بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
HANOI:
کسی سفرنامے کا سا لطف لیے ہوئے خودنوشت
یوں تو وہ بٹوارے کے برس ہی جنمے، لیکن ہندوستان میں ہی پلے بڑھے، ہجرت کا سبب دوران تعلیم یہ سن گُن بنی کہ وہاں ہندو اساتذہ قابل مسلمان طلبہ کو نمبر نہیں دیتے۔ یوں والدین کی اجازت سے جولائی 1962ء میں ہندوستانی پاسپورٹ پر پاکستان آگئے اور پھر اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر 'پاکستانی' شہریت حاصل کی، 1971ء میں مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہو کر سرکاری ملازم بن گئے۔
یہ ذکر ہے سید سبط یحییٰ نقوی کی خود نوشت ''جو ہم پہ گزری''کا۔ جسے پڑھتے ہوئے ہمیں کسی سفرنامے کا سا لطف ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ڈائری وغیرہ نہیں لکھی، بلکہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنی یادداشت کی بنیاد پر یہ سارے حالات واقعات رقم کیے ہیں۔ وہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ سے بھی منسلک رہے، یوں گاہے گاہے اس کتاب میں بین الاقوامی امور کے تئیں پاکستان کے ذکر کے ساتھ بہت سے داخلی معاملات کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص ان کی کراچی میں تعیناتی، کہ جب بین الاقوامی پروازیں اسلام آباد کے بہ جائے کراچی میں اترتیں اور پھر دارالحکومت جاتیں، ان غیر ملکیوں کا استقبال سید سبط یحییٰ نقوی کے حصے میں آتا۔
اس کے ساتھ لیبیا کی ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کے لیے کوششیں، فلسطینی حریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے سبب یاسر عرفات کی ضیا الحق سے ناراضی کا ذکر بھی ہے۔ دیگر اہم مندرجات میں کراچی میں غیر ملکیوں کی آزادانہ کارروائیوں کا تذکرہ حیران کرتا ہے، سانحہ اوجڑی کیمپ، اور کارگل کے محاذ کی بازگشت بھی ہے۔
لسانی کشیدگی کے دوران کراچی میں الطاف حسین سے ملاقات، اہم سرکاری تقرریوں کے ماجرے اور اس دوران بیتنے والے مختلف واقعات کے حوالے سے وہ خلاف رواج اشاروں کنایوں سے کام نہیں لیتے۔ سیاست دانوں اور اقتدار کی راہ داریوں میں آنے جانے والے 'اہل حَکم' کے رویوں اور سفارت کاروں سے ان کے رابطے اور تعلقات کی جھلک بھی ان اوراق میں دیکھی جا سکتی ہے، نیز ہمارے ملک میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں کی خُو بُو کیا تھی، ہمارے کس حکمراں میں کیا صلاحیت تھی اور کہاں تاریخ میں غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے، اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بخوبی احساس ہوتا ہے۔ 338 صفحات کی اس داستانِ حیات کی اشاعت کا اہتمام 'زندہ کتابیں' کے تحت راشد اشرف نے 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز (02132581720) سے کیا ہے، قیمت 400 روپے ہے۔
تاریخ لکھنے والوں کی تاریخ
حالات حاضرہ کو اپنے لفظوں کے پیرہن سے آنے والے کل کی تاریخ محفوظ بنانے والوں کی وادی 'وادی پرخار' کے نام سے ایسے ہی تو نہیں جانی جاتی۔۔۔ سچ جاننا اور پھر اس سچ کو عوام کے سامنے لانا حاکموں اور حاکم اداروں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہا۔۔۔ لیکن سچ کے لیے لڑنے والے کبھی کم اور کبھی زیادہ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھے رہے۔۔۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ''پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ'' میں ایسے ہی موضوع پر تشنگان علم کی پیاس دور کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔
