عجیب و غریب
اپنی اصلاح کا کم ازکم کسی بھی درجے میں آغازاپنے اپنے لحاظ اورحساب سے اوراپنی ذمے داریوں کے اعتبار سے کرنا شروع کردیں۔
سنا ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھا کر یار لوگوں نے ایئرپورٹس وغیرہ پرکورونا وائرس سے متعلقہ اسکیننگ کیے بغیر پیسے لے کر آنے جانے والے مسافروں کو کلیئرنس دینا شروع کردی تھی جس کا اداروں کی جانب سے بر وقت نوٹس لیا گیا اور ان دریا دل ذمے داران برائے اسکیننگ ڈیوٹی کا فوری علاج کیا گیا اور آخری خبریں آنے تک اس عمل بد میں ملوث ذمے داران کی فل باڈی اسکیننگ مخصوص ڈرائنگ رومز میں کی جارہی تھی جوکہ واقعتاً بہت ضروری تھی۔
تو دیکھا آپ نے کہ یار لوگوں نے اس بد ترین صورتحال سے بھی ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کیسی راہ نکال لی۔ واقعی خبط عظمت میں مبتلا ایک عجیب وغریب قوم کے عجیب و غریب افراد سے اورکیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم جیسے اور بہت سارے میدانوں اور شعبوں میں کہیں خود ساختہ اور کہیں واقعتا عظمت کی بلندیوں پر فائز ہیں وہیں ہمارا مقام کرپشن میں بھی عظیم ہے۔
حال ہی میں کراچی گولیمار میں ایک بلڈنگ کا اس طرح گرنا کہ اس نے دو اور عمارتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا اورکتنے خاندان اس ایک واقعے میں برباد ہوگئے کتنے لوگ جان سے گئے اور جو زہے قسمت بچ گئے اب باقی ماندہ عمر مختلف ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنے میں گزاریں گے۔
اب چالیس چالیس گزکے یا دو تین مرلے کے پلاٹ پر جب پانچ پانچ منزلہ عمارتیں بنائی جائیں گی اورکرپشن میں لتھڑے متعلقہ ادارے اور ان کے اہلکاراپنا حصہ لے کر نہ صرف خاموش رہیں گے بلکہ ایسے معاملات کی سرپرستی بھی کریں گے کہ لمبی کمائی ہوجاتی ہے اس طرح سے تو پھر ایسے سانحات تو پیش آیا ہی کریں گے نا۔ جدھر دیکھوں تیری تصویر نظر آتی ہے کی طرح یہاں بھی جدھر دیکھوں کرپشن یا بدعنوانی کی حکمرانی ہی نظر آتی ہے الا ماشااللہ۔
ملکی معاملات میں بگاڑ کی وجہ کرپشن ہے اور غیر ملکی معاملات میں وجہ بھی ایک اور طرح کی کرپشن ہے اور جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا ہے کہ کرپشن کوئی ایک شئے نہیں ہے بلکہ جیسے کچھ برگزیدہ اعمال اور عبادات و اذکارکو ام الاعمال اور ام الاذکارکہا گیا ہے بالکل ویسے ہی کرپشن یا بدعنوانی بھی ام السیئات یعنی گناہوں کی ماں ہے اور اپنی جگہ بجائے خود یہ ایک بہت بڑا مسئلہ اور عفریت یا ڈائن ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگرگناہوں کو جنم دیتی رہتی ہے اور اس کی بے شمار قسمیں جن میں مالی کرپشن، اخلاقی کرپشن ، علمی کرپشن ، اقتصادی کرپشن ، سرکاری کرپشن ، صحافتی کرپشن ، ادارہ جاتی کرپشن ، انفرادی کرپشن ، سیاسی کرپشن اور دانشوارانہ کرپشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دن رات ، ہر لمحہ ہرگھڑی اپنی اپنی اولادیں یعنی نت نئے گناہوں کی تخلیق میں مصروف رہتی ہیں اورکسی بے قابو ہوجانے والی وبا کی طرح اپنا اثر و نفوذ بڑھاتی رہتی ہیں اور پھر ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں تباہی اور بربادی کا راج ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معدودے چندکے سوا اکثریت نہ صرف اپنے زیاں سے بلکہ احساس زیاں سے بھی محروم کردی جاتی ہے اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر انسانی کھنڈرات کا روپ دھار لیتے ہیں۔
مانیں یا نہ مانیں ہم ایک عجیب وغریب بے حسی اور لاتعلقی کا من حیث القوم شکار بن چکے ہیں جوکہ آہستہ آہستہ ہمیں مایوسی کی جانب لے جا رہی ہے اب دیکھیں نا پڑوس میں مسلمانوں پر بدترین مظالم کا بازار گرم تھا ا اور اب بھی ہے اور ہم اپنی رونقوں میں کھیل تماشوں میں کھوئے ہوئے تھے اوراب بھی ہیں۔
