جنون کا نقصان
’’پاکستانی فوج ڈرون طیارے گرائے قوم فوج کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف کی بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزا خاتمے کی۔۔۔
''پاکستانی فوج ڈرون طیارے گرائے قوم فوج کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف کی بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزا خاتمے کی پیشکش پاک بھارت سرحد ختم کرنا ہے۔'' جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے نعروں کی گونج کراچی میں بھی محسوس ہو رہی ہے۔ عمران خان کی نیٹو سپلائی ہر صورت بند کرنے کا اعلان فضا کو مزید جذباتی کر رہا ہے۔ ایسی ہی جذباتی فضا اکتوبر اور نومبر1971ء میں پیدا کی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے پورے ملک میں Crush India کے بینرز آویزاں کیے تھے۔ بسوں، کاروں پر کرش انڈیا کے اسٹیکر چسپاں کیے گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنما جنرل یحییٰ خان سے جہاد کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی' دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلے ہونے کی بناء پر پاکستان مشکل پوزیشن میں تھا۔ اس موقع پر مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ سود مند ثابت نہیں ہو سکتی تھی لیکن یہاں بھی مذہبی جماعتیں تھارت کو کچلنے کے نعرے لگا رہی تھیں۔ بھارت مغربی پاکستان کا محاذ کھولنے کے انتظار میں تھا' یہاں محاذ کھلنے سے پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اور بلا آخر 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور پاکستان ٹوٹ گیا، 80 ہزار فوجی جنگی قیدی بن گئے۔ بھارت نے مغربی پاکستان کے 5 ہزار مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا، ادھر ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے 17دسمبر کو کراچی میں شراب خانوں پر حملے شروع کر دیے، ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ جنرل یحییٰ خان شرابی ہیں اس لیے پاکستان کو شکست ہوئی۔
پاکستان اس وقت ایک مشکل صورتحال میں ہے، طالبان نے قبائلی علاقے میں عملاً ریاست قائم کی ہوئی ہے، ان انتہا پسندوں نے اسکولوں، کالجوں کو تباہ کیا ہے۔ پیرا میڈیکل اسٹاف، پولیو کے قطرے پلانے والے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں، یہ انتہا پسند خودکش اور خودکار بموں کے حملوں سے پشاور اور کوئٹہ میں تباہی مچا رہے ہیں، ان انتہا پسندوں کا نیٹ ورک پنجاب کے سرائیکی علاقے میں بھی خاصا مضبوط ہے، یہ گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے مضافاتی علاقوں پر قابض ہیں، یوں خواتین' مسلمان اقلیتی فرقے اور غیر مسلم ان کے نشانوں پر ہیں، ان انتہا پسندوں نے ہزاروں سال سے قائم لاہور، ملتان، کراچی میں قائم صوفیوں کی آخری آرام گاہوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ طالبان پاکستان کے جدید نظام کے خلاف ہیں پھر پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2000ء میں نیویارک میں ہونے والی نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ایک قرارداد کے ذریعے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا تھا اس طرح دہشت گردی کی ٹھکانوں پر حملوں اور دہشت گردوں کے گرفتاری کے لیے قانونی جواز فراہم کیا تھا، پاکستان میں طالبان کے رہنمائوں کی گرفتاری سے صورتحال خراب ہوئی تھی۔ خاص طور پر جب امریکا اور نیٹو کے نمایندوں نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات لگائے اور جنرل پرویز مشرف اور پھر صدر زرداری نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