لیل ونہار، امروز، پاکستان ٹائمز، مساوات، آزاد، الفتح، امن معیار، ڈان، ویو پوائنٹ، عوامی آواز، آؤٹ لک، مسلم، پنجاب پنج اور پنجاب ٹائمز جیسے اخبارات اور جرائد کی ملکیت، ادارت، ادارتی ٹیم، اہم موقعوں پر اِن کے مسائل اور اشاعتی حکمت عملی، بالخصوص اداریوں، کالموں اور مختلف خبروں کے حوالے سے قابل ذکر رویوں کو محفوظ کیا ہے۔ حوالہ جاتی خصوصیت کی حامل 120 صفحاتی اس کتاب سے متعلق ممتاز صحافی مظہر عباس لکھتے ہیں کہ ''آج کی صحافت اور معیار کے موازنے کے لیے اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس کتاب کا نام 'صحافت کی متبادل تاریخ' کیوں رکھا گیا ہے۔'' بدلتی دنیا پبلی کیشنز اسلام آباد (03335577993) سے شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 600 روپے ہے۔
'قائد' کے سپاہی سے 'شہرِ قائد' کے نشیب وفراز تک ۔۔۔
اگر ہم تحریک پاکستان کے بعد آزاد بن حیدر کا سب سے بڑا حوالہ دیکھیں، تو اس کا محور 'کراچی' اور 'سندھ' دکھائی دیتا ہے، بالخصوص 'کراچی صوبے' کی تحریک سے لے کر 1972ء کی مردم شماری میں مبینہ طور پر کراچی کی آبادی آدھی بتائے جانے جیسے معاملات پر اُن جیسی طویل اور مسلسل جدوجہد کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ اُن کی زیر تبصرہ آپ بیتی 'بقلم خود' ہمارے ملک کی اسی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے مندرجہ بالا امور سے متعلق تاریخی گواہیاں ایک عینی شاہد کے طور پر رقم کی ہیں۔ ساتھ ہی ان کی تصانیف، تعلیمی، صحافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ کتاب کے ہر صفحے کے کنارے پر اوپر تلے پانچ، پانچ کر کے تحریک پاکستان کی 40 نمایاں شخصیات کی تصاویر باری باری طبع کی گئی ہیں، ابتدائی 65 صفحات میں مختلف شخصیات کے تاثرات درج کیے گئے ہیں۔
کتاب کے 60 صفحات مختلف موقعوں کی تصاویر سے آراستہ ہیں۔۔۔ اس کے بعد کے 60 صفحات میں بہ عنوان 'یادرفتگان' مختلف مشہور ومعروف شخصیات کے حوالے سے اظہار رائے کیا گیا ہے، اس سے اگلے اوراق میں ان کی 'تصانیف' کے سرورق زینتِ کتاب ہیں، ساتھ ہی مصنف کو دیے جانے والے مختلف ایوارڈ کی تصاویر بھی جمع کی گئی ہیں۔ 688 صفحات تک پھیلی ہوئی اس تاریخی دستاویز کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔کتاب میں بہت سی جگہوں پر تراشوں کے عکس کے ساتھ اگر اس کے مندرجات الگ سے بھی لکھ دیے جائیں، تو ان کی پڑھت کافی سہل ہو سکتی ہے، نیز بہت سی جگہوں پر کتابت کی اغلاط کے ساتھ، اس کی تدوین کر کے کتاب کو مزید نکھارا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ ہماری اہم تاریخی دستاویز میں شمار کی جائے گی، اس لیے اس کا ہر ممکن طور پر غلطیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے فضلی بک (0213269724)، کتاب سرائے (04237320318)، اور مسٹر بکس (0512278845) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
100 لفظوں کی سو سے زائد کہانیاں
