امن فراہم کرنا کس کی ذمے داری ہے
ایک عرصہ ہوا ہے کہ ہم شف شف کر رہے ہیں، آج شفتالو کہہ ہی ڈالتے ہیں کیونکہ اب دل میں مزید گنجائش باقی نہیں رہی اور۔۔۔
ایک عرصہ ہوا ہے کہ ہم شف شف کر رہے ہیں، آج شفتالو کہہ ہی ڈالتے ہیں کیونکہ اب دل میں مزید گنجائش باقی نہیں رہی اور پھٹنے سے پہلے ہی ہمیں اس کُکر کا والو کھول ہی دینا چاہیے، اب تک تو حافظؔ کے پیروکار رہے اور
ببانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا
کہ از نہفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
لیکن اب اس سے پہلے کہ بہت زیادہ نہفتن سے یہ دیگ پھٹ جائے، اس کا ڈھکن کھول کر سب کچھ اگل دینا چاہیے، وہ سب کچھ جو گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے سینے میں لاوے کی طرح ابل رہا ہے کیونکہ دھماکوں اور مزید دھماکوں اور پھر مزید دھماکوں کے ساتھ ان سرکاری و غیر سرکاری بیانات نے بھی ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے جن میں کوئی دم ہی نہیں اور صرف دُم ہلانے پر مبنی ہیں، اوپر سے شہر شہر، سڑک سڑک، گلی گلی اور دفتر دفتر میں قدم قدم پر وہ ذلالت جسے قانون نافذ کرنا کہا جاتا ہے، اب تک ہم کوئی ایک ہزار ایک ایسی تقاریب کانفرنسیں اور مشاعرے وغیرہ بھگت چکے ہیں جن میں ''امن کی تمنا'' نامی کسی نادیدہ حسینہ کا ذکر ہوتا رہا ہے ، کوئی ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک کالم بھی ایسے پڑھ چکے ہیں جن میں امن امن اور مزید امن کی ضرورت پر ''زور'' دیا گیا تھا، اس سے دگنی تعداد میں کتابیں، نظمیں، غزلیں اور گیت بھی بھگت چکے ہیں جن میں زور ہی زور تھا اور صرف امن پر تھا، یہ سب کچھ اپنے اندر اتارنے کے بعد ہماری جو حالت ہے وہ صرف ہم ہی جانتے ہیں اور اس جانکاری کے ساتھ کہ یہ سارے لوگ جھوٹ اور صرف جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں بولتے، سارے کے سارے ہاتھی ہیں اور صرف دو ہی دانت دکھا رہے ہیں اور مزید بری خبر یہ ہے کہ لوگ اب بھی باز نہیں آ رہے ہیں بدستور امن پر تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور وہی فضولیات بول رہے ہیں۔
فضولیات کے لفظ پر چونکنے کی ضرورت نہیں لیکن آخر آپ اس چیز کو اور کیا کہیں گے جو سرے سے ممکن نہیں ہو، اگر ایک اندھا دیکھنے کی بات کرے، ایک بہرا سننے کا قصہ سنائے، اپاہج دوڑنے کی بات کرے اور ننگا لٹ جانے کا خطرہ جتائے تو یہ فضولیات نہیں تو اور کیا ہیں، ان امن کمیٹیوں کانفرنسوں تقاریر و تحاریر میں کیا ہوتا ہے کہ آگے آئیں اور امن قائم کرنے کی کوشش کریں، عوام اٹھ کھڑے ہوں اور معاشرے سے تشدد کا خاتمہ کریں، آئو سب مل کر امن قائم کرنے کے لیے آواز اٹھائیں، اکثر تقاریب میں ایسی بات پر جی چاہتا ہے کہ اٹھ کر پورے زور سے چلائیں، کہ تیری آواز کی ایسی کی تیسی، تیری میری آواز سنتا ہی کون ہے، یہاں تو ہماری اتنی بھی حیثیت نہیں کہ خود کو ایک ووٹ اور ایک ہندسے کے درجے سے اٹھا کر ایک انسان کے طور پر رجسٹر کریں لیکن خوف فساد خلق سے چپ رہ کر صرف میر تقی میرؔ ہو جاتے ہیں،