لندن میں دہشت گردی کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح کی وارداتوں میں پاکستان کے کسی فرد یا ملک میں روپوش کسی غیر ملکی کے ملوث ہونے کے الزامات سے پاکستان تنہائی کا شکار تھا ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی تنہائی کے خاتمے کے لیے موثر کوشش کی تھی ان کوششوں کی بناء پر امریکا اور یورپ میں پاکستان کا اعتدال پسند امیج ابھر کر سامنے آیا تھا۔2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے کامیاب جمہوری نظام کے 5 سال مکمل ہوئے اور 2013ء میں نئے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کی جمہوری حیثیت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا تھا۔ امریکی اور یورپی ممالک نے پاکستان میں جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو ایک روشن خیال اور جدید ملک کی بڑی پیش رفت قرار دیا مگر میاں نواز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی ملک میں جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش شروع ہوئی، لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ اور پانی کے مسئلے، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے مسئلے پر پروپیگنڈہ ہوا، مذہبی تنظیموں نے جلسے جلوس شروع کر دیے' ان جلسے جلوسوں میں بھارت سے تجارت نہ کرنے اور تعلقات توڑنے پر زور دیا جانے لگا۔
ایک منظم طریقے سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھارت سے رشتہ کیا' نفرت کا جنگ کا نعرے لکھ کے پراپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے یک طرفہ مہم شروع کر دی گئی، اس مہم میں حقائق کو مسخ کیا گیا، ڈرون حملوں میں مرنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں تضاد سامنے آئے، حکومت نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش نہیں کی، اگر امریکا یہ حملے روک دے تو قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبرپختونخوا میں مذہبی انتہا پسندوں کے اڈوں کے خاتمے کے لیے کیا اقدام ہوں گے، منور حسن اور عمران خان نے نیٹو کی سپلائی روکنے کے لیے دھرنے شروع کیے اس طرح میاں نواز شریف کی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی مذمت ہونے لگی۔ بھارت سے دوستی نہ کرنے کے بارے میں دلائل دیے جانے لگے' یوں بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز کر کے ایک جنونی فضا قائم کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سید منور حسن کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کو امریکا اور بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دینا چاہیے مگر پھر کیا ہو گا منور حسن یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک محقق پروفیسر عرفان عزیز نے کہا کہ پڑوسی ملک ایران نے ڈپلومیسی کے جدید ترین طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکا سے طویل عرصے تک خفیہ مذاکرات کیے اور اپنی بعض شرائط منواتے ہوئے امریکا سے معاہدہ کیا۔ ایران نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی یقین دہانی کرا کے خطے میں امن کو مستحکم کیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو مشکل میں ڈال دیا۔ اگر ڈرون طیارے کے حملوں نیٹو فوج کے لیے سپلائی جیسے معاملات پر ڈپلومیسی کو اہمیت دی جاتی تو نتائج زیادہ بہتر برآمد ہوتے۔
منور حسن اس طرح انتہا پسندانہ نعرے لگا کر پاکستان کو تنہائی کا شکار کر رہے ہیں، عمران خان اپنے بیانات سے جنون کو تقویت دے رہے ہیں۔ اگر عمران خان نومبر سے دسمبر 1971ء کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو انھیں جنون پھیلانے کے نقصانات کا صحیح اندازہ ہو گا اور ملک کے حق میں صحیح فیصلہ کریں گے۔
پاکستان اس وقت ایک مشکل صورتحال میں ہے، طالبان نے قبائلی علاقے میں عملاً ریاست قائم کی ہوئی ہے، ان انتہا پسندوں نے اسکولوں، کالجوں کو تباہ کیا ہے۔ پیرا میڈیکل اسٹاف، پولیو کے قطرے پلانے والے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں، یہ انتہا پسند خودکش اور خودکار بموں کے حملوں سے پشاور اور کوئٹہ میں تباہی مچا رہے ہیں، ان انتہا پسندوں کا نیٹ ورک پنجاب کے سرائیکی علاقے میں بھی خاصا مضبوط ہے، یہ گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے مضافاتی علاقوں پر قابض ہیں، یوں خواتین' مسلمان اقلیتی فرقے اور غیر مسلم ان کے نشانوں پر ہیں، ان انتہا پسندوں نے ہزاروں سال سے قائم لاہور، ملتان، کراچی میں قائم صوفیوں کی آخری آرام گاہوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ طالبان پاکستان کے جدید نظام کے خلاف ہیں پھر پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2000ء میں نیویارک میں ہونے والی نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ایک قرارداد کے ذریعے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا تھا اس طرح دہشت گردی کی ٹھکانوں پر حملوں اور دہشت گردوں کے گرفتاری کے لیے قانونی جواز فراہم کیا تھا، پاکستان میں طالبان کے رہنمائوں کی گرفتاری سے صورتحال خراب ہوئی تھی۔ خاص طور پر جب امریکا اور نیٹو کے نمایندوں نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات لگائے اور جنرل پرویز مشرف اور پھر صدر زرداری نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