سو لفظوں کی کہانی لکھنے والے مبشر علی زیدی کافی دنوں تک ایک معاصر روزنامے میں روزانہ کہانی لکھنے کے بعد آج کل دیگر مصروفیات کو وقت دیتے ہیں، لیکن اردو میں مختصر کہانی کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے، اور اس جاری سلسلے میں فاخرہ گُل بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، جو کہ سو لفظوں کی کہانیوں کی پہلی خاتون صاحب کتاب بھی ہیں۔ ''اسّی نوے پورے سو'' کے عنوان سے ان کی سو لفظی کہانیوں کی دوسری تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔
ان کہانیوں کا موضوع سماجیات اور حالات حاضرہ ہے۔ بیش تر کہانیوں کے مرکزی خیال سماجی تضادات، مکافات عمل، طنز اور نصیحت سے بُنے گئے معلوم ہوتے ہیں، جیسے ایک کہانی 'منزل' کا پس منظر راہ میں بھونکنے والے کتوں کی ضرب المثل پر ہے۔ ان کہانیوں میں مکالمے بھی ہیں، اور کچھ پر (بقول ناقدین کے) 'مضمون' کا گمان گزرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی تحریری اہمیت پر کوئی کلام نہیں کیا جا سکتا۔ اردو سخن، لیہ (03027844094) سے شایع ہونے والی اس تصنیف کے صفحات 132 اور قیمت 400 روپے ہے۔
سیکڑوں 'یک سطری' جملوں کا 'سراغ'
اس تصنیف سے قبل ڈاکٹر قمر فاروق مختلف موضوعات پر درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 'سراغ' ان کی یک سطری جملوں پر مشتمل فکر کا نتیجہ ہیں۔ مختلف موضوعات کو 10 مختلف ابواب میں بانٹا گیا ہے، جیسے کسی میں مذہبی افکار کو جمع کیا گیا ہے، تو کسی میں واہموں کو یک جا کر دیا گیا ہے، کسی میں رشتوں سے جڑے موضوعات ایک ساتھ ہیں تو کہیں علم وسماج کے حوالے سمٹے ہوئے ہیں۔۔۔
کہنے کو اس پوری کتاب میں ہی سیکڑوں چھوٹے چھوٹے جملے یا اقوال لکھے گئے ہیں، جن کی علمی حیثیت کا فیصلہ تو یقیناً سماجیات اور فلسفے کے اساتذہ ہی کر سکتے ہیں، لیکن دراصل اصول، تحریک، قوانین اور اخلاقیات ایسے ہی چھوٹے چھوٹے نکات پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر ہم اپنی زندگی قابلیت اور راہ عمل کو یک سو کرتے ہیں۔ مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکنے والوں کے لیے یہ کتاب اچھا اضافہ ہے، کہ اگر چند منٹ کے لیے بھی ورق گردانی کریں، تو یقیناً بہت سی کام کی باتیں ہاتھ آجائیں گی۔ زربفت پبلی کیشنز لاہور (03016360741)سے شایع شدہ 144 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
پچھلی صدی کی صحافت و سیاست کی چاپ
راشد اشرف کے مشہور سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت منظر عام پر آنے والی یہ کتاب ''آہنگ بازگشت'' معروف صحافی اور سیاسی کارکن مولوی محمد سعید کی آپ بیتی ہے اور یک ساں طور پر سیاست اور صحافت سے دل چسپی رکھنے والوں کو دعوت مطالعہ دیتی ہے۔ اس میں 'مطالبۂ پاکستان' سے لے کر بہار، بنگال، دلی اور پنجاب میں تقسیم سے پہلے پیش آنے والے واقعات اور فسادات کے حوالے سے کافی کچھ بیان کیا گیا ہے۔
پنجاب میں 'یونینسٹوں' کی بہ یک وقت دو کشتیوں میں سواری اُس وقت کی سیاسی اٹھان کی خبر دیتی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے سمے ہمیں پاکستان میں 'ڈان' اخبار کے نام کی تبدیلی کی کوششوںکا ذکر سب سے منفرد اور دل چسپ احوال معلوم ہوا۔ 502 صفحات کی یہ کتاب اگرچہ بہت سے ابواب میں منقسم ہے، جو پھر واقعات اور موضوعات کی مناسبت سے مزید چھوٹے حصوں میں بانٹے گئے ہیں۔ تاہم کتاب کے شروع میں فہرست کا نہ ہونا بہت کَھلتا ہے، امید ہے آیندہ اشاعت میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔ فضلی بک سپر مارکیٹ (02132629724) سے شایع شدہ اِس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔
سماج اور اس کے منہ زور مسائل
معاشرہ، معاشرتی انتشار، انحراف، آبادی، صحت اور رہائش جیسے مسائل کی فکر لیے سیما لیاقت جمیل کی یہ کتاب ''پاکستان کے سماجی مسائل'' کے عنوان سے منصہ شہود پہ آئی ہے۔ یوں تو یہ کراچی، سندھ، پنجاب، پشاور اور بلوچستان کی جامعات کے نصاب کا احاطہ کرتی ہے، لیکن کراچی کے حوالے سے بالخصوص اس میں کافی مواد ہے۔
خاص طور پر ذرایع آمدورفت کے حوالے سے مختلف منصوبوں کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے گھر بچوں، ضعیف العمر افراد، صارفین کے حقوق اور قوانین، گھریلو ملازمین کے ساتھ ساتھ 'خواجہ سرا' کے حوالے سے بھی علاحدہ ابواب موجود ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف سماجی مسائل سے نبٹنے کے لیے معاون اداروں کے نام، پتے اور فون نمبر وغیرہ بھی درج کیے گئے ہیں۔ معروف آرکیٹکٹ عارف حسن 285 صفحات پر مشتمل اس تصنیف کے حوالے سے اظہار رائے کرتے ہوئے اس کتاب میں کی جانے والی سفارشات کو طالب علموں کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ کفایت اکیڈمی (02132211722) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔
'شہرِ قائد' کا مختصراً احاطہ کرتی ہوئی مفصل کتاب!
زیر تبصرہ کتاب ''شہروں میں شہر کراچی: ایک مطالعاتی جائزہ'' رئیس کلیہ فنون جامعہ کراچی ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ کتاب کے ابتدائی 94 صفحات میں مجموعی طور پر شہر کی بنیادی معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ شہر کی شروعات 1729ء میں مچھیروں کی بستی سے ہوئی۔ پھر شہر کی وجہ تسمیہ، محل وقوع، مقامات، سڑکیں، تعمیراتی منصوبے، مسائل، آبادی، مشہور سماجی، ادبی اور فن کار شخصیات، مساجد اور دیگر مختلف عبادت گاہیں، مزارات، قبرستان اور کتب خانوں وغیرہ تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد باقی کتاب میں شہر قائد کے 18 ٹاؤن کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ہر ٹاؤن کی یونین کونسلیں، اس کی آبادی اور اس کے خددوخال، خصوصیات، مسائل، مشہور مقامات، مساجد اور دیگر عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، تفریح گاہیں، بڑے بازار، صنعتیں، مشہور دکانیں، ریستوران، بینک، یہاں تک کے پیٹرول پمپ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے 'روٹس' تک لکھ دیے گئے ہیں۔
کتاب کے آخر میں شامل کتابیات میں 150 کے قریب کتب کے حوالے درج ہیں۔ شہر کی سیاسی اور سماجی تاریخ، اس کی مسلسل محرومی اور اس جیسے بہت سے دقیع مسائل سے لے کر شہر میں رونما ہونے والے اہم واقعات اور حادثات کے حوالے سے کافی تشنگی محسوس ہوتی ہے، لیکن رائل بک کمپنی، کراچی (0331-2085205)سے شایع شدہ اس کتاب کی 483 صفحات کی ضخامت دیکھیے تو پتا چلتا ہے کہ اگر ان وسیع موضوعات کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی تو توایک اور 'دفتر' کھولنا پڑتا، یعنی کتاب کا حجم کم ازکم دُگنا کرنا پڑتا۔ کتاب کے سرورق موجود صوبہ سندھ کا نقشہ دیکھ کر ایک نظر میں یہ گماں ہوتا ہے کہ اس کا موضوع وادیٔ مہران ہے، لیکن کتاب کے عنوان اور سرورق پر موجود شہر کے مشہور مقامات کی مصوری سے وضاحت ہو جاتی ہے، کتاب کی قیمت 2 ہزار 500 روپے ہے۔
