا لیتا ہوں لیکن نفرت کے وقت مجھے پنجاب کی یاد ستاتی ہے۔ میں بلھے شاہ ، شاہ فرید، وارث شاہ کی نگری میں رہتے ہوئے بھی پنجابی کو محبت کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناسکا۔ یہ میری کہانی نہیں ہے۔ یہ پنجاب میں بسنے والے ہر فرد کی داستان ہے۔ یہ ہر پنجابی کا المیہ ہے کہ تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے کرتے یہ لوگ اپنی تہذیب، روایات اور ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

گزشتہ دنوں دوستوں کی ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ سوال و جواب کی نشست جاری تھی اور ہم سبھی دوست اردو میں بات کر رہے تھے۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہم سبھی دوست اپنی ماں بولی میں بات نہیں کررہے تھے۔ ہم اپنی زبان کے میٹھے لہجے سے شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ زراعت پنجاب کا اہم پیشہ ہے۔ یہاں کا کسان گندم کی کاشت اور کٹائی کے وقت خوشی سے نہال ہوتا ہے۔ گندم کی کاشت کے وقت پنجاب میں لوہڑی کا تہوار جبکہ جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے، اسے اپنی محنت کا پھل ملنے کو ہوتا ہے۔ اس موقع پر ڈھول کی تھاپ، رنگ برنگ لنگیاں، دھوتیاں، تہبند، کرتے، پاجامے زیب تن کیے رقص کرتے ہیں۔ چوڑیوں کی جھنکار میں گھاگھرا پہنے دوشیزائیں لوک گیت گاتی ہیں۔ ہر طرف رنگوں کی برسات ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔

اب پنجاب کے دیہاتوں میں ٹریکٹر کے ذریعے فصل کاشت کی جاتی ہے اور ہارویسٹر فصل کو کاٹ لیتا ہے۔ اب تہواروں کی جگہ کسان آڑھتی کی تلاش میں مگن ہوجاتا ہے۔ اب وہ ڈانس کے بجائے سرکاری دفاتر کے چکروں میں اپنا وقت برباد کرتا ہے۔ لڑکیاں گھاگھرا پہنے لوک گیت گنگنانے کے بجائےاعلیٰ ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے اپنے مستقبل کے خیالوں میں مگن ہوجاتی ہیں۔ وہ دعا کرتی ہیں کہ اس بار فصل کی قیمت اچھی لگے تاکہ ان کا باپ ان کی شادی کروا سکے۔ آج میاں محمد بخش، بلھے شاہ، غلام فرید اور وارث شاہ کا کلام نہیں سنا جاتا۔ اب ڈھول، بانسری، گھڑا، طبلہ، سرنگی، چمٹا، ستار اور ہارمونیم کی آوازیں نہیں گونجتیں۔ اب موسیقار کمپیوٹر پر بیٹھ کر موسیقی ترتیب دیتے ہیں۔ خود ہی چند بے ترتیب جملے لکھ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر سر بازار موسیقی کی توہین کررہے ہوتے ہیں۔ اب میلے نہیں لگائے جاتے۔ اب مقامی تہوار نہیں ہوتے، اب لوک فنکار فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔

پنجابی ثقافت کے ساتھ یہ ظلم صرف پاکستانی پنجاب میں ہوا، بھارتی پنجاب میں آج بھی ثقافت زندہ ہے۔ بھارتی پنجاب میں پنجابی ثقافت کے تحفظ کا آغاز1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعدسکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے نتیجے میں شروع ہوا ، مشرقی پنجاب کے پنجابی جو 1947ء سے پہلے سیاسی طور پر خوابِ غفلت کا شکار تھے ہوش میں آ گئے اور آہستہ آہستہ انہوں نے پنجابی دیسی میوزک اور پنجابی پہچان کی دیگر چیزوں کو اپنا کر دنیا میں ایک الگ مقام اور شناخت بنانا شروع کر دی۔ یورپی یونین کے ایک سروے کے مطابق تقریباً اڑھائی کروڑ پنجابی مشرقی پنجاب میں آباد ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں مشرقی پنجاب کے لوگ امریکہ،برطانیہ، کینیڈا، ملائیشیا ،سنگاپور اور دنیا بھر میں مقیم ہیں۔ جن کی نئی نسل پنجابی ثقافت کا علم اٹھائے ہوئے ہے۔

اس وقت جبکہ پنجابی ثقافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ثقافت کے خاتمے کے محرکات کیا ہیں۔ ہمیں اپنا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ اگر ہم پنجابی لباس، کھانوں اور زبان کو شرمندگی کا باعث سمجھیں، پینڈو کو گالی بنا دیں تو ظاہر سی بات ہے ثقافت نے معدوم ہی ہونا ہے۔ اگر ہم کرتے اور دھوتی کو باعث ندامت سمجھیں، پگڑی کے بجائے ہیٹ پہن کر فخر محسوس کریں، بلھے شاہ اور وارث شاہ کے کلام پر مغربی شعرا کے کلام کو ترجیح دیں، ڈھول اور طبلے کی جگہ کی بورڈ میوزک کا استعمال کریں، ہفتوں چلنے والی شادیوں کی تقاریب کو محض شادی ہال تک محدود کردیں، اپنی تاریخ کی جگہ مغربی حوالوں اور دیگر اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کریں، بیساکھی، بسنت کی جگہ ویلنٹائنز ڈے کا انتخاب کریں گے، تو یقین جانیے آئندہ آنے والی نسلیں ہیر رانجھا کے بجائے سنڈریلا کی داستانوں سے آگاہ ہوں گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری سطح پر سرسوں کے پھول کھلتے ہی بسنت کے میلے سجائے جائیں۔ کسانوں کو منڈیوں میں خوار کرنے کئ بجائے میلے آباد کیے جائیں۔ کیفے کلچر کی جگہ ویران ہوتی چوپال کی رونقیں بحال کی جائیں۔ ڈھول کی تھاپ پر ہوتے رقص میں اپنی ثقافت تلاش کی جائے۔ گھاگھرا پہنے، چوڑیاں کھنکھناتی دوشیزائیں جب پنگھٹ پر بیٹھ کر سارے دن کی داستانیں سنائیں گی تو یقین جانیے فیس بک، واٹس ایپ اور اسنیپ چیٹ کے اسٹیٹس بھی دم توڑ دیں گے۔

میں دور جدید اور ترقی کا مخالف ہرگز نہیں ہوں، لیکن معدوم ہوتی پنجاب کی ثقافت پر میرا دل بھی دکھتا ہے۔ میں اپنے پڑوس میں جب بھارتی پنجاب کی فلمیں دیکھتا ہوں، وہاں دیہات کے مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو دل اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اپنے پنجاب میں ماند پڑتی رونقوں پر دکھ اور افسردگی چھا جاتی ہے۔ آئیے! پنجاب کی ثقافت کے دن یہ عہد کریں کہ ہم اس ثقافت کو آباد کریں گے۔ پنجاب کی رونقیں بحال کریں گے۔ کیونکہ ثقافت کی بقا ہی قوموں کی بقا کی ضمانت ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں