ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول بھٹو تک

30 نومبر پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے کہ جب آج سے 46 سال قبل پاکستان اور اسلامی دنیا کے تاریخی شہر لاہور۔۔۔


اقبال یوسف November 29, 2013

30 نومبر پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے کہ جب آج سے 46 سال قبل پاکستان اور اسلامی دنیا کے تاریخی شہر لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو متفقہ طور پر اس پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔

گزشتہ صدی میں 60 کی دہائی ملکی تاریخ کی اہم ترین دہائی ہے۔ 1962 میں ایوب کا آئین، 1965 میں پاک بھارت جنگ اور معاہدہ تاشقند، 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے علیحدگی اور اس علیحدگی کے بعد کراچی تاخیبر بھٹو کی عوام میں پذیرائی کہ جس نے ایوانوں کو ہلا دیا اور ذوالفقار علی بھٹو عوام کے ہر طبقے خصوصاً نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ جنوری 1967 اگرتلہ سازش کیس جو سقوط ڈھاکا کی ذمے دار دستاویز ہے۔ جولائی 1967 میں مادر ملت کے انتقال اور ان کی تدفین کے موقع پر غم زدہ عوام پر پولیس کا وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ اس موقعے پر کئی نوجوان پولیس فائرنگ میں شہید ہوگئے اور ملک بھر میں ایوب حکومت کے خلاف نفرت، بغاوت اور غم و غصہ انتہا پر تھا۔ 25 مارچ 1969 کو یحییٰ خان کا مارشل لا، یہ سب 60 کی دہائی کے واقعات ہیں جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔

1966ء میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت سے علیحدگی کے بعد کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک چلے گئے تھے اور واپسی پر انھوں نے عوامی رابطہ مہم دوبارہ شروع کی۔ انھوں نے ایوب مخالف تمام جماعتوں سے ملاقاتیں کیں۔ عوام کے مختلف طبقات دانشوروں صحافیوں، وکلا، طلبا رہنماؤں، کسان لیڈروں اور تاجروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ اس طرح 45 سال قبل پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے 30 نومبر 1967 کو پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی۔ اس انقلابی پارٹی نے اپنے قیام سے آج تک گزشتہ 45 سال میں چار بار عوامی تائید و حمایت اور جمہوری طریقے سے حق حکمرانی حاصل کیا اور تقریباً 16 سال عوام کی خدمت کی۔ پہلا دور ذوالفقار علی بھٹو کا 20 دسمبر 1971 سے 5 جولائی 1977 تک تھا۔ دوسرا دور 2 دسمبر 1988 سے 6 اگست 1990 تھا۔ تیسرا دور اکتوبر 1993 سے نومبر 1996 تک اور چوتھا دور 2008 سے تادم تحریر۔

یہ تمام ادوار ہر اعتبار سے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مشکل ترین دور رہے۔ اسی طرح یہ پارٹی اپنے قیام کے بعد یعنی 30 نومبر 1967 تا 20 دسمبر 1971 دور ایوبی آمریت اور یحییٰ خان کی سازشوں اور دائیں بازو کی انتہاپسند قوتوں سے مختلف محاذوں پر مقابلہ کرتی رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور اقتدار میں عوام دشمن استحصالی قوتوں اور سامراج کے گماشتوں کی گھناؤنی سازش کا مقابلہ ہوتا رہا۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا ہر داؤ آزمایا۔

آج 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری نسل سرگرم عمل ہے۔ طویل جدوجہد اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، شاہ نواز بھٹو کا سازشی قتل، مرتضیٰ بھٹو کا قتل اور بالآخر سامراجی قوتوں کی منظم سازش کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل، ان واقعات نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا بلکہ دوام بخش دیا۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو خاندان کی قربانیوں کے طفیل اور اس کے بے لوث بے خوف کارکنوں کی جدوجہد کے سبب پاکستان کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتی ہے اور رکھے گی۔30 نومبر 1967 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد وطن عزیز کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا۔ اپنے انقلابی منشور اور بین الاقوامی شہرت کی حامل جرأت مند دانش مند قیادت کی بدولت پارٹی نے بہت کم عرصے میں زبردست عوامی حمایت اور مقبولیت حاصل کرلی۔ تمام مشکلات، محدود وسائل، بدترین مخالفانہ پروپیگنڈے، نیز کفر کے فتووں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان (سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان) میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد بدقسمتی سے حالات نے مختلف رخ اختیار کرلیا اور بیرونی قوتوں کی سازش، حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ کردار نے ایک ''عظیم المیہ'' برپا کردیا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوگئی۔

سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت ہونے کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات میں اقتدار منتقل کردیا گیا اور 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نے شکستہ پاکستان کی ازسر نو تعمیر کے لیے صدر پاکستان کا حلف اٹھایا۔

آج پاکستان پیپلز پارٹی کے 46 ویں یوم تاسیس کے موقع پر ہم پارٹی کے قیام کے دن کی روئیداد اور بنیادی دستاویز کا جائزہ لیتے ہیں کہ جس میں پارٹی نے اس وقت درپیش مسائل اور پاکستان کے مستقبل پر ایک قابل عمل پروگرام دیا اور جس پر اپنے دور اقتدار 20 دسمبر 1971 سے 5 جولائی 1977 تک شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں عمل کرنے کی بھرپور اور کامیاب جدوجہد کی۔

آج ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے عوام کے لیے کیے گئے اقدامات کا سرسری جائزہ بھی لیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کے چاروں صوبوں میں مقبولیت حاصل ہے اور اس پارٹی نے ملک کے تمام طبقات کے لیے قومی سطح پر اقدامات کی حکمت عملی کے ذریعے ہر طبقہ فکر و زندگی میں اپنے لیے حمایت حاصل کی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا دوسرا دور ذوالفقار علی بھٹو کی5 جولائی 1977 کے مارشل لا کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگست 1977 میں فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں لاڑکانہ سے گرفتاری کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد اور قربانیوں نے کارکنوں کو نیا حوصلہ دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد پارٹی قیادت بیگم نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو نے سنبھالی اور آمریت کے خلاف 11 سالہ جدوجہد میں بے نظیر بھٹو نے دنیا سے اپنے آپ کو لیڈر تسلیم کرایا۔

8 اگست 1988 کو بستی لال کمال میں آمریت جل کر راکھ ہوگئی اس آمریت کی راکھ سے جمہوریت کا گلاب کھل اٹھا اور بے نظیر بھٹو 1988 میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوگئیں، لیکن محلاتی سازشوں کے ذریعے انھیں صرف 20 ماہ بعد اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا، شہید بے نظیر نے ہمت نہ ہاری اور اپنی ذہانت، جدوجہد اور قربانیوں سے 1993 میں دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوکر سامراجی گماشتوں کا مقابلہ کرتی رہیں اور ان کی کامیابیوں سے خوفزدہ ہوکر انھیں پھر نومبر 1996 میں اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا اور 27 دسمبر 2007 کو انھیں شہید کردیا گیا۔

آج ایک عجیب تاریخی اتفاق عرض کرتا ہوں بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز بھی تقریباً 25 سال کی عمر میں کیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی سیاست کا آغاز 25سال کی عمر میں کیا اور بلاول بھٹو نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 25 سال کی عمر سے کیا ہے۔ اپنے نانااپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھیں بھی سامراجی قوتوں کی سازشوں کا سامنا ہے، پاکستان کے غریب عوام آج بھی بھٹو کی تیسری نسل کی قیادت میں اپنے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں، غریبوں کارکنوں محنت کشوں اور کسانوں کی جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