کسی سفرنامے کا سا لطف لیے ہوئے خودنوشت
یوں تو وہ بٹوارے کے برس ہی جنمے، لیکن ہندوستان میں ہی پلے بڑھے، ہجرت کا سبب دوران تعلیم یہ سن گُن بنی کہ وہاں ہندو اساتذہ قابل مسلمان طلبہ کو نمبر نہیں دیتے۔ یوں والدین کی اجازت سے جولائی 1962ء میں ہندوستانی پاسپورٹ پر پاکستان آگئے اور پھر اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر 'پاکستانی' شہریت حاصل کی، 1971ء میں مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہو کر سرکاری ملازم بن گئے۔
یہ ذکر ہے سید سبط یحییٰ نقوی کی خود نوشت ''جو ہم پہ گزری''کا۔ جسے پڑھتے ہوئے ہمیں کسی سفرنامے کا سا لطف ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ڈائری وغیرہ نہیں لکھی، بلکہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنی یادداشت کی بنیاد پر یہ سارے حالات واقعات رقم کیے ہیں۔ وہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ سے بھی منسلک رہے، یوں گاہے گاہے اس کتاب میں بین الاقوامی امور کے تئیں پاکستان کے ذکر کے ساتھ بہت سے داخلی معاملات کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص ان کی کراچی میں تعیناتی، کہ جب بین الاقوامی پروازیں اسلام آباد کے بہ جائے کراچی میں اترتیں اور پھر دارالحکومت جاتیں، ان غیر ملکیوں کا استقبال سید سبط یحییٰ نقوی کے حصے میں آتا۔
اس کے ساتھ لیبیا کی ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کے لیے کوششیں، فلسطینی حریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے سبب یاسر عرفات کی ضیا الحق سے ناراضی کا ذکر بھی ہے۔ دیگر اہم مندرجات میں کراچی میں غیر ملکیوں کی آزادانہ کارروائیوں کا تذکرہ حیران کرتا ہے، سانحہ اوجڑی کیمپ، اور کارگل کے محاذ کی بازگشت بھی ہے۔
لسانی کشیدگی کے دوران کراچی میں الطاف حسین سے ملاقات، اہم سرکاری تقرریوں کے ماجرے اور اس دوران بیتنے والے مختلف واقعات کے حوالے سے وہ خلاف رواج اشاروں کنایوں سے کام نہیں لیتے۔ سیاست دانوں اور اقتدار کی راہ داریوں میں آنے جانے والے 'اہل حَکم' کے رویوں اور سفارت کاروں سے ان کے رابطے اور تعلقات کی جھلک بھی ان اوراق میں دیکھی جا سکتی ہے، نیز ہمارے ملک میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں کی خُو بُو کیا تھی، ہمارے کس حکمراں میں کیا صلاحیت تھی اور کہاں تاریخ میں غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے، اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بخوبی احساس ہوتا ہے۔ 338 صفحات کی اس داستانِ حیات کی اشاعت کا اہتمام 'زندہ کتابیں' کے تحت راشد اشرف نے 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز (02132581720) سے کیا ہے، قیمت 400 روپے ہے۔
تاریخ لکھنے والوں کی تاریخ
حالات حاضرہ کو اپنے لفظوں کے پیرہن سے آنے والے کل کی تاریخ محفوظ بنانے والوں کی وادی 'وادی پرخار' کے نام سے ایسے ہی تو نہیں جانی جاتی۔۔۔ سچ جاننا اور پھر اس سچ کو عوام کے سامنے لانا حاکموں اور حاکم اداروں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہا۔۔۔ لیکن سچ کے لیے لڑنے والے کبھی کم اور کبھی زیادہ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھے رہے۔۔۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ''پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ'' میں ایسے ہی موضوع پر تشنگان علم کی پیاس دور کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔
لیل ونہار، امروز، پاکستان ٹائمز، مساوات، آزاد، الفتح، امن معیار، ڈان، ویو پوائنٹ، عوامی آواز، آؤٹ لک، مسلم، پنجاب پنج اور پنجاب ٹائمز جیسے اخبارات اور جرائد کی ملکیت، ادارت، ادارتی ٹیم، اہم موقعوں پر اِن کے مسائل اور اشاعتی حکمت عملی، بالخصوص اداریوں، کالموں اور مختلف خبروں کے حوالے سے قابل ذکر رویوں کو محفوظ کیا ہے۔ حوالہ جاتی خصوصیت کی حامل 120 صفحاتی اس کتاب سے متعلق ممتاز صحافی مظہر عباس لکھتے ہیں کہ ''آج کی صحافت اور معیار کے موازنے کے لیے اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس کتاب کا نام 'صحافت کی متبادل تاریخ' کیوں رکھا گیا ہے۔'' بدلتی دنیا پبلی کیشنز اسلام آباد (03335577993) سے شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 600 روپے ہے۔
'قائد' کے سپاہی سے 'شہرِ قائد' کے نشیب وفراز تک ۔۔۔
اگر ہم تحریک پاکستان کے بعد آزاد بن حیدر کا سب سے بڑا حوالہ دیکھیں، تو اس کا محور 'کراچی' اور 'سندھ' دکھائی دیتا ہے، بالخصوص 'کراچی صوبے' کی تحریک سے لے کر 1972ء کی مردم شماری میں مبینہ طور پر کراچی کی آبادی آدھی بتائے جانے جیسے معاملات پر اُن جیسی طویل اور مسلسل جدوجہد کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ اُن کی زیر تبصرہ آپ بیتی 'بقلم خود' ہمارے ملک کی اسی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے مندرجہ بالا امور سے متعلق تاریخی گواہیاں ایک عینی شاہد کے طور پر رقم کی ہیں۔ ساتھ ہی ان کی تصانیف، تعلیمی، صحافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ کتاب کے ہر صفحے کے کنارے پر اوپر تلے پانچ، پانچ کر کے تحریک پاکستان کی 40 نمایاں شخصیات کی تصاویر باری باری طبع کی گئی ہیں، ابتدائی 65 صفحات میں مختلف شخصیات کے تاثرات درج کیے گئے ہیں۔
کتاب کے 60 صفحات مختلف موقعوں کی تصاویر سے آراستہ ہیں۔۔۔ اس کے بعد کے 60 صفحات میں بہ عنوان 'یادرفتگان' مختلف مشہور ومعروف شخصیات کے حوالے سے اظہار رائے کیا گیا ہے، اس سے اگلے اوراق میں ان کی 'تصانیف' کے سرورق زینتِ کتاب ہیں، ساتھ ہی مصنف کو دیے جانے والے مختلف ایوارڈ کی تصاویر بھی جمع کی گئی ہیں۔ 688 صفحات تک پھیلی ہوئی اس تاریخی دستاویز کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔کتاب میں بہت سی جگہوں پر تراشوں کے عکس کے ساتھ اگر اس کے مندرجات الگ سے بھی لکھ دیے جائیں، تو ان کی پڑھت کافی سہل ہو سکتی ہے، نیز بہت سی جگہوں پر کتابت کی اغلاط کے ساتھ، اس کی تدوین کر کے کتاب کو مزید نکھارا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ ہماری اہم تاریخی دستاویز میں شمار کی جائے گی، اس لیے اس کا ہر ممکن طور پر غلطیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے فضلی بک (0213269724)، کتاب سرائے (04237320318)، اور مسٹر بکس (0512278845) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
100 لفظوں کی سو سے زائد کہانیاں