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کر ے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے ''سپیدو سیہ'' میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
مجھے تو اتنا حق بھی نہیں ہے کہ اپنے شہر کی اپنی سڑک پر دو گام بھی اطمینان سے چل سکوں، اتنا بھی اختیار نہیں کہ اپنی مکمل بے عزتی پر اف بھی کر سکوں، اپنے ملک اپنے صوبے اور اپنے شہر کے کسی دفتر میں جا سکوں اور اپنے کسی ''خادم'' سے مل سکوں، تو پھر میں کیسے امن قائم کر سکتا ہوں، بات کرتے ہیں، آؤ امن قائم کریں، امن کی ماں کو اس کی بہن روئے وہ میری مانے تو کچھ کہوں ۔۔۔ وہ تو مجھے ہاتھ رکھنے نہیں دے رہا ہے،
وہ ہے تمہاری ناک کٹانے کی فکر میں
تو کہہ رہی ہے میرے لیے نتھ بنا کے لا
سیدھی سی بات ہے ہم عوام ہیں ہمارا کام ہے خون پسینہ ایک کر کے کمانا تعمیر کرنا بنانا اور پیدا کرنا ۔۔۔ یہ امن و امان، حفاظت اور قانون وغیرہ کی ذمے داری تو دوسروں کی ہے اور اس کا ہم سے منہ مانگا اور من چاہا معاوضہ وصول کرتے ہیں، ہم زیادہ سے زیادہ چھتے کی مکھیاں ہیں کہ کارکنوں کا کام صرف رس لانا ہوتا ہے، چھتے کی شہد کی اور ملکہ کی حفاظت تو دوسروں کے ذمے جو عمر بھر آرام سے بیٹھے رہتے ہیں، پیٹ بھر کر کھاتے ہیں، آرام سے رہتے ہیں ہم تو ہزار خطروں اور موت سے لڑ کر شہد جمع کر لیتے ہیں تو کیا چھتے کی اور ان نکھٹوؤں کی حفاظت بھی ہم کریں؟ کیا ہنسنے کی بلکہ رونے کی بات ہے کہ چھتے میں آرام سے بیٹھ کر بھی وہ اپنے گرد حفاظتی حصار قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ یوں کہیے ہماری حفاظت کرنے کے بجائے ہم سے اپنی حفاظت کروا رہے ہیں، یہ جس کا نام حکومت ہے یہ جو بڑے بڑے نام والے حاکم ہیں یہ جو ہمارا خون پسینہ نچوڑ کر بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں ، مراعات پاتے ہیں اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر عیش کرتے ہیں ۔کیا یہ صرف کھیت میں کھڑے ہوئے ''پتلے'' ہیں، اس میں تو کوئی سمجھنے سمجھانے کی بات ہے ہی نہیں کہ جس کام کے لیے کوئی معاوضہ لیتا ہے تو اسے وہ کام کرنا چاہیے ہم کوئی بادشاہ اور نواب نہیں ہیں۔
غریب محنت کش اور بے سرو سامان عوام ہیں تو پھر اپنے دروازے پر صرف سفید ہاتھی کیسے باندھ کر پال سکتے ہیں، ایسے سفید ہاتھی جو ہمارے پورے کھیت میں جھومتے دندناتے پھرتے ہیں، سب کچھ نگل جاتے ہیں جو ان سے بچ جاتا ہے وہی ہماری قسمت میں ہوتا ہے، کیونکہ چاہے دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہو کتے کی قسمت میں صرف چاٹنا ہی لکھا ہوتا ہے، گدھا چاہے کچھ بھی ڈھوئے اس کی قسمت میں کوڑے پر چرنا لکھا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں آخر ہم نے سفید ہاتھی کس لیے پالے ہیں اور پال رہے ہیں، ہاتھی کے دانت تو دکھانے کے ہوتے ہی ہیں لیکن کیا ہم بھی ہاتھی ہیں جو صرف پکانے کے لیے ہاتھی پا لیں، ''حکومت'' جس چیز کا نام ہوتا ہے چاہے وہ قدیم زمانوں کی بادشاہت رہی ہو، سردار قبیلہ کی شکل میں ہو یا موجودہ نام نہاد جمہوریت کے نام سے ہو حتیٰ کہ اگر اس کی شکل آمریت کی ہی کیوں نہ ہو اس کا واحد کام اپنے ملک اپنے وطن اور اپنی رعیت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، آج کی جدید اور صحیح معنی میں جمہوری حکومتیں تو حفاظت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ذمے داریاں اٹھاتی ہیں مثال کے طور پر ہر شریف حکومت چار چیزوں کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں
(1) امن و امان اور اپنی رعایا کو ہر آفت سے تحفظ دینا
(2) رعایا کی صحت کے لیے ضروری اقدامات کرنا
(3) رعایا کو تعلیم فراہم کرنا
(4) روزگار کا بندوبست کرنا اور روزگار کو تحفظ دینا
لیکن ہماری حکومتیں ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتیں، صحت، تعلیم اور روزگار کا جو حال ہے وہ تو سب کو معلوم ہے کہ کسی نے خود کچھ کیا تو کیا، حکومت کی طرف سے جو بندوبست ہے اس کا نہ ہونا، ہونے سے بدرجہا بہتر ہے باقی رہ جاتی ہے حفاظت تو اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اپنی سیکیورٹی خود نہیں کی تو بھرے پرے بازاروں میں بھی کوئی محفوظ نہیں بلکہ حفاظت کے نام پر جو حکومتی ادارے ہیں حکومت ان کی بھی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے خود ان اداروں نے بھی اپنے آپ کو قلعہ بند کر رکھا ہے جیسے شر پسندوں نے ان کو یرغمال بنا رکھا ہے، حالانکہ حکمرانی کی ابتداء اس سے ہوئی تھی کہ جو سردار قبیلہ سے لے کر موجودہ جمہوری دور تک جاری ہے کہ عوام ہمیں پالیں پوسیں، مفت کی کھلائیں، بھاری معاوضے دیں کیونکہ ہم ان کے محافظ ہیں ''محافظت'' کے علاوہ آخر حکومت کا دوسرا کام کیا ہے؟ فنڈز کھانا تنخواہیں وصول کرنا اور قوم کے نام پر سودی قرضے لے کر ہڑپنا اور سود سمیت ادائیگی کو عوام کے ذمے لگا کر چلے جانا؟ جو لوگ امن امن کر کے کمیٹیاں اور تنظیمیں بنا رہے ہیں ان کو چاہیے کہ سب سے پہلے ان ہی محافظوں سے پوچھیں کہ جو کام تم کر نہیں رہے ہو اس کا بھاری معاوضہ کیوں وصول کر رہے ہو؟
ببانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا
کہ از نہفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
لیکن اب اس سے پہلے کہ بہت زیادہ نہفتن سے یہ دیگ پھٹ جائے، اس کا ڈھکن کھول کر سب کچھ اگل دینا چاہیے، وہ سب کچھ جو گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے سینے میں لاوے کی طرح ابل رہا ہے کیونکہ دھماکوں اور مزید دھماکوں اور پھر مزید دھماکوں کے ساتھ ان سرکاری و غیر سرکاری بیانات نے بھی ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے جن میں کوئی دم ہی نہیں اور صرف دُم ہلانے پر مبنی ہیں، اوپر سے شہر شہر، سڑک سڑک، گلی گلی اور دفتر دفتر میں قدم قدم پر وہ ذلالت جسے قانون نافذ کرنا کہا جاتا ہے، اب تک ہم کوئی ایک ہزار ایک ایسی تقاریب کانفرنسیں اور مشاعرے وغیرہ بھگت چکے ہیں جن میں ''امن کی تمنا'' نامی کسی نادیدہ حسینہ کا ذکر ہوتا رہا ہے ، کوئی ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک کالم بھی ایسے پڑھ چکے ہیں جن میں امن امن اور مزید امن کی ضرورت پر ''زور'' دیا گیا تھا، اس سے دگنی تعداد میں کتابیں، نظمیں، غزلیں اور گیت بھی بھگت چکے ہیں جن میں زور ہی زور تھا اور صرف امن پر تھا، یہ سب کچھ اپنے اندر اتارنے کے بعد ہماری جو حالت ہے وہ صرف ہم ہی جانتے ہیں اور اس جانکاری کے ساتھ کہ یہ سارے لوگ جھوٹ اور صرف جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں بولتے، سارے کے سارے ہاتھی ہیں اور صرف دو ہی دانت دکھا رہے ہیں اور مزید بری خبر یہ ہے کہ لوگ اب بھی باز نہیں آ رہے ہیں بدستور امن پر تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور وہی فضولیات بول رہے ہیں۔
