گمبھیر مسائل تدبر سے کام لینے کی ضرورت
سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف کے خلاف حکومت پاکستان نے آئین کے آٓرٹیکل چھ کے تحت غداری اور بغاوت کا۔۔۔
لاہور:
سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف کے خلاف حکومت پاکستان نے آئین کے آٓرٹیکل چھ کے تحت غداری اور بغاوت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ملک کے وزیر داخلہ نے جنرل مشرف کے لیے سپریم کورٹ سے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی، ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی ہے کہ 3نومبر2007 کے اقدامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے، مشرف کے خلاف یہ الزام ہے کہ انھوںنے 2007 میں آئین معطل کردیا تھا اور ہنگامی حالات کا اعلان کردیا تھا، ساتھ ہی عدلیہ کے بیشتر ارکان کو فارغ کیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف مقدمے پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم آئین کے آرٹیکل چھ کو سمجھ لیں کہ آیا آئین کا آرٹیکل چھ کیا کہتا ہے۔1973ء کے متفقہ آئین کے آرٹیکل چھ ، تین بنیادی شقوں پر مشتمل ہے،۔ آرٹیکل چھ کی شق 1کے مطابق کوئی شخص آئین توڑے ، اس کی غداری کرے ، اس کی خلاف ورزی کرے یا اسے معطل کرنے یا پس پشت ڈالنے کے لیے طاقت کا استعمال یا طاقت ظاہر کرکے سازش کرے وہ غداری کا مرتکب ہوگا۔ آرٹیکل چھ کی شق 2کے مطابق آئین توڑنے والے شخص کی معاونت کرنے والا بھی بغاوت کا مرتکب ہوگا ضمنی شق 2Aکے مطابق آئین توڑنے کے عمل کی کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں توثیق نہیں کی جائے گی،آرٹیل کی ضمنی شق3کے مطابق جو شخص آئین توڑ کرغدار ی کا مرتکب پایا گیا مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ قانون کے تحت اسے سزا دلوائے گی۔
آئین کے آرٹیکل چھ کو سمجھنے کے بعد جو چیز واضح طو رپر سامنے آتی ہے وہ ہے اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت کا پیدا ہونا ہے، کیونکہ اکتوبر 99کی فوجی بغاوت کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی تھی جب کہ پارلیمنٹ نے بھی ، عدلیہ کی پیروی کرتے ہوئے سترھویں ترمیم منظور کرکے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس طرح ان ججز اور پارلیمنٹرینز کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے جو اس معاملے میں کسی حد تک ملوث تھے، اس طرح ایک پینڈورا بکس کھل جائے گا اور اداروں میں شدید تصادم کا خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے، غربت، انتہا پسندی ، مذہب فرقہ واریت اور تعلیم کے فقدان کے ساتھ بے روزگاری جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ،روزمرہ استعمال کی اشیاء عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں،ان بنیادی مسائل کی موجودگی میں کیا ان کا حل ڈھونڈنا زیادہ ضروری ہے یا مزید تصادم کو دعوت دے کر ملک کے استحکام پر کاری ضرب لگانا ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ڈرون حملے کسی صوبے کا مقدر بنا دیے گئے تو صوبہ خیبر پختونخواہ میں گورنر راج لگنے کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں ، راولپنڈی شہر میں شدید فرقہ وارانہ فساد برپا ہونے کے بعد فو ج بلا کر کرفیو نافذ کردیا گیا، دہشت اور وحشت کا بازار گرم ہے کراچی میں دہشتگردوں کے خاتمے کے نام پر زیادتیوں کی انتہاء ہوگئی ہے مسلح دہشتگرد اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں۔ روزنہ درجنوں بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں ۔
سازشی عناصرجلاؤ گھیراؤ قتل و غارت میں مصروف ہیں ، ساری دنیا میں ہمارا قومی تشخص متاثر ہورہا ہے،اس قدر نازک حالات میں کیا ہم اداروں کے درمیان چپقلش یا تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں حکومت کو اس امر پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنی توانائی کو صرف کرناچاہیے ، بھائی چارے، باہمی اتحادواتفاق ، صبرو تحمل اور برداشت کا درس دینے کے لیے تمام مذہب فرقوںاور مسلکوں کے علمائے کرام کو اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ تاکہ شرپسند عناصر کی بیخ کنی کی جاسکے ، مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں، غربت کے اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں تعلیم کے فروغ پر توجہ دی جائے تاکہ شعور کی بیداری انسان کو سوچنے سمجھنے کی قابل بنانے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی سے روکے، عوام بنیادی مسائل کے حال کے طلب گار ہیں جوکہ انسان سے حرام و حلال کی تمیز چھین لیتی ہے، عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آرٹیکل چھ کیا ہے اور بغاوت یا غداری کسے کہتے ہیں وہ تو صرف دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات کے طلب گار ہیں۔
خدارا ترجیحی مسائل پر توجہ دیں ایسا نہ ہو بدلہ لینے کا جنون پاکستان کو مزید مسائل میں گرفتار کردے اور وہ عناصر جو ہمارے ملک میں عدم استحکام کے خواہش مند ہیں ان کی مرادیں پوری ہوجائیں ،ہٹ دھرمی شاید کسی سانحے میں نہ تبدیل ہوجائے جیسا کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں ہوا ۔کیونکہ اس وقت کی ذرا سی لچک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو ٹوٹنے سے بچا سکتی تھی، شاید ابھی کی چشم کشائی سے پاکستان کسی دوسرے سانحے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف کے خلاف حکومت پاکستان نے آئین کے آٓرٹیکل چھ کے تحت غداری اور بغاوت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ملک کے وزیر داخلہ نے جنرل مشرف کے لیے سپریم کورٹ سے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی، ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی ہے کہ 3نومبر2007 کے اقدامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے، مشرف کے خلاف یہ الزام ہے کہ انھوںنے 2007 میں آئین معطل کردیا تھا اور ہنگامی حالات کا اعلان کردیا تھا، ساتھ ہی عدلیہ کے بیشتر ارکان کو فارغ کیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف مقدمے پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم آئین کے آرٹیکل چھ کو سمجھ لیں کہ آیا آئین کا آرٹیکل چھ کیا کہتا ہے۔1973ء کے متفقہ آئین کے آرٹیکل چھ ، تین بنیادی شقوں پر مشتمل ہے،۔ آرٹیکل چھ کی شق 1کے مطابق کوئی شخص آئین توڑے ، اس کی غداری کرے ، اس کی خلاف ورزی کرے یا اسے معطل کرنے یا پس پشت ڈالنے کے لیے طاقت کا استعمال یا طاقت ظاہر کرکے سازش کرے وہ غداری کا مرتکب ہوگا۔ آرٹیکل چھ کی شق 2کے مطابق آئین توڑنے والے شخص کی معاونت کرنے والا بھی بغاوت کا مرتکب ہوگا ضمنی شق 2Aکے مطابق آئین توڑنے کے عمل کی کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں توثیق نہیں کی جائے گی،آرٹیل کی ضمنی شق3کے مطابق جو شخص آئین توڑ کرغدار ی کا مرتکب پایا گیا مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ قانون کے تحت اسے سزا دلوائے گی۔
آئین کے آرٹیکل چھ کو سمجھنے کے بعد جو چیز واضح طو رپر سامنے آتی ہے وہ ہے اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت کا پیدا ہونا ہے، کیونکہ اکتوبر 99کی فوجی بغاوت کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی تھی جب کہ پارلیمنٹ نے بھی ، عدلیہ کی پیروی کرتے ہوئے سترھویں ترمیم منظور کرکے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس طرح ان ججز اور پارلیمنٹرینز کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے جو اس معاملے میں کسی حد تک ملوث تھے، اس طرح ایک پینڈورا بکس کھل جائے گا اور اداروں میں شدید تصادم کا خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے، غربت، انتہا پسندی ، مذہب فرقہ واریت اور تعلیم کے فقدان کے ساتھ بے روزگاری جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ،روزمرہ استعمال کی اشیاء عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں،ان بنیادی مسائل کی موجودگی میں کیا ان کا حل ڈھونڈنا زیادہ ضروری ہے یا مزید تصادم کو دعوت دے کر ملک کے استحکام پر کاری ضرب لگانا ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ڈرون حملے کسی صوبے کا مقدر بنا دیے گئے تو صوبہ خیبر پختونخواہ میں گورنر راج لگنے کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں ، راولپنڈی شہر میں شدید فرقہ وارانہ فساد برپا ہونے کے بعد فو ج بلا کر کرفیو نافذ کردیا گیا، دہشت اور وحشت کا بازار گرم ہے کراچی میں دہشتگردوں کے خاتمے کے نام پر زیادتیوں کی انتہاء ہوگئی ہے مسلح دہشتگرد اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں۔ روزنہ درجنوں بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں ۔
سازشی عناصرجلاؤ گھیراؤ قتل و غارت میں مصروف ہیں ، ساری دنیا میں ہمارا قومی تشخص متاثر ہورہا ہے،اس قدر نازک حالات میں کیا ہم اداروں کے درمیان چپقلش یا تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں حکومت کو اس امر پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنی توانائی کو صرف کرناچاہیے ، بھائی چارے، باہمی اتحادواتفاق ، صبرو تحمل اور برداشت کا درس دینے کے لیے تمام مذہب فرقوںاور مسلکوں کے علمائے کرام کو اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ تاکہ شرپسند عناصر کی بیخ کنی کی جاسکے ، مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں، غربت کے اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں تعلیم کے فروغ پر توجہ دی جائے تاکہ شعور کی بیداری انسان کو سوچنے سمجھنے کی قابل بنانے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی سے روکے، عوام بنیادی مسائل کے حال کے طلب گار ہیں جوکہ انسان سے حرام و حلال کی تمیز چھین لیتی ہے، عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آرٹیکل چھ کیا ہے اور بغاوت یا غداری کسے کہتے ہیں وہ تو صرف دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات کے طلب گار ہیں۔
خدارا ترجیحی مسائل پر توجہ دیں ایسا نہ ہو بدلہ لینے کا جنون پاکستان کو مزید مسائل میں گرفتار کردے اور وہ عناصر جو ہمارے ملک میں عدم استحکام کے خواہش مند ہیں ان کی مرادیں پوری ہوجائیں ،ہٹ دھرمی شاید کسی سانحے میں نہ تبدیل ہوجائے جیسا کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں ہوا ۔کیونکہ اس وقت کی ذرا سی لچک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو ٹوٹنے سے بچا سکتی تھی، شاید ابھی کی چشم کشائی سے پاکستان کسی دوسرے سانحے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