سو لفظوں کی کہانی لکھنے والے مبشر علی زیدی کافی دنوں تک ایک معاصر روزنامے میں روزانہ کہانی لکھنے کے بعد آج کل دیگر مصروفیات کو وقت دیتے ہیں، لیکن اردو میں مختصر کہانی کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے، اور اس جاری سلسلے میں فاخرہ گُل بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، جو کہ سو لفظوں کی کہانیوں کی پہلی خاتون صاحب کتاب بھی ہیں۔ ''اسّی نوے پورے سو'' کے عنوان سے ان کی سو لفظی کہانیوں کی دوسری تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔
ان کہانیوں کا موضوع سماجیات اور حالات حاضرہ ہے۔ بیش تر کہانیوں کے مرکزی خیال سماجی تضادات، مکافات عمل، طنز اور نصیحت سے بُنے گئے معلوم ہوتے ہیں، جیسے ایک کہانی 'منزل' کا پس منظر راہ میں بھونکنے والے کتوں کی ضرب المثل پر ہے۔ ان کہانیوں میں مکالمے بھی ہیں، اور کچھ پر (بقول ناقدین کے) 'مضمون' کا گمان گزرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی تحریری اہمیت پر کوئی کلام نہیں کیا جا سکتا۔ اردو سخن، لیہ (03027844094) سے شایع ہونے والی اس تصنیف کے صفحات 132 اور قیمت 400 روپے ہے۔
سیکڑوں 'یک سطری' جملوں کا 'سراغ'
اس تصنیف سے قبل ڈاکٹر قمر فاروق مختلف موضوعات پر درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 'سراغ' ان کی یک سطری جملوں پر مشتمل فکر کا نتیجہ ہیں۔ مختلف موضوعات کو 10 مختلف ابواب میں بانٹا گیا ہے، جیسے کسی میں مذہبی افکار کو جمع کیا گیا ہے، تو کسی میں واہموں کو یک جا کر دیا گیا ہے، کسی میں رشتوں سے جڑے موضوعات ایک ساتھ ہیں تو کہیں علم وسماج کے حوالے سمٹے ہوئے ہیں۔۔۔
کہنے کو اس پوری کتاب میں ہی سیکڑوں چھوٹے چھوٹے جملے یا اقوال لکھے گئے ہیں، جن کی علمی حیثیت کا فیصلہ تو یقیناً سماجیات اور فلسفے کے اساتذہ ہی کر سکتے ہیں، لیکن دراصل اصول، تحریک، قوانین اور اخلاقیات ایسے ہی چھوٹے چھوٹے نکات پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر ہم اپنی زندگی قابلیت اور راہ عمل کو یک سو کرتے ہیں۔ مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکنے والوں کے لیے یہ کتاب اچھا اضافہ ہے، کہ اگر چند منٹ کے لیے بھی ورق گردانی کریں، تو یقیناً بہت سی کام کی باتیں ہاتھ آجائیں گی۔ زربفت پبلی کیشنز لاہور (03016360741)سے شایع شدہ 144 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
پچھلی صدی کی صحافت و سیاست کی چاپ
راشد اشرف کے مشہور سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت منظر عام پر آنے والی یہ کتاب ''آہنگ بازگشت'' معروف صحافی اور سیاسی کارکن مولوی محمد سعید کی آپ بیتی ہے اور یک ساں طور پر سیاست اور صحافت سے دل چسپی رکھنے والوں کو دعوت مطالعہ دیتی ہے۔ اس میں 'مطالبۂ پاکستان' سے لے کر بہار، بنگال، دلی اور پنجاب میں تقسیم سے پہلے پیش آنے والے واقعات اور فسادات کے حوالے سے کافی کچھ بیان کیا گیا ہے۔
پنجاب میں 'یونینسٹوں' کی بہ یک وقت دو کشتیوں میں سواری اُس وقت کی سیاسی اٹھان کی خبر دیتی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے سمے ہمیں پاکستان میں 'ڈان' اخبار کے نام کی تبدیلی کی کوششوںکا ذکر سب سے منفرد اور دل چسپ احوال معلوم ہوا۔ 502 صفحات کی یہ کتاب اگرچہ بہت سے ابواب میں منقسم ہے، جو پھر واقعات اور موضوعات کی مناسبت سے مزید چھوٹے حصوں میں بانٹے گئے ہیں۔ تاہم کتاب کے شروع میں فہرست کا نہ ہونا بہت کَھلتا ہے، امید ہے آیندہ اشاعت میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔ فضلی بک سپر مارکیٹ (02132629724) سے شایع شدہ اِس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔
