خواتین کا عالمی دن
یہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی جس میں 15000 مزدور عورتیں جن میں زیادہ تر گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی تھیں۔
خواتین کا عالمی دن اس سال جن متضاد نعروں اور افکار سے بھرا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ابھی اس دن کے متعلق تفصیلی معلومات نہیں ہیں۔ اور اگر پاکستان میں کسی خاتون نے اس دن کی تفصیلی معلومات نہ ہونے پر جو تصادم سے بھری باتیں کر دیں۔ وہ سب قابل معافی ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تھوڑی بہت اس دن کے متعلق گفتگو کی جائے اور بعدازاں قدرت کے پیدا کردہ پرندوں کو بھی زیر گفتگو لایا جائے۔ جی ہاں جس طرح مزدوروں کا عالمی دن شکاگو کے مزدوروں کے سیکڑوں ہلاک شدگان کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ عورتوں کا دن 1908 میں نیویارک سٹی میں منایا گیا۔
یہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی جس میں 15000 مزدور عورتیں جن میں زیادہ تر گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی تھیں۔ انھوں نے اپنے حقوق کے لیے جلوس نکالا۔ جس کے مطالبات یہ تھے کہ ڈیوٹی کے اوقات میں کمی۔ جنسی ہراسیت سے تحفظ اور ووٹ کا حق دیا جائے۔ اس سے اگلے سال جرمنی کی خاتون کلارازٹیکن نے کوپن ہیگن میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس بلائی جس میں 17 ممالک شریک ہوئے اس سے اگلے سال 1910 میں ان ممالک میں 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منایا۔ جن میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ شامل تھے۔ ان ممالک نے اس خاتون رہنما کلارازٹیکن کو اس لیے مدعو کیا گیا کہ یہ خواتین نیویارک میں رکاوٹیں ہٹاتی آنسو گیس کو نظرانداز کرتی ہوئی آگے بڑھا رہی تھیں۔
کیونکہ ان حکومتوں پر دباؤ کی ایک وجہ اور تھی کہ پورا مشرقی یورپ اور روس سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھ رہا تھا اور روسی رہنما لینن کی یہ پیش گوئی تھی کہ انقلاب سب سے پہلے انگلینڈ میں برپا ہوگا۔ مگر یہ انقلاب روس میں ہی آیا۔ گرد و نواح کے عناصر کے دباؤ اور عورتوں کی جدوجہد نے سرمایہ دار حکومتوں کو مراعات دینے پر مجبور کردیا۔ بلکہ اسکنڈینیوین ممالک نے تو اپنے یہاں نیم سوشلسٹ رفاہی نظام ہی قائم کردیا۔
گویا امریکا کے حصے میں مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی اور عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ یادگار کے طور پر یاد رکھا گیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں عورتوں کے عالمی دن کو تسلیم کرلیا بشمول ریاستہائے متحدہ امریکا۔ واضح رہے کہ عورتوں کے یہ جلوس حکومتوں کی سرپرستی میں نہیں نکالے گئے اور نہ ہی ان کو حفاظتی مراعات دی گئیں۔ ان خواتین نے جان کی بازی لگا کر شکاگو کے مزدوروں کے طرز پر اپنی سوشلسٹ تحریک کو زندہ کی۔ یہ تحریک عالم گیر حیثیت اختیار کرتی چلی گئی تو آخر کار اقوام متحدہ یو این او نے 1975 میں اپنی دستاویز کی زینت بنالیا۔ مگر پاکستان میں عورتوں کا عالمی دن نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا جب کہ دونوں طرف کے نظریات والے تعداد کے اعتبار سے نہایت مختصر تھے۔
اگر کراچی کا موازنہ کیا جائے تو 8 مارچ کو فریئر ہال سے جو جلوس برآمد ہوا وہ ہزار افراد کے لگ بھگ تھا۔ جس میں ستر فیصد خواتین اور تیس فیصد مرد حضرات شامل تھے۔ حالانکہ اس جلوس کی کافی تشہیر کی گئی اور دو روز تک آرٹس کونسل کراچی میں جلسے منعقد کیے گئے۔ لیکن کیونکہ حکومت سے براہ راست کوئی مطالبہ نہ تھا۔ کراچی کی گارمنٹ فیکٹریوں میں عورتوں کی یونین سازی پر سخت قدغن ہے اور کسی فیکٹری کی خواتین اس مجمع میں شریک نہ ہوئیں۔ کیونکہ یونینوں کو بنانا اور مزدوروں میں کام کرنا آسان نہیں۔
لہٰذا جلوس محض بینروں کا ایک اجتماع تھا اور شہر کے معروف افراد نغمہ گو اور رقاص اس میں شریک تھے۔ ماضی کے کچھ کامریڈ حضرات بھی شریک تھے۔ کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں ہزار دو ہزار لوگوں کا اجتماع کسی سیاسی قوت کا اشارہ تک نہیں دیتا۔ جب کہ ماضی میں اسٹوڈنٹس موومنٹ میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ افراد شریک ہوتے تھے جب کہ کراچی کی آبادی اسی لاکھ تھی۔
