وزیراعظم نوازشریف چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف
وزیر اعظم نواز شریف نے وہی کمال کیا جو وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور جس کے کرنے پر بعد میں خود ہی کبھی سر کھجاتے ہیں۔۔۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
وزیر اعظم نواز شریف نے وہی کمال کیا جو وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور جس کے کرنے پر بعد میں خود ہی کبھی سر کھجاتے ہیں اور کبھی پاؤں پٹختے ہیں۔ مگر چونکہ وہ ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ ایک بڑی جماعت کے قائد ہیں اور تمام قائدین کی طرح اپنی سیاسی حکمت اور یقین عمل رکھتے ہیں۔ لہذا مستقبل میں ہونے والا اچھا یا برا ہی ان کو سمجھا پائے گا۔ ہمیں فی الوقت ان کے کسی فیصلے پر کوئی خصوصی تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہی کہنا کافی ہے کہ
خدا نے آج تک اس ''قائد'' کی عادت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی عادات کے بدلنے کا
مگر یہ امر اپنی جگہ مسلّم ہے کہ نئے سپہ سالار افواج پاکستان جنرل راحیل شریف کو اس اعلی عہدے پر فائز ہونے کے بعد فوری طور پر مصروف عمل ہو جانا پڑے گا۔ ان کے سامنے اہم کاموں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس کا ایک ایک نکتہ فوری توجہ اور ایسی حکمت عملی کا طلبگار ہے، جس سے گرہیں کُھلیں نا کہ مزید سخت ہو جائیں۔ اس فہرست کے چند معاملات درج ذیل ہیں۔
اندرونی طور پر جنرل راحیل شریف کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے یا نہ کرنے پر حتمی لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ ان کو یہ طے کرنا ہے کہ وہاں پر موجود افواج یوں ہی موجود رہیں گی، کسی عسکری معرکے میں استعمال ہوں گی یا پھر واپس بُلا لی جائیں گی۔ فوج کا حکومت کی طرف سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کل جماعتی اعلامیے کے تحت بات چیت کے عمل پر نقطہ نظر بھی آنے والے دنوں میں واضح کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم نواز شریف بطور سیاستدان ابہام کی کیفیت کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزار سکتے ہیں۔ بطور چیف آف آرمی اسٹاف جس کی بنیادی ذمے داری جنگ اور امن میں اپنے ادارے کی صلاحیت کا بہترین استعمال ہے گو مگوں کی حالت میں گزارا نہیں کر سکتے۔ اندرونی معاملات میں نیٹو سپلائی کی بحالی یا ان پر مسلسل اور مکمل پابندی جو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے جانثاروں نے سڑکوں پر قبضہ کر کے لگا رکھی ہے کے بارے میں بھی فوج کی پالیسی کو واضح کرنا ہو گا۔
چونکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی جاتے جاتے پاکستان میں بننے والے ڈرون فضائیہ کے حوالے کر گئے ہیں۔ نئے سپہ سالار کو ان ہتھیاروں کی موجودگی میں امریکی ڈرونز کے جاری شدہ حملوں کے بارے میں بھی محترم وزیراعظم کو مؤثر مشورہ دینا ہے۔ اگرچہ اب وہ یہ مشورہ براہ راست وزیر اعظم کو دینے کے بجائے وزیر دفاع خواجہ آصف کو دینے کے پابند ہوں گے۔ نئے آرمی چیف کو اس اختیارات کی ترتیب کا خیال رکھنا ہو گا جن پر ان سے پہلے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی شخصیت اور مخصوص حالات کی وجہ سے کوئی خاص توجہ، خصوصی سنجیدگی کے ساتھ نہیں دی تھی۔ اندرونی طور پر جنرل راحیل شریف کو آرمی کے خلاف چلنے والی مہم پر بھی کوئی نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ ان کی تقرری پر چھپنے والے بظاہر تعارفی اور ستائشی تجزیوں میں بھی درباریوں اور کاروباریوں نے آرمی پر بطور ادارہ کئی چھپے ہوئے اور چند ایک کھلے حملے کیے ہیں۔