سماج اور اس کے منہ زور مسائل
معاشرہ، معاشرتی انتشار، انحراف، آبادی، صحت اور رہائش جیسے مسائل کی فکر لیے سیما لیاقت جمیل کی یہ کتاب ''پاکستان کے سماجی مسائل'' کے عنوان سے منصہ شہود پہ آئی ہے۔ یوں تو یہ کراچی، سندھ، پنجاب، پشاور اور بلوچستان کی جامعات کے نصاب کا احاطہ کرتی ہے، لیکن کراچی کے حوالے سے بالخصوص اس میں کافی مواد ہے۔
خاص طور پر ذرایع آمدورفت کے حوالے سے مختلف منصوبوں کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے گھر بچوں، ضعیف العمر افراد، صارفین کے حقوق اور قوانین، گھریلو ملازمین کے ساتھ ساتھ 'خواجہ سرا' کے حوالے سے بھی علاحدہ ابواب موجود ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف سماجی مسائل سے نبٹنے کے لیے معاون اداروں کے نام، پتے اور فون نمبر وغیرہ بھی درج کیے گئے ہیں۔ معروف آرکیٹکٹ عارف حسن 285 صفحات پر مشتمل اس تصنیف کے حوالے سے اظہار رائے کرتے ہوئے اس کتاب میں کی جانے والی سفارشات کو طالب علموں کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ کفایت اکیڈمی (02132211722) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔
'شہرِ قائد' کا مختصراً احاطہ کرتی ہوئی مفصل کتاب!
زیر تبصرہ کتاب ''شہروں میں شہر کراچی: ایک مطالعاتی جائزہ'' رئیس کلیہ فنون جامعہ کراچی ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ کتاب کے ابتدائی 94 صفحات میں مجموعی طور پر شہر کی بنیادی معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ شہر کی شروعات 1729ء میں مچھیروں کی بستی سے ہوئی۔ پھر شہر کی وجہ تسمیہ، محل وقوع، مقامات، سڑکیں، تعمیراتی منصوبے، مسائل، آبادی، مشہور سماجی، ادبی اور فن کار شخصیات، مساجد اور دیگر مختلف عبادت گاہیں، مزارات، قبرستان اور کتب خانوں وغیرہ تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد باقی کتاب میں شہر قائد کے 18 ٹاؤن کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ہر ٹاؤن کی یونین کونسلیں، اس کی آبادی اور اس کے خددوخال، خصوصیات، مسائل، مشہور مقامات، مساجد اور دیگر عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، تفریح گاہیں، بڑے بازار، صنعتیں، مشہور دکانیں، ریستوران، بینک، یہاں تک کے پیٹرول پمپ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے 'روٹس' تک لکھ دیے گئے ہیں۔
کتاب کے آخر میں شامل کتابیات میں 150 کے قریب کتب کے حوالے درج ہیں۔ شہر کی سیاسی اور سماجی تاریخ، اس کی مسلسل محرومی اور اس جیسے بہت سے دقیع مسائل سے لے کر شہر میں رونما ہونے والے اہم واقعات اور حادثات کے حوالے سے کافی تشنگی محسوس ہوتی ہے، لیکن رائل بک کمپنی، کراچی (0331-2085205)سے شایع شدہ اس کتاب کی 483 صفحات کی ضخامت دیکھیے تو پتا چلتا ہے کہ اگر ان وسیع موضوعات کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی تو توایک اور 'دفتر' کھولنا پڑتا، یعنی کتاب کا حجم کم ازکم دُگنا کرنا پڑتا۔ کتاب کے سرورق موجود صوبہ سندھ کا نقشہ دیکھ کر ایک نظر میں یہ گماں ہوتا ہے کہ اس کا موضوع وادیٔ مہران ہے، لیکن کتاب کے عنوان اور سرورق پر موجود شہر کے مشہور مقامات کی مصوری سے وضاحت ہو جاتی ہے، کتاب کی قیمت 2 ہزار 500 روپے ہے۔