فضولیات کے لفظ پر چونکنے کی ضرورت نہیں لیکن آخر آپ اس چیز کو اور کیا کہیں گے جو سرے سے ممکن نہیں ہو، اگر ایک اندھا دیکھنے کی بات کرے، ایک بہرا سننے کا قصہ سنائے، اپاہج دوڑنے کی بات کرے اور ننگا لٹ جانے کا خطرہ جتائے تو یہ فضولیات نہیں تو اور کیا ہیں، ان امن کمیٹیوں کانفرنسوں تقاریر و تحاریر میں کیا ہوتا ہے کہ آگے آئیں اور امن قائم کرنے کی کوشش کریں، عوام اٹھ کھڑے ہوں اور معاشرے سے تشدد کا خاتمہ کریں، آئو سب مل کر امن قائم کرنے کے لیے آواز اٹھائیں، اکثر تقاریب میں ایسی بات پر جی چاہتا ہے کہ اٹھ کر پورے زور سے چلائیں، کہ تیری آواز کی ایسی کی تیسی، تیری میری آواز سنتا ہی کون ہے، یہاں تو ہماری اتنی بھی حیثیت نہیں کہ خود کو ایک ووٹ اور ایک ہندسے کے درجے سے اٹھا کر ایک انسان کے طور پر رجسٹر کریں لیکن خوف فساد خلق سے چپ رہ کر صرف میر تقی میرؔ ہو جاتے ہیں،
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کر ے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے ''سپیدو سیہ'' میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
مجھے تو اتنا حق بھی نہیں ہے کہ اپنے شہر کی اپنی سڑک پر دو گام بھی اطمینان سے چل سکوں، اتنا بھی اختیار نہیں کہ اپنی مکمل بے عزتی پر اف بھی کر سکوں، اپنے ملک اپنے صوبے اور اپنے شہر کے کسی دفتر میں جا سکوں اور اپنے کسی ''خادم'' سے مل سکوں، تو پھر میں کیسے امن قائم کر سکتا ہوں، بات کرتے ہیں، آؤ امن قائم کریں، امن کی ماں کو اس کی بہن روئے وہ میری مانے تو کچھ کہوں ۔۔۔ وہ تو مجھے ہاتھ رکھنے نہیں دے رہا ہے،
وہ ہے تمہاری ناک کٹانے کی فکر میں
تو کہہ رہی ہے میرے لیے نتھ بنا کے لا
سیدھی سی بات ہے ہم عوام ہیں ہمارا کام ہے خون پسینہ ایک کر کے کمانا تعمیر کرنا بنانا اور پیدا کرنا ۔۔۔ یہ امن و امان، حفاظت اور قانون وغیرہ کی ذمے داری تو دوسروں کی ہے اور اس کا ہم سے منہ مانگا اور من چاہا معاوضہ وصول کرتے ہیں، ہم زیادہ سے زیادہ چھتے کی مکھیاں ہیں کہ کارکنوں کا کام صرف رس لانا ہوتا ہے، چھتے کی شہد کی اور ملکہ کی حفاظت تو دوسروں کے ذمے جو عمر بھر آرام سے بیٹھے رہتے ہیں، پیٹ بھر کر کھاتے ہیں، آرام سے رہتے ہیں ہم تو ہزار خطروں اور موت سے لڑ کر شہد جمع کر لیتے ہیں تو کیا چھتے کی اور ان نکھٹوؤں کی حفاظت بھی ہم کریں؟ کیا ہنسنے کی بلکہ رونے کی بات ہے کہ چھتے میں آرام سے بیٹھ کر بھی وہ اپنے گرد حفاظتی حصار قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ یوں کہیے ہماری حفاظت کرنے کے بجائے ہم سے اپنی حفاظت کروا رہے ہیں، یہ جس کا نام حکومت ہے یہ جو بڑے بڑے نام والے حاکم ہیں یہ جو ہمارا خون پسینہ نچوڑ کر بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں ، مراعات پاتے ہیں اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر عیش کرتے ہیں ۔کیا یہ صرف کھیت میں کھڑے ہوئے ''پتلے'' ہیں، اس میں تو کوئی سمجھنے سمجھانے کی بات ہے ہی نہیں کہ جس کام کے لیے کوئی معاوضہ لیتا ہے تو اسے وہ کام کرنا چاہیے ہم کوئی بادشاہ اور نواب نہیں ہیں۔