باتیں بنانے میں کسی سے کم نہیں رہے لیکن عملی اقدام کے طور پر کیا کیا؟ اور صرف ہم ہی نہیں بلکہ ایک امت کے نام لیوا پچاس سے اوپر ممالک میں کون بولاسوائے دو تین ممالک کے۔ جو ممالک واقعتا صرف یہ کہہ کر ہی ہندوستان کو ایک ایسا جھٹکا دے سکتے تھے کہ اگر یہ سب ختم نہ ہوا تو ہمارے یہاں کام کر رہے لاکھوں بھارتیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے تو نہ صرف یہ قوانین بھی واپس ہوجاتے بلکہ روایتی بنیا حکومت فورا بھائی چارے کا راگ الاپتی نظر آتی اور ہزاروں مسلمان گھرانوں کی جان ،مال عزت آبرو اور کاروبار بھی بد امنی کی آگ میں جل کر خاک نہ ہوئے ہوتے۔ تو من حیث الامتہ بھی عجیب و غریب بے حسی کا راج ہے اور نہ جانے وہ ایک امت کہاں ہے جس کے قصے کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ہندوستان میں جو کچھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ ظلم وجبرکی بد ترین مثال ہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بڑی دیدہ دلیری سے سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فسادیوں اور ظالموں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سارے المیئے کا کیا انجام ہوگا اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ، لیکن اگر ہندوستان کے علماء ومشائخ نے اس ساری بد ترین صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اگرکہیں دفاعی جہاد کا مشترکہ اعلان کردیا تو پھر جوکچھ ہوگا اس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، غنڈہ عناصر ، فسادی اور پولیس تو پولیس پھر تو اس جہادی رد عمل کو انڈیا کی آرمی بھی نہیں سنبھال پائے گی۔
اب اپنے بارے میں ذرا غور تو کریں ایک ایسا ملک جسے اتنا مضبوط ہونا تھا کہ وہ نہ صرف بھارتی مسلمانوں بلکہ سارے اسلامی ملکوں کے لیے زبردست تقویت کا باعث ہوتا وہ خود کیسے کیسے زلزلوں اور طوفانوں سے دوچار ہے یا کردیا گیا ہے اور اسے کمزور سے کمزور تر بنانے کے لیے ہر ہر سطح پر کتنا کام ہو رہا ہے،کتنے جال بچھائے جا رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ بے حسی کی چادر اوڑھے اپنے ہی مدعے اور معاملے حل نہیں کر پا رہے ہیں۔
غورکریں کہ ساری دنیا میں جو خطے جل رہے ہیں جہاں جہاں اگ ، خون اور بارود کا راج ہے وہ سب کے سب مسلمانوں کے خطے نہیں ہیں ؟ ایک عالمگیر بالا دستی کے منصوبے کے تحت چن چن کر کسی بھی لحاظ سے طاقتور مسلمان ممالک کو یا تو تباہ کر دیا گیا ہے یا مختلف حربے استعمال کرکے مفلوج بنایا جارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے بڑے دماغ اور ذمے داران اس سارے کھیل سے انجان یا لاعلم ہیں ، وہ سب سمجھتے ہیں لیکن یہ ساری یلغار اتنی ہمہ گیر اور ہوشربا ہے کہ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ اس سے کیسے پوری طرح نپٹیں۔ ایک کے بعد ایک طوفان ، ایک نیا معرکہ در پیش ہوجاتا ہے اور جیسے وقت کی رفتار بھی عجیب وغریب حد تک تیز سی ہوگئی ہے اور جوکچھ پہلے مہینوں اور سالوں میں پیش آیا کرتا تھا وہ ہفتوں اور دنوں میں ہورہا ہے۔
اب اس ساری صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں من حیث القوم بالکل ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسے کسی انتہائی طبی ایمرجنسی میں کسی مریض کی جان بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں غورکریں کہ اونچی سطح پر اور اوپر کے یعنی خواص کے طبقات کی سطح پر تو اس سب سے نپٹنے کے لیے جو کچھ سوچا جارہا یا کیا جارہا ہوگا یا نہیں کیا جارہا ہوگا وہ سب اپنی جگہ ہے لیکن انفرادی سطح پر ، میری اور آپ کی سطح پر کیا ہم اتنا نہیں کرسکتے کہ خود اپنی اصلاح کا کم از کم کسی بھی درجے میں آغاز اپنے اپنے لحاظ اور حساب سے اور اپنی ذمے داریوں کے اعتبار سے کرنا شروع کر دیں کہ کوئی تو آس کی راہ بنے کوئی تو امید کی کرن روشن ہو لیکن اس روشن راہ کے لیے سب سے پہلے چاہ کی ضرورت ہے ورنہ جیسا عجیب وغریب ہورہا ہے، ویسا ہوتا ہی رہے گا۔
