ایران کی عالمی تنہائی کا خاتمہ
طویل عرصے تک عالمی تنہائی کا شکار رہنے کے بعد بالآخر ایران کی موجودہ سیاسی قیادت نے تنہائی سے نکل کر دنیا بھر۔۔۔
ISLAMABAD:
طویل عرصے تک عالمی تنہائی کا شکار رہنے کے بعد بالآخر ایران کی موجودہ سیاسی قیادت نے تنہائی سے نکل کر دنیا بھر سے اپنے تعلقات کو استوارکرنے کا انتہائی دانش مندانہ فیصلہ کرلیاہے۔ پہلے مرحلے پر ایران کی وزارت خارجہ کے اہم ارکان نے دنیا کے چھ ترقی یافتہ ممالک، امریکا، چین ، روس ، برطانیہ ، جرمنی اور فرانس سے سفارتی سطح کے تعلقات بہتر بنانے اور اعتماد سازی کا ماحول بنانے کے لیے ابتدائی نوعیت کے مربوط رابطے کیے۔اس عمل میں کامیابی کے بعد ان ممالک کے وزرائے خارجہ اور ایرانی حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور منعقد ہوئے۔ دنیا بھر میں ایران کی جانب سے کی جانے والی اس پیش رفت کا نہ صرف بھر پورخیر مقدم کیا گیا بلکہ اس یقین کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ بہت جلد ایران اپنی عالمی تنہائی اوراس کے نتیجے میں اس پر عائد کی گئیں معاشی پابندیوں کو ختم کرانے میںکامیاب ہوجائے گا۔ایران کی قومی اور خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں اسے حاصل ہونے والی زبردست کامیابی پر جہاں دنیا کے بیشتر ممالک نے حمایت کی وہیں اسرائیل نے اس کی مخالفت جب کہ کینیڈا،سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے عبوری معاہدے اور اس کے نتیجے میں ایران کی عالمی تنہائی کے خاتمے کو عالمی حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین ایک مثبت اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دنیا کو زیادہ محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
ایک اندازہ کے مطابق ایران کوعالمی تنہائی اور سخت معاشی پابندیوں کی بناء پر محض چار برسوں میں ایک سو بیس ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ اب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین چھ ماہ کے لیے ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کے عوض ایران پر اقوام متحدہ،امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئیں سخت معاشی پابندیوں میں چھ ماہ کے لیے نرمی کردی گئی ہے جس کے جواب میں ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی اور اس کے موجود ذخائر میں کمی کرنا ہوگی اور عالمی جوہری اداروں کے نمایندوں کی ایٹمی تنصیبات تک رسائی کو روزانہ کی بنیاد پر ممکن بنانا ہوگا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں امریکا اور مغربی ممالک میں موجود ایران کے منجمد اثاثوں میں سے تقریباً 7ارب ڈالر فوری طور پر بحال ہوجائیں گے اور آیندہ چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔
اس معاہدے کی بدولت قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں پر پہلے سے عائد چند پابندیاں معطل کردی جائیں گی ۔مزید یہ کہ ایرانی تیل کے منجمد تقریباً سوا چا ر ارب ڈالر بھی جاری کردیے جائیں گے۔ معاہدے کے تحت ایران کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ موجودہ حد کے مطابق تیل کی فروخت جاری رکھ سکے جس کا براہ راست فائدہ ساری دنیا کے عوام کو پہنچے گا۔ایران کا تیل بین الااقوامی منڈی کا حصہ بن جائے گا،عالمی منڈی میں تیل کی رسد میں اضافہ ہوجائے گا جس سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔ اس کے ساتھ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمدنی میں کمی رونما ہوجائے گی جن میں سعودی عرب سرفہرست ہوگا۔عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین ہونے والے اس معاہدے کے بعد ایران کے سونے اور قیمتی دھاتوں کی تجارت ،آٹو سیکٹر اور پیٹرو کیمیکلز کی برآمدات پر عائد کئی گئیں چند پابندیاں بھی ختم کردی جائیں گی جس سے ایک تخمینے کے مطابق ایران کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوگی ۔ چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر امریکی صدر بارک اوباما اور ایرانی صدر حسن روحانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے اِسے تعمیری اور عالمی سطح پر نئے افق کھول دینے کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے ۔ اس معاہدے کی توثیق ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی کردی ہے۔
ایران نے گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی تنہائی کا خاتمہ کرکے امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں سے جو معاہدہ کیا ہے یقینا یہ اس کے لیے قومی سطح پر ایک مشکل فیصلہ ہے اور ایران میں آج بھی موجود سخت گیر رویہ کے حامل افراد کے لیے یہ معاہدہ ناپسندیدہ ہوگالیکن یہ ایران کے عوام تھے کہ جن کی بڑی اکثریت نے صدر حسن روحانی کو حالیہ انتخابات میں معیشت کی بہتری کے نعرے پر ووٹ دیکر یہ عظیم کام کروایا ہے۔ایرانی قوم کا اکثریتی مینڈیٹ وہاں کی موجودہ سیاسی قیادت کو حاصل ہے جس کے انقلابی اقدامات کو پوری ایرانی قوم کی امنگوں کا آئینہ دار تصور کیا جانا چاہیے۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی کے مثبت یا منفی اثرات ساری دنیا اور بالخصوص پاکستان پر یقینا مرتب ہوں گے ایران کا فیصلہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے بہت ہی واضح پیغام ہے کہ آج کی تبدیل شدہ دنیا میں جو اب واقعتا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے سب سے الگ تھلگ رہ کر ترقی اورخوشحالی کے ساتھ زندہ رہنا ممکن نہیں رہا ہے۔ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے جس کے باعث ان کے معاشرے میں تضادات اور انتشار کی وہ کیفیت نہیں ہے کہ جو بد قسمتی سے ہمارے ملک میںعروج پر ہے۔ لہٰذا جب ایران عالمی تنہائی میں رہ کر ترقی نہیں کرسکا اور اسے آج اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑرہی ہے اور اب وہ اپنے بارے میں عالمی سطح پر پیدا ہونے والے غلط رجحانات کے تاثرکو زائل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تو پاکستان کے لیے جو کہ پہلے ہی بے شمار سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے یہ کس طرح ممکن ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر تنہائی اختیار کرلے اور سخت گیر نظریے کے حامل محض چند فیصد عناصر کے دبائو میں آکر امریکا ، روس، چین، برطانیہ سمیت ساری دنیا سے اپنے تعلقات کو ختم کرلے۔
ایران کی خارجہ پالیسی کی انقلابی تبدیلی دراصل سخت گیر نظریات کے حامل افراد اور جماعتوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں اپنے نظریات پر نظر ثانی کریں اور ایک ایسی متوازن پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کریں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان عالمی تنہائی میں نہ جائے اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