بعض سیاسی حلقوں، سروس سے ریٹائرڈ افسران اور ذرایع ابلاغ میں موجود ایک خاص نقطہ فکر رکھنے والے عناصر ابھی بھی آرمی کو تنقید کے کھاتے میں روزانہ دو چار بے جا ہاتھ بھی رسید کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو اپنی نئی تقرری کے پہلے دنوں میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ دیکھتے ہیں یہ معاملہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دوسرے قریبی رفقاء کے سامنے کیسے اٹھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہونے والے خاموش اور آج کل دھیمے آپریشن کو بھی کسی سمت لے کے جانا ہو گا۔ اگرچہ ان آپریشنز میں رینجرز استعمال ہو رہی ہیں مگر جنرل شریف سے پہلے ہدایات چیف آف آرمی اسٹاف ہی دیا کرتے تھے۔ کراچی میں فوج اور انٹیلی جنس ادارے کیا کردار ادا کریں گے یہ معاملہ بھی ان کی میز پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گمشدہ افراد کی فائل تو عدالت عظمی نے کھول ہی رکھی ہے۔ اس پر محترم جج صاحبان نے پچھلے دنوں جن آراء کا اظہار کیا ان کو آپ کنٹونمینٹ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر عدلیہ کے رویے سے جوڑ کر دیکھئے تو آپ خود ہی جان لیں گے۔ یہ دونوں مسئلے بھی فوری حل طلب معاملات کی فائل میں باندھنے پڑیں گے۔
یہ تو ہوا پاکستان کا اندر کا ماحول، سرحدوں پر بھی کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ہندوستان پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔ وہاں کی خلاف ورزیوں پر اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں مسلسل خاموشی کو کبھی کبھار وزارت خارجہ کے رسمی احتجاج سے توڑنے کے علاوہ کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آتا۔ وزیر اعظم نواز شریف تجارت کرنا چاہتے ہیں' ہندوستان میں حکومت حملہ کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم ویزے ختم کرنا چاہتے ہیں' ہندوستان سیاچن اور کشمیر ہضم کرنا چاہتا ہے۔ جنرل شریف اور وزیر اعظم شریف اس معاملے پر کتنی ہم آہنگی پیدا کر پائیں گے یہ معاملہ بھی دیکھنے کا ہو گا۔ افغانستان کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔
حامد کرزئی اور وزیر اعظم نواز شریف کی بے بسی عسکری حلقوں کی طرف سے خدشات کے اظہار کے باوجود گہری ہوئے چلی جا رہی ہے۔ ملا برادرز کی رہائی محترم حامد کرزئی کی رضا کے لیے ہی تو کی گئی تھی' اس کے بعدHigh Peace Council کے سربراہ کے ساتھ ان کی ملاقات (جس کی تفصیل میں پھر کبھی بتائوں گا) بھی وزیر اعظم نواز شریف اور حامد کرزئی کی ذاتی سفارتکاری کا نتیجہ تھی۔ اسلام آباد افغانستان کے صدر کا اتنا مداح ہو گیا ہے کہ لندن میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے افغان دوست سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کالعدم تحریک پاکستان کے نمایندگان کو جن میں سے ایک امریکی فوج کے ہاتھوں پکڑا گیا کے ساتھ کس قسم کی اور کس مقصد کے لیے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ فوج کی افغانستان کے معاملات پر کیا پالیسی ہو گی' یہ آنے والے دنوں میں تجزیے کا ایک دلچسپ موضوع بن سکتا ہے۔ باقی رہی امریکا کی بات تو یہ بھی دیکھانا ہو گا کہ جنرل راحیل شریف کتنی جلدی امریکا کا دورہ کرتے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے آخری تین سال میں شاید امریکا کا ایک دورہ بھی نہیں کیا تھا۔ دورہ کرنے یا نہ کرنے سے بھی کہیں زیادہ معاملہ امریکا کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی در اندازی کا کیا جواب دینا ہے۔ اس معاملے کو طے کرنے کے لیے بھی جنرل راحیل شریف کو کافی وقت صرف کرنا پڑے گا۔ باقی رہی فوج کے اندر نئی تقرریوں اور تبدیلیوں کی بات تو اس پر بھی تجزیہ نگاروں کی نظر ہو گی۔ یہ سب کام جنرل راحیل شریف کو تین سال میں کرنے ہیں، وقت کم ہے اور معاملات انتہائی سخت۔ بعض امتحان نتیجے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