غریب محنت کش اور بے سرو سامان عوام ہیں تو پھر اپنے دروازے پر صرف سفید ہاتھی کیسے باندھ کر پال سکتے ہیں، ایسے سفید ہاتھی جو ہمارے پورے کھیت میں جھومتے دندناتے پھرتے ہیں، سب کچھ نگل جاتے ہیں جو ان سے بچ جاتا ہے وہی ہماری قسمت میں ہوتا ہے، کیونکہ چاہے دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہو کتے کی قسمت میں صرف چاٹنا ہی لکھا ہوتا ہے، گدھا چاہے کچھ بھی ڈھوئے اس کی قسمت میں کوڑے پر چرنا لکھا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں آخر ہم نے سفید ہاتھی کس لیے پالے ہیں اور پال رہے ہیں، ہاتھی کے دانت تو دکھانے کے ہوتے ہی ہیں لیکن کیا ہم بھی ہاتھی ہیں جو صرف پکانے کے لیے ہاتھی پا لیں، ''حکومت'' جس چیز کا نام ہوتا ہے چاہے وہ قدیم زمانوں کی بادشاہت رہی ہو، سردار قبیلہ کی شکل میں ہو یا موجودہ نام نہاد جمہوریت کے نام سے ہو حتیٰ کہ اگر اس کی شکل آمریت کی ہی کیوں نہ ہو اس کا واحد کام اپنے ملک اپنے وطن اور اپنی رعیت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، آج کی جدید اور صحیح معنی میں جمہوری حکومتیں تو حفاظت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ذمے داریاں اٹھاتی ہیں مثال کے طور پر ہر شریف حکومت چار چیزوں کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں
(1) امن و امان اور اپنی رعایا کو ہر آفت سے تحفظ دینا
(2) رعایا کی صحت کے لیے ضروری اقدامات کرنا
(3) رعایا کو تعلیم فراہم کرنا
(4) روزگار کا بندوبست کرنا اور روزگار کو تحفظ دینا
لیکن ہماری حکومتیں ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتیں، صحت، تعلیم اور روزگار کا جو حال ہے وہ تو سب کو معلوم ہے کہ کسی نے خود کچھ کیا تو کیا، حکومت کی طرف سے جو بندوبست ہے اس کا نہ ہونا، ہونے سے بدرجہا بہتر ہے باقی رہ جاتی ہے حفاظت تو اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اپنی سیکیورٹی خود نہیں کی تو بھرے پرے بازاروں میں بھی کوئی محفوظ نہیں بلکہ حفاظت کے نام پر جو حکومتی ادارے ہیں حکومت ان کی بھی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے خود ان اداروں نے بھی اپنے آپ کو قلعہ بند کر رکھا ہے جیسے شر پسندوں نے ان کو یرغمال بنا رکھا ہے، حالانکہ حکمرانی کی ابتداء اس سے ہوئی تھی کہ جو سردار قبیلہ سے لے کر موجودہ جمہوری دور تک جاری ہے کہ عوام ہمیں پالیں پوسیں، مفت کی کھلائیں، بھاری معاوضے دیں کیونکہ ہم ان کے محافظ ہیں ''محافظت'' کے علاوہ آخر حکومت کا دوسرا کام کیا ہے؟ فنڈز کھانا تنخواہیں وصول کرنا اور قوم کے نام پر سودی قرضے لے کر ہڑپنا اور سود سمیت ادائیگی کو عوام کے ذمے لگا کر چلے جانا؟ جو لوگ امن امن کر کے کمیٹیاں اور تنظیمیں بنا رہے ہیں ان کو چاہیے کہ سب سے پہلے ان ہی محافظوں سے پوچھیں کہ جو کام تم کر نہیں رہے ہو اس کا بھاری معاوضہ کیوں وصول کر رہے ہو؟