مہنگائی کا ریلا
پاکستان میں ہر جانب مہنگائی کا ایک سیل رواں ہے جس میں غریب و متوسط عوام ڈوب ڈوب کر ابھر رہے ہیں اور اپنے بچاؤ کے۔۔۔
پاکستان میں ہر جانب مہنگائی کا ایک سیل رواں ہے جس میں غریب و متوسط عوام ڈوب ڈوب کر ابھر رہے ہیں اور اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن مہنگائی کے اس آکٹوپس نے اپنے ہشت پائوں سے مظلوم عوام کو جکڑ رکھا ہے۔ کسی بھی بازار کا چکر لگائیں تو اندازہ ہو گا کہ مہنگائی کا گراف کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ ذرا ایک نظر اشیائے صرف کی ان بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ڈالیں کہ ٹماٹر 150 روپے کلو، پیاز 80 روپے کلو، لہسن 200 روپے کلو، ادرک 100 روپے کلو، بینگن 80 روپے کلو، آلو 80 روپے کلو، شلجم 60 روپے کلو، گاجر 80 روپے کلو، مٹر 100 روپے کلو، انگور 200 روپے کلو، دالیں 130-100 روپے کلو، تیل، گھی 200 روپے کلو، چاول 140 روپے کلو، آٹا 50 روپے کلو، روٹی 10 روپے، بجلی، گیس کی 16،18 گھنٹے اور ہفتے میں 4،6 دن لوڈ شیڈنگ، پٹرول 110 روپے لیٹر، گیس 130 روپے کلو، بجلی 18، 25 روپے یونٹ، جی ایس ٹی 17 فیصد، پانی لاپتہ، پانی ٹیکس حاضر، پراپرٹی ٹیکس، گین ٹیکس، انکم ٹیکس، یہ ٹیکس وہ ٹیکس، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائم، فرقہ وارانہ قتل و غارت، دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، اربوں روپوں کی کرپشن، قومی اداروں کا بیڑہ غرق، ڈھائی کھرب کے بینک قرض ہڑپ، مائیں اپنے بچوں کو نہروں اور دریائوں میں پھینک رہی ہیں، بھوک سے تنگ لوگ انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں، آئی ایم ایف کی دوسری قسط لینے کے لیے ٹیکسوں اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا، یہ ہے آج کا پاکستان۔
یہ پاکستان ہمارا مسئلہ نہیں ہے جس میں 18 کروڑ عوام برسوں سے زندہ درگور ہیں، ہمارا سب سے بڑا اور قومی مسئلہ ڈرون اور امریکا ہیں، ڈرون حملوں میں 6 سال میں 67 بے گناہ مارے گئے، جس میں اکثر غیر ملکی دہشت گرد ہیں، اس عرصے میں 50 ہزار بے گناہ مسلمان اور پاکستانی بھی مارے گئے اور ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور منتخب حکومت ہے اور طاقتور اپوزیشن ہے، نواز شریف نے 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس کی تمام نااہلیوں کے باوجود ڈسٹرب اس لیے نہیں کیا کہ وہ جمہوریت میں رخنہ اندازی نہیں چاہتے تھے۔ 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت برسر اقتدار آئی اور اپنے وعدوں میں وہ پاکستان کو جنت بنا رہے تھے، لیکن صرف چند ہی مہینوں میں پاکستان جہنم بن گیا۔ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی نواز حکومت کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تا کہ جمہوریت مضبوط ہو۔ ملک کے تازہ دم سیاسی رہنما عمران خان اور ان کے مذہبی ہنموا اپنی ساری توانائیاں ڈرون حملے رکوانے پر لگا رہے ہیں کیونکہ ان حملوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت بدنام ہو رہی ہے، وہ پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کا مطلب مختصر الفاظ میں عوام کی خوش حالی اور ملک میں امن و امان مانا جاتا ہے۔ کیا ہماری جمہوریت آزادی اور خود مختاری کا 18 کروڑ عوام کی خوش حالی اور امن سے کوئی تعلق ہے؟
ہم نے آغاز میں پاکستان کی معاشی صورت حال کی جو مختصر نقشہ کشی کی تھی وہ اس قدر خوفناک ہے کہ ان عذابوں سے گھبرا کر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ لیکن اس ملک کے زندہ 18 کروڑ عوام اپنی اپنی قبروں میں صبر و قناعت کی تصویر بنے لیٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں کے اخبارات کی بڑی خبر بنکاک کے مظاہرے ہیں۔ بنکاک تھائی لینڈ کا صدر مقام ہے جہاں ہزاروں لوگ مہنگائی سے تنگ آ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور سرکاری عمارتوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ تھائی لینڈ میں جمہوریت ہے اور جمہوری طور پر منتخب حکومت قائم ہے، جس کی وزیر اعظم شینا وترا ہیں، تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم موجودہ خاتون وزیر اعظم شینا وترا کے بھائی ہیں۔ جو ملک سے فرار ہیں۔ ان جمہوری حکمرانوں کی حکمرانی کے دور میں مہنگائی نے عوام کو اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ ہجوم در ہجوم لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، اتوار کو بھی ایک لاکھ اسی ہزار سے زیادہ مشتعل عوام نے بنکاک کی سڑکوں پر مہنگائی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ یہ مظاہرین وزیر اعظم شینا وترا سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس سے قبل 2010ء بھی لاکھوں تھائی عوام نے حکومت کے خلاف شدید مظاہرے کیے تھے جن میں 90 سے زیادہ مظاہرین سرکاری فورسز کی گولیوں سے مارے گئے تھے۔ تھائی لینڈ کے حکمران بھائی بہن پر بھاری کرپشن کے الزامات ہیں، جنھیں قانونی استثنیٰ حاصل ہے اور عوام مہنگائی کے ساتھ اس استثنیٰ کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
تھائی لینڈ ایک ایشیائی ملک ہے، اس کا شمار بھی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر پسماندہ ملکوں میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ یہی صورت حال ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے حکمران طبقات کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ مال بنانے پر لگی ہوئی ہے اور اس سیاسی جہاد میں ان کی نظر سے وہ کروڑوں عوام غائب ہو جاتے ہیں جن کے ووٹوں کے طفیل یہ طبقات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر خود تو لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں اور بے چارے عوام بھوک، بیماری، بیروزگاری اور مہنگائی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال ہماری اس فراڈ جمہوریت کا نتیجہ ہے جو عوام کے لیے عذاب جان بنی ہوئی ہے، یہ عذاب اس لیے عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں کہ خواص کی توجہ صرف زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے پر مبذول ہو جاتی ہے اور جب دولت کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے تو کروڑوں عوام کا غربت، بھوک، بیماریوں میں مبتلا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جمہوری ملکوں کے آئین میں اور سیاسی جماعتوں کے منشور میں عوام کی جان و مال کے تحفظ اور ان کی خوش حالی کی ضمانتیں تو شامل ہوتی ہیں لیکن عملاً یہ ضمانتیں حکمران طبقات اور ایلیٹ کے لیے مخصوص ہو جاتی ہیں۔ آئین میں حکمرانوں کو ایسے تحفظات بھی دیے جاتے ہیں کہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف گرفت بھی ممکن نہیں رہتی۔
سیاسی نظام کا اقتصادی نظام سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے اور ہر دور میں حکمران طبقات اپنی حکمرانیوں اور سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسے سیاسی نظام روشناس کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی حکمرانیوں کی لوٹ مار کے تحفظ کا ذریعہ بنے رہیں۔ بلاشبہ سیاسی نظاموں میں جمہوریت ایک ترقی یافتہ نظام کہلا سکتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے اس جمہوریت کو اپنے تحفظ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس خدمت کے عوض وہ جمہوری حکمرانوں کو لوٹ مار کے ایسے مواقع فراہم کرتا ہے کہ دولت سمٹ کر چند ہاتھوں یا چند خاندانوں میں مرتکز ہو جاتی ہے اور دولت پیدا کرنے والے بھوک، مہنگائی، بے کاری جیسے عذابوں کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ منظر نامہ ہم بھارت جیسی سب سے بڑی جمہوریت میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی اپنی تاریخ کی جس بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اگرچہ اس کی ایک بڑی وجہ حکمران طبقات کی نااہلی اور بددیانتی ہے، لیکن اس کی اصل اور بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ میکنزم ہے جو خود کار طریقے سے مہنگائی اور اس قسم کی دوسری برائیوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور اس کا اصل محرک زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہوتا ہے۔ یہ محرک انسانوں کو منافع خوری، کرپشن سمیت ایسی بے شمار برائیوں کے مواقع فراہم کرتا ہے جس کا بدترین شکار بے چارے وہ عوام ہوتے ہیں جو قومی دولت کی تشکیل میں سب سے اہم کردار تو ادا کرتے ہیں لیکن ان کی تشکیل کردہ دولت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ آج بنکاک سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جو عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے وہ بنیادی طور پر اس اقتصادی نظام کا عطیہ ہے۔ حکمران طبقات بھی چونکہ اس اقتصادی نظام کے ایجنٹ ہوتے ہیں لہٰذا وہ عوام سے بے خبر اس نظام کی پیدا کردہ لوٹ مار میں لگے رہتے ہیں۔ اس جمہوریت میں اپوزیشن کی ایک سیاسی طاقت ہوتی ہے جو عوام سے مخلص ہو تو حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں کیونکہ اس نظام میں حکومت اور اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اور قدم قدم پر ایک دوسروں کا سہارا بنتے رہتے ہیں۔ مثلاً مسلم لیگ ن پچھلے پانچ سال تک پی پی حکومت کا سہارا بنی رہی اور اب پی پی شکرانے کے طور پر مسلم لیگی حکومت کا سہارا بن رہی ہے اور ہر بار اس لین دین میں جمہوریت اور جمہوریت کے فروغ کا نام ہی لیا جاتا ہے۔