بے روزگاری کا خاتمہ ضروری
حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں اوراختیارات ہوتے ہیں جن کااگردرست استعمال کیاجائے توعوامی فلاح کے بہت سارے کام ہوسکتے ہیں۔
نجی شعبے میں روزگار کے بہت مواقع ہوتے ہیں۔ کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار نوجوان اپنے طور پر ملازمت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی گاڑی رشوت کے پہیوں پر چلتی ہے، سو روزگار کے متلاشی لوگ رشوت کے ذریعے ملازمتیں حاصل کرتے ہیں، اس میں حکومت کا کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہوتا لہٰذا ان حوالوں سے حاصل کی جانے والی ملازمتیں عوام کی دوڑ دھوپ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے بڑا منصوبہ بند کام ہوتا ہے۔
حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے ملازمتوں کے بارے میں مکمل اعداد و شمار اور معلومات رکھتی ہے، دوسری طرف روزگار کے ضرورت مندوں کی بھی پوری معلومات اور اعداد و شمار حکومت کے پاس ہوتے ہیں ان معلومات کی بنیاد پر حکومت بے روزگاروں کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے جس کا تمام تر کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔
حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور اختیارات ہوتے ہیں جن کا اگر درست استعمال کیا جائے تو عوامی فلاح کے بہت سارے کام ہو سکتے ہیں، حکومت اس سال کو نوکریوں کا سال کہہ رہی ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک میں لاکھوں بے روزگار نوکریوں کی تلاش میں جوتے چٹخاتے پھر رہے ہیں، حکومت روزگار کا ایک علیحدہ شعبہ کھولے جس میں ملازمتوں کی دستیابی اور ملازمتوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والوں کا پورا ڈیٹا موجود ہو۔
پرائیویٹ سیکٹر سے ان ملازمتوں کے اعداد و شمار حاصل کیے جائیں جو دستیاب ہیں، یوں ملازمتوں کے اعداد و شمار حکومت کے پاس آ جائیں گے، ادھر ملازمتوں کے متلاشیوں کے اعداد و شمار بھی حکومت کے پاس ہوں گے، اس حوالے سے ایک پورا نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ملازمتوں کی دستیابی اور ملازمتوں کی ضرورت پر کھڑا رہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں تعلیم یافتہ خواتین جن میں ہنرمند بھی شامل ہوں گی، حکومت کے پاس مکمل اعداد و شمار کے ساتھ موجود ہوں اور ایک ایسا آسان طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ملازمت کے ضرورت مندوں کو خوار نہ ہونا پڑے۔ یہ سارا کام بالکل آسان ہے بشرطیکہ اسے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا جائے۔
ابھی پچھلے دنوں ایک سرکاری محکمے میں کچھ ملازمتیں نکلنے کی افواہ چلی، ہزاروں لوگ اس محکمے کے چکر لگانے لگے اور معمولی معمولی چپراسی اور کلرک کی جگہوں کے لیے دو دو چار چار لاکھ رشوت کی ڈیمانڈ کی جانے لگی۔ چونکہ یہ کام غیر قانونی ہوتا ہے لہٰذا دینے اور لینے والوں کے علاوہ اس میں تیسرا فریق بہت کم نظر آتا ہے۔ اس کام میں فراڈ ایلیمنٹ بھی ہوتا ہے جو نوکریوں کے ضرورت مندوں سے لاکھوں روپے لے کر غائب ہو جاتا ہے۔ اگر ملازمتوں کے حصول کو ایک باضابطہ اور قانونی شکل دے دی جائے تو نہ ضرورت مندوں کے ساتھ فراڈ کے امکانات ہوتے ہیں نہ سیدھے سادھے نوجوان فراڈیوں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں، یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب یہ کام جائز طریقے سے منظم انداز میں کیا جائے۔
ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ نظام بے ایمانی اور فراڈ کے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے، اس نظام میں ناجائز کام کرانے کا ایک ایسا آٹومیٹک سسٹم موجود ہوتا ہے جو رشوت کے بل پر ہر مشکل کا خود بخود حل نکال لیتا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں روزگار دلانے کا ایک سرکاری محکمہ ہوتا ہے لیکن چونکہ پورا سسٹم کرپٹ ہے لہٰذا روزگار دلانے والا سرکاری محکمہ بھی کرپشن کا شکار رہتا ہے۔ دنیا بھر میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج ایک فعال محکمہ ہوتا ہے جو بے روزگاروں کی جائز طریقے سے مدد کرتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں یہ محکمہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار رہتا ہے۔