تو دیکھا آپ نے کہ یار لوگوں نے اس بد ترین صورتحال سے بھی ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کیسی راہ نکال لی۔ واقعی خبط عظمت میں مبتلا ایک عجیب وغریب قوم کے عجیب و غریب افراد سے اورکیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم جیسے اور بہت سارے میدانوں اور شعبوں میں کہیں خود ساختہ اور کہیں واقعتا عظمت کی بلندیوں پر فائز ہیں وہیں ہمارا مقام کرپشن میں بھی عظیم ہے۔
حال ہی میں کراچی گولیمار میں ایک بلڈنگ کا اس طرح گرنا کہ اس نے دو اور عمارتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا اورکتنے خاندان اس ایک واقعے میں برباد ہوگئے کتنے لوگ جان سے گئے اور جو زہے قسمت بچ گئے اب باقی ماندہ عمر مختلف ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنے میں گزاریں گے۔
اب چالیس چالیس گزکے یا دو تین مرلے کے پلاٹ پر جب پانچ پانچ منزلہ عمارتیں بنائی جائیں گی اورکرپشن میں لتھڑے متعلقہ ادارے اور ان کے اہلکاراپنا حصہ لے کر نہ صرف خاموش رہیں گے بلکہ ایسے معاملات کی سرپرستی بھی کریں گے کہ لمبی کمائی ہوجاتی ہے اس طرح سے تو پھر ایسے سانحات تو پیش آیا ہی کریں گے نا۔ جدھر دیکھوں تیری تصویر نظر آتی ہے کی طرح یہاں بھی جدھر دیکھوں کرپشن یا بدعنوانی کی حکمرانی ہی نظر آتی ہے الا ماشااللہ۔
ملکی معاملات میں بگاڑ کی وجہ کرپشن ہے اور غیر ملکی معاملات میں وجہ بھی ایک اور طرح کی کرپشن ہے اور جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا ہے کہ کرپشن کوئی ایک شئے نہیں ہے بلکہ جیسے کچھ برگزیدہ اعمال اور عبادات و اذکارکو ام الاعمال اور ام الاذکارکہا گیا ہے بالکل ویسے ہی کرپشن یا بدعنوانی بھی ام السیئات یعنی گناہوں کی ماں ہے اور اپنی جگہ بجائے خود یہ ایک بہت بڑا مسئلہ اور عفریت یا ڈائن ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگرگناہوں کو جنم دیتی رہتی ہے اور اس کی بے شمار قسمیں جن میں مالی کرپشن، اخلاقی کرپشن ، علمی کرپشن ، اقتصادی کرپشن ، سرکاری کرپشن ، صحافتی کرپشن ، ادارہ جاتی کرپشن ، انفرادی کرپشن ، سیاسی کرپشن اور دانشوارانہ کرپشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دن رات ، ہر لمحہ ہرگھڑی اپنی اپنی اولادیں یعنی نت نئے گناہوں کی تخلیق میں مصروف رہتی ہیں اورکسی بے قابو ہوجانے والی وبا کی طرح اپنا اثر و نفوذ بڑھاتی رہتی ہیں اور پھر ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں تباہی اور بربادی کا راج ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معدودے چندکے سوا اکثریت نہ صرف اپنے زیاں سے بلکہ احساس زیاں سے بھی محروم کردی جاتی ہے اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر انسانی کھنڈرات کا روپ دھار لیتے ہیں۔
مانیں یا نہ مانیں ہم ایک عجیب وغریب بے حسی اور لاتعلقی کا من حیث القوم شکار بن چکے ہیں جوکہ آہستہ آہستہ ہمیں مایوسی کی جانب لے جا رہی ہے اب دیکھیں نا پڑوس میں مسلمانوں پر بدترین مظالم کا بازار گرم تھا ا اور اب بھی ہے اور ہم اپنی رونقوں میں کھیل تماشوں میں کھوئے ہوئے تھے اوراب بھی ہیں۔