پاکستان کے تمام شہروں کی صورتحال تقریباً یہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی کارکن نہیں۔ ان کے بیشتر لوگ کسی کمپنی کے ملازم میں دنیا تو بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ معاشی مسائل اور تعلیم، روزگار اور علاج معالجے کی سہولتیں حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان میں کوئی مربوط معاشی نظام نہیں ہے اور زرعی ملک میں زرعی نظام بھی نہیں ہے اس لیے ملک کی زبوں حالی عروج پر ہے۔ البتہ انسانی حقوق کی پاسداری تک تو بات کرنے میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اظہار آزادی بھی مشروط ہے۔ البتہ کراچی کے جلوس میں آزادی اظہار پر ایک بڑا بینر تھا۔ اور یہ بینر بھی تھا کہ ہماری بچی پڑھے گی اور آگے بڑھے گی۔ مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے بینر بھی تھے لیکن براہ راست حکومت سے کوئی مطالبہ نہ تھا۔ ایسی ریلیاں روز نکلیں تو حکومت کی نظر میں یہ رنگ ریلیاں ہیں۔
ایک اور مسئلہ جس نے پاکستان کو گھیر لیا ہے۔ وہ عورتوں کے حقوق ہیں جن پر متضاد آرا چل رہی ہیں بلکہ اس میں اس قدر نفرت پیدا ہو چکی ہے کہ ڈر یہ ہے کہ ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوجائیں۔ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے اسلام آباد میں دونوں گروہوں میں ہلکا تصادم ہوچکا ہے۔ اور تصادم کے لیے مسائل حجاب اور کام کاج کے مسئلے پر ہیں۔ مردوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جو عورتوں کو ہر قسم کے کام کاج سے روکتا ہے جس میں عورتوں کو گھر سے باہر جانا پڑے۔ لیکن جب مرد و زن دونوں معاشی حالات سے مجبور ہوکر ملازمت پر جائیں گے تو یقینا معاشرے میں تبدیلی آئے گی اور پھر حجاب کا کیا منظر ہوگا۔ ہر عورت اپنے حساب سے حجاب لے کر بھی کام کرسکتی ہے لیکن وہ شرعی حجاب ہوگا۔
جس کی حدیں مقرر ہیں۔ انسان تو انسان ہے۔ خداوند کریم نے بعض پرندوں کو بھی کام کی تقسیم کے قدرتی طریقہ کار سے نوازا ہے۔ جس سے انسانی تہذیب نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس میں سب سے پہلے بیا کا نام آتا ہے۔ جس کو انگریزی میں House Wren کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پرندہ ہے جو دیکھنے میں عام چڑیا کے مانند ہوتا ہے۔ یہ درختوں کی پتلی اور مضبوط شاخ سے عموماً ببول کے درخت پر گھونسلا بناتا ہے۔
یہ گھونسلا دو یا تین منزلہ ہوتا ہے۔ جس میں کھانے دانے کا اسٹور الگ ہوتا ہے۔ چھوٹے کیڑوں کا اسٹور الگ ہوتا ہے اور پانی کی ایک نالی بنائی جاتی ہے جس سے پانی گھونسلے کے تلے میں جمع رہتا ہے۔ تاکہ اس کے پیارے بچے پیاسے نہ مر جائیں اور گھونسلا ایسی مضبوط پتیوں اور ڈنڈیوں سے تعمیر کیا جاتا ہے جیسے ہینڈ لومز پر بنایا گیا ہو۔
یہ ہینگنگ بنگلوز ہوتے ہیں، اس کی تشکیل میں نر مادہ دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جب کہ اناج یا کھانے کی اشیا کا کام نر کے سپرد ہوتا ہے اور پانی لانے کا کام مادہ انجام دیتی ہے۔ انسان نے اس پرندے سے کپڑے کی بنائی بھی سیکھی اور کسی حد تک تعمیرات میں اس سے استفادہ کیا۔ پاکستان کے شہر محراب پور میں اور قاضی احمد میں اس کم یاب پرندے کی نسل موجود ہے۔
محراب پور میں ڈنڈی سانپ جو چھوٹا ہوتا ہے بیا کے گھونسلے تک جانا چاہتا تھا مگر جا نہ پاتا تھا۔ لہٰذا انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ وہ اپنے کام کاج کو تقسیم کرنے پر تیار نہیں۔ بعض علاقوں کی عورتوں کو اپنی پسند کا کپڑا خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور یہ سب حجاب کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ جب کہ قدرت نے پرندے کے ذریعے سے انسان کو لباس اور گھر کا راستہ بتایا ہے۔ تو وہ پھر کیونکہ ایک دوسرے سے فکری بنیاد پر تصادم کے لیے تیار ہے۔
جب کہ یہ مسائل دونوں افکار کے لیڈر بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عورت مارچ محض ایک روایتی کھیل کیسواکچھ نہ رہے گا۔ مارچ میں جدوجہد سے بھرپور جائز عوامی مطالبات کی ضرورت ہے۔ نہ یہ کہ حکومت کے آلہ کار کی شکل میں مارچ کا اہتمام کیا جائے۔ مغرب کی عورتوں نے اپنے حقوق کو جائز طریقے سے حاصل کیا ہے تو پاکستان میں بھی تمام مکاتب فکر کو بھی گھریلو مشکلات سے نجات پانے کے لیے مارچ کا اہتمام کرنا چاہیے۔