بابائے جمہوریت۔۔ ناکامی سے کامیابی کا سفر
نواب زادہ نصراللہ نے اپنے بدترین مخالفین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ہمیشہ احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا
چار جماعتی انتخابی اتحاد ٹھیک چل رہا تھا کہ لاہور کے حلقہ نمبر 3 میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔
یہاں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو امیدوار تھے اور اُن کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کے امیدوار میجر جنرل (ر) سرفراز خان تھے جو اُس وقت پی ڈی پی کے نائب صدر بھی تھے۔ یہاں سے فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال جو اُس وقت تک جسٹس نہیں ہوئے تھے کونسل مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ یہاں جماعت اسلامی نے بھٹو کے مقابلے میں زیادہ بہتر امیدوار رکھتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان خود مولانا مودودی نے کیا کیونکہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اُن سے اس حلقے میں متفقہ امیدوار لانے کی درخواست کی تھی۔ نواب زادہ نصراللہ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی معاہدے کے مطابق جنرل (ر) سرفراز کی حمایت کی پابند ہے۔ مولانا مودودی کے اس اعلان کے بعد نواب زادہ نصراللہ نے مولانا مودودی کے خلاف ایک سخت پریس کانفرنس کی جس کے بعد یہ اتحاد انتخاب سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
اس انتخابی مہم کے دوران نواب زادہ نصراللہ 1956ء کے آئین کی بحالی پر بہت زور دیتے تھے جس پر ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ 1956ء کا آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں جب ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخالفین ائیرمارشل (ر) اصغر خان کو آلو خان، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل اور ممتاز دولتانہ کو چوہا کہہ کر پکارتے تھے اور اُن کے کارکن گلی گلی ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگا رہے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ نے اپنی وضع داری قائم رکھی اور اپنے بدترین مخالفین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔ اُس زمانے میں وہ سب سے زیادہ سخت تنقید میاں ممتاز دولتانہ پر کرتے اور اُن کے بارے میں کہتے کہ آج کل پنجاب میں کسی کو سب سے بڑی گالی دینی ہو تو اُسے ''دولتانہ'' کہہ دیا جائے۔ وہ اپنی تقاریر میں شیخ مجیب الرحمن، خان عبدالولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، جی ایم سید، مفتی محمود اور دیگر کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے لیکن پورے احترام کے ساتھ۔
1970ء کے انتخابات میں وہ اپنے آبا ئی شہر سے غلام مصطفی کھر سے شکست کھا گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ جناب نور الامین باقی ماندہ پاکستان کے صدر نامزد ہوئے۔ چنانچہ وہ پارٹی کی صدارت سے علیحدہ ہو گئے جس کے بعد نواب زادہ نصراللہ پی ڈی پی کے سربراہ بن گئے۔ نواب زادہ نصراللہ نے عہدہ سنبھالتے ہی اپوزیشن کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا اور بہت جلد وہ پیر پگاڑا کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہاں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو امیدوار تھے اور اُن کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کے امیدوار میجر جنرل (ر) سرفراز خان تھے جو اُس وقت پی ڈی پی کے نائب صدر بھی تھے۔ یہاں سے فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال جو اُس وقت تک جسٹس نہیں ہوئے تھے کونسل مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ یہاں جماعت اسلامی نے بھٹو کے مقابلے میں زیادہ بہتر امیدوار رکھتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان خود مولانا مودودی نے کیا کیونکہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اُن سے اس حلقے میں متفقہ امیدوار لانے کی درخواست کی تھی۔ نواب زادہ نصراللہ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی معاہدے کے مطابق جنرل (ر) سرفراز کی حمایت کی پابند ہے۔ مولانا مودودی کے اس اعلان کے بعد نواب زادہ نصراللہ نے مولانا مودودی کے خلاف ایک سخت پریس کانفرنس کی جس کے بعد یہ اتحاد انتخاب سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
اس انتخابی مہم کے دوران نواب زادہ نصراللہ 1956ء کے آئین کی بحالی پر بہت زور دیتے تھے جس پر ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ 1956ء کا آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں جب ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخالفین ائیرمارشل (ر) اصغر خان کو آلو خان، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل اور ممتاز دولتانہ کو چوہا کہہ کر پکارتے تھے اور اُن کے کارکن گلی گلی ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگا رہے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ نے اپنی وضع داری قائم رکھی اور اپنے بدترین مخالفین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔ اُس زمانے میں وہ سب سے زیادہ سخت تنقید میاں ممتاز دولتانہ پر کرتے اور اُن کے بارے میں کہتے کہ آج کل پنجاب میں کسی کو سب سے بڑی گالی دینی ہو تو اُسے ''دولتانہ'' کہہ دیا جائے۔ وہ اپنی تقاریر میں شیخ مجیب الرحمن، خان عبدالولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، جی ایم سید، مفتی محمود اور دیگر کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے لیکن پورے احترام کے ساتھ۔
1970ء کے انتخابات میں وہ اپنے آبا ئی شہر سے غلام مصطفی کھر سے شکست کھا گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ جناب نور الامین باقی ماندہ پاکستان کے صدر نامزد ہوئے۔ چنانچہ وہ پارٹی کی صدارت سے علیحدہ ہو گئے جس کے بعد نواب زادہ نصراللہ پی ڈی پی کے سربراہ بن گئے۔ نواب زادہ نصراللہ نے عہدہ سنبھالتے ہی اپوزیشن کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا اور بہت جلد وہ پیر پگاڑا کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