محبت کی بغاوتکھوکھلی ریاست

موجودہ سعودیہ عرب میں کسی لڑکی کا محبت کے مرض میں مبتلا ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں کسی وزیر۔۔۔


انیس منصوری November 29, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: موجودہ سعودیہ عرب میں کسی لڑکی کا محبت کے مرض میں مبتلا ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں کسی وزیر کو ایمان داری کا بھوت سوار ہو جائے۔سارے وزیر اُسے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں اور چمچے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ابھی تک ایسا وزیر ہمیں ٹکرا نہیں مگر مجھے پورا یقین ہے کہ اگر کوئی ایسا شرمیلا وزیر میدان میں آگیا تو وہ وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے منہ ڈھانپ کر اپنے آفس آئے گا ۔ منہ چھپانے کے لیے وزیر اعظم نے یہ مشورہ بعض سرکاری معزز صاحبان کو دیا تھا جس کی ضرورت تحریک انصاف کو تھی ۔ خیر رہنے دیجیے سیاست کی بازی گریاں، بات کرتے ہیں محبت پر ۔

25سال کا ایک نوجوان ،پیارا سا لڑکا ،زبان سے دل جیت لینے والا مگر ہر فلمی ہیرو کی طرح جیب خالی تھی ۔آپ اس خوبصورت نوجوان سے مراد کوئی سیاسی لیڈر مت لیجیے گا ورنہ میرے گھر کے باہر دھرنا شروع ہو جائے گا۔ یمن کی گلیوں میں اُس کا گزارا اب ممکن نہیں تھا اور ڈر تھا کہ کہیں لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہ ہو جائے اس لیے ماں باپ کی جدائی برداشت کرتے ہوئے پڑوسی ملک سعودی عرب چلا گیا ۔آپ تو جانتے ہیں کہ سعودیہ میں دوست بہت مل جاتے ہیں اس لیے ایک دوست کی مدد سے موبائل کی دکان میں نوکری مل گئی ۔دکان چھوٹی تھی لیکن خواب بہت اونچے تھے ۔اتنے اونچے کہ جہاں بھتہ کی پرچی نہ ملے ۔سوچتا تھا کہ کچھ پیسے جمع کر کے یمن میں موبائل کی دکان کھولے گا۔ کچھ پیسے جمع کر کے دھوم دھام سے شادی رچائے گا ۔ ایک چھوٹی سی موبائل کی دکان میں بیٹھ کر ہیرو بننا چاہتا تھا ۔ اب سعودی آج کل کتنے پیسے دیتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے اس لیے فرصت کے لمحوں میں ادھر اُدھر نظریں مارنے لگا ۔

دوسری طرف تھی ایک خوبصورت حسینہ ،کرینہ اور کترینہ سے زیادہ حسین لیکن صرف 19 سال کی تھی ورنہ نوجوانوں کی جماعت انھیں اسمبلی کا ٹکٹ دے دیتی ۔ دیکھنے میں بلا کی حسین ، لمبا قد اور گھر میں پیسے کی فراوانی تھی اس لیے سعودی باپ نے ایک موبائل بھی لے کر دیا ہوا تھا ۔ قسمت خراب تھی کہ موبائل خراب ہو گیا ۔ گھر والوں کو بتا دیتی تو اگلا موبائل نہ ملتا اس لیے کالا برقعہ پہن کر خود موبائل مرمت کروانے نکل گئی ۔ جیسے طالبان کی بگل میں بیٹھ کر امریکا کو دھوکہ دینا ہو۔محلے میں آتے جاتے اُس نے دیکھا تھا کہ گلی میں ایک موبائل کی دکان بھی ہے ۔ کوئی پہچان نہ لے اس لیے جلدی جلدی دکان میں گھس گئی ۔ جہاں عرفات کسی گاہک کا انتظار کر رہا تھا ۔ باتوں کا تو چیمپئن تھا ہی اس لیے لڑکی کو فورا یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ موبائل فوری طور پر تو ٹھیک نہیں ہو سکتا اس کے لیے کل آنا ہو گا ۔ ہدا کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا اس لیے ہاں کر دی ۔بہت معصوم تھی بالکل کسی پاکستانی وزیر کی طرح جو امریکا کی باتوں میں آگئے ۔ عرفات کو بھی امریکا کی طرح گھسنے کا موقع مل گیا اور اُس کے پاس ہدا کا نمبر آگیا ۔ اگلے دن پھر ایک بہانہ کر کے ہدا نکلی اور اپنا موبائل واپس لیا ۔ مگر دو دن کے چکر نے اُس کی زندگی تبدیل کر دی ۔

پہلے عرفات کی طرف سے sms گئے جس کا جواب آنے لگا ۔ بات سے بات بنتی گئی اور پھر sms کا رابطہ موبائل کال تک چلا گیا ۔جیسے اتحادیوں کو انگلی پکڑائی اور ہنگو تک آگئے ۔رات دیر دیر تک فون پر گفتگو ہونے لگی ۔ حال احوال کے ساتھ گھر کے معاملے بھی زیر بحث آنے لگے ۔ دوستی ، محبت میں بدلنے لگی اور پھر چھپ چھپ کر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ہدا بالغ ہو گئی تھی اور جوان بھی ۔ گھر والوں کو فکر ہوئی کہ فورا ہاتھ پیلے کر دینے چاہیے ۔ کچن کابینہ کا اجلاس بلایا گیا اور مشترکہ فیصلہ ہونے کے بعد رشتے دیکھے جانے لگے ۔ ہدا نے عرفات کو قائل کیا کہ وہ اپنے گھر والوں سے بات کرے اور رشتہ بھیجے ۔ مگر عرفات کو جھجک تھی کہ یہ رشتہ کیسے ہو گا ۔ ایک تو وہ سعودی نہیں اور دوسرا یہ کہ انتہائی غریب ہے۔اتحادیوں سے صلح مشورہ کیا گیا اور کسی سیاسی مولانا کی بات مان لی گئی مذاکرات کے لیے عرفات کے گھر والوں کو راضی کیا گیا اور عرفات نے ہدا کا باقاعدہ رشتہ عرب رواج کے مطابق مانگا ۔ لیکن ہر محبت کی کہانی کی طرح یہاں بھی ظالم سماج نے اسے تسلیم نہیں کیا۔

عرفات اور ہدا کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گیا ۔ محبت کے مارے یہ نوجوان کسی پاکستانی وزیر جیسا دبنگ ڈھونڈھنے لگے مگر دبنگ کی لمبی تقریر کی وجہ سے وہ نہیں پہنچ سکا اور عرفات کو سعودیہ چھوڑ کر دوبارہ یمن جانا پڑا ۔اپنے عرفات کے لیے سسکتی ہدا پر سختیوں میں اضافہ ہو گیا ۔ گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد ہدا کی شادی کر دی جائے ۔ لیکن محبت نے بغاوت کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ گھر کے ایک ہم راز نے ہدا کا ساتھ دیا اور یمن میں عرفات سے رابطہ ہو گیا ۔ روزانہ کئی لوگ یمن اور سعودیہ کی سرحد کو غیر قانونی طور پر عبور کرتے ہیں دونوں نے منصوبہ بنایا کہ ہدا کسی طرح یمن کی سرحد تک پہنچے گئی اور پھر وہاں سے عرفات اُسے سرحد پار کروا کر یمن لے جائیگا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی زندگی گزاریں گے۔

منصوبہ اچھا تھا اور اُس پر عمل بھی ہوا ۔ 3 اکتوبر کو سرحد پار کی گئی لیکن جیسے ہی سرحد پار کی، یمنی پولیس نے ہدا اور عرفات کو گرفتار کر لیا ۔

کہانی آسانی سے دوبارہ اپنی حالت پر آجاتی لیکن ہدا نے دوبارہ سعودیہ جانے سے انکار کر دیا ۔ یمن کی پولیس نے ہدا اور عرفات کو باقاعدہ گرفتار کر لیا اور ہدا پر غیر قانونی طور پر یمن میں داخل ہونے کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا ۔ دوسری طرف سے سعودیہ کے بااثر افراد نے یمن پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا کہ ہدا کو واپس کیا جائے ۔ یمن میں سعودی سفیر نے باقاعدہ ہدا کو وکیل کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ سعودیہ جانے کے لیے تیار ہو جائے مگر ہدانے سعودیہ کا وکیل لینے سے صاف انکار دیا ۔ عرفات ایک غریب نوجوان اُس کی حمایت کے لیے یمن کہاں اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا تھا ۔ مگر آہستہ آہستہ یہ خبر باہر نکلنا شروع ہوئی ۔ یمن کی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اخبارات میں خبریں چھپنا شروع ہوئیں اور یمن جیسے معاشرے میں سیکڑوں لڑکے اور لڑکیاں ہدا کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ گزشتہ اتوار 24 نومبر کو جب ہدا عدالت میں پیش ہوئی تو سیکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں عدالت کے باہر جمع تھے ۔ اپنے سروں پر پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جس میں لڑکیوں نے لکھا ہوا تھا کہ میں بھی ہدا ہوں ۔

جدید اسلحہ سے لیس پولیس ان نوجوانوں کے سامنے بے بس تھی ۔ نوجوان لڑکیوں نے ان کی پستول پر بھی ہدا کی تصویر لگا دی ۔ سعودیہ کا دبائو ہے کہ ہدا کو واپس دیا جائے ۔ اب یمن کی حکومت پر وہاں کے نوجوانوں کا دبائو ہے کہ ہدا کو نہ صرف یمن میں رہنے دیا جائے بلکہ اُسے عرفات سے شادی بھی کرنے دی جائے ۔ اس مجبوری کے عالم میں یمن نے اقوام متحدہ کے اداروں سے مدد مانگی ہے ۔ یمن میں محبت کے پھولوں نے انقلاب برپا کیا ہوا ہے ۔ سرکاری سطح پر ہدا کی خبر کو سعودیہ میں چھپنے نہیں دیا جارہا مگر اس وقت سعودیہ اور یمن کے نوجوانوں میں صرف ہدا اور عرفات کی محبت ہے ۔لیکن نہ یہ بات سعودیہ سمجھتا ہے اور نہ ہمارے یہاں کہ کچھ عالم فاضل لوگ کہ عورت بھی دل رکھتی ہے وہ بھی انسان ہے ۔طاقت ور مردوں کے معاشرے میں محبت کی یہ کہانی سب کو جھنجوڑ رہی ہے تو دوسری طرف سعودیہ اور یمن کی حکومتیں ہیں ۔یکم دسمبر کو عدالت کے باہر ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں جمع ہونے کے لیے تیار ہیں ۔دیکھتے ہیں محبت جیتتی ہے یا پھر اپنے خول میں بند ریاستیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