لندن میں دہشت گردی کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح کی وارداتوں میں پاکستان کے کسی فرد یا ملک میں روپوش کسی غیر ملکی کے ملوث ہونے کے الزامات سے پاکستان تنہائی کا شکار تھا ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی تنہائی کے خاتمے کے لیے موثر کوشش کی تھی ان کوششوں کی بناء پر امریکا اور یورپ میں پاکستان کا اعتدال پسند امیج ابھر کر سامنے آیا تھا۔2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے کامیاب جمہوری نظام کے 5 سال مکمل ہوئے اور 2013ء میں نئے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کی جمہوری حیثیت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا تھا۔ امریکی اور یورپی ممالک نے پاکستان میں جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو ایک روشن خیال اور جدید ملک کی بڑی پیش رفت قرار دیا مگر میاں نواز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی ملک میں جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش شروع ہوئی، لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ اور پانی کے مسئلے، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے مسئلے پر پروپیگنڈہ ہوا، مذہبی تنظیموں نے جلسے جلوس شروع کر دیے' ان جلسے جلوسوں میں بھارت سے تجارت نہ کرنے اور تعلقات توڑنے پر زور دیا جانے لگا۔
ایک منظم طریقے سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھارت سے رشتہ کیا' نفرت کا جنگ کا نعرے لکھ کے پراپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے یک طرفہ مہم شروع کر دی گئی، اس مہم میں حقائق کو مسخ کیا گیا، ڈرون حملوں میں مرنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں تضاد سامنے آئے، حکومت نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش نہیں کی، اگر امریکا یہ حملے روک دے تو قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبرپختونخوا میں مذہبی انتہا پسندوں کے اڈوں کے خاتمے کے لیے کیا اقدام ہوں گے، منور حسن اور عمران خان نے نیٹو کی سپلائی روکنے کے لیے دھرنے شروع کیے اس طرح میاں نواز شریف کی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی مذمت ہونے لگی۔ بھارت سے دوستی نہ کرنے کے بارے میں دلائل دیے جانے لگے' یوں بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز کر کے ایک جنونی فضا قائم کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سید منور حسن کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کو امریکا اور بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دینا چاہیے مگر پھر کیا ہو گا منور حسن یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک محقق پروفیسر عرفان عزیز نے کہا کہ پڑوسی ملک ایران نے ڈپلومیسی کے جدید ترین طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکا سے طویل عرصے تک خفیہ مذاکرات کیے اور اپنی بعض شرائط منواتے ہوئے امریکا سے معاہدہ کیا۔ ایران نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی یقین دہانی کرا کے خطے میں امن کو مستحکم کیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو مشکل میں ڈال دیا۔ اگر ڈرون طیارے کے حملوں نیٹو فوج کے لیے سپلائی جیسے معاملات پر ڈپلومیسی کو اہمیت دی جاتی تو نتائج زیادہ بہتر برآمد ہوتے۔
منور حسن اس طرح انتہا پسندانہ نعرے لگا کر پاکستان کو تنہائی کا شکار کر رہے ہیں، عمران خان اپنے بیانات سے جنون کو تقویت دے رہے ہیں۔ اگر عمران خان نومبر سے دسمبر 1971ء کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو انھیں جنون پھیلانے کے نقصانات کا صحیح اندازہ ہو گا اور ملک کے حق میں صحیح فیصلہ کریں گے۔