باتیں بنانے میں کسی سے کم نہیں رہے لیکن عملی اقدام کے طور پر کیا کیا؟ اور صرف ہم ہی نہیں بلکہ ایک امت کے نام لیوا پچاس سے اوپر ممالک میں کون بولاسوائے دو تین ممالک کے۔ جو ممالک واقعتا صرف یہ کہہ کر ہی ہندوستان کو ایک ایسا جھٹکا دے سکتے تھے کہ اگر یہ سب ختم نہ ہوا تو ہمارے یہاں کام کر رہے لاکھوں بھارتیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے تو نہ صرف یہ قوانین بھی واپس ہوجاتے بلکہ روایتی بنیا حکومت فورا بھائی چارے کا راگ الاپتی نظر آتی اور ہزاروں مسلمان گھرانوں کی جان ،مال عزت آبرو اور کاروبار بھی بد امنی کی آگ میں جل کر خاک نہ ہوئے ہوتے۔ تو من حیث الامتہ بھی عجیب و غریب بے حسی کا راج ہے اور نہ جانے وہ ایک امت کہاں ہے جس کے قصے کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ہندوستان میں جو کچھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ ظلم وجبرکی بد ترین مثال ہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بڑی دیدہ دلیری سے سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فسادیوں اور ظالموں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سارے المیئے کا کیا انجام ہوگا اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ، لیکن اگر ہندوستان کے علماء ومشائخ نے اس ساری بد ترین صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اگرکہیں دفاعی جہاد کا مشترکہ اعلان کردیا تو پھر جوکچھ ہوگا اس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، غنڈہ عناصر ، فسادی اور پولیس تو پولیس پھر تو اس جہادی رد عمل کو انڈیا کی آرمی بھی نہیں سنبھال پائے گی۔
اب اپنے بارے میں ذرا غور تو کریں ایک ایسا ملک جسے اتنا مضبوط ہونا تھا کہ وہ نہ صرف بھارتی مسلمانوں بلکہ سارے اسلامی ملکوں کے لیے زبردست تقویت کا باعث ہوتا وہ خود کیسے کیسے زلزلوں اور طوفانوں سے دوچار ہے یا کردیا گیا ہے اور اسے کمزور سے کمزور تر بنانے کے لیے ہر ہر سطح پر کتنا کام ہو رہا ہے،کتنے جال بچھائے جا رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ بے حسی کی چادر اوڑھے اپنے ہی مدعے اور معاملے حل نہیں کر پا رہے ہیں۔
غورکریں کہ ساری دنیا میں جو خطے جل رہے ہیں جہاں جہاں اگ ، خون اور بارود کا راج ہے وہ سب کے سب مسلمانوں کے خطے نہیں ہیں ؟ ایک عالمگیر بالا دستی کے منصوبے کے تحت چن چن کر کسی بھی لحاظ سے طاقتور مسلمان ممالک کو یا تو تباہ کر دیا گیا ہے یا مختلف حربے استعمال کرکے مفلوج بنایا جارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے بڑے دماغ اور ذمے داران اس سارے کھیل سے انجان یا لاعلم ہیں ، وہ سب سمجھتے ہیں لیکن یہ ساری یلغار اتنی ہمہ گیر اور ہوشربا ہے کہ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ اس سے کیسے پوری طرح نپٹیں۔ ایک کے بعد ایک طوفان ، ایک نیا معرکہ در پیش ہوجاتا ہے اور جیسے وقت کی رفتار بھی عجیب وغریب حد تک تیز سی ہوگئی ہے اور جوکچھ پہلے مہینوں اور سالوں میں پیش آیا کرتا تھا وہ ہفتوں اور دنوں میں ہورہا ہے۔
اب اس ساری صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں من حیث القوم بالکل ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسے کسی انتہائی طبی ایمرجنسی میں کسی مریض کی جان بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں غورکریں کہ اونچی سطح پر اور اوپر کے یعنی خواص کے طبقات کی سطح پر تو اس سب سے نپٹنے کے لیے جو کچھ سوچا جارہا یا کیا جارہا ہوگا یا نہیں کیا جارہا ہوگا وہ سب اپنی جگہ ہے لیکن انفرادی سطح پر ، میری اور آپ کی سطح پر کیا ہم اتنا نہیں کرسکتے کہ خود اپنی اصلاح کا کم از کم کسی بھی درجے میں آغاز اپنے اپنے لحاظ اور حساب سے اور اپنی ذمے داریوں کے اعتبار سے کرنا شروع کر دیں کہ کوئی تو آس کی راہ بنے کوئی تو امید کی کرن روشن ہو لیکن اس روشن راہ کے لیے سب سے پہلے چاہ کی ضرورت ہے ورنہ جیسا عجیب وغریب ہورہا ہے، ویسا ہوتا ہی رہے گا۔