ہم نے حصول روزگار کے حوالے سے اگرچہ کہ مختلف تجاویز پیش کیں لیکن یہ ساری تجاویز اور پروگرام سرمایہ دارانہ نظام کے پہیوں تلے آ کر اس بری طرح کچلے جا سکتے ہیں کہ ان کی شکل نہ پہچانی جا سکے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ دنیا میں سوشلسٹ نظریات رکھنے والے جہاں کہیں ہوں وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں لیکن بدبختی ہی ہے کہ یہ عنصر بھی یا تو ایماندار نہیں ہے یا پھر وہ اہلیت نہیں رکھتا جس کی اس نظام کے خاتمے میں ضرورت ہے، ان تلخ حقائق کی روشنی میں صرف ایک کام کیا جا سکتا ہے کہ رائے عامہ کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم کریں۔
تحریک انصاف حکومت اگرچہ عوامی مسائل کے حل میں درست سمت میں قدم اٹھا رہی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا میڈیا سیل بہت کمزور ہے، عوامی مفادات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی پبلسٹی بھی معقول طریقے سے نہیں ہو پاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام حکومت کی کارکردگی جاننے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں اس حوالے سے اپوزیشن اس قدر چاق و چوبند ہے کہ معمولی سے کاموں کو بھی اس سلیقے سے میڈیا میں لاتا ہے کہ عوام کا ان سے متاثر ہونا ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ حکومت احساس کے نام سے ضرورت مند عوام کی ضروریات پوری کرنے کی جو کوشش کر رہی ہے اسی سے ہزاروں خاندانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن میڈیا میں اس قسم کے عوامی مفادات کے کاموں کی پبلسٹی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کمزوری سے عوام حکومت کے ان کاموں سے بھی لاعلم رہتے ہیں جن کا تعلق عوامی مفادات سے ہوتا ہے۔
آج کی دنیا پروپیگنڈے اور پبلسٹی کی دنیا ہے حکومتیں عوامی مفادات کے پروگراموں کی اس منظم اور منصوبہ بند طریقے سے پبلسٹی کرتی ہیں کہ عوام اس سے متاثر ہو کر حکومت کی حمایت پر اتر آتے ہیں ہمارے ملک میں بہت بے روزگاری ہے، عوام روزگار کے لیے ترس رہے ہیں حکومت اس سال کو نوکریوں کا سال کہہ رہی ہے، نوکری یا ملازمت انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے، ہزاروں نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے ملازمتوں کے بارے میں مکمل اعداد و شمار اور معلومات رکھتی ہے، دوسری طرف روزگار کے ضرورت مندوں کی بھی پوری معلومات اور اعداد و شمار حکومت کے پاس ہوتے ہیں ان معلومات کی بنیاد پر حکومت بے روزگاروں کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے جس کا تمام تر کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔
حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور اختیارات ہوتے ہیں جن کا اگر درست استعمال کیا جائے تو عوامی فلاح کے بہت سارے کام ہو سکتے ہیں، حکومت اس سال کو نوکریوں کا سال کہہ رہی ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک میں لاکھوں بے روزگار نوکریوں کی تلاش میں جوتے چٹخاتے پھر رہے ہیں، حکومت روزگار کا ایک علیحدہ شعبہ کھولے جس میں ملازمتوں کی دستیابی اور ملازمتوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والوں کا پورا ڈیٹا موجود ہو۔
پرائیویٹ سیکٹر سے ان ملازمتوں کے اعداد و شمار حاصل کیے جائیں جو دستیاب ہیں، یوں ملازمتوں کے اعداد و شمار حکومت کے پاس آ جائیں گے، ادھر ملازمتوں کے متلاشیوں کے اعداد و شمار بھی حکومت کے پاس ہوں گے، اس حوالے سے ایک پورا نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ملازمتوں کی دستیابی اور ملازمتوں کی ضرورت پر کھڑا رہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں تعلیم یافتہ خواتین جن میں ہنرمند بھی شامل ہوں گی، حکومت کے پاس مکمل اعداد و شمار کے ساتھ موجود ہوں اور ایک ایسا آسان طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ملازمت کے ضرورت مندوں کو خوار نہ ہونا پڑے۔ یہ سارا کام بالکل آسان ہے بشرطیکہ اسے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا جائے۔
ابھی پچھلے دنوں ایک سرکاری محکمے میں کچھ ملازمتیں نکلنے کی افواہ چلی، ہزاروں لوگ اس محکمے کے چکر لگانے لگے اور معمولی معمولی چپراسی اور کلرک کی جگہوں کے لیے دو دو چار چار لاکھ رشوت کی ڈیمانڈ کی جانے لگی۔ چونکہ یہ کام غیر قانونی ہوتا ہے لہٰذا دینے اور لینے والوں کے علاوہ اس میں تیسرا فریق بہت کم نظر آتا ہے۔ اس کام میں فراڈ ایلیمنٹ بھی ہوتا ہے جو نوکریوں کے ضرورت مندوں سے لاکھوں روپے لے کر غائب ہو جاتا ہے۔ اگر ملازمتوں کے حصول کو ایک باضابطہ اور قانونی شکل دے دی جائے تو نہ ضرورت مندوں کے ساتھ فراڈ کے امکانات ہوتے ہیں نہ سیدھے سادھے نوجوان فراڈیوں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں، یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب یہ کام جائز طریقے سے منظم انداز میں کیا جائے۔
ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ نظام بے ایمانی اور فراڈ کے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے، اس نظام میں ناجائز کام کرانے کا ایک ایسا آٹومیٹک سسٹم موجود ہوتا ہے جو رشوت کے بل پر ہر مشکل کا خود بخود حل نکال لیتا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں روزگار دلانے کا ایک سرکاری محکمہ ہوتا ہے لیکن چونکہ پورا سسٹم کرپٹ ہے لہٰذا روزگار دلانے والا سرکاری محکمہ بھی کرپشن کا شکار رہتا ہے۔ دنیا بھر میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج ایک فعال محکمہ ہوتا ہے جو بے روزگاروں کی جائز طریقے سے مدد کرتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں یہ محکمہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار رہتا ہے۔
ہم نے حصول روزگار کے حوالے سے اگرچہ کہ مختلف تجاویز پیش کیں لیکن یہ ساری تجاویز اور پروگرام سرمایہ دارانہ نظام کے پہیوں تلے آ کر اس بری طرح کچلے جا سکتے ہیں کہ ان کی شکل نہ پہچانی جا سکے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ دنیا میں سوشلسٹ نظریات رکھنے والے جہاں کہیں ہوں وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں لیکن بدبختی ہی ہے کہ یہ عنصر بھی یا تو ایماندار نہیں ہے یا پھر وہ اہلیت نہیں رکھتا جس کی اس نظام کے خاتمے میں ضرورت ہے، ان تلخ حقائق کی روشنی میں صرف ایک کام کیا جا سکتا ہے کہ رائے عامہ کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم کریں۔
تحریک انصاف حکومت اگرچہ عوامی مسائل کے حل میں درست سمت میں قدم اٹھا رہی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا میڈیا سیل بہت کمزور ہے، عوامی مفادات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی پبلسٹی بھی معقول طریقے سے نہیں ہو پاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام حکومت کی کارکردگی جاننے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں اس حوالے سے اپوزیشن اس قدر چاق و چوبند ہے کہ معمولی سے کاموں کو بھی اس سلیقے سے میڈیا میں لاتا ہے کہ عوام کا ان سے متاثر ہونا ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ حکومت احساس کے نام سے ضرورت مند عوام کی ضروریات پوری کرنے کی جو کوشش کر رہی ہے اسی سے ہزاروں خاندانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن میڈیا میں اس قسم کے عوامی مفادات کے کاموں کی پبلسٹی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کمزوری سے عوام حکومت کے ان کاموں سے بھی لاعلم رہتے ہیں جن کا تعلق عوامی مفادات سے ہوتا ہے۔
آج کی دنیا پروپیگنڈے اور پبلسٹی کی دنیا ہے حکومتیں عوامی مفادات کے پروگراموں کی اس منظم اور منصوبہ بند طریقے سے پبلسٹی کرتی ہیں کہ عوام اس سے متاثر ہو کر حکومت کی حمایت پر اتر آتے ہیں ہمارے ملک میں بہت بے روزگاری ہے، عوام روزگار کے لیے ترس رہے ہیں حکومت اس سال کو نوکریوں کا سال کہہ رہی ہے، نوکری یا ملازمت انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے، ہزاروں نